Search This Blog

Wednesday, 2 January 2013

ہرسانس ترانے گائے

ہرسانس ترانے گائے

سلیقہ وشائستگی کے ساتھ بات کرنا اور بات میں میٹھے خوشگوار اور بہترین الفاظ کا استعمال کرنا مہذب انسان کی ترجیحات میں سے ہونا لازمی ہے ۔شائستہ اورتہذیب یافتہ لب ولہجہ مخاطب کوبھی متاثر کئے بنا نہیں رہتا اور خوبصورت زبان بولنے والے کا سوسائٹی میں بھی مان سمان رہتاہے ۔ چنانچہ آپ نے بھی یہ سنا ہوگاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:
اللّٰہ جمیل ویحب جمال
یعنی اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کوپسند کرتاہے ۔اس طرح سے مذہبی طور پر ایمان وعمل سے لے کر کردار واخلاق، ادب وعادات بلکہ زبان وبیان تک خوبصورتی پیداکرنے کی کوشش اسلامی معاشرہ کی ایک علامت بن جاتی ہے ۔اگر غور کیا جائے تو فن تجوید وقرأت کا دائرہ اسی مرکزی اور بنیادی خیال کے گرد گھومتاہے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اپنے احکامات کو عام کرنے کے لئے خوبصورت زبان کو استعمال کرنے کا ایک اور حکم بھی نافذ ہواہے ۔ چنانچہ ہم قرآن کریم کی ہدایت ’’سورہ بنی اسرائیل‘‘53میں پڑھتے ہیں ۔
(میرے بندوں سے کہہ دو بات وہ کہیں جو زیادہ اچھی ہو)
رب العالمین کے اس حکم میں تینوں باتیں شامل ہیں، یعنی بات بھی اچھی کہی جائے ، اس کا انداز بھی اچھا ہو اور وہ مواد کے اعتبار سے بھی اچھی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت ہم مناسب آواز ،صحیح لب ولہجہ ، ترتیل اور خوش الحانی کا خاص خیال رکھتے ہیں جب کہ اس کے لئے بھی الگ سے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:
ترجمہ:-قرآن کو اپنی آواز کے ذریعہ سے مزین کرلو۔(ترمذی)
زبان کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے جس کا سمجھنا ہر فرد کے لئے ازحد ضروری ہے ۔آپ نے یہ بھی سناہوگاکہ ظہورِ اسلام سے قبل عرب کے لوگ سماجی اعتبار سے کردار واخلاق میں نہایت پست اور گئے گذرے تھے ۔ اُن کی وحشت ناکی اور درندگی کی سینکڑوں مثالیں تاریخ کے صفحات پر رقم ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کردار واخلاق کی اس گراوٹ اورتنزلی کے باوجود وہ زبان کے بارے میں بے حد محتاط تھے او راس قدر سنجیدہ تھے کہ وہ عرب کو چھوڑ کر باقی دنیا کو عجم یا عجمی یعنی گونگے کہا کرتے تھے ۔بے حدگنوار اور ریگستانوں میں بود وباش کرنے والے بدو بھی اس بارے میں اس قدر محتاط تھے کہ کہتے ہیں ایک بدو کی شادی حسب معمول اور حسب روایت ایک بدو لڑکی کے ساتھ ہوگئی اور رات کو دولہے نے دلہن سے کہا کہ چلو سوتے ہیں چراغ کو بجھا دو…اُقتلَ سِراج…یعنی معنی میں چراغ کو قتل کردو یعنی بجھا دو ہوا مگر یہ محاورہ اس زمانے میں زبان سے خارج (متروک)ہوچکا تھا اور اس کا استعمال روز مرہ کی زبان میں نہیں ہوتا تھا ۔ یہ سنتے ہی لڑکی نے (غورفرمائیے ایک نو عمر الہڑ بدو لڑکی نے ) خیمے سے باہر آکر شورشرابہ ڈال کر اپنا منہ پیٹنا شروع کردیا۔ کارواں کے دوسرے لوگ بھی خیموں سے باہر آکر استفسار کرنے لگے تو لڑکی نے بتایا کہ وہ لٹ گئی اس کی ایک عجمی کے ساتھ شادی کردی گئی ہے کیونکہ اس نے غلط زبان بولی ہے ۔اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جب یہ بدوئوں کا حال تھا تو دیہاتوں میں اور شہروں میں رہنے والے لوگ زبان کے بارے میں کتنے سنجیدہ رہے ہوں گے ۔
اسی طرح دورِ جہالت میں لُبید نامی ایک شاعر جب کوئی تازہ کلام کہتا تو چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھ کر اسے خانہ کعبہ کی دیواروں پر ٹانگ دیا جاتا تھا ۔شاعر کی شہرت او رزبان کی نیرنگی کا یہ عالم تھاکہ لوگ پڑھنے میں سبقت کرنے کے لئے ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھا کرتے تھے ۔ ایک دن صاحب موصوف اپنے تین اور ساتھیوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار کہیں جارہے تھے تو کہیں دور کی ایک آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔۔۔۔۔:
والعصران الانسان لفی خسر:
لبید نے گھوڑے سے نیچے اُتر کر زمین پر سجدہ کیا۔ساتھیوں نے اس کاتمسخر اُڑایا کہ وہ اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ لبید نے جواب میں کہا ارے نادانو! تم کیا جانوں میں نے کس اونچے پائے کا کلام سناہے ۔ میں نے دین کو نہیں بلکہ کلام کو سجدہ کیاہے۔یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اپنی زبان پر نازاں ہونے کے بھرم اور خوش فہمی کو توڑ نے کے لئے رب العالمین نے ان کے لئے ایک ایسا کلام نازل فرمایا جس کے آگے روئے زمین کی فصاحت اور بلاغت ماند پڑگئی ۔
دیکھا گیا ہے عصر حاضر میں خاص کر ، لوگ جتنا جسمانی صحت کاخیال رکھتے ہیں ۔ایک سے بڑھ کر ایک صابون ، شیمپو ،کریم پائوڈر ، لوشن او رکلر کی خریداری کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔لباس کی بہتری ، عمدگی اورمروّجہ فیشن ، کٹنگ اور فیٹنگ پردھیان دیتے ہیں ۔گھروں کو سجانے ، سنوارنے اور مختلف آرائشی سامان فرنشنگ او رفلو رنگ وغیرہ پر اپنا وقت، پیسہ اور دماغ صرف کرتے ہیں ،اتنا زبان کی درستگی ، صحت یا کلام کی عمدگی اور الفاظ کی سلاست و بلاغت پر صرف نہیں کرتے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت کرتے ہیں ۔حالانکہ ایک مہذب اور روشن خیال اور تعلیم یافتہ معاشرہ کے لئے جسمانی ،اخلاقی ، ذہنی اور روحانی صحت کے ساتھ ساتھ زبان کتنا ہی اونچے خیالات، شائستہ فکر اور پاکیزہ تدبر ہی کا کیوں نہ ہو،اگر اس کا طرزِ تکلم او رپیرایۂ اظہار بھونڈا ہو، ناقص لب ولہجہ ہو تو اس کی ساری شخصیت ساری نگہداشت مٹی میں مل جاتی ہے۔اگر ایک بے حد خوبصورت انسان کو گندہ لباس یا گڈری پہنا دی جائے تو وہ اپنی وجاہت کھو دیتاہے ۔حالانکہ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ میٹھا انداز بیان او رپاکیزہ طرزِتکلم فرض بھی ہے او رسنت بھی جب کہ کریم پائوڈر ،فرنشنگ ، فکسنگ اور اونچی عمارات کا تعمیر کرنا اسراف ہے جس کے لئے ’’ولاتسرِفو‘‘ کی قدغن سامنے ہے ۔
قرآن کریم کے معنوی اور صوتی حسن نے عام علمی اور ثقافتی زبان کو بھی متاثر کیا اور رفتہ رفتہ مسلمانوں نے فصاحت ، بلاغت اور عمدہ طرزِ تکلم کو اپنا شعار بنالیا ۔ایسے معاشرے او رماحول میں پھر زبان کی غلطیاں او رطرزِ بیان کی کمزوری ایک نقص بن کے رہ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم ثقافت کے فروغ و اشاعت اور ترغیب وترویج کے ساتھ ساتھ زبان وبیان کی صحت کو بھی ایک اہم مقام ملتاگیا۔ زبان کی غلطیا ں شرمناک او رناقابل معافی تصور کی جانے لگی ۔تاریخ اسلام کے وشال ادبی اورثقافتی ذخیرے سے اس بارے میں دو چھوٹی مثالیں پیش کرنا چاہوں گا ۔ ایک بار دربارنبویؐ میں حضورصلعم کے سامنے کسی عرب نے محاورہ کے استعمال میں غلطی کی تو حضور صلعم نے صحابہؓ سے فرمایا اپنے اس بھائی کی اصلاح کرو ،یہ بھٹک گیا ہے ۔اسی طرح خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کو حسین بن الحرؓ نے ایک معتمد کے ہاتھ ایک خط بھیجا جس میں زبان کی غلطی رہ گئی تھی۔حضرت فاروق اعظمؓنے بہ واپسی جواب حسن بن الحرؓ کو پیغام بھیجا کہ کاتب کی کمر پر ایک درّہ لگایا جائے ۔
آخر پر یہی عرض کرنا چاہوں گاکہ ایک انسان کو صحبت کااثر جہاں اخلاق وعادات ، روّیے ورجحان اور مذہب وثقافت پرپڑتاہے وہیں زبان و بیان پر بھی پڑتاہے ۔ اس لئے اچھی صحبت اختیار کرنے کے ساتھ اگر اچھی کتابوں کا بھی مطالعہ کیاجائے تو ضرور ان کا ایک خاطر خواہ اثر زبان پر بھی ہوگا۔ جو لوگ مطالعہ سے دور رہتے ہیں ان کی زبان ماحول وسماج کی عوامی کثافتوں سے محفوظ نہیں رہتی ۔ٹی وی بینی کو اگر کم کرکے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جائے تویقینی طور پر ہم میں صحت زبان اور حسن بیان آئے گا جوبنیادی طورپر ہم میں صحت زبان اور حسن بیان آئے گا جو دنیاوی عزت واحترام کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا بھی موجب بن سکتاہے ۔
آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ عمدہ بول اور ایک میٹھا لب ولہجہ مخاطب پر ایک دم اپنا ایک اثر ڈالتاہے ۔اگر بولنے والا سامنے ہو تومخاطب مرعوب بھی ہوجاتاہے او راگر آواز کسی اور ذریعے سے سنائی دے تو سننے والا اپنے آپ میں ایک خوشگوار تبدیلی محسوس کرتاہے ۔ جنہوں نے سابقہ ایام میں آل انڈیا ریڈیو کے نیوز بلیٹن سنے ہوں گے وہ ضرور میری بات سے اتفاق کریں گے کہ ’’اب آپ عبدالرشید بانڈے سے خبریں سنئے‘‘ کے الفاظ کانوں میں پڑتے ہی ایک جلترنگ سی بج اٹھتی تھی اور دل ودماغ میں ایک بشاشت سی پیدا ہوجاتی تھی ۔وہ صحت ِزبان اور میٹھے لب ولہجہ کا اثر ہوتا تھا۔
…………
رابطہ :- پوسٹ باکس نمبر :691
جی پی او سرینگر -190001، کشمیر
موبائل نمبر:9419475995

No comments:

Post a Comment