بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
محسن انسانیت ، رہبر آدمیت، سیّد عرب و عجم ، ہادی عالم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی ولادت باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے ، جس نے کائنات کو ایک نئی جہت ، نیا موڑ اور فلاح و کامرانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔
علامہ شبلی نعمانی کے الفاظ میں : ”آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دہرنے کروڑوں برس صرف کر دیے۔ سیارگان فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔ چراغ کہن مدّت ہائے دراز سے اسی صبح جاں نواز کے لئے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا۔ کارکنان قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدّت طرازیاں ، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں ، ابر و باد کی تردستیاں ، عالم قدس کے انفاس پاک ، توحید ابراہیم ، جمال یوسف ، معجز طراز موسیٰ ، جاں نوازی مسیح (ع)، سب اسی لئے تھے کہ یہ متاع ہائے گراں شہنشاہ کونین کے دربار میں کام آئیں گے۔ آج کی صبح ۔۔۔ وہی جاں نواز، وہی ساعت ہمایوں ، وہی دور فرخ فال ہے۔ آج کی رات ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گرگئے، آتش کدہ فارس بجھ گیا۔ دریائے ساوہ خشک ہوگیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایوان کسریٰ ہی نہیں ، بلکہ شان عجم ، شوکت روم، اوج چین کے قصرہائے فلک بوس گر پڑے ، آتش کدہ فارس ہی نہیں ، بلکہ آتش کدہ کفر، آزرکدہ گمراہی سرد ہوکر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی۔ بُت کدے خاک میں مل گئے ، شیرازہ محبوسیت بکھر گیا ، نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑ گئے۔ توحید کا غلغلہ اٹھا ، چمنستان سعادت میں بہار آگئی، آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں۔ اخلاق انسانی کا پرتو قدس سے چمک اٹھا۔ یعنی یتیم عبداللہ، جگرگوشہ آمنہ ، شاہ حرم، حکمران عرب ، فرماں روائے عالم ، شہنشاہ کونیں عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اللّھمّ صلّ علیہ و علی الہ و اصحابہ و سلّم۔ ( شبلی نعمانی / سیرت النبّی )
آپ کی ولادت سے متعلق بہت سے ایسے امور رونما ہوئے جو حیرت انگیز ہیں؛ آپ مختون اور ناف بریدہ تھے آپ کے ظہور فرماتے ہی آپ کے جسم سے ایک ایسا نور ساطع ہوا جس سے ساری دنیا روشن ہو گئی، آپ نے پیدا ہوتے ہی دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر سجدہ خالق ادا کیا پھر آسمان کی طرف سر بلندکر کے تکبیر کہی اور ”لاالہ الااللہ انا رسول اللہ“ زبان پر جاری کیا۔ (بروایت ابن واضح المتوفی 292ھ) شیطان کو رجم کیاگیا اور اس کا آسمان پر جانا بند ہو گیا، ستارے مسلسل ٹوٹنے لگے تمام دنیا میں ایسا زلزلہ آیا کہ تمام دنیاکے کنیسے اور دیگر غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مقامات منہدم ہو گئے ، جادو اور کہانت کے ماہر اپنی عقلیں کھو بیٹھے اوران کے مو¿کل محبوس ہوگئے ایسے ستارے آسمان پرنکل آئے جنہیں کسی نے کبھی نہ دیکھا تھا ساوہ کا دریا خشک ہو گیا وادی سماوہ جو شام میں ہے اور ہزار سال سے خشک پڑی تھی اس میں پانی جاری ہو گیا، دجلہ میں اس قدر طغیانی ہوئی کہ اس کا پانی تمام علاقوں میں پھیل گیا کاخ کسریٰ میں پانی بھر گیا اور ایسا زلزلہ آیا کہ ایوان کسریٰ کے 41 کنگرے زمین پر گر پڑے اور طاق کسریٰ شگافتہ ہوگیا، اور فارس کی وہ آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھی، فوراً بُجھ گئی۔ (تاریخ اشاعت اسلام دیو بندی 812 طبع لاہور)
اسی رات کو فارس کے عظیم عالم نے جسے (موبذان موبذ) کہتے تھے، خواب میں دیکھاکہ تند و سرکش اور وحشی اونٹ، عربی گھوڑوں کوکھینچ رہے ہیں اور انہیں بلاد فارس میں متفرق کر رہے ہیں، اس نے اس خواب کا بادشاہ سے ذکر کیا۔ بادشاہ نوشیرواں کسریٰ نے ایک قاصدکے ذریعہ سے اپنے حیرہ کے گورنر نعمان بن منذرکوکہلا بھیجا کہ ہمارے عالم نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے تو کسی ایسے عقلمند اور ہوشیار شخص کو میرے پاس بھیج دے جو اسکی اطمینان بخش تعبیر دے کر مجھے مطمئن کر سکے۔ نعمان بن منذر نے عبدالمسیح بن عمرالغسافی کو جو بہت لائق تھا بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ نوشیروان نے عبدالمسیح سے تمام واقعات بیان کئے اوراس سے تعبیر کی خواہش کی، اس نے بڑے غور و خوض کے بعد عرض کی”اے بادشاہ شام میں میرا ماموں ”سطیح کاہی“ رہتا ہے وہ اس فن کا بہت بڑا عالم ہے وہ اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے۔ نوشیرواں نے عبدالمسیح کو حکم دیا کہ فوراً شام چلا جائے چنانچہ روانہ ہوکر دمشق پہنچا اور بروایت ابن واضح ”باب جابیہ“ میں اس سے اس وقت ملا جبکہ وہ عالم احتضار میں تھا، عبدالمسیح نے کان میں چیخ کر اپنا مدعا بیان کیا۔ اس نے کہاکہ ایک عظیم ہستی دنیا میں آ چکی ہے ۔ (روضہ الاحباب ج 1، ص 65، سیرت حلبیہ ج 1 ص 38، حیات القلوب ج 2 ص 64، الیعقوبی ص 9)۔
