Search This Blog

Friday, 25 January 2013

فیضانِ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم

فیضانِ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
اِنسانیت کا نور بنا آ دمِ خاکی

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت ورہبری کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو انسانی دنیا میں بھیجا۔ اُن میں حضرت آدم ؑ پہلے اور حضرت محمد مصطفےٰ صلعم آخری نبی ہیں۔ حضرت محمدؐ دنیا کے تمام مسلمانوں کے محبوب، پیارے اور چہیتے ہیں۔ آپ صلعم کی پیغمبرانہ سیرت کے 23سال کے دوران ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔ آپؐ نے ہمیں قرآن مجید کی ہمہ وقت تلاوت کرنے، اِس کتاب الٰہی کے اصولوں پر زندگی گزارنے اور اللہ ورسول سے بے محابہ محبت کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے کا فرمان دیاہے۔ آپؐ نے توحید کے اصول پر اللہ کے دین کی بنیاد رکھی اور توحید کو ہی لوگوں کی خوشحالی اور فارغ البالی کاواحد ذریعہ تسلیم کر نے کا ہنر بھی سکھا یا۔ توحید یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی دنیا کا خالق ومالک ہے اور لائق عبادت بھی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے کا حق حاصل ہے۔ یہ ہے عقیدۂ اسلامی کا مختصر تعارف۔ اسلام کو دنیا میں متعارف و نافذ کر نے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے آ خری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فر مایا۔حضرت محمد مصطفےٰ صلعم کی ولادت باسعادت قبیلہ ٔ بنو ہاشم میں ہو ئی ۔ یہ پورے عرب قبا ئل میں سب سے زیادہ معزز و بہترین قبیلہ مانا جاتا تھا۔ اس کا شجرۂ نسب خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ سے ملتا ہے۔ عرب کے لوگ اس قبیلے کاعلم اور بہادری کے لحاظ سے عزت واحترام کرتے تھے۔ حضرت عبدالمطلبؑ بنی ہاشم قبیلہ کے سردار تھے اور خانۂ کعبہ کے نگران بھی تھے۔ ربیع الاول کے مہینے میں حضرت عبداللہ ؑ کی اہلیہ حضرت آمنہؑ کے بطن سے ایک عظیم المر تبت بچے نے جنم لیا۔ یہ خبر حضرت عبدالمطلبؑ کو بھیجی گئی تو بے حد خوش ہوئے اور بچہ کو ایک نام اچھا دینے کے بارے میں سوچنے لگے۔ حضرت عبدالمطلبؑ نے نومولود کو خانہ کعبہ لایا اوران کا اسم گرامی رکھا۔
حضرت محمد مصطفےٰ صلعم کی پیدائش سے پہلے دنیا بھر کے لوگ ذاتی اور سماجی رویوں کے لحاظ سے بالکل ہی پست اور کم ذات تھے۔ جھوٹ ، شرک اور بت پرستی کے عالم میں ہر انسان ڈوبا ہوا تھا اور بدعنوانیوں کی آگ ہر سو جل رہی تھی۔ جھوٹے خیالات اور توہم پرستی کی بنیاد وںپر مذہبوں کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور لوگ خود کے بنائے ہوئے خداؤں اور خود غرضانہ اصولوں کی عبادت کر رہے تھے۔ قبائلی جھگڑے اور تنازعات بہت عام تھے اور نسل در نسل چلتے تھے۔ اُس وقت کا عرب سماجی، اقتصادی ، سیاسی اور دیگر ہمہ گیر اخلاقی بحرانوں سے دوچار تھا اور اپنی جہالت اور ظالم پرستیوںکی وجہ سے خاتمہ کی طرف جارہا تھا۔ کائنات کے خالق وہادی اللہ نے اُس وقت کے اور آ نے والے ادوار کے عرب وعجم اور کون ومکان کو اسلامی ہدایت کے رنگ میں رنگنے کے لئے نبیٔ آ خر الزمان کو مبعوث فرمایا۔ 
حضرت محمد مصطفےٰ صلعم کے والد گرامی حضرت عبداللہ ؑ آپؐ کی ولادت سے پہلے ہی رحلت کرگئے تھے ۔ جب آپ ؐ  کی عمرشریف چھ سال کی تھی تو آپؐ کو اپنی والدہ ٔ ماجدہ حضرت آمنہ ؓکی ابدی جدائی برداشت کرنی پڑی۔ حضرت آمنہؑ حضرت عبداللہ ؑ کی قبر کی زیارت کے سلسلے میں مدینہ گئی تھیں اور واپسی میں بمقام ابواء انتقال فرماگئیں۔ چونکہ حضرت آمنہؑ ام ایمن کے ہمراہ گئی تھیں تو وہ آپؐ کو مکہ واپس لے آئیں۔ پھر آپ ؐ کی پرورش کی ذمہ داری آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلبؑ نے سنبھالی۔ آٹھ سال کی عمر میں آپ ؐ کو اپنے دادا کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔ بستر علالت پر آپؐ کے دادا نے حضرت ابوطالب ؑ کو آپؐ کی پرورش کی ذمہ داری سونپی۔ روایات میں آ یا ہے کہ حضرت عبدالمطلبؑ نے حضرت ابوطالبؑ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا ’’اے ابوطالب !’محمدؐتیرے حقیقی بھائی کا بیٹا ہے، اس کی حفاظت کرنا، اپنا نور نظر اور لخت جگر سمجھ کر اس کی پرورش کرنا اور دست و زبان اور جان ومال سے اس کی اعانت کرتے رہنا‘‘۔ حضرت ابوطالبؑ نے آپ ؐ کی دیکھ بھال شروع کی اور اُسی لاڈ پیار اور محبت واکرام سے آپؐ کی پرورش شروع کی جس طرح حضرت عبدالمطلبؑ انجام دیتے رہے تھے۔ انہوں نے حضرت محمدؐ کو اپنے بچوں سے زیادہ پیار کیا ۔ حضرت ابوطالبؑ چونکہ کاروبار سے وابستہ تھے اور کاروبار کے سلسلے میں مختلف ممالک کا دورہ کرتے تھے تو آپ ؐ کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے تاکہ آپ ؐ کی پرورش اُن کی نگرانی میں ہوسکے۔ حضرت ابوطالبؑ نے ایک مرتبہ تجارت کے سلسلے میں شام کا سفر اختیار کیا اور آپؐ کو ساتھ لے چلے۔ سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپؐ میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں آسمانی کتابوں میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالبؑ کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پالیں تو آپؐ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ حضرت ابوطالبؑ نے سفر ملتوی کرکے واپس مکہ کی راہ اختیار کی۔ حضرت ابوطالبؑ کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد نے آپ ؐ کی پرورش میں کسی قسم کی کمی نہ کی اور ایک ماں کے فرائض بہ حسن خوبی نبھائے۔
حضرت محمد مصطفیؐ کی عمرشریف جب پچیس سال ہوئی تو حسن سیرت، صدق اور دیانت کی وجہ سے مشہور ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اِن صفات کی وجہ سے ’’صادق و امین‘‘ کا خطاب ملا۔مکہ کے تمام لوگ آپ سے محبت اور احترام سے پیش آتے تھے۔ حضرت خدیجہؑ قریش خاندان میں ایک انتہائی پاکیزہ نفس، خوش اخلاق، معزز اور امیر خاتون تھیں۔ اُن کو اپنے تجارتی کاروانوں کے لئے ایک دیانت وامانت کے پیکر کی تلاش تھی ۔ یہ ان کی بے حد وحساب خوش بختی ہے کہ آپ ؑ نے اس کام کے لئے حضرت محمد ؐ کا انتخاب کیا۔ حضرت محمد ؐ نے اپنی صلاحیت اور ایماندارانہ طریقہ کار سے زبردست کامیابی حاصل کی۔ آپ ؐ کی ایمانداری کی وجہ سے حضرت خدیجہؑ آپ کی گرویدہ بن گئی اور آپؐ سے شادی کی پیشکش کی۔ حضرت محمد ؐ کی عمر مبارک اس وقت پچیس برس جب کہ حضرت خدیجہؑ کی عمر شریف چالیس برس تھی۔ حضرت خدیجہؑ کی جانب سے اُن کے چچا عمروا بن اسد اور حضرت محمد مصطفےٰ صلعم کی جانب سے چچا حضرت ابوطالبؑ نے شادی بیاہ کے لئے ضروری لوازمات پورے کئے۔ عمر شریف میں ایک نمایا ں فرق کے باوجود یہ رشتہ ٔ مناکحت ایک مثال بن گیا۔
حضرت محمد مصطفےٰ صلعم ہمیشہ شہر کی گہماگہمی کو چھوڑ کر کوہ ِحرا پر تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ نے حضرت جبر یل ؑ نازل فرماکر آں جناب  ؐکو منصب ِرسالت پر فائز کیا اور اسلام کے مشن کا پرچار شروع کرنے کے لئے کہا۔وہاں سے آپ ؐ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؑ سے یہ سارا ماجرا سنایا ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ ؑ نے آپ ؐ کودلاسہ دیا اور آ پؐ کی عظمت ورفعت کا ایک خاکہ پیش کر کے تسلیت و تریاق کاکام کیا۔ یوں طبقۂ خواتین میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؑ نے اسلام قبول کیا اور آپؐ کے مشن کی آبیاری کا عہد کیا اور نوعمروں میں حضرت علی ؑ نے آپ کو ہر ایک مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا جس سے آپؐ  کو اپنے مشن کے راستے ہموار ہوتے دکھائی دئے۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے بالغ نظر لوگوں میں آ پ ؐ پر ایمان لایا۔ حضرت خدیجہؑ نے نہ صرف اپنا بھرپور تعاون دے کرپیغمبر ؐ کے مشن کو آسان بنایا بلکہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف برسرجہد ہوئیں ۔اس راہ میں اپنا مال ومتاع نچھاور کیا۔ اس کے بعد اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچتا رہا اور لوگ بھی اسلام کی عظیم نعمت سے فیض یاب ہوتے گئے۔ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کو گلے لگا کر ان پر تن من دھن سے عمل پیرا ہوئے۔
حضرت محمد مصطفےٰ صلعم کے عظیم مشن اور دعوت کی مقبولیت دیکھ کر قریشِ مکہ بوکھلا گئے اور خاندان کا ایک گروہ آپؐ کے چچا حضرت ابوطالبؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگے ’’اے ابوطالب! آپ اپنے بھتیجے سے کہہ دیجئے کہ وہ ہمارے خداؤں کے خلاف نہ بولیں اور نہ ہمارے زندگی کے ڈھنگ کے خلاف بولیں اور بدلے میں وہ جو بھی چاہیں گے  ان کو دیا جائے گا‘‘۔ کچھ مدت بعد وہ پھر حضرت ابوطالبؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے ’’اے ابوطالب! اگر آپ اپنے بھتیجے کو نہیں روکیں گے تو ہم تم دونوں سے لڑیں گے‘‘۔ اس بار حضرت ابوطالبؑ نے یہ کہہ کر اُن کے ارادوں کو خاک میں ملادیا کہ ’’تم لوگ میرے بھتیجے کو چھونے کی بھی ہمت نہیں کرپاؤ گے۔ اُن تک پہنچے سے پہلے تم لوگوں کو میرا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ حضرت ابوطالبؑ نے حضرت محمد مصطفیؐ سے اس واقعہ کے بعد کہا کہ ’’آپ ؐ اپنے عظیم مشن کو آگے بڑھائیں اور میں اس مشن میں دم واپسیں تک آپؐ کا دفاع کروں گا‘‘۔
پھر ایک سال ایسا آیا جس میں جہاں پیغمبر آخرزماںؐ کو حضرت ابوطالبؑ اور حضرت خدیجہؑ کی دائمی جدائی کے صدمے برداشت کرنے پڑے ،وہیں دوسری جانب قریش نے آپؐ کو اذیتیں دیناشروع کیں۔ اس طرح مکہ میں آپؐ کا قیام کرنا خطرے سے خالی نہ تھا اور آپ  ؐ بھی اسلام کے پھیلاؤ کے لئے ایک مناسب ومامون جگہ کی تلاش میں تھے۔ آپ نے طائف کا سفر اختیار کیا مگر وہاں لوگوں نے نہ صرف اللہ کے دین کے پیغام کو سننے سے انکار کیا بلکہ آپ   ؐ کو وہاںکو قیام کرنے اور دعوت اسلامی دینے سے بھی بہ جبر رُوکا اور آپؐ واپس مکہ چلے آئے۔ 
اگرچہ اسلام دشمن عناصر نے پیغمبر آخرزماں ؐ کو پریشان کرنے کے لئے دیگر اوچھے ہتھکنڈے اپنائے مثلاً غریب نومسلموں پر حملے کئے گئے مگر اُن فاقہ مست غریب صحابہ کرام ؓ نے صبر کا دامن تھامے رکھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ صبر کا اجر وثواب یقینی ہے۔ مخالفتوں کے طوفانوں کے باوجودمدینہ میں اللہ کے دین کی کامیابیاں سن کر مکہ میں اسلام دشمن عناصر آگ بگولے ہوگئے اور مسلمانوں کو برداشت سے باہر اذیتیں دینے لگے۔ آپؐ نے مکہ کے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کے لئے کہا۔بہر حال قریش کو جب معلوم ہوا کہ مدینہ میں اسلام زور پکڑ رہا ہے تو ’’دارالندوہ‘‘ میں جمع ہوکر یہ سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے ۔کسی نے کہا کہ محمد ؐ کو یہیں (مکہ میں) خاکم بدہن قتل کردیا جائے تاکہ آپ ؐکا دین ہی ختم ہوجائے ،کسی نہ کہا کہ جلاوطن کردیا جائے۔ آخر کار قتل کرنے پر بات ٹھہر گئی۔ سب نے مل کر آپؐ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔آپ ؐنے اللہ کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے حضرت علی ؑ کو اپنے بستر پر سونے کے لئے کہا۔ جب اسلام دشمن عناصر آپؐ کو قتل کرنے کی غرض سے آئے تو وہاں حضرت علی ؑ کو پایا۔ پوچھا محمدؐ کہاں ہیں؟ آپ ؑ نے جواب دیا جہاں ہیں خدا کی امان میںہیں۔ آپ ؐ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ مدینہ کی ہجرت کی اور سنہ ہجری اس واقعہ کے بعد شروع ہوئی اور اسی سے منسوب ہے۔ جب قریش اور دوسرے دشمنوں کو اس کی اطلاع ملی کہ آپؐ صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئے ہیں تو جنگ وعنادپر اتر آئے اور اس طرح آپؐ کو کئی مدافعانہ جنگیں لڑنی پڑیں۔ حضرت محمد مصطفیؐ نے مدینہ پہنچتے ہی مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی اور آپؐ نے بذات خود اس کی تعمیر میں حصہ لیا اور دوسروں کی طرح مسجد کے لئے پتھر لائے۔ مواخات کا اعلان فرمایا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ آ خر کار کفارانِ مکہ کے ساتھ ناجنگ معاہدہ ہو ا۔ اس دور زریں وزمانۂ امن کو آپ ؐ نے تبلیغ دین میں صرف کیا ۔ اسلام کی حقانیت عرب کے طول وعرض میں ظاہر ہو ئی ۔ غلط فہمیاں کا فور ہو ئیں ، جہا لت کا اندھیرا چھٹ گیا، علم وعرفان اور بلند کرداری کا سورج طلوع ہوا ۔ لوگ حق اور اصول ِانسانیت اور توحیدا ور وحدت امت کے نورسے بزبان حال وقال پیغمبر آخرالز ماں منور ہو ئے ۔ سیرتیں بدل گئیں ، دوستی اور دشمنی کے معیار متغیر ہو ئے، انصاف کا بول بالا ہو ا اورسچائی کا سورج جا بجا چمکنے لگا ۔ مسلم معاشرہ خیرو برکت کا منبع بنا ۔ اسی اثناء میں با ذن خدا وندی فتح ِ مکہ کا تاریخ ساز واقعہ پیش آ یا اور اسلام کا نظام رحمت پو رے عرب اگردونواح میں چمک اٹھا ۔ آج بھی حضرت محمد سلیاللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین تمام تر  رکاوٹوں اور مخالفا نہ پرو پگنڈا کے باوجود عالم آ ب وگلِ میں پھیل رہا ہے ، وجہ یہ ہے کہ اتمام نور کا جو وعدۂ اللہ نے قیامت سے قبل کر نے کا دیا ہے اس کی پشت پر سیرت طیبہ کی ضیاپاشی کا رفرما ہے ۔ اسی کے انوارات اور بر کات کے طفیل اسلام کا مستقبل درخشان ہیں اور اہل معصیت وعالم کفر کی یو رشوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے   ع
پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جا ئے گا ۔   
……………………
(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کے طالب علم ہیں)
 zahoorbhat786@yahoo.in


No comments:

Post a Comment