Search This Blog

Friday 25 January 2013

Syedal Mursaleen سیّدالمرسلین۔۔۔

سیّدالمرسلین۔۔۔
آنچہ خوباں ہمہ دارد تو تنہاداری



تاریخِ انسانی میں بہت سی شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے اور ہر شخصیت کسی مخصوص پہلو کی حامل نظر آتی ہے لیکن ان سب میں سب سے ممتازترین و نمایاں، کامل واکمل،ہمہ گیر وہمہ جہت اور جامع شخصیت اگر کسی کی ہے تو وہ ہے نبی آخر الزماں ،افضل البشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے ۔آپ صلعم کو اللہ تعالیٰ نے ہر حیثیت سے حُسن وکمال عطا فرمایا تھاتاکہ آپؐ تمام انسانیت کے لئے مکمل أسوہ اور نمونہ بن سکیںاور زندگی کے ہر میدان میں رہبری اور رہنمائی کا کام انجام دے سکیں۔ اسی لئے آپ صلعم کی نبوی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو محفوظ کیا گیا اور نسل در نسل پورے استناد کے ساتھ اس کو دوسروں تک منتقل کیا جاتا رہا۔دنیا کی تاریخ میں آپؐ ہی کی شخصیت ایسی ہے جس کی پوری سیرت حرف بحرف موجود ہے اور وہ صحیح ترین علمی ذرائع اور مدلل انداز میں ہم تک پہنچی ہے۔ یہ خصوصیت ایک ایسی ناقابل تردید صداقت ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے،یہاں تک کہ یہ خصوصیت اللہ کے بھیجے ہوئے دوسرے انبیاء اور رسولوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔حضرت موسی ؑ کی صحیح اور مستند سیرت اس لئے محفوظ نہ رہ سکی کیونکہ یہود نے اس میں تحریف وترمیم کر دی اور اپنی طرف سے من گھڑت مصنوعی واقعات کا اضافہ کیا بلکہ حضرتِ موسیٰؑ کی سیرت پر مشتمل ’’اسفارِ موسیٰـ‘‘کے بارے میں تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ ان کو عرصۂ دراز کے بعد ترتیب دیا گیا جن کا مصنف آج تک نا معلوم ہے۔یہی حال حضرتِ عیسیؑ کی سیرت کا بھی ہے۔مسیحی کلیسا کے نزدیک سرکاری طور پر جس مجموعہ کو ’’انجیل‘‘ تسلیم کیا گیا وہ عیسیٰؑ کے صدیوں بعد آخری دور میں ترتیب دیا گیااور بغیر علمی معیار کے اس وقت سینکڑوں انجیل کے نسخے جو مسیحیوں کے درمیان پھیلے ہوئے تھے ،ان میں سے ان کا انتخاب کیا گیا۔ جب ان برگزیدہ انبیاء کرام علیہمالسلام کی سیرتوں کا یہ حال ہے تو بُدھ،کنفیوشس اور دوسرے مصلحین ومفکرین کی سیرتوں کا کیا حال ہوگا؟لیکن افضل الرسل وخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت من وعن مستند اور علمی معیار کے ساتھ محفوظ ہے اور یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ مشیتِ ایزدی،تدبیرِ الٰہی اور تشریع اسلامی کے عین مطابق ہے۔آپ صلعم کو تمام انسانیت کے لئے أسوہ بنانے کا لازمی تقاضا تھا کہ آپ ؐکی مکمل سیرت موجود ومحفوظ ہوتی اور پھر آپ صلعم کی سیرت قرآن کی تشریح وبیان پر بھی مشتمل ہے جس کے بغیر قرآن کو سمجھنا اوراس پر عمل کرنا ناممکن ہے کیونکہ قرآن وسنت دونوں لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی بار بار قرآن میں صراحت کی گئی ہے۔اس لئے آپ صلعم کی سیرت روشن وتاباں آفتاب کی طرح عیاں ہے جس سے ہر بینا وباصلاحیت شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

