اشارات
ڈاکٹر محمد رفعت
محسنِ انسانیت سے دشمنی کے اسباب
دنیا کے مسلمان بجا طور پر اُن ناشائستہ حرکتوں پر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بعض شرپسندوں کی جانب سے کی جارہی ہیں لیکن اس موقع پر انھیں اُن اسباب کا تجزیہ بھی کرناچاہیے جو اس شرانگیزی کی پشت پر ہیں۔ غور کیا جائے تو اِن حرکتوں کے تین اسباب نظر آتے ہیں:
﴿الف﴾ شریعت الٰہی سے مسلمانوں کے زندہ تعلق کا مخالفینِ اسلام کے لیے ناقابل برداشت ہونا۔
﴿ب﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے انقلاب انگیز پیغام سے خوفزدگی۔
﴿ج﴾ یہود و نصاریٰ کے غالب گروہ کی اسلام دشمنی
اس تجزیے کا منشاء یہ ہے کہ صورت حال کے صحیح ادراک میں مدد ملے اور یہ واضح ہوسکے کہ سرورِ کائنات کی ذاتِ گرامی کے سلسلے میں ائمہ شر کی طرف سے جو کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے اُس کا محرک کوئی وقتی سبب نہیں ہے نہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ محض غلط فہمیاں اس نامعقولیت کو جنم دے رہی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن کی غلط شبیہ پیش کرنے کی سعی اپنے پیچھے گہرے اسباب رکھتی ہے جو غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔
شریعت سے مسلمانوں کا تعلق
دنیا میں مذہبی جذبہ پہلے بھی موجود تھا اور آج بھی بڑے پیمانے پر یہ جذبہ اِنسانوں کے اندر موجود ہے ۔ مگر عموماً اس کا ظہور بہت محدود شکل میں ہوتا ہے۔ جب اِنسان کو خدا کی یاد آتی ہے تو وہ اُس سے لَو لگاتا ہے اُس کا ذکر کرتا ہے اوراُس سے دعائیں مانگتا ہے۔ یہ سارے کام اِنسان کی فطرتِ صالحہ کے مظاہر ہیں اور خدا سے انسان کے تعلق کی علامت ہیں مگر خدا اور بندے کے تعلق کے تقاضے محض ان کاموں سے پورے نہیں ہوجاتے۔ اللہ پر ایمان کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ اُس کے احکام وہدایات کی مخلصانہ اطاعت کی جائے یا دوسرے لفظوں میں شریعت الٰہی پر عمل کیا جائے۔ اللہ سے تعلق کے اِ س تقاضے کو سامنے رکھ کر انسانی گروہوں کے رویوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مسلمان وہ گروہ ہیں جو شریعت پر عمل کے قائل ہیں اور کسی نہ کسی حد تک عمل کرتے بھی ہیں۔
ظاہر ہے کہ شیاطینِ جن وانس کو خدا سے اِنسان کا زندہ تعلق سخت ناگوار ہے۔ وہ تو یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ انسان زبان سے خدا کا نام لے۔ بقول اکبرالٰہ آبادی
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خداکا اس زمانے میں
لیکن ائمہ شر کو سب سے زیادہ جو چیز ناگوار ہے وہ اللہ کے احکام کا اتباع اور شریعتِ الٰہی سے اِنسانوں کی وابستگی ہے۔ اس لیے وہ اُمتِ مسلمہ کو اپنی راہ کا سب سے بڑا روڑا سمجھتے ہیں۔ اُن کو اندیشہ ہے کہ اگر یہ اُمت واقعتہً بیدار ہوجائے تو ابلیسی ایجنڈا بروئے کار نہیں آسکتا۔ اِس سلسلے میں اقبال نے ابلیس کے احساسات کو بیان کیا ہے :
جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے لیکن ہے یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر، آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ زن، مرد آزما مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک وصاف
مُنعموں کو مال ودولت کا بناتا ہے امیں
اِس سے بڑھ کر اور کیا فکر و نظر کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
اُمت مسلمہ کی بیداری سے خائف ابلیسی عناصر اِس بات سے باخبر ہیں کہ اُمت مسلمہ کی قوت کا اہم سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہلِ ایمان کی شدید محبت ہے۔ چنانچہ اُمت کو کمزور کرنے کے لیے اُن کی کوشش یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی جائیں۔ جب اِن نامعقول حرکتوں کے تدارک کے لیے اُمت احتجاج اور اظہارِ ناراضگی سے آگے بڑھ کر کوئی مؤثر اقدام نہ کرسکے تو اُس کے اندر احساسِ بے بسی پیدا ہوجو امت کی فعالیت اور پیش قدمی کو متاثر کردے۔ مزید برآں وہ یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی ایک غلط تصویر پیش کرکے وہ عام اِنسانوں کو بھی اسلام کی طرف آنے سے باز رکھ سکیں گے۔
