Search This Blog

Saturday, 12 January 2013

Tehzeeb ki jang ’تہذیب کی جنگ

’’تہذیب کی جنگ ‘‘

بشیر احمد کانجو


’’غیر مسلموں میں دعوتِ دین‘‘ موجودہ دور میں بے شمار ایسے وسائل موجود ہیں۔ جن کے ذریعہ سے ہم غیر مسلموں تک دعوت دین آسانی سے پہنچا سکتے ہیں اور یہی وہ جدید ذرائع ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم غیر مسلموں کے اندر سے بھی اپنا ہم نوا بناسکتے ہیں۔ اُن کو دولتِ ایمانی نصیب ہوسکتی ہے۔ تمام جدید ذرائع استعمال کریں۔ دین اسلام کے سچے ہونے کی دعوت، جدیداعتراضات اور ان کے مدلل جوابات نہایت ہی حکمت عملی کے ساتھ، اپنے کردار وسیرت کی پختگی کے ساتھ، پسندیدہ اعمال وافکار کے ذریعہ ان کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہم تو انسانیت کے سچے خیر خواہ ہیں۔ ہمارا پیغام نیکی کا پیغام ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ لوگ کسی طرح جہنم کے عذاب اخروی سے بچ جائیں اس کام سے ان شاء اللہ آپ ضرور دیکھتے ہیں اور دیکھیں گے کہ دنیا میں بالآخر تبدیلی ضرور آئے گی اور اسلام کی حقانیت اور اس کی روحانیت اغیار کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو بھی محسوس کریں۔ اس بات کا اقرار بھی یہاں ضروری ہے کہ مختلف ذرائع سے اپنی بساط کی حد تک اس میدان میں اسلامی تحاریک ، انفرادی، اجتماعی اور اداروں کی کارکردگی قابل قدر ہے، جس کو نہ ماننا بخل ہوگا۔ لیکن اس میدان میں مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ میدان نہایت ہی اہم ہے ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں ہوں گے جبکہ اس کے ثمرات ہم حاصل کرسکیں گے۔
’’تھنک ٹینک‘‘ تمام انبیاء ورسل کی یہ سنت رہی ہے کہ انہوں نے کائنات اور معاشرے کے مسائل پر ہمیشہ درد مندی کے ساتھ غور وفکر تدبر وتعقّل سے کام کیا ہے اور سرجوڑ کر سوچا ہے کہ معاشرے کی اخلاقی قدروں کی گراوٹ، بدامنی، بُرائی، فحاشی، بے حیائی کی جگہ سیرت وکردار کی عمدگی، امن وامان، بھلائی اور اخلاقی بہتری کیسے لائی جاسکتی ہے رسولؐ اللہ کے دور کے معاشرے کو خود دیکھے کہ وہ کون سی بُرائی تھی جو اس معاشرے میں نہ تھی لیکن آپ نے دیکھا کہ نبی محترم نے کس طرح ایک ایک بُرائی کا خاتمہ کیا اور ایک ایسا معاشرہ دینے میں کامیاب ہوئے کہ جن کے اعلیٰ وارفع اخلاق کو دیکھ کر آج تک آسمان تلے بسنے والا معاشرہ ایک ایک خوبی بیان کرکے اپنا ایمان تازہ کرتا ہے۔ یہ انقلاب جہاں محنت ومشقت سے لایا گیا وہاں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ آپؐ اور صحابہ کرامؓ کے غوروفکر و تدبر کار ہین منت تھا کہ انہوں نے مسائل پر سوچا، سمجھا اور پھر اس گئے گزرے دور کو بہتر دور میں تبدیل کیا۔ آج کے اس دور میں بھی تھنک ٹینک کی اصطلاح ہمیں ملتی ہے کہ قوموں کو اُٹھانے، دکھ درد کو سمجھنے اور پائی جانے والی تمام کوتاہیوں کا کیسے ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس پر غوروفکر کرتے ہیں۔ ہمیں اس خوبی کو بھی بروئے کار لانا ہوگا کہ اس سے بہتر طور پر معاشرے کے مسائل اور ان کے حل، راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے اور پیش آمدہ مصائب ومشکلات کا حل غورفکر کے ذریعہ ہی حل کرنے میں ہماری بھلائی ہے تو ہم دیکھیں گے کہ اس خوبی کو اپنانے میں ہم نہایت ہی مؤثر نتیجہ سامنے آنے کی توقع کرسکتے ہیں۔
’’عدم رواداری یا بائیکاٹ‘‘ ہم اقوام عالم کو بتائیں کہ امت مسلمہ سے بڑھ کر کوئی رواداری کا مظاہرہ کرنے والے نہیں، ہم قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کے لیے تیار ہیں اور رہے ہیں۔ ہم تمام تر اختلافات اقوام کے باوجود سب کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔ ہمارے دین میں عدم تشدد کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہمارے قلوب سرچشمہ ہدایت سے لبریز ہیں۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجود ہمارے ساتھ نہ صرف عدم رواداری برتی جاتی ہے۔ بلکہ انسانیت کے ناتے سے بھی ہمارے ساتھ رواداری کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمیں اپنا دشمن سمجھا جاتا ہے ہم پر غلط الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ہم پر پوری دنیا میں ظلم کیا جارہا ہے ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم وتشدد کیا جارہا ہے۔ امن پسند امت مسلمہ کے ساتھ پوری مغربی دنیا میں جنگ کا سامحاذ پیدا کیا ہوا ہے۔ ہم پر تہذیب وتلوار کی جنگ مسلط کی گئی ہے۔ ہمیں ہر جگہ پریشان کیا جارہا ہے۔ ہمارے خلاف ایک طوفان بدتمیزی چل رہا ہے۔ کبھی ہمیں ذہنی، کبھی جسمانی، روحانی اور تہذیبی، مالی ایذارسانی پہنچائی جاتی ہے، ان حالات میں یہ ہتھیار استعمال کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ ہم اشیاء خریداری میں ان ممالک کے ساتھ عدم رواداری یا بائیکاٹ کا رویہ اختیار کریں جو ممالک ہمارے ساتھ عداوت کا معاملہ کیے ہوئے ہیں۔ آخر ہم بحیثیت امت مسلمہ ان کی معیشت کو کیوں مضبوط کریں۔ نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک کو بڑی بڑی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ ہمارے پاس سب کچھ اللہ کا دیا موجود ہے، لیکن صرف اور صرف ہمارے حکمرانوں کی تن آسانی ہے، عیش پرستی ہے، سستی وکاہلی ہے، غفلت و کم فہمی ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کا انحصار بھی اغیار کی اشیاء پر کرتے ہیں اور خود کو غیروں کا محتاج بنا رکھا ہے۔ اس رویہ کو بدلنا ہوگا بحیثیت حکمران بھی اور بحیثیت امت بھی۔ ہم میں سے ہر فرد کو چاہیے کہ ہم اغیار کی اشیاء کی خریداری سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ اپنے ملک کی مصنوعات پر انحصار کریں اور تکلیف برداشت کرتے ہوئے بھی یہ فریضہ سر انجام دیں اس ہتھیار کو استعمال کرنے سے بھی مسلمان امت کو نہ صرف فائدہ ہوگا بلکہ مغربی ممالک کو ہم یہ بھی باور کرانے میں بات ریکارڈ پر لاسکیں گے کہ یہ امت اب اپنے انتہائی قدم اُٹھانے سے بھی گریزاں نہ ہوگی۔
ان مذکورہ اقدامات کے علاوہ بھی کئی اقدامات سامنے آسکتے ہیں۔ غرضیکہ اگر ہم، خلوص نیت علم وعمل، سیرت وکردار، دیانت داری و وفاشعاری کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کا فرض ادا کریں گے تو بہت جلد اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے اور بحیثیت امت مسلمہ اپنے بقا کی جنگ بہتر طور پر لڑسکیں گے۔ اس وقت مسلم ممالک میں آنے والی تبدیلی میں عوام وحکمران طبقہ کے لیے ایک سبق موجود ہے کہ حکمرانوں دیکھو کس طرح پُرانے پُرانے بت پاش پاش ہوگئے اور عوام کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ سعی وجدوجہد سے۔ صبر وثبات سے، عزم وہمت سے تمام بڑے بڑے کام سر انجام دیے جاسکتے ہیں۔ ضرورت اس کام کی ہے کہ اتنے بڑے کام کے لیے رائے عامہ کو اپنا ہم نوا بنائیں۔ ع                                                 اپنے ووٹ کی قوت کو اسلامی تحاریک کے لیے استعمال کرتے ہوئے پُرامن تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ’’تم ہی بلند وبرتر ہوگے اگر صدق وسچائی کے ساتھ کام کرو گے۔‘‘ قرآن کا قول باالکل سچا ثابت ہوگا۔

No comments:

Post a Comment