اللہ کے رسول صلعم کی سیرت ایک ایسے انسان کی سیرت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کے منصب سے نوازا تھا، اس لئے آپؐ کو جامع الکمالات والصفات بنایا تھا لیکن یہ سیرت انسانیت کے دائرہ سے باہر وبالاتر نہیں ہے، نہ ہی أساطیر وخرافات سے اس کا کوئی تعلق ہے ، نہ ہی اس میں الوہیت وربوبیت کا اضافہ اور پیوند کاری ہے کیونکہ آپؐ نے خود ہی بار بار امت کو اس سے ڈرایا تھا کہ’’میرے بارے میں مبالغہ آرائی مت کرنا جیسے کہ عیسائیوں نے عیسیؑ کے بارے میں کی ۔۔۔الحدیث‘‘(صحیح بخاری)کیونکہ عیسائیوں نے عیسیٰؑ کو انسانیت سے آگے بڑھا کر (نعوذ باللہ)اللہ کا بیٹا بنادیا اور ألوہیت کے مقام تک پہنچا دیا۔یہی وجہ ہے کہ مشرکین بھی نبی کے بارے میں اسی طرح کا تصور رکھتے تھے کہ اس کو انسان سے بالاتر ہونا چاہئے اور کہا کرتے تھے کہ’’یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہے ،بازاروں میں چلتا ہے۔‘‘(سورۃ الفرقان:۷) آپؐ کی ذات ایک برگزیدہ،بلندترین اور کامل ومکمل انسان کی ذات ہے،اسی صورت میں آپ صلعم کوپوری انسانیت کے لئے اور تمام زمانوں کے واسطے اسوہ اور نمونہ باصرہ بنانا ممکن ہو گا اور یہی شریعت اور عقل ومنطق کا بھی تقاضا ہے۔
آپ صلعم کی سیرت کے کسی بھی پہلو پر غور کیجئے زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوؤں پر محیط نظر آئے گی۔آپ صلعم زندگی کے کسی میدان سے تعلق رکھتے ہوں آپؐ کے أسوہ سے مکمل رہنمائی مل جائے گی،جیسے کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ اور بہت سے دوسرے سیرت نگاروں نے اس پہلو کی کچھ اس طرح منظر کشی کی ہے کہ اگر آپ مالدار ہیں تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے مالک کی پیروی کیجئے،اگر آپ تنگدست ومحتاج ہیں تو شعبِ ابی طالب کے اسیر اورمدینۂ منورہ کے مہمان کو دیکھئے ،اگر آپ حاکم وبادشاہ ہیں تو شاہِ عرب کے حالات اور سیرت کا مطالعہ کیجئے،اگر آپ فاتح ہیں تو غزوۂ بدر وحنین کے قائد وکمانڈر کو دیکھئے،اگر آپ مفتوح ومغلوب ہیں تو معرکۂ احد سے عبرت حاصل کیجئے،اگر آپ معلم واستاد ہیں تو صفۂ نبوی کے معلم اعظم کو دیکھئے، اگر آپ واعظ وخطیب ہیں تو منبر مسجدِ نبویؐ کے خطیب وواعظ اور داعی کو سنئے،اگر آپ داعی اور حق کے علمبردار ہیں تو ام القری کے بے یارومددگار نبی کا اسوہ اپنے سامنے رکھئے،اگر آپ نے دشمنوں کو شکست دی ہے اور اپنے مخالفین کو زیر کیا ہے تو فاتحِ مکہ کے نمونہ کو پیشِ نظر رکھئے، اگر آپ دینی امور کی اصلاح چاہتے ہیں ،تجارت کو منظم کرنا چاہتے ہیں تو اراضی بنی نضیر وخیبر اور فدک کے مالک کے حسنِ انتظام کو دیکھئے،اگر آپ یتیم ہیں تو عبداللہ اور آمنہ کے لاڈلے اور لختِ جگر کو مت بھولئے،اگر آپ شیر خوار بچے ہیں تو حلیمہ سعدیہؓ کے کمسن دودھ پیتے بچے کو مت بھولئے، اگر آپ نوجوان ہیں تو داعی مکہ کی راست روی اور أمانت داری کو سامنے رکھئے، اگر آپ قاضی اور جج ہیں تو حجرِ أسود کو کعبہ کی دیوار پر رکھنے والے حَکم اور مسجدِ نبوی کے صحن میں بیٹھے ہوئے عادل ومنصف جج کو دیکھئے،اگر آپ شوہر ہیں تو عائشہؓ وخدیجہؓ کے شوہر کی پاکیزہ سیرت پڑھئے،اگر آپ صاحبِ عیال ہیں تو فاطمہ ؓکے والد اور حسنؓ وحسین ؓکے ناناکے حالات کا مطالعہ کیجئے، اگر آپ مظلوم ہیں تو مکہ کے حرم میں ہر طرح کا ظلم سہنے والے مظلوم نبی کو ہر گز نہ بھولئے۔
