معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ رات گئے بیدارہوتے تھے،وضو فرماتے اور پھر تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز بہت طویل ہوا کرتی تھی۔قیام کی حالت میں بہت لمبی تلاوت فرماتے تھے اور رکوع و سجود بھی بہت طویل ہواکرتے تھے۔کچھ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز میں شریک ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے لیے ممکن نہ رہا۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاؤں مبارک سوج جاتے اور پنڈلیوں میں ورم آجاتا۔جب سجدہ کرنا مقصود ہوتا تو حجرہ مبارک میں اتنی جگہ نہ ہوتی کہ سجدہ کر سکتے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سجدہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری ٹانگوں پر اپنا ہاتھ مارتے میں اپنے پاؤں اکٹھے کرتی تو اس جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ فرماتے تھے۔اس بات سے حجرہ مبارک کی لمبائی چوڑائی کااندازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اونچائی اتنی تھی کہ لمبے قد کاآدمی کھڑاہوجائے تو کھجورکے پتوں سے لیپی ہوئی چھت سے اسکاسرٹکراجائے۔تہجد کی نمازمکمل ہونے پر حضرت بلالؓ کی آذان بلند ہوجاتی،تب آپ ﷺ فجر کی دورکعتیں اداکرتے جنہیں امت فجر کی سنتوں کے نام سے جانتی ہے،پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص تلاوت فرماتے،یہ مختصررکعتیں ہوتی تھیں۔اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلمتہجد کی تھکاوٹ کے باعث سستانے کے لیے لیٹ جاتے اور مسلمان بھی اتنی دیر میں مسجد میں جمع ہوچکتے۔تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے اور فجر کی طویل قرات والے دو فرائض پڑھاتے اور پھر مسلمانوں کی طرف چہرہ انور کر کے بیٹھ جاتے ۔کوئی خواب دیکھاہوتا تومسلمانوں کو سناتے اور اگر مسلمانوں میں سے کسی نے خواب دیکھاہوتا تو سن کر اسکی تعبیر دیتے۔بعض اوقات فجر کے بعد دیگر امور پر بھی گفتگو فرماتے اورانہیں جملہ ہدایات دیتے اس بہانے مسلمانوں کی تعلیم کاانتظام بھی ہوجاتاجبکہ خواتین بھی موجود ہوتی تھیں۔
فجر کے بعد سوناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد ناپسند تھا۔یہ بہت برکت والاوقت ہوتا ہے جسے ذکروفکرمیں گزارناچاہیے۔قرآن مجید نے بھی فجرکے وقت تلاوت کی ترغیب دی ہے۔عشراق اور چاشت کے نوافل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کاحصہ تھے لیکن یہ نوافل بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کے نوافل لمبے لمبے اداکرتے اور دن کے نوافل کو بہت مختصر کر کے تو ختم کردیتے۔فجرسے ظہر تک کاوقت زیادہ تر مسجد کے باہر گزارتے تھے جبکہ آپ ﷺکے صحابہ کرام نے اپنی تعداد کے دو حصے کیے ہوتے تھے،ایک حصہ فجر سے ظہر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا اور دوسرا حصہ کاروبار دنیا میں مشغول ہوتاجبکہ ظہر بعد پہلا حصہ دنیامیںمشغول ہوجاتااور دوسرے حصے کے اصحاب صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوتے تھے۔اس دوران بعض اوقات بازارتشریف لے جاتے اور معاملات کی نگرانی کرتے۔ایک بار ایک دکان کے باہر غلے کے ڈھیر میں آپ نے ہاتھ ڈالا تو وہ باہر سے خشک اور اندر سے گیلا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار سے پوچھایہ کیاہے؟؟اس نے جواب دیا رات کو بارش کی پھنوارکے باعث گندم گیلی ہوگئی۔آپﷺ نے اسکو سخت ناپسندفرمایاکہ اوپراوراندر میں فرق ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔بازرارمیں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پرانا شناسا دکھائی دیا،آپ نے فرط محبت میں پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ دیے،یہ اشارہ تھا کہ مجھے پہچانو!،ابتداًتو اسے اندازہ نہ ہوا لیکن جب پتہ چل گیا تو اس نے اپنی کمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے خوب خوب مس کی کیونکہ نبی کے جسم سے جو چیزمس ہوجائے اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔بعض اوقات خاص طورپر خواتین سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ مرد حضرا ت اپنے اپنے کاموںپرگئے ہوتے تھے،ایک بار آپ ایک بندمحلے میں تشریف لے گئے اورزورسے فرمایا کہ ’’السلام علیکم ‘‘کوئی جواب نہ آیا،پھرفرمایاتو بھی جواب نہ آیا،تیسری دفعہ سلام کیاتو بھی کوئی جواب نہ آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مڑنے لگے تو ہر گھرسے خواتین کی آوازبلندہوئی کہ ’’وعلیکم السلام یا ایھاالنبی‘‘،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پہلے کیوں جواب نہ دیاتو عرب کی ذہین عورتوں نے جواب دیا کہ ہم چاہتی تھیں کہ لسان نبویصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ زیادہ سلامتیاں ہم تک پہنچیں،کیونکہ پہلی دفعہ جواب دے دیاجاتا توباقی دونوں دفعہ کے دعایہ سلام سے محروم رہ جاتیں۔سوموارکادن عورتوں کے لیے مخصوص تھاجبکہ عمرعزیزکے آخری ایام میں ہفتہ بھرمیں دو دن خواتین کے لیے مخصوص کر لیے گئے تھے۔
بعض اوقات اچھاکھانا کھائے بہت دن گزرجاتے تو آپ ﷺ کسی امیر مسلمان کے تشریف لے جاتے۔اسی طرح ایک دن آپ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس سے بے تکلفی سے فرمایا کہ ہمیں کھانا کھلاؤ،اس کے دروازے پر تو گویا دنیاوآخرت کی خوش بختیاں پہنچ گئی تھیں۔اس نے فوراً ہی کھجور کے کچے پکے پھلوں کی ایک ڈالی بطور سلاد کے خدمت اقدس ﷺمیں پیش کی اور گھروالوں کو روٹیاں پکانے کا کہ کر خود ایک بکری ذبح کرنے میں مشغول ہو گیااور تھوڑی دیر بعدایک تھال میں بھنا ہواگوشت اور ایک رومال میں پکی ہوئی روٹیاں دسترخوان پر چن دی گئیں۔آپﷺ نے کھانا تناول کرنے سے پہلے چار روٹیوں میں کچھ سالن کی بوٹیاں رکھ کر حضرت ابوہریرہ ؓکو دیں کہ جاؤفاطمہؓکو دے آؤ اس نے اتنے دنوں سے کھانا نہیں کھایا۔بعض اوقات آپﷺ دوستوں کے ساتھ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور انکے ساتھ اچھاوقت گزارتے۔ایک بار آپﷺقریب کی جھیل میں گئے اور دودوکی جوڑیاں بناکر تیراکی کی مشق کی اور مقابلے کیے۔آپ ﷺ کے ساتھ جوڑے میں حضرت ابوبکرصدیق ؓشامل تھے۔بعض اوقات جنات کو ملنے کے لیے بھی پہاڑوں پر تشریف لے جاتے تھے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر صحابہ کرام کو آگے آنے سے روک دیتے اور خود آگے بڑھ کر جنات کے قبائل میں تبلیغ فرماتے۔جب سفردرپیش ہوتاتوگھرسے دو نفل پڑھ کر سفر شروع کرتے اورواپسی پرپہلے مسجد میں دو نفل اداکرتے تب گھرمیں وارد ہوتے۔
آپ بہت کم بولتے تھے اور مجلس میں کافی کافی دیر تک خاموشی رہتی۔سوال کرنا سخت ناپسند تھا،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حج فرض ہے‘‘،ایک مسلمان نے سوال داغ دیا کہ کیا ہرسال؟؟اس پر آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیااور آپ خاموش ہوگئے۔غصہ تحلیل ہونے پر فرمایا مجھ سے سوال کیوں کرتے ہو؟؟اگر میں ہاں کہ دیتاتو پھر۔قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو منع کیا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیے تھے تم اپنے نبی سے اس طرح سوال نہ کرو۔تاہم کسی اہم سوال کا جواب دیابھی کرتے تھے مثلاً محفل میںخوشبو پھیل جانے پر مسلمانوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ جبریل آ گئے ہیں ،ایک بار مسلمانوں نے پوچھا کہ جبریل ہمیشہ اس طرف والی گلی سے کیوںآتے ہیں؟؟تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ اس گلی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکا گھر ہے جو نعت گو شاعر رسولﷺ تھے۔نعت شوق سے سنتے تھے اور نعت گو شاعر کے لیے دعابھی فرماتے تھے۔جب کسی سے خوش ہوتے تھے تو اس کے سامنے محبت کااظہارکرتے تھے اور جب کسی سے ناراض ہوتے تو خاموشی اختیارکرلیتے تھے اور بہت زیادہ ناراضگی ہوتی تو چہرہ انور اس سے پھیر لیتے تھے،ایک صحابی کی داڑھی میں ایک ہی بال تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اس صحابی ایک بارنے وضوکے دوران وہ بال توڑ دیا،آپ ﷺ نے دیکھا تو ناراضگی سے چہرہ انور پھیرلیا،اس صحابی نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی تو بال تھاتو سرزنش فرماتے ہوئے جواب دیا کہ خواہ ایک بال تھا تب بھی میری سنت تو تھی،تم نے اسے بھی توڑ دیا؟؟؟
ظہر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے آتے اور تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے کہ رات کو اٹھنے (تہجدپڑھنے)کے لیے دوپہر کے سونے سے مدد لو۔اس دوران کوئی ملنے گھر پر آجاتا تو طبیعت اقدس پر سخت ناگوار گزرتاتھا،لیکن آپ کااخلاق اتنا بلند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایاتھا،اس پر اﷲ تبارک وتعالی نے سورۃ حجرات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں استراحت فرمارہے ہوں توانکو آوازیں نہ دیاکرو بلکہ مسجد میں بیٹھ کر انکا انتظار کیاکرو۔قیلولہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے لیے نکلتے اور مسلمانوں کو ظہر کی نماز پڑھاتے تھے،اگرکوئی منتظر ہوتاتو نماز مختصر کر لیتے اورکسی بچے کی رونے کی آواز آجاتی تو بہت جلد نماز ختم کردیاکرتے تھے۔ظہرکے بعد کا وقت زیادہ تر مسجد میں گزارتے تھے ،شایداس کی وجہ نمازوں کے مسلسل اوقات تھے۔اس دوران باہر سے آنے والے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے تھے،بعض اوقات مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے اورتحفے و ہدیے بھی قبول فرماتے تھے۔ایک بار ایک مسلمان روزے کی حالت میں بیوی ے پاس جانے کی شکایت لے کرآگیا،فرمایا ساٹھ روے رکھو،عرض کی ایک روزے کاحال سن لیا ساٹھ کیسے رکھ پاؤں گا؟؟؟فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلاؤ،عرض کی استطاعت نہیں ہے۔وہ مسلمان مجلس میں بیٹھ گیاکہ اسی اثنامیں ایک شخص کھجوروں کاٹوکرالایااورخدمت اقدس میں پیش کردیا،فرمایاوہ مسلمان کہاں ہے جس کاروزہ ٹوٹ گیاتھا؟؟؟جی میں ہوں ،فرمایایہ کھجوریں غریبوں میں تقسیم کردو تمہاراکفارہ اداہوجائے گا۔اس نے عرض کی اے ﷲکے رسول اس شہر مدینہ کے دو پتھروں کے درمیان مجھ سے زیادہ غریب اور کوئی نہیں،اس بے ساختہ جواب پرچہرہ انورخوشی سے اس حد تک کھل اٹھاکہ اصحاب خوش بخت نے دندان مبارکہ کی زیارت بھی کر لی تب فرمایا جاؤخود کھاؤ اپنے گھروالوں کو کھلاؤیہی تمہارے روزے کاکفارہ ہے۔
کھانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدوشریف پسند تھا،بکری کی اگلی ٹانگ،دستی،شوق سے تناول فرماتے تھے،سفید لباس خوش ہو کر پہنتے تھے،زندگی بھر میں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ دھاری دار کپڑے بھی زیب تن کیے تھے۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی چادر اوڑھ کر بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ایسے لگ رہے تھے جیسے ستاروں میں چاند جگمگارہاہو،سب مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شوق سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نے وہ چادرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ لی،عادت مبارکہ تھی کہ مانگنے والے کو انکار نہیں کیاکرتے تھے،اس کو چادردے دی تو سب مسلمان اس آدمی سے ناراض ہوگئے اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور دوزخ کی آگ سے محفوظ و مامون ہوجاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی،خوشبو کا تحفہ لیاکرتے تھے اور دیا بھی کرتے تھے۔جانوروں میں بلی سے بہت پیارتھاکبھی غصہ آتا تو کپاس کا گولہ بلی کو دے مارتے تھے۔بچے بہت اچھے لگتے تھے خاص طور پر یتیم بچوں کو اپنی اولاد پر بھی فوقیت دیتے تھے ایک بار بی بی پاک فاطمہ الزہرانے خدمت گار کا تقاضاکیاتو فرمایا کہ ابھی بدر کے یتیم باقی ہیں۔کپڑے ،جوتے ،جرابیں پہنتے ہوئے پہلے دائیں عضومیں چڑھاتے تھے اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے،بیت الخلامیں پہلے بایاں قدم مبارک دھرتے تھے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم مبارک باہر نکالتے تھے،جبکہ مسجد میں اس کا الٹ۔جب بھوک ہوتی تو کھاناتناول فرماتے اور تھوڑی بھوک باقی ہوتی تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے،کھانا خلاف مزاج ہوتا تو نقص نہ نکالتے تھے بلکہ دسترخوان سے اٹھ جاتے تھے۔مسلمانوں کو نمازکی بہت تاکیدکرتے تھے اورجب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا توخود بھی نماز میں کھڑے ہوجاتے۔دعائیں اور مناجات بہت کثرت سے کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی اسکی تلقین کرتے تھے۔
’’گوہ ‘‘ایک حلال جانور ہے جوخرگوش سے چھوٹااور چوہے سے بڑاہوتاہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں پسند نہ تھا،پیاز بھی طبع نبوی پر گراں تھا،بدبو سے بہت نفرت تھی اسی لیے کثرت سے مسواک کرتے تھے سوکر اٹھنے پر مسواک کرتے ،وضومیں مسواک کرتے اور اگلی نماز میں گزشتہ وضو برقرارہوتاتب بھی نماز شروع کرنے سے قبل مسواک دانتوں پر پھیراکرتے تھے اورکافی دیرگزرجاتی تو بھی مسواک کرلیتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب اپنی بیویوں کے پاس جاؤ تو دانت صاف کرکے جاؤیعنی اس دوران منہ سے بو نہیں آنی چاہیے۔بکھرے بال اور میلے کچیلے کپڑے سخت ناپسند تھے ،کوئی اس حالت میں پیش ہوتا تو براہ راست تنقید کی بجائے دوسروں کی طرف رخ انور کرکے تنبیہ فرماتے تھے،جب کبھی گیسوئے مبارکہ دراز ہوجاتے تو جیب میں ایک کنگھی رکھاکرتے تھے،ایک زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہاتھی دانت کی بنی کنگھی بھی رہی۔فجر کے بعد سونااور عشاء کے بعد محفلیں جمانا بہت ناپسند تھا،راستوں میں بیٹھنے سے بھی آ ُپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ایک صحابی پرندوں کے بچے اٹھالایا تو آپ نے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حکم دیا واپس چھوڑ آو۔سادگی ،فقراور درویشی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی عبارت تھی،ایک بارحضرت عمر بن خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کھجور کی بنی فرشی چٹائی پر سونے کے باعث کمراقدس پر چٹائی کے نشان کنداں ہیں اور کمرے میں کل تین مٹی کے برتن رکھے ہیں،حضرت عمر آبدیدہ ہو گئے عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے ریشم اورمخمل کے بچھونے ہوں اور سرکاردوجہاں کے لیے کھجورکی یہ چٹائی؟؟؟فرمایاعمرکیاتم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے صرف دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی،لیکن اس حالت میں بھی کمرے کی دیوار سے نو (9)تلواریںلٹکی تھیں۔سخاوت کی عادت مزاج مبارک کا لازمی حصہ تھا،باغات کی آمدن سے مسجد نبوی کا صحن بھرجاتاتھا اور کل مال تقسیم فرمادیتے اور گھرجاکر پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟؟ توجواب میں انکاارملتاتھااور بھوکے پیٹ سو جاتے تھے۔ مردوں کے لیے سونا،ریشم اورمخمل سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔رات عشاء کے بعد جلد سوجانے کے عادی تھے اور سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے سوتے تھے جن میں چاروں قل اور آیت الکرسی کی روایات بہت ملتی ہیں۔اﷲ تعالی ہمیں بھی معمولات نبوی عطا فرمائے ،آمین۔
فجر کے بعد سوناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد ناپسند تھا۔یہ بہت برکت والاوقت ہوتا ہے جسے ذکروفکرمیں گزارناچاہیے۔قرآن مجید نے بھی فجرکے وقت تلاوت کی ترغیب دی ہے۔عشراق اور چاشت کے نوافل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کاحصہ تھے لیکن یہ نوافل بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کے نوافل لمبے لمبے اداکرتے اور دن کے نوافل کو بہت مختصر کر کے تو ختم کردیتے۔فجرسے ظہر تک کاوقت زیادہ تر مسجد کے باہر گزارتے تھے جبکہ آپ ﷺکے صحابہ کرام نے اپنی تعداد کے دو حصے کیے ہوتے تھے،ایک حصہ فجر سے ظہر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا اور دوسرا حصہ کاروبار دنیا میں مشغول ہوتاجبکہ ظہر بعد پہلا حصہ دنیامیںمشغول ہوجاتااور دوسرے حصے کے اصحاب صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوتے تھے۔اس دوران بعض اوقات بازارتشریف لے جاتے اور معاملات کی نگرانی کرتے۔ایک بار ایک دکان کے باہر غلے کے ڈھیر میں آپ نے ہاتھ ڈالا تو وہ باہر سے خشک اور اندر سے گیلا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار سے پوچھایہ کیاہے؟؟اس نے جواب دیا رات کو بارش کی پھنوارکے باعث گندم گیلی ہوگئی۔آپﷺ نے اسکو سخت ناپسندفرمایاکہ اوپراوراندر میں فرق ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔بازرارمیں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پرانا شناسا دکھائی دیا،آپ نے فرط محبت میں پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ دیے،یہ اشارہ تھا کہ مجھے پہچانو!،ابتداًتو اسے اندازہ نہ ہوا لیکن جب پتہ چل گیا تو اس نے اپنی کمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے خوب خوب مس کی کیونکہ نبی کے جسم سے جو چیزمس ہوجائے اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔بعض اوقات خاص طورپر خواتین سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ مرد حضرا ت اپنے اپنے کاموںپرگئے ہوتے تھے،ایک بار آپ ایک بندمحلے میں تشریف لے گئے اورزورسے فرمایا کہ ’’السلام علیکم ‘‘کوئی جواب نہ آیا،پھرفرمایاتو بھی جواب نہ آیا،تیسری دفعہ سلام کیاتو بھی کوئی جواب نہ آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مڑنے لگے تو ہر گھرسے خواتین کی آوازبلندہوئی کہ ’’وعلیکم السلام یا ایھاالنبی‘‘،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پہلے کیوں جواب نہ دیاتو عرب کی ذہین عورتوں نے جواب دیا کہ ہم چاہتی تھیں کہ لسان نبویصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ زیادہ سلامتیاں ہم تک پہنچیں،کیونکہ پہلی دفعہ جواب دے دیاجاتا توباقی دونوں دفعہ کے دعایہ سلام سے محروم رہ جاتیں۔سوموارکادن عورتوں کے لیے مخصوص تھاجبکہ عمرعزیزکے آخری ایام میں ہفتہ بھرمیں دو دن خواتین کے لیے مخصوص کر لیے گئے تھے۔
بعض اوقات اچھاکھانا کھائے بہت دن گزرجاتے تو آپ ﷺ کسی امیر مسلمان کے تشریف لے جاتے۔اسی طرح ایک دن آپ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس سے بے تکلفی سے فرمایا کہ ہمیں کھانا کھلاؤ،اس کے دروازے پر تو گویا دنیاوآخرت کی خوش بختیاں پہنچ گئی تھیں۔اس نے فوراً ہی کھجور کے کچے پکے پھلوں کی ایک ڈالی بطور سلاد کے خدمت اقدس ﷺمیں پیش کی اور گھروالوں کو روٹیاں پکانے کا کہ کر خود ایک بکری ذبح کرنے میں مشغول ہو گیااور تھوڑی دیر بعدایک تھال میں بھنا ہواگوشت اور ایک رومال میں پکی ہوئی روٹیاں دسترخوان پر چن دی گئیں۔آپﷺ نے کھانا تناول کرنے سے پہلے چار روٹیوں میں کچھ سالن کی بوٹیاں رکھ کر حضرت ابوہریرہ ؓکو دیں کہ جاؤفاطمہؓکو دے آؤ اس نے اتنے دنوں سے کھانا نہیں کھایا۔بعض اوقات آپﷺ دوستوں کے ساتھ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور انکے ساتھ اچھاوقت گزارتے۔ایک بار آپﷺقریب کی جھیل میں گئے اور دودوکی جوڑیاں بناکر تیراکی کی مشق کی اور مقابلے کیے۔آپ ﷺ کے ساتھ جوڑے میں حضرت ابوبکرصدیق ؓشامل تھے۔بعض اوقات جنات کو ملنے کے لیے بھی پہاڑوں پر تشریف لے جاتے تھے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر صحابہ کرام کو آگے آنے سے روک دیتے اور خود آگے بڑھ کر جنات کے قبائل میں تبلیغ فرماتے۔جب سفردرپیش ہوتاتوگھرسے دو نفل پڑھ کر سفر شروع کرتے اورواپسی پرپہلے مسجد میں دو نفل اداکرتے تب گھرمیں وارد ہوتے۔
آپ بہت کم بولتے تھے اور مجلس میں کافی کافی دیر تک خاموشی رہتی۔سوال کرنا سخت ناپسند تھا،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حج فرض ہے‘‘،ایک مسلمان نے سوال داغ دیا کہ کیا ہرسال؟؟اس پر آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیااور آپ خاموش ہوگئے۔غصہ تحلیل ہونے پر فرمایا مجھ سے سوال کیوں کرتے ہو؟؟اگر میں ہاں کہ دیتاتو پھر۔قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو منع کیا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیے تھے تم اپنے نبی سے اس طرح سوال نہ کرو۔تاہم کسی اہم سوال کا جواب دیابھی کرتے تھے مثلاً محفل میںخوشبو پھیل جانے پر مسلمانوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ جبریل آ گئے ہیں ،ایک بار مسلمانوں نے پوچھا کہ جبریل ہمیشہ اس طرف والی گلی سے کیوںآتے ہیں؟؟تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ اس گلی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکا گھر ہے جو نعت گو شاعر رسولﷺ تھے۔نعت شوق سے سنتے تھے اور نعت گو شاعر کے لیے دعابھی فرماتے تھے۔جب کسی سے خوش ہوتے تھے تو اس کے سامنے محبت کااظہارکرتے تھے اور جب کسی سے ناراض ہوتے تو خاموشی اختیارکرلیتے تھے اور بہت زیادہ ناراضگی ہوتی تو چہرہ انور اس سے پھیر لیتے تھے،ایک صحابی کی داڑھی میں ایک ہی بال تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اس صحابی ایک بارنے وضوکے دوران وہ بال توڑ دیا،آپ ﷺ نے دیکھا تو ناراضگی سے چہرہ انور پھیرلیا،اس صحابی نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی تو بال تھاتو سرزنش فرماتے ہوئے جواب دیا کہ خواہ ایک بال تھا تب بھی میری سنت تو تھی،تم نے اسے بھی توڑ دیا؟؟؟
ظہر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے آتے اور تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے کہ رات کو اٹھنے (تہجدپڑھنے)کے لیے دوپہر کے سونے سے مدد لو۔اس دوران کوئی ملنے گھر پر آجاتا تو طبیعت اقدس پر سخت ناگوار گزرتاتھا،لیکن آپ کااخلاق اتنا بلند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایاتھا،اس پر اﷲ تبارک وتعالی نے سورۃ حجرات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں استراحت فرمارہے ہوں توانکو آوازیں نہ دیاکرو بلکہ مسجد میں بیٹھ کر انکا انتظار کیاکرو۔قیلولہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے لیے نکلتے اور مسلمانوں کو ظہر کی نماز پڑھاتے تھے،اگرکوئی منتظر ہوتاتو نماز مختصر کر لیتے اورکسی بچے کی رونے کی آواز آجاتی تو بہت جلد نماز ختم کردیاکرتے تھے۔ظہرکے بعد کا وقت زیادہ تر مسجد میں گزارتے تھے ،شایداس کی وجہ نمازوں کے مسلسل اوقات تھے۔اس دوران باہر سے آنے والے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے تھے،بعض اوقات مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے اورتحفے و ہدیے بھی قبول فرماتے تھے۔ایک بار ایک مسلمان روزے کی حالت میں بیوی ے پاس جانے کی شکایت لے کرآگیا،فرمایا ساٹھ روے رکھو،عرض کی ایک روزے کاحال سن لیا ساٹھ کیسے رکھ پاؤں گا؟؟؟فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلاؤ،عرض کی استطاعت نہیں ہے۔وہ مسلمان مجلس میں بیٹھ گیاکہ اسی اثنامیں ایک شخص کھجوروں کاٹوکرالایااورخدمت اقدس میں پیش کردیا،فرمایاوہ مسلمان کہاں ہے جس کاروزہ ٹوٹ گیاتھا؟؟؟جی میں ہوں ،فرمایایہ کھجوریں غریبوں میں تقسیم کردو تمہاراکفارہ اداہوجائے گا۔اس نے عرض کی اے ﷲکے رسول اس شہر مدینہ کے دو پتھروں کے درمیان مجھ سے زیادہ غریب اور کوئی نہیں،اس بے ساختہ جواب پرچہرہ انورخوشی سے اس حد تک کھل اٹھاکہ اصحاب خوش بخت نے دندان مبارکہ کی زیارت بھی کر لی تب فرمایا جاؤخود کھاؤ اپنے گھروالوں کو کھلاؤیہی تمہارے روزے کاکفارہ ہے۔
کھانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدوشریف پسند تھا،بکری کی اگلی ٹانگ،دستی،شوق سے تناول فرماتے تھے،سفید لباس خوش ہو کر پہنتے تھے،زندگی بھر میں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ دھاری دار کپڑے بھی زیب تن کیے تھے۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی چادر اوڑھ کر بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ایسے لگ رہے تھے جیسے ستاروں میں چاند جگمگارہاہو،سب مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شوق سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نے وہ چادرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ لی،عادت مبارکہ تھی کہ مانگنے والے کو انکار نہیں کیاکرتے تھے،اس کو چادردے دی تو سب مسلمان اس آدمی سے ناراض ہوگئے اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور دوزخ کی آگ سے محفوظ و مامون ہوجاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی،خوشبو کا تحفہ لیاکرتے تھے اور دیا بھی کرتے تھے۔جانوروں میں بلی سے بہت پیارتھاکبھی غصہ آتا تو کپاس کا گولہ بلی کو دے مارتے تھے۔بچے بہت اچھے لگتے تھے خاص طور پر یتیم بچوں کو اپنی اولاد پر بھی فوقیت دیتے تھے ایک بار بی بی پاک فاطمہ الزہرانے خدمت گار کا تقاضاکیاتو فرمایا کہ ابھی بدر کے یتیم باقی ہیں۔کپڑے ،جوتے ،جرابیں پہنتے ہوئے پہلے دائیں عضومیں چڑھاتے تھے اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے،بیت الخلامیں پہلے بایاں قدم مبارک دھرتے تھے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم مبارک باہر نکالتے تھے،جبکہ مسجد میں اس کا الٹ۔جب بھوک ہوتی تو کھاناتناول فرماتے اور تھوڑی بھوک باقی ہوتی تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے،کھانا خلاف مزاج ہوتا تو نقص نہ نکالتے تھے بلکہ دسترخوان سے اٹھ جاتے تھے۔مسلمانوں کو نمازکی بہت تاکیدکرتے تھے اورجب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا توخود بھی نماز میں کھڑے ہوجاتے۔دعائیں اور مناجات بہت کثرت سے کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی اسکی تلقین کرتے تھے۔
’’گوہ ‘‘ایک حلال جانور ہے جوخرگوش سے چھوٹااور چوہے سے بڑاہوتاہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں پسند نہ تھا،پیاز بھی طبع نبوی پر گراں تھا،بدبو سے بہت نفرت تھی اسی لیے کثرت سے مسواک کرتے تھے سوکر اٹھنے پر مسواک کرتے ،وضومیں مسواک کرتے اور اگلی نماز میں گزشتہ وضو برقرارہوتاتب بھی نماز شروع کرنے سے قبل مسواک دانتوں پر پھیراکرتے تھے اورکافی دیرگزرجاتی تو بھی مسواک کرلیتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب اپنی بیویوں کے پاس جاؤ تو دانت صاف کرکے جاؤیعنی اس دوران منہ سے بو نہیں آنی چاہیے۔بکھرے بال اور میلے کچیلے کپڑے سخت ناپسند تھے ،کوئی اس حالت میں پیش ہوتا تو براہ راست تنقید کی بجائے دوسروں کی طرف رخ انور کرکے تنبیہ فرماتے تھے،جب کبھی گیسوئے مبارکہ دراز ہوجاتے تو جیب میں ایک کنگھی رکھاکرتے تھے،ایک زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہاتھی دانت کی بنی کنگھی بھی رہی۔فجر کے بعد سونااور عشاء کے بعد محفلیں جمانا بہت ناپسند تھا،راستوں میں بیٹھنے سے بھی آ ُپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ایک صحابی پرندوں کے بچے اٹھالایا تو آپ نے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حکم دیا واپس چھوڑ آو۔سادگی ،فقراور درویشی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی عبارت تھی،ایک بارحضرت عمر بن خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کھجور کی بنی فرشی چٹائی پر سونے کے باعث کمراقدس پر چٹائی کے نشان کنداں ہیں اور کمرے میں کل تین مٹی کے برتن رکھے ہیں،حضرت عمر آبدیدہ ہو گئے عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے ریشم اورمخمل کے بچھونے ہوں اور سرکاردوجہاں کے لیے کھجورکی یہ چٹائی؟؟؟فرمایاعمرکیاتم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے صرف دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی،لیکن اس حالت میں بھی کمرے کی دیوار سے نو (9)تلواریںلٹکی تھیں۔سخاوت کی عادت مزاج مبارک کا لازمی حصہ تھا،باغات کی آمدن سے مسجد نبوی کا صحن بھرجاتاتھا اور کل مال تقسیم فرمادیتے اور گھرجاکر پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟؟ توجواب میں انکاارملتاتھااور بھوکے پیٹ سو جاتے تھے۔ مردوں کے لیے سونا،ریشم اورمخمل سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔رات عشاء کے بعد جلد سوجانے کے عادی تھے اور سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے سوتے تھے جن میں چاروں قل اور آیت الکرسی کی روایات بہت ملتی ہیں۔اﷲ تعالی ہمیں بھی معمولات نبوی عطا فرمائے ،آمین۔
No comments:
Post a Comment