حضورنبی کریم ؐبحیثیت ِداعی ٔاعظم
چوہدری محمد اسلم سلیمی ایڈووکیٹ
حضور ﷺختمی مرتبت نے اہل ایمان کو اللہ کے جس فضل کبیر کی بشارت دی ، وہ ایک ایسے نظام زندگی کی صورت میں برپا کرکے دکھا دیا ، جس نے ہر طاقتور کو کمزور کرکے رکھ دیا جب تک اس سے کسی کا غصب شدہ حق واپس نہ لے لیا اور ہر کمزور کو طاقتور بنادیا جب تک اسے اس کا حق نہ دلا دیا۔ حکومت و اقتدار ،ذریعہ عیش و عشرت کی بجائے کانٹوں کی سیج بن کر رہ گئے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک بے آسرا و بے سہارا ضعیفہ بھی امیرالمومنین کا گریبان پکڑ کر اپنا حق وصول کرلیتی تھی ۔
حضورؐنبی کریم کا مشن ہمہ گیر ، ہم پہلو اور کثیر الجہت (multi-dimensional)تھا۔ ان کے اس مقدس مشن کا احاطہ کرنا نہایت مشکل کام ہے ۔ میں اس مضمون میں آنحضورؐکے مشن کے چند پہلو پیش کرنا چاہتاہوں ۔
1۔مدینہ میں ایک مثالی حکومت کا قیام :
ہجرت کے بعد مدینہ میں ان حالات کا نقشہ بالکل بدل گیاتھاجو حضور نبی کریمؐ اور ان کے جان نثار ساتھیوں کو مکہ معظمہ میں پیش آئے تھے۔ حضورنبی پاک ؐ کی قیادت میں امت مسلمہ ایک باقاعدہ شہری ریاست کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مدینہ پہنچنے کے بعدعرب کی پرانی جاہلیت کے علمبرداروں سے مسلمانوں کامسلح مقابلہ شروع ہوا ۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں (یہود و نصاریٰ)سے بھی سابقہ پیش آیا ۔ خود امت مسلمہ کے اندرونی نظام میں مختلف قسم کے منافق بھی گھس آئے تھے اور ان سے بھی نمٹنا پڑا اور دس سال کی شدید کشمکش سے گزر کر آخر کار وہ تحریک کامیابی کی اس منزل پر پہنچی کہ عرب کا بڑا حصہ اس کے زیر نگین ہوگیا اور عالمگیر دعوت واصلاح کے دروازے اس کے سامنے کھل گئے ۔ ساتویں سن ہجری کے آغاز میں حضورنبی مہربان ؐنے چھ ممالک کے بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے تھے۔ خود حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تیس لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ یہ حکومت عدل وانصاف کی علمبردار تھی اور اپنے دور کی ایک مثالی حکومت تھی۔اس میں حدود اللہ پوری طرح نافذ تھیں ۔ جرائم کا خاتمہ ہوگیاتھا ،معیشت کے دائرے میں سود کو یکسر ختم کردیاگیاتھا اور حضورؐنے سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباسؓکے دیے ہوئے قرض پر سود معاف کردینے کا اعلان کردیاتھا ۔ اس مرحلے میں حضورﷺکی دعوت کاانداز کبھی آتشین خطابت کا ، کبھی شاہانہ فرامین و احکام کا ، کبھی معلمانہ درس و تعلیم کا اور کبھی مصلحانہ افہام و تفہیم کا ہوتاتھا ۔ ان خطابات میں بتایا گیاتھا کہ جماعت ، ریاست اور مدنیت صالحہ کی تعمیر کس طرح کی جائے ، زندگی کے مختلف شعبوں کو کن اصول و ضوابط پر قائم کیا جائے ، برسرجنگ دشمنوں اور معاہد قوموں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کیا جائے اور منظم اہل ایمان کا یہ گروہ دنیا میں خدا وند عالم کی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو کس طرح تیار کرے ۔ اس مرحلے میں ایک طرف مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کی جاتی تھی ۔ ان کی کمزوریوں کی اصلاح کی جاتی تھی ۔ ان کو راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے پر ابھارا جاتاتھا،ان کو شکست اور فتح ، مصیبت اور راحت ، بد حالی اور خوشحالی ،امن اور خوف ،غرض ہر حال میں اس کے مناسب اخلاقیات کا درس دیا جاتاتھا اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتاتھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐکے جانشین بن کر اس دعوت و اصلاح کے کام کو دنیا بھر میں انجام دے سکیں ۔ دوسری طرف ا ن لوگوں کو جودائرہ ایمان سے باہر تھے ،یعنی اہل کتاب ، منافقین ، کفار ومشرکین ، سب کو ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے سمجھانے ، نرمی سے دعوت دینے اور بعض اوقات سختی سے ملامت اور نصیحت کرنے ، خدا کے عذاب سے ڈرانے اور سبق آموز و اقعات واحوال سے عبرت دلانے کی کوشش کی جاتی تھی ، تاکہ ان پر حجت تمام کردی جائے ۔
2۔دعوت کے کام میں مخاطب کی نفسیات کوملحوظ رکھنے کی ہدایت :
داعی اعظم حضورنبی کریم ؐاس اعتبار سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ آپؐنے دعوت و تبلیغ کے عملی مراحل کابہترین نمونہ پیش فرمایا ، آپؐنے ’’اپنے صحابہ کرامؓ کو دعوت اور تبلیغ کے کام کے لیے بہترین اصول سمجھائے اور اس سلسلے میں انہیں ضروری ہدایات بھی دیں ۔ان ہدایات میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو‘‘۔ حضورنبی پاکؐ کی تعلیمات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ موقع و محل کے لحاظ سے جو اہم بات حکمت تبلیغ کے سلسلے میں ہر داعی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے ، وہ یہ ہے کہ اپنے مخاطب کی استعداد اور اس کی نفسیاتی کیفیات کیا ہیں ۔ پھر اس استعداد کو ملحوظ رکھ کراسے دعوت دی جائے ۔ مثلاً کسی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے علمانہ مشکل اور دقیق منطقی استدلال اور فلسفیانہ بحثیں شروع کردی جائیں یا کسی دانشور سے گفتگو کرتے ہوئے بالکل عامیانہ بے رنگ اور بے ڈھب انداز گفتگو اختیار کیا جائے تو مفید نہ ہوگا ۔ بلکہ اس کے برعکس لوگوں سے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق عمدہ نصیحت کے انداز میں بات کی جائے ۔
آنحضورؐنے ارشاد فرمایا ’’دین کو آسان کرکے پیش کرو ، سخت بنا کر نہیں ، لوگوں کو خوشخبری سنائو ، نفرت نہ دلائو۔ حضورؐنے یہ بھی فرمایا
ترجمہ: ’’تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو ، دشواری پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ‘‘۔(بخاری شریف)
قرآن کریم میں فرمایا گیا:۔
ترجمہ :’’اور ( اے ایمان والو)یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں‘‘ ۔ (الانعام۔۱۰۸)
ایک داعی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خواہ مخواہ کی نفرتیں لیے پھرے ۔ اس کے دل میں سب لوگوں کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی ہوتی ہے ۔ وہ دردمندی اور دلسوزی سے اپنی بات کرتاہے ۔ وہ بے سبب درپئے آزار نہیں ہوتا اور مخاطب کے پسندیدہ عقائد و اشخاص پر بے تکی تنقید نہیں کرتا۔
داعی اپنی دعوت کے کام میں اپنی جان گھلا دے :
نبی پاک ؐنے اپنی دعوت کے کام میں اس طرح جان گھلائی کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر قرآن کریم میں آپ کی اس حالت کا ذکر فرمایا اور تسلی دی ۔ مثلاً سورہ کہف میں فرمایا :۔ترجمہ: ’’ تو اے محمدؐشاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ۔
اس بیان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ آپؐ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپؐ کو اور آپؐکے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں بلکہ جو چیز آپؐ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالناچاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپؐ کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الٰہی ہے۔ آپؐان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اورراتیں ایک کیے دے رہے تھے ۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کررہیں گے ۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ :۔
’’میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے ، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ، وہ کوشش کرتاہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں ، مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہاہوں اور تم ہوکہ آگ میں گرے پڑتے ہو۔‘‘(بخاری و مسلم )
اُوپر دی گئی سورہ کہف کی آیت میں ایک لطیف انداز میں آپؐکو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو ؟تمہارا کام صرف بشارت اور انذار ہے ،لوگوں کو مومن بنادینا تمہارا کام نہیں ہے ۔ لہذا تم بس اپنا فریضہ تبلیغ ادا کیے جائو جو مان لے اسے بشارت دے دو جو نہ مانے اسے برے انجام سے متنبہ کردو ۔
اسی طرح سورہ الشعرامیں ارشاد ربانی ہے ۔ترجمہ :’’اے محمدؐ،شاید تم اس غم میں اپنی جان کھودو گے یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔‘‘
اور سورہ فاطر میں ارشاد ہوا ۔ ترجمہ:’’ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے ۔‘‘ (آیت نمبر۸)اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی و ضلالت ، اس کی اخلاقی پستی ، اس کی ہٹ دھرمی اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برسوں اپنے شب و روز کس دل گداز و جان گسل کیفیت میں گزارتے رہے تھے۔
حضورؐنبی کریم کا مشن ہمہ گیر ، ہم پہلو اور کثیر الجہت (multi-dimensional)تھا۔ ان کے اس مقدس مشن کا احاطہ کرنا نہایت مشکل کام ہے ۔ میں اس مضمون میں آنحضورؐکے مشن کے چند پہلو پیش کرنا چاہتاہوں ۔
1۔مدینہ میں ایک مثالی حکومت کا قیام :
ہجرت کے بعد مدینہ میں ان حالات کا نقشہ بالکل بدل گیاتھاجو حضور نبی کریمؐ اور ان کے جان نثار ساتھیوں کو مکہ معظمہ میں پیش آئے تھے۔ حضورنبی پاک ؐ کی قیادت میں امت مسلمہ ایک باقاعدہ شہری ریاست کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مدینہ پہنچنے کے بعدعرب کی پرانی جاہلیت کے علمبرداروں سے مسلمانوں کامسلح مقابلہ شروع ہوا ۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں (یہود و نصاریٰ)سے بھی سابقہ پیش آیا ۔ خود امت مسلمہ کے اندرونی نظام میں مختلف قسم کے منافق بھی گھس آئے تھے اور ان سے بھی نمٹنا پڑا اور دس سال کی شدید کشمکش سے گزر کر آخر کار وہ تحریک کامیابی کی اس منزل پر پہنچی کہ عرب کا بڑا حصہ اس کے زیر نگین ہوگیا اور عالمگیر دعوت واصلاح کے دروازے اس کے سامنے کھل گئے ۔ ساتویں سن ہجری کے آغاز میں حضورنبی مہربان ؐنے چھ ممالک کے بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے تھے۔ خود حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تیس لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ یہ حکومت عدل وانصاف کی علمبردار تھی اور اپنے دور کی ایک مثالی حکومت تھی۔اس میں حدود اللہ پوری طرح نافذ تھیں ۔ جرائم کا خاتمہ ہوگیاتھا ،معیشت کے دائرے میں سود کو یکسر ختم کردیاگیاتھا اور حضورؐنے سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباسؓکے دیے ہوئے قرض پر سود معاف کردینے کا اعلان کردیاتھا ۔ اس مرحلے میں حضورﷺکی دعوت کاانداز کبھی آتشین خطابت کا ، کبھی شاہانہ فرامین و احکام کا ، کبھی معلمانہ درس و تعلیم کا اور کبھی مصلحانہ افہام و تفہیم کا ہوتاتھا ۔ ان خطابات میں بتایا گیاتھا کہ جماعت ، ریاست اور مدنیت صالحہ کی تعمیر کس طرح کی جائے ، زندگی کے مختلف شعبوں کو کن اصول و ضوابط پر قائم کیا جائے ، برسرجنگ دشمنوں اور معاہد قوموں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کیا جائے اور منظم اہل ایمان کا یہ گروہ دنیا میں خدا وند عالم کی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو کس طرح تیار کرے ۔ اس مرحلے میں ایک طرف مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کی جاتی تھی ۔ ان کی کمزوریوں کی اصلاح کی جاتی تھی ۔ ان کو راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے پر ابھارا جاتاتھا،ان کو شکست اور فتح ، مصیبت اور راحت ، بد حالی اور خوشحالی ،امن اور خوف ،غرض ہر حال میں اس کے مناسب اخلاقیات کا درس دیا جاتاتھا اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتاتھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐکے جانشین بن کر اس دعوت و اصلاح کے کام کو دنیا بھر میں انجام دے سکیں ۔ دوسری طرف ا ن لوگوں کو جودائرہ ایمان سے باہر تھے ،یعنی اہل کتاب ، منافقین ، کفار ومشرکین ، سب کو ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے سمجھانے ، نرمی سے دعوت دینے اور بعض اوقات سختی سے ملامت اور نصیحت کرنے ، خدا کے عذاب سے ڈرانے اور سبق آموز و اقعات واحوال سے عبرت دلانے کی کوشش کی جاتی تھی ، تاکہ ان پر حجت تمام کردی جائے ۔
2۔دعوت کے کام میں مخاطب کی نفسیات کوملحوظ رکھنے کی ہدایت :
داعی اعظم حضورنبی کریم ؐاس اعتبار سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ آپؐنے دعوت و تبلیغ کے عملی مراحل کابہترین نمونہ پیش فرمایا ، آپؐنے ’’اپنے صحابہ کرامؓ کو دعوت اور تبلیغ کے کام کے لیے بہترین اصول سمجھائے اور اس سلسلے میں انہیں ضروری ہدایات بھی دیں ۔ان ہدایات میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو‘‘۔ حضورنبی پاکؐ کی تعلیمات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ موقع و محل کے لحاظ سے جو اہم بات حکمت تبلیغ کے سلسلے میں ہر داعی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے ، وہ یہ ہے کہ اپنے مخاطب کی استعداد اور اس کی نفسیاتی کیفیات کیا ہیں ۔ پھر اس استعداد کو ملحوظ رکھ کراسے دعوت دی جائے ۔ مثلاً کسی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے علمانہ مشکل اور دقیق منطقی استدلال اور فلسفیانہ بحثیں شروع کردی جائیں یا کسی دانشور سے گفتگو کرتے ہوئے بالکل عامیانہ بے رنگ اور بے ڈھب انداز گفتگو اختیار کیا جائے تو مفید نہ ہوگا ۔ بلکہ اس کے برعکس لوگوں سے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق عمدہ نصیحت کے انداز میں بات کی جائے ۔
آنحضورؐنے ارشاد فرمایا ’’دین کو آسان کرکے پیش کرو ، سخت بنا کر نہیں ، لوگوں کو خوشخبری سنائو ، نفرت نہ دلائو۔ حضورؐنے یہ بھی فرمایا
ترجمہ: ’’تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو ، دشواری پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ‘‘۔(بخاری شریف)
قرآن کریم میں فرمایا گیا:۔
ترجمہ :’’اور ( اے ایمان والو)یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں‘‘ ۔ (الانعام۔۱۰۸)
ایک داعی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خواہ مخواہ کی نفرتیں لیے پھرے ۔ اس کے دل میں سب لوگوں کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی ہوتی ہے ۔ وہ دردمندی اور دلسوزی سے اپنی بات کرتاہے ۔ وہ بے سبب درپئے آزار نہیں ہوتا اور مخاطب کے پسندیدہ عقائد و اشخاص پر بے تکی تنقید نہیں کرتا۔
داعی اپنی دعوت کے کام میں اپنی جان گھلا دے :
نبی پاک ؐنے اپنی دعوت کے کام میں اس طرح جان گھلائی کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر قرآن کریم میں آپ کی اس حالت کا ذکر فرمایا اور تسلی دی ۔ مثلاً سورہ کہف میں فرمایا :۔ترجمہ: ’’ تو اے محمدؐشاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ۔
اس بیان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ آپؐ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپؐ کو اور آپؐکے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں بلکہ جو چیز آپؐ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالناچاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپؐ کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الٰہی ہے۔ آپؐان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اورراتیں ایک کیے دے رہے تھے ۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کررہیں گے ۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ :۔
’’میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے ، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ، وہ کوشش کرتاہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں ، مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہاہوں اور تم ہوکہ آگ میں گرے پڑتے ہو۔‘‘(بخاری و مسلم )
اُوپر دی گئی سورہ کہف کی آیت میں ایک لطیف انداز میں آپؐکو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو ؟تمہارا کام صرف بشارت اور انذار ہے ،لوگوں کو مومن بنادینا تمہارا کام نہیں ہے ۔ لہذا تم بس اپنا فریضہ تبلیغ ادا کیے جائو جو مان لے اسے بشارت دے دو جو نہ مانے اسے برے انجام سے متنبہ کردو ۔
اسی طرح سورہ الشعرامیں ارشاد ربانی ہے ۔ترجمہ :’’اے محمدؐ،شاید تم اس غم میں اپنی جان کھودو گے یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔‘‘
اور سورہ فاطر میں ارشاد ہوا ۔ ترجمہ:’’ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے ۔‘‘ (آیت نمبر۸)اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی و ضلالت ، اس کی اخلاقی پستی ، اس کی ہٹ دھرمی اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برسوں اپنے شب و روز کس دل گداز و جان گسل کیفیت میں گزارتے رہے تھے۔
No comments:
Post a Comment