غرض یہ کہ آپ جس طرح کی بھی شخصیت کے مالک ہوں ہر جگہ اورہر وقت آپ کو أسوۂ نبوی سے رہنمائی مل جائے گی،دنیا کی کوئی بھی دوسری شخصیت اس طرح کی جامعیت وہمہ جہتی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپؐ کے ان اوصاف کو بیان فرمایا ہے۔اپنوں نے بھی ہر طرح سے آپؐ کی مدح وتعریف کی ہے اور غیروں کو بھی آپؐ کی ہمہ جہتی اور کمال کا لوہا ماننا پڑا۔کتنے مغربی مفکرین نے آپؐ کو بہترین الفاظ میں خراج ِعقیدت پیش کیا ہے،یہاں تک کہ عیسائی مصنف مایئکل ہارٹ نے جب اپنی کتاب’’The Hundred‘‘میں دنیا میں اَنمٹ نقوش چھوڑنے والی سو عظیم شخصیات کے حالات مرتب کئے تو نبی آخر الزمان حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر سرِ فہرست رکھا کہ’’یہ وہ شخصیت ہیں جس نے دنیا سے علم نہیں لیا بلکہ دنیا کو ایسا علم دیا جیسا علم نہ پہلے کسی نے دیا اور نہ بعد میں کوئی دے گا، اس لئے میرے دل نے چاہا کہ جس شخصیت نے ایسی علمی خدمات انجام دی ہوں غیر مذہب کا آدمی ہونے کے باوجود ان کو تاریخ کی سب سے اعلیٰ شخصیات میں سر فہرست مانتا ہوںـ‘‘۔
غیروں کی ایسی ہزاروں شہادتیں موجود ہیں جن سے آپ صلعم کی نبوت کی صداقت وحقانیت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے۔ اگر چہ آپ صلعم اس طرح کی شہادتوں سے کہیں بالاتر ہیں ،جہاں مالکِ أرض وسماء نے خود شہادت دی ہو وہاں دوسروں کی شہادت چہ معنی دارد؟!آپ صلعم کی ذاتِ اقدس کی شان میں بس یہی کہا جاسکتا ہے   ؎
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدابزرگ توئی قصہ مختصر
آج جب کہ دنیا اخلاقی زوال کاشکار ہے،مشرق ومغرب میں ظلمت وجہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے،ہر نظام اور ازم کو آزما کر لوگ تھک ہارچکے ہیں اور کفر والحاد اور بگاڑ وفساد کی تلاطم خیز موجوں میں انسانیت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے،اس کشتی کو ساحلِ مراد تک پہنچانے کی اگر کسی میں صلاحیت ہے تو صرف اور صرف نبی آخر الزماں صل اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا نظام اور آپ کی روشن وتاباں سیرت ہی ہے جس میں اس کی صلاحیت موجود ہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ آپؐ کی سیرت کا باریک بینی اور عشق ومحبت کے ساتھ مطالعہ کیا جائے،زندگی کے ہر گوشے میں آپؐ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کی جائے اور آپؐ کی ذاتِ گرامی کا تعارف عام کیا جائے(اگرچہ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود آپ صلعم کے ’’رفعِ ذکر ‘‘کا وعدہ فرمایا ہے)اوربچے بچے کے دل میں آپؐ کی محبت کو جاگزیں کیا جائے تاکہ غیروں کی تقلید کے بجائے آپ صلعم کی تقلید واتباع کی جائے اور اسی میں فخر واعتزاز محسوس کیا جائے،تبھی ہمارے ایمان واسلام کی تکمیل ممکن ہے۔ہزاروں درود وسلام ہو آپؐ کی ذاتِ گرامی پر، آپؐ کی آل واولاد اور تمام صحابۂ عظام پر۔
      enayatwani@gmail.com

بہ شکرءیہ کشمیر عظمی سرینگر

No comments:

Post a Comment