آج ہم مسلمان پوری دنیا میں اس ہستی کا یو م ولادت پورے جوش ولولے اور احترام سے منا رہے ہیں جن کے بارے میں حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے :
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ہمیں نبی کریم کا یوم ولادت واقعی شان وشوکت سے منانا چاہیے لیکن نبی محترم و مکرم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور آپ کا قربت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ آپ کے اسوہ¿ حسنہ پر کاربند رہنا ہے۔ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟
آپ کی ولادت سے متعلق بہت سے ایسے امور رونما ہوئے جو حیرت انگیز ہیں؛ آپ مختون اور ناف بریدہ تھے آپ کے ظہور فرماتے ہی آپ کے جسم سے ایک ایسا نور ساطع ہوا جس سے ساری دنیا روشن ہو گئی، آپ نے پیدا ہوتے ہی دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر سجدہ خالق ادا کیا پھر آسمان کی طرف سر بلندکر کے تکبیر کہی اور ”لاالہ الااللہ انا رسول اللہ“ زبان پر جاری کیا۔ (بروایت ابن واضح المتوفی 292ھ) شیطان کو رجم کیاگیا اور اس کا آسمان پر جانا بند ہو گیا، ستارے مسلسل ٹوٹنے لگے تمام دنیا میں ایسا زلزلہ آیا کہ تمام دنیاکے کنیسے اور دیگر غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مقامات منہدم ہو گئے ، جادو اور کہانت کے ماہر اپنی عقلیں کھو بیٹھے اوران کے مو¿کل محبوس ہوگئے ایسے ستارے آسمان پرنکل آئے جنہیں کسی نے کبھی نہ دیکھا تھا ساوہ کا دریا خشک ہو گیا وادی سماوہ جو شام میں ہے اور ہزار سال سے خشک پڑی تھی اس میں پانی جاری ہو گیا، دجلہ میں اس قدر طغیانی ہوئی کہ اس کا پانی تمام علاقوں میں پھیل گیا کاخ کسریٰ میں پانی بھر گیا اور ایسا زلزلہ آیا کہ ایوان کسریٰ کے 41 کنگرے زمین پر گر پڑے اور طاق کسریٰ شگافتہ ہوگیا، اور فارس کی وہ آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھی، فوراً بُجھ گئی۔ (تاریخ اشاعت اسلام دیو بندی 812 طبع لاہور)
اسی رات کو فارس کے عظیم عالم نے جسے (موبذان موبذ) کہتے تھے، خواب میں دیکھاکہ تند و سرکش اور وحشی اونٹ، عربی گھوڑوں کوکھینچ رہے ہیں اور انہیں بلاد فارس میں متفرق کر رہے ہیں، اس نے اس خواب کا بادشاہ سے ذکر کیا۔ بادشاہ نوشیرواں کسریٰ نے ایک قاصدکے ذریعہ سے اپنے حیرہ کے گورنر نعمان بن منذرکوکہلا بھیجا کہ ہمارے عالم نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے تو کسی ایسے عقلمند اور ہوشیار شخص کو میرے پاس بھیج دے جو اسکی اطمینان بخش تعبیر دے کر مجھے مطمئن کر سکے۔ نعمان بن منذر نے عبدالمسیح بن عمرالغسافی کو جو بہت لائق تھا بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ نوشیروان نے عبدالمسیح سے تمام واقعات بیان کئے اوراس سے تعبیر کی خواہش کی، اس نے بڑے غور و خوض کے بعد عرض کی”اے بادشاہ شام میں میرا ماموں ”سطیح کاہی“ رہتا ہے وہ اس فن کا بہت بڑا عالم ہے وہ اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے۔ نوشیرواں نے عبدالمسیح کو حکم دیا کہ فوراً شام چلا جائے چنانچہ روانہ ہوکر دمشق پہنچا اور بروایت ابن واضح ”باب جابیہ“ میں اس سے اس وقت ملا جبکہ وہ عالم احتضار میں تھا، عبدالمسیح نے کان میں چیخ کر اپنا مدعا بیان کیا۔ اس نے کہاکہ ایک عظیم ہستی دنیا میں آ چکی ہے ۔ (روضہ الاحباب ج 1، ص 65، سیرت حلبیہ ج 1 ص 38، حیات القلوب ج 2 ص 64، الیعقوبی ص 9)۔
آج ہم مسلمان پوری دنیا میں اس ہستی کا یو م ولادت پورے جوش ولولے اور احترام سے منا رہے ہیں جن کے بارے میں حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے :
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ہمیں نبی کریم کا یوم ولادت واقعی شان وشوکت سے منانا چاہیے لیکن نبی محترم و مکرم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور آپ کا قربت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ آپ کے اسوہ¿ حسنہ پر کاربند رہنا ہے۔ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟
No comments:
Post a Comment