سیرت کا انقلابی پیغام
دنیا میں اللہ کے جو نبی آئے وہ محض حق کے مبلغ اور اخلاقی مصلح نہ تھے بلکہ وہ انسانی معاشرے میں حق کو غالب کرنے کے لیے آئے تھے۔ یہ غلبہ افکار و نظریات کے میدان میںبھی تھا جس کے لیے انبیاء ؑ نے روشن نشانیاں پیش کیں۔ باطل کی مدلل تردید کی اور دینِ حق کی صداقت کے حق میں دلائل دیے۔ افکار کی دنیا میں حق کا تفوق ثابت کرنے کے علاوہ انبیاء علیہم السلام نے عملی دنیا میں بھی حق کو غالب کیا۔ اُن کی دعوت کا انکار کرنے والے اور اُس کی مخالفت کرنے والے یا توجہاد کے ذریعے مغلوب ہوئے یا عذابِ الٰہی نے اُن کا خاتمہ کردیا۔ اُس کے بعد وہ صالح نظام زمین پر قائم ہوا جو اللہ کو پسند ہے۔
سلسلہ انبیاء کے آخر میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔آپﷺ کے بارے میں قرآن مجید صراحت کرتا ہے کہ آپﷺ کی بعثت دینِ حق کو غالب کرنے کے لیے ہوئی۔
ھوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدیْنِ کُلّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون۔﴿سورہ صف،آیت:۹﴾
’’وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
انبیاء علیہم السلام کے اِس تذکرے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ محض زبانی دعوتِ حق پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ دینِ حق کے غلبے کے لیے تمام ممکن کوشش کرتے تھے جن میں حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت ہجرت اور جہاد جیسے اقدامات شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ دین کا اور اُسوہ انبیاء کایہ تصور اُن شیطانی عناصر کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جو اِنسانیت پر جاہلیت کے غلبے کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اِن عناصر کی کوشش یہ ہے کہ اِنسانوں کو انبیاء ؑ کی تعلیمات سے دور رکھیں۔ اب اِ س وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تاریخ کے صفحات سے انبیاء ؑ کی سیرت کا مستند بیان غائب ہوچکا ہے اور اُن کی لائی ہوئی کتابوں میں تحریف ہوگئی ہے۔ صرف آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک محفوظ ہے اور اُس کی پوری تفصیلات تاریخ کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ آپﷺ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید بھی ہر تحریف سے پاک ہے اور روئے زمین پر اللہ کی ہدایت کو جاننے کا واحد مستند ذریعہ ہے۔ اِس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال پر مشتمل آپ کی احادیث کے مستند مجموعے دنیا میں موجود ہیں جن سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آپﷺ کی سنت کیا رہی ہے اور مختلف حالات میں آپﷺنے کیاطرز عمل اختیار کیا ہے۔ اس حقیقت کی بنا پر جاہلیت کے علم برداروں نے اصل ہدف آخری نبی کی ذاتِ گرامی کو بنایا ہے ۔ اس لیے کہ اب صرف آپﷺ ہی کی شخصیت ایسی ہے جو تاریخ کی روشنی میں ہے اور جس کی تعلیمات جاہلیت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔
جہاں تک دوسرے انبیاء ؑ کا اور دیگر مذہبی شخصیات کا تعلق ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِنسانی دنیا اُن کی طرف احترام کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن اُن کی تعلیمات کو دنیا نے صرف اخلاقی وعظ وتلقین تک محدود کردیا ہے۔ مثال کے طور پر عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے ۔ آج دنیا کے سامنے عیسیٰ علیہ السلام کی جو تصویر ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے صرف رحم دلی اور عفو ودرگزر کی تعلیم دی۔ حالانکہ قرآن مجید یہ صراحت کرتا ہے کہ آپ کی دعوت وہی تھی جو تمام رسولوں کی دعوت رہی ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا کُونوا أَنصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِییْنَ مَنْ أَنصَارِیْ الَی اللّٰہ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّہِ فَآَمَنَت طَّائِفَۃٌ مِن بَنِیْ اسْرَائِیْلَ وَکَفَرَت طَّائِفَۃٌ فَأَیَّدْنَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا عَلَی عَدُوّہِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاہِرِیْنَ۔ ﴿سورہ صف، آیت:۱۴﴾
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کے مددگار بنو جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا : ’’کون ہے اللہ کی طرف ﴿بلانے میں﴾ میرا مددگار؟ ‘‘ اور حواریوں نے جواب دیا تھا: ’’ہم ہیں اللہ کے مددگار‘‘ اُس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے‘‘۔
اِس آیت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا مشن محض تبلیغ تک محدود نہ تھا بلکہ باطل پر حق کی فتح اُس کا لازمی جز تھی۔جب تک آپ زمین پر تشریف رکھتے تھے یہ مرحلہ نہیں آیا لیکن آپ کے تشریف لے جانے کے بعد آپ پر ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے مخالفین حق کے مقابلے میں غلبہ عطا کیا۔
اِنسان کامل
محض عیسیٰ علیہ السلام ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام مذہبی شخصیات اور دینی رہنماؤں کی صالح تعلیمات کو ابلیس اور اُس کے شاگردوں نے عملاً بے اثر بنا دیا ہے۔ اُن کی جو محدود تصویر جاہلیت زدہ دنیا نے بنا دی ہے وہ دنیا کے بگاڑ کے لیے کسی چیلنج کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اِس صورت حال میں صرف آخری نبی کی سیرت کاپیغام ایسا ہے جو شیاطینِ عالم کی پیش قدمی کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس کی وجہ آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے سمجھ میں آسکتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں انسانیت کامکمل نمونہ ملتا ہے۔ آپﷺ نے دعوت و تبلیغ کا کام کیا اور یہ دعوت انسانوں کے کسی طبقے یا گروہ تک محدود نہ تھی۔ آپﷺ نے مشرکین عرب کو بھی اللہ کی طرف بلایا اور اہلِ کتاب کو بھی۔ عوام بھی آپﷺ کی تبلیغ کے مخاطب تھے اور خواص بھی۔ پھر آپﷺ نے اہلِ ایمان معاشرے کے تزکیے، تربیت اور تعلیم کا کام انجام دیا، مسلمانوں کے سماج کے مسائل حل کیے اور بڑے پیمانے پر دینی واخلاقی اصلاح کر کے مسلم معاشرے کی مستحکم بنیادوں پر تعمیر کی۔ مدینہ پہنچ کر آپﷺ نے اسلامی ریاست کا نظام قائم کیا اور وہ بنیادیں فراہم کردیں جن پرآئندہ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں ایک عالمی ریاست قائم ہونے والی تھی۔ اِن سارے کاموں کے درمیان متعدد غزوات پیش آئے اور آپﷺ نے فریضہ جہاد انجام دیا۔ اس کام کے علاوہ آپﷺ نے اندرونی منافقین کا استیصال کیا اوراُن کی شرانگیزی کا تدارک کیا۔ اِن سب اجتماعی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ آپﷺ نے ذکرِالٰہی اور تبتل الی اللہ کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
کسی اور شخصیت کی ایسی جامع تصویر انسانوں کے سامنے نہیں ہے۔ چنانچہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہی ایسی ہے جو اِنسانوں کے لیے نمونہ بن سکتی ہے اور جاہلیت کے لیے علم برداروں کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اِس بنا پر سرورِ عالم کو ائمہ شر نے اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ کی شبیہ کو بگاڑ کر پیش کریں۔ مجبوری کی بناپر مفسدینِ عالم ایسے مذہب کو تو برداشت کرسکتے ہیں جو اخلاقی تلقین تک محدود ہو لیکن ایسے دین کو گوارا نہیں کرسکتے جس کا علمبردار زبانِ حال سے یہ کہتا ہو ۔
میں کھٹکتا ہوں دلِ شیطاں میں کانٹے کی طرح
جب کہ عام تصورِ مذہب کا معاملہ یہ ہو کہ وہ فقط اللہ ہو‘ اللہ ہو‘ اللہ ہو‘
سرورِ کائنات سے دشمنی کے جو مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں اُن کو سیرتِ پاک کے مندرجہ بالا انقلابی پیغام کے تناظر میں سمجھا جانا چاہئے۔
یہودونصاریٰ کی اِسلام دشمنی
آج عالمی نظام میں سیاسی اقتدار کی کلید یہودونصاریٰ کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا کے ذرائع ابلاغ پر بھی ان کا قبضہ ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کی دشمنی ایک عالمی مظہر کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ اِس بنا پر میڈیا کا ایک عام ناظر یا عام سامع یہ تاثر لیتا ہے کہ یہ عداوت عالم گیر ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی غیر اہل کتاب قومیں عموماًاس ہنگامے سے لاتعلق ہیں۔ ذات گرامی کے سلسلے میں جو کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے وہ اس سے متاثر تو ہوتی ہیں لیکن تھوڑے سے افراد کو چھوڑ کر اس طوفانِ بدتمیزی کے برپا کرنے میں اُن کاکوئی اہم رول نہیں ہے۔
اس کے برخلاف محسنِ انسانیت ﷺ سے یہود ونصاریٰ کی دشمنی کے اسباب گہرے ہیں اور اسی بنا پر موجودہ ناخوشگوار فضا کے پیدا کرنے میں اُن کا رول کلیدی ہے۔ تاریخی تجزیہ ہمیں اس صورت حال کے سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے جب اپنی رسالت کا اعلان کیا تو صالحین اہل کتاب آپ پر ایمان لے آئے۔ ایسی سعید روحوں کا تذکرہ قرآن مجید میں کیاگیا ہے:
وَانَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَا أُنزِلَ الَیْکُمْ وَمَا أُنزِلَ الَیْہِمْ خَاشِعِیْنَ لِلّٰہِ لاَ یَشْتَرُونَ بِآیَاتِ اللّٰہِ ثَمَناً قَلِیْلاً أُوْلَ ئِکَ لَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ انَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَاب۔ ﴿سورہ آل عمران::۱۹۹﴾
’’اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمھاری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اُن کی طرف اس سے پہلے بھیجی گئی تھی۔ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے۔ اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا‘‘۔
لیکن اہل کتاب کا اچھا خاصا عنصر آپﷺ پر ایمان نہیں لایا بلکہ مخالفت اور عداوت پر آمادہ ہوگیا۔ یہ امر اہلِ ایمان کے لیے حیرت انگیز تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ اہل کتاب توحید کے تصور سے بھی واقف ہیں اور رسالت اور آخرت سے بھی، اس لیے وہ یہ توقع کرتے تھے کہ اہلِ کتاب سب سے پہلے آگے بڑھ کر آخری نبی پر ایمان لائیں گے۔ لیکن بنی اسرائیل کی روش اس کے برعکس ثابت ہوئی۔ ایمان لانے کے بجائے انھوںنے سب سے پہلے آخری پیغمبر کا اور اُس کی لائی ہوئی ہدایت کا اِنکار کیا۔ قرآن مجید میں اس رویے پر اُن کو متنبہ کیا گیا ہے۔
وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَایَّایَ فَاتَّقُون۔﴿بقرہ: آیت:۴۱﴾
’’اور ﴿اے بنی اسرائیل!﴾ میں نے جوکتاب بھیجی ہے اُس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اُس کے منکر نہ بن جائو۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور مجھ ہی سے پورے طور پر ڈرو‘‘۔
اِنکارِ حق کی وجوہات
سوال یہ ہے کہ جو یہودونصاریٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے اُن کے اِس رویے کی وجوہات کیا تھیں؟ قرآن مجید بتاتا ہے کہ اس کی ایک وجہ نسلی اورخاندانی عصبیت تھی۔ بنی اسرائیل کسی ایسے نبی پر ایمان نہیں لانا چاہتے تھے جو بنی اسرائیل میں سے نہ ہو۔ اس سلسلے میں اُن کے قول کو قرآن مجید نے نقل کیا ہے:
وَاذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ قَالُواْ نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرونَ بِمَا وَرَائ ہُ وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَہُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِیَائ َ اللّٰہِ مِن قَبْلُ ان کُنتُم مُّؤْمِنِیْن۔﴿سورہ بقرہ، آیت:۹۱﴾
’’جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اُس پر ایمان لائو تو وہ کہتے ہیں ’’ہم تو صرف اُس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں ﴿یعنی بنی اسرائیل میں﴾ اُتری ہے‘‘۔ اِس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے اُسے ماننے سے وہ انکارکرتے ہیں۔ حالانکہ وہ حق ہے اور اُس تعلیم کی تصدیق کر رہا ہے جو اُن کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا، ان سے کہو اگر تُم اُس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمھارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو ﴿جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے﴾ کیوں قتل کرتے رہے؟‘‘
نسلی وخاندانی عصبیت کے متعلق بنی اسرائیل کا قول نقل کرنے کے بعد قرآن مجید نے اُن کے انکار حق کی دوسری وجہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو حقیقی سبب ہے۔ آیتِ بالا کے آخر میں اس سبب کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وجہ اُن کے دلوں کی قساوت تھی جس کی بنا پر وہ حق کا اتباع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے نہ صرف آخری نبی کا انکار کیا بلکہ آپ سے پہلے آنے والے نبیوں کی بھی وہ تکذیب کرتے رہے تھے۔ انھوں نے نبیوں کی مخالفت کی ، اُن کو ایذا پہنچائی اور بعض کو قتل تک کرڈالا۔
وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآؤُوْاْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّہِ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانُواْ یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّہِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَواْ وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ ۔ ﴿سورہ بقرہ، آیت:۶۱﴾
’’آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذِلت و خواری اور پستی وبدحالی اُن پر ﴿یعنی بنی اسرائیل پر﴾ مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِرگئے۔ یہ نتیجہ اس کا تھا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ نتیجہ تھا اُن کی نافرمانیوں کا اوراِس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے‘‘۔
یہ تو یہود کی روش تھی۔ عیسائیوں کا ایک بڑا گروہ آپﷺ پر اس لیے ایمان نہیں لایا کہ ایمان کے تقاضے پورے کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں تھا۔ کفارے کے غلط عقیدے نے اُن کو نجات کا یہ آسان راستہ دکھا دیا تھا کہ محض مسیح علیہ السلام کو ﴿نعوذ باللہ﴾ خدا کا بیٹا قرار دے کر وہ آخرت میں بخشش کے مستحق ہوجائیں گے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کے اتباع کی کوئی ضرورت نہیں ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی صورت میں شریعت کی پیروی اُن کے لیے لازم ہوجاتی تھی۔ اس پابندی کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔
یہود کے بارے میں قرآن حکیم مزید بتاتا ہے کہ اُن کی دینداری رسمی بھی تھی اور اُن کی خواہشات کی تابع بھی۔ اُن کا عمومی رویہ یہ تھا کہ احکامِ خداوندی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے وہ حیلے تلاش کرتے تھے اور اخلاص کی روح سے خالی قانونی خانہ پری کے ذریعے اپنی دینی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے۔ غیر ضروری سوالات پیش کرنا اُن کی روش تھی۔ اِن سوالات کا منشا حق کی جستجو اور دین کی تفہیم نہ تھی بلکہ یہ سوالات عمل سے راہ فرار تلاش کرنے کے لیے کیے جاتے تھے۔ احکام شریعت میں سے بعض احکام کی وہ اتباع کرتے تھے جو اُن کے مرغوبات نفس کے حصول میں حائل نہ ہوں لیکن اُن احکام کو بہ آسانی نظرانداز کردیتے تھے جن کی تعمیل میں مفاد کی قربانی دینی پڑتی تھی یا اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنا ہوتاتھا۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہودونصاریٰ کی ایک بڑی تعداد آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائی اور آج بھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہے اس روش کے مندرجہ بالا اسباب سامنے آجانے کے بعد یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ اِس عنصر نے سرورِ عالم ﷺ کی دشمنی کی روش کیوں اختیار کی ؟ ایمان نہ لانے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ عداوت کا مظاہرہ بھی کیاجائے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آخری رسول کی رسالت کے انکار کے لیے یہودونصاریٰ کے پاس کوئی بنیاد نہیں ہے۔ چنانچہ یہ انکار اُن کی دینی واخلاقی پوزیشن کو شدیدنقصان پہنچاتا ہے اوراپنے اِس رویے کی وہ کوئی معقول توجیہہ نہیں کرسکتے۔ یہود ونصاریٰ کے موقف کی نامعقولیت درجِ ذیل امور پر غور کرنے سے واضح ہوجاتی ہے:
v ﴿الف﴾ یہود ونصاریٰ سلسلہ رسالت کے قائل ہیں اور متعدد نبیوں پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں ۔ چنانچہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ سرے سے نبی بھیجتا ہی نہیں ہے۔ اگر اُن کا موقف یکسر انکارِ رسالت کا ہوتا تو اُن کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی نبوت کے اِنکار کے لیے ایک بنیاد ہوتی۔
v ﴿ب﴾ جو آسمانی کتابیں ﴿تحریف شدہ ہی سہی﴾ یہود ونصاریٰ کے پاس موجود ہیں وہ صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشین گوئی کرتی ہیں۔ اِن پیشین گوئیوں کا انکار اہلِ کتاب نہیں کرسکتے۔ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اِن پیشین گوئیوں کا مصداق نہیں مانتے تو پھر اُن کو کسی اور شخصیت کی نشان دہی کرنی ہوگی جس پر یہ پیشین گوئیاں صادق آتی ہوں۔ ظاہر ہے کہ تاریخ عالم میں وہ ایسی کسی شخصیت کی نشان دہی سے قاصر ہیں۔
v ﴿ج﴾جو تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں وہ آسمانی کتابوں کی اُس تعلیم سے ہم آہنگ ہیں جن پر ایمان کے اہل ِ کتاب مدعی ہیں۔ آپ نے قرآن مجید انسانوں تک پہنچایا جو واضح الفاظ میں توریت، زبور اور انجیل کی تصدیق کرتاہے۔ چنانچہ یہود ونصاریٰ یہ کہہ کر آپ کاانکار نہیں کرسکتے کہ آپ کی تعلیم پچھلے انبیاء کی تعلیم کے مغائر ہے۔
v ﴿د﴾ اہلِ کتاب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ پچھلی آسمانی کتابیں محفوظ ہیں۔چنانچہ اللہ کی طرف سے کسی اور کتاب کے نازل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اور کسی نبی کی بعثت کی بھی ضرورت نہیں ہے جو اُس کتاب کو لے کر آئے۔ یہ بات اہلِ کتاب اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ وہ خود جانتے اور مانتے ہیں کہ سابق کتب آسمانی میں تحریف ہوچکی ہے اور اللہ کی رحمت سے یہ بات بعید ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے کوئی انتظام نہ کرے۔
اہل کتاب کو اسلام کی دعوت
اِس صورت حال میں آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اِنکار پر مُصر افراد کے لیے اپنی پوزیشن کودرست قرار دینے کا صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ شخصیت کو بدنام کرنے کی کوشش کریں اور آپ کی بے داغ سیرت کو کسی طرح داغدار ثابت کریں۔چنانچہ وہ اِس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کوشش سے وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ اپنے انکارِ حق کا جواز دنیا کے سامنے پیش کرسکیں گے اور عام انسانوں کو بھی حق سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ سیرت طیبہ کو مجروح کرنے کی ان کوششوں میں وہ شائستگی اور تہذیب کی تمام حدود کو پار کرگئے ہیں اور تنقید اور نکتہ چینی سے آگے بڑھ کر گستاخی اور دریدہ دہنی پراُتر آئے ہیں۔اخلاق و قانون کے کسی معیار کی رو سے بھی ان ناپاک حرکتوں کو جائز نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ اگر ایک عام انسان کے سلسلے میں بھی یہ رویہ اختیار کیا جائے تو اخلاق اور قانون کی نگاہ میں معیوب اور قابلِ گرفت ہوگا چہ جائیکہ اس کو انسانیت کے سب سے بڑے محسن کے سلسلے میں روا رکھا جائے۔
دشمنی کے اِس سبب کے پیش نظر مسلمانوں کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ جو گستاخانہ حرکتیں کی جارہی ہیں وہ محض غلط فہمیاں دورکردینے سے بند ہوجائیں گی ۔ یہ نامعقولیت توا ُسی وقت رک سکتی ہے جب قانون اس پرگرفت کرے اور مجرمین کو سزا دے یا پھر قساوتِ قلب اورنفس پر ستی کے اُن امراض کا علاج ہوجائے جن میں انکارِ حق کرنے والا گروہ مبتلا ہے۔ تاہم ماضی اور حال دونوں کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اہلِ کتاب محض منکرینِ حق پر مشتمل نہیں ہیں بلکہ اُن کے اندر سعید روحیں بھی موجود ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں پیغامِ حق پر لبیک کہتی رہی ہیں اورآج بھی حق کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔ فطرتِ صالحہ رکھنے والے اِن افراد کی تلاش اُمت مسلمہ کی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اہلِ کتاب تک قرآن مجید کا یہ پیغام پہنچا دیا جائے۔
الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الأُمِیَّ الَّذِیْ یَجِدُونَہُ مَکْتُوباً عِندَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالانْجِیْلِ یَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَآئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اصْرَہُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ فَالَّذِیْنَ آمَنُواْ بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِیَ أُنزِلَ مَعَہُ أُوْلَ ئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ۔قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ انِّیْ رَسُولُ اللّہِ الَیْکُمْ جَمِیْعاً الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا الَہَ ا لاَّ ہُوَ یُحْیِ یْ وَیُمِیْتُ فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیّ الأُمِّیّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون۔ ﴿سورہ اعراف: آیات۱۵۷و۱۵۸﴾
’’﴿آج اللہ کی رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے﴾ جو اس پیغمبر نبی اُمی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اورانجیل میں لکھاہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے۔ اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے۔ اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس نبی پر ایمان لائیں اور اُس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ ﴿اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ﴾کہو کہ ’’اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُ س خدا کا رسول ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لاؤ،اللہ پر اور اُس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے اِرشادات کو مانتا ہے۔ اور پیروی اختیار کرو اس کی۔ امید ہے کہ تم راہ راست پالوگے‘‘۔
جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اِن آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’اُمی‘‘ کا لفظ یہودی اصطلاح کے لحاظ سے استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری سب قوموں کو اُمی (Gentile) کہتے تھے اور اُن کا قومی فخر و غرور کسی اُمی کی پیشوائی تسلیم کرنا تو درکنار، اِس پر بھی تیار نہ تھا کہ اُمیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کرلیں۔ چنانچہ قرآن حکیم میں اُن کا یہ قول نقل کیاگیا ہے کہ ’’اُمیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے‘‘۔ ﴿سورہ آل عمران،آیت: ۷۵﴾ پس اللہ تعالیٰ ان ہی کی اصطلاح استعمال کرکے فرماتا ہے کہ اب تو اِسی اُمی کے ساتھ تمھاری قسمت وابستہ ہے۔ اس کی پیروی قبول کروگے تو میری رحمت سے حصہ پاؤگے ورنہ وہی غضب تمھارے لیے مقدر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو‘‘۔ ﴿ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی ،سورہ اعراف۔ حاشیہ ۴۲﴾
قرآن مجید نے بے جا جکڑ بندیوں کے لیے ’’اغلال‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس سلسلے میں سید مودودیؒ لکھتے ہیں:۔
’’﴿بنی اسرائیل کے﴾فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے، اُن کے راہبوں نے اپنے زہد کے مبالغوں سے اور اُن کے جاہل عوام نے اپنے توہمات اورخودساختہ حدود وضوابط سے اُن کی زندگی کو جن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اورجن جکڑبندیوں میں کس رکھا ہے ،یہ پیغمبر وہ سارے بوجھ اُتار دیتا ہے اور وہ تمام بندشیں توڑ کر زندگی کو آزاد کردیتا ہے ‘‘۔ ﴿ایضاً۔حاشیہ ۴۳﴾
اُمت کا طرز عمل
سورہ اعراف کی مذکورہ بالا آیات خاص طور پر یہودکو خطاب کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں تمام اہلِ کتاب سے بھی خطاب کیاگیا ہے اور اُن کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔
قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ الَی کَلمَۃٍ سَوَائ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ الاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاَ یَتّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّٰہِ فَان تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ۔یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِیْ ابْرَاہِیْمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاۃُ وَالانجِیْلُ الاَّ مِن بَعْدِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُون۔ ﴿سورہ آل عمران۔آیات:۶۴و۶۵﴾
’’﴿اے نبی!﴾ کہو ’’اے اہل کتاب ‘ آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اورتمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کواپنا رب نہ بنالے۔اِس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منھ موڑ یں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم ﴿یعنی صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے ﴾ ہیں۔ اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کے ﴿دین کے﴾ بارے میں کیوں جھگڑا کرتے ہو؟ تورات اور انجیل تو ابراہیم کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں۔ پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟
سید مودودیؒ آیاتِ بالا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہودیت اور نصرانیت بہرحال تورات اور انجیل کے نزول کے بعد پیداہوئی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام اِن دونوں کے نزول سے بہت پہلے گزر چکے تھے۔ اب ایک معمولی عقل کا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جس مذہب پر تھے وہ بہرحال یہودیت و نصرانیت تو نہ تھا‘‘۔﴿تفہیم القرآن، سورہ آل عمران۔ حاشیہ۵۸﴾
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا دین کیا تھا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے سیدمودودیؒ لکھتے ہیں:
’’خود یہود ونصاریٰ کی مقدس کتابیں اِس بات پرگواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک اللہ کے سوا، کسی دوسرے کی پرستش، تقدیس، بندگی اور اطاعت کے قائل نہ تھے اوراُن کا مشن ہی یہ تھا کہ خدا کی صفات و خصوصیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ لہٰذا یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہودیت اور نصرانیت دونوں اُس راہِ راست سے منحرف ہوگئی ہیں، جس پر حضرت ابراہیم ؑ چلتے تھے کیونکہ اِن دونوں میں شرک کی آمیزش ہوگئی ہے‘‘۔ ﴿تفہیم القرآن۔ سورہ بقرہ، حاشیہ ۱۳۵﴾
یہودیت اورنصرانیت کے بارے میں اِن حقائق کے سامنے آجانے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جو گستاخیاں اِس وقت کی جارہی ہیں اُن کے پیچھے اہلِ کتاب کے غالب گروہ کا ہاتھ ہے جو آخری نبی ﷺ کے انکار کے اپنے رویے کوکسی نہ کسی طرح حق بجانب ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اِس صورت حال کے پیش نظر اُمت مسلمہ کاطرز عمل درج ذیل نکات پر مشتمل ہونا چاہیے۔
v ﴿الف﴾ اُمت مسلمہ کے تمام عناصر جن میں عوام بھی شامل ہیں اور حکمراں ، دانشور ، اہلِ علم اور اہلِ صحافت بھی، صاف اور دو ٹوک الفاظ میں اِس موقف کا اظہارکریں کہ یہ شرانگیز حرکتیں ناقابل قبول اور ناقابلِ برداشت ہیں۔چنانچہ جو افراد،حکومتیں اور گروہ دنیا میں ایسے ہیں جو مسلمانوں کی ہمدردی کے مدعی ہیں یا اپنے کو انصاف کا علم بردار کہتے ہیں اُن سے مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اِس شرانگیزی کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
v ﴿ب﴾ دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مجرمین کو سزا دلوائی جائے اور اس کے لیے ان حکومتوں کے اربابِ اقتدار سے مطالبہ کیا جائے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ مجرمین کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
v ﴿ج﴾ تیسرا اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ اہلِ کتاب کو عام طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے ۔ تاکہ جو صالح عناصر اُن کے اندر موجود ہیں وہ حق کو پہچان سکیں ۔ اس غرض کے لیے آپ کی سیرت کا وسیع تعارف کرایا جائے اورخصوصاًاِس امرپر توجہ مبذول کرائی جائے کہ آپ کا پیغام کوئی نیا پیغام نہیں ہے بلکہ آپ وہی دین لے کر آئے تھے جو تمام انبیاء علیہم السلام کا دین رہا ہے اور جس سے اہلِ کتاب منحرف ہوچکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment