علامہ اقبالؒ اور مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
علامہ اقبالؒ نہ صرف بلند پایہ مفکر اور عظیم المرتبت شاعر تھے بلکہ وہ بہت بڑے عاشق رسول بھی تھے۔ ان کی منظومات،خطوط اور دیگر نثر پارے اس امر کے شاہد ہیں کہ انہیں حبیب خدا اور محبوب کبریا حضرت محمد مصطفےٰ کی ذات و صفات مجموعہ کمالات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ ہادی¿ کامل کا نام مبارک سنتے ہی آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ان کے جذبہ¿ عشق رسول کا بنیاد محض اعتقادی نہیں تھا بلکہ یہ فکری بھی تھی۔انہوں نے رسولِ کریم کے سواحِ حیات کا بغور مطالعہ کیا تھا جس کی بنا پر انکے موروثی عشقِ رسول میں بہت زیادہ پختگی اور وارفتگی کی مثال پیدا ہوگئی تھی۔ قدیم عرب کے غیر متمدن ماحول میں پرورش پاکر امین و صادق کا لقب پانا اور ماحول کی کثافتوں کو چند سالوں میں روحانی اور انسانی اقدار کی لطافتوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تبدیل کردینا کوئی معمولی معجزہ نہیں تھا۔
صدیوں کی کدورتوں کے دور سے محبت و اخوت کے لازوال رشتوