Search This Blog

Friday 25 January 2013

اسوہءرسول ص ہمارے لئے مشعل راہ


اسوہءرسول ﷺ ہمارے لئے مشعل راہ

کالم نگار  |  رابعہ رحمن

کسی بھی مذہب کو ماننے والے لوگوں میں ہر طرح کی حیثیت رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس دنیا کے نظام کو چلانے کیلئے مختلف پیشوں اور ان کا باہمی تعاون ضروری ہوتا ہے۔ جس طرح حکمران کے ساتھ عوام کا ہونا ،امن و امان کے ساتھ عدالت کا ہونا،افسروں کے ساتھ عملے کا ہونا۔کشتی کے ساتھ ملاح کا ہونا۔عبادت کے ساتھ عابد کا ہونا،غرضیکہ مشروط و غیر مشروط کا رات دن کا سورج و چاند کا کائنات کے ساتھ وجود کا،وجود کے ساتھ معبود کا ہونا بہت ضروری ہے۔مگر ان کو نظامِ زندگی سمجھانے کے لیے پیغمبرﷺ کے لیے دن کا،دین کے لیے قادرِ مطلق کا ہونا ایک ضروری امر ہے۔ قادرِ مطلق بھی ہمارا ایک ،پیغمبرﷺ بھی ایک اور کتاب بھی ایک ہے۔ سلام اُس آمنہ کے لعل پہ جو اس کائنات کے ہونے کا سبب بنا۔۔۔اور سنتِ رسول اکابرین دین کے لیے ایسا زندگی کا لائحہ عمل دے گیا جو اطاعت گزار کے لیے ہمارے معاشرے اور انسانی زندگی کو مختلف اخلاقی پہلوﺅں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اُن اخلاقیات میں صلہ رحمی،عجز و انکساری،معافی در گزر،ایثار و قربانی،مستقل مزاجی،غیرت و خود داری،صداقت و سچائی،قناعت و تقویٰ،اتحاد و یگانگت،کسبِ حلال اور بہت سے اور پہلو بھی آتے ہیں۔ یہ تما م اخلاقی پہلو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح میں ملتے ہیں۔۔۔کتنی خوش قسمت ہے اُمتِ مسلمہ کہ اُسے زندگی کا کوئی بھی معیار بنانے اور اخلاقیات کو جاننے کے لیے پورا عملی نمونہ مل گیا۔
آج کا تاجر،تاجر بطحہ کی تقلید کرے تو بد عنوانی،چور بازاری،ناپ تول میں کمی جیسی لعنت سے بچ سکتا ہے۔فقرو تقویٰ کو اپنانے والا شعبِ ابی طالب کے محصور کی صورت آپ کی پیروی کر کے صحیح متقی و پرہیز گار بن سکتا ہے۔ استاد اگر صفہ کے معلم کو نظر میں رکھے تو درس و تدریس کی تاریک راہوں میں مشعل روشن کر سکتا ہے۔۔۔ہمارے سیاہ اور جیالے اگر فاتح بد رو حنین کے سپہ سالار کو نگاہ میں رکھیں تو دشمن ِ دین کو تہس نہس کر سکتے ہیں۔ والدین اگر فاطمةالزہرہ کے پدرِ محترم کو نگاہِ میں رکھیںتوشفقت کی کرنیں اولاد کی زندگیوں کی تاریکی کو منور کر سکتی ہیں۔ اگر اسلام کے قاضی و منصف کو پیر و کار بنایا جائے تو پوری دنیا میں مملکت اسلامیہ کے عدل کا نہ صرف ڈنکا بجنے لگے بلکہ ہمارے اپنے جمہوری ملک کے اندر کرپشن،بد عنوانی اور انتشار و خلفشار کی نہ ختم ہونے والی اندرونی جنگ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔انہی تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اللہ نے فرمایا۔۔۔"کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں خُدا کی محبت کا دعویٰ ہے تو آﺅ میری پیروی کرو" کیا ہم نہیں جانتے کہ اسلام سے پہلے اور پیغمبر آخرالزماںسے پہلے ہر مذہب نے اپنے اطاعت گزاروں کو صرف تدابیر بتائیں جن کا خلاصہ یہ ہوتا تھا کہ "مذہب کے شارع اور طریقے کے بانی نے جو عمدہ نصیحتیں بتائیں اُن پر من و عن عمل کیا جائے"    لیکن ہمارے اسلام نے اس سے بڑھ کر جو تدبیر اپنائی وہ مذہب کے پرچار کی بہترین صورت تھی۔ ©"کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا۔۔۔ آپ پر کتابی صحیفہ قرآن پاک اُتارا اور نبی کریم ﷺ کے پلک جھپکنے کے عمل سے لے کر زبان کی ادائیگی اور قدموں کی چاپ سے لے کر انگلیوں کی جُنبش تک ایسا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کر دیا کہ جنہوں نے قرآن پاک کو نہیں پڑھا تو وہ بھی حضور پاک ﷺ کی سیرت میں اُس کو مکمل پڑھ لیتے اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں دیکھا یا سُنا وہ قرآن پاک کے ایک ایک حرف نقطہ اور شدو مد کے اندر اُن کے سیرت و سراپے کو دیکھ لیتے ہیں "سبحان اللہ"
ہماری زندگیوں میں بگاڑ کی صورت تب پیدا ہوئی جب ہم نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے چھوڑ دیا اور غیر اخلاقی عادات و اطوار اپنا کر اپنی مرضی سے اسلام کے اصولوں کی توڑنا مروڑنا شروع کر دیا۔ہمارے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ با برکت کو تو حضرت سلیمان ندوی نے ©"بارش برسانے والے بادل کی مانند قرار دیا"جس سے کائنات کا ہر وجود ہر میدانی صحرائی،جنگلاتی اور بحری اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق سیراب و شاداب ہوتے ہیں۔کہیں کوئی زرخیز ہو جاتا ہے کہیں کوئی بنجر ہی رہ جاتا ہے۔ ہر چیز اپنی فطرت جبلت اور ضرورت کے مطابق اُس سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یکساں تعلیمات کے با وجود اپنی فطری صلاحیت و لیاقت کے مطابق کچھ لوگ آپ کی برکات سے مستفید ہو کر غلام سے سید نا بلال کے رتبے تک پہنچ گئے اور کچھ ابو جہل جیسے سردار غلاموں سے بھی بد تر حیثیت میں اس دنیا سے چلے گئے۔
صدیوں پہ صدیاں گزرتی چلی گئیں مگر آج بھی حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی اسوہ حسنہ کی صورت اپنا کر ہم ترقی کے وہ منازل طے کر سکتے ہیں جو کہ آج کے وقت کی ضرورت ہے۔اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی مشعل راہ ہے تو ہم نے کیوں اپنی اپنی زندگیوں میں اندھیرے بسا رکھے ہیں۔۔۔اس فانی دنیا میں ہم نے جو عمل و کردار اپنانا ہے اُس کے مدِنظر یہ ہونا چاہیے کہ اپنی ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کے لیے ہم اگر فقط اپنے نبی پاک کے اسوہ حسنہ کی پیروی زندگی کے ہر شعبے میں کر لیں تو شاید مٹی کے نیچے مٹی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمارے مردہ جسموںکو چمکتے ہوئے ہیرے کی مانند اٹھائے۔۔۔۔۔ ہم اگر اپنے آخری نبی کی اطاعت نہیں کرتے۔ ایمان کا پرچار نہیں کرتے تو۔۔۔۔۔۔پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اپنے دین، اپنے قرآن اور اپنے محبوب حضور پاکﷺ کی حفاظت خود اپنے ذمے لے لے گا اورپھر ابابیلیں اتریںگی جن کی کنکریاں قوم کفا پر نہیں بلکہ ہم پرپھینکی جائیںگی اور پھر ہمیں گردش دوراں سے کوئی بھی نہیں بچانے آئےگا۔۔۔۔۔!

No comments:

Post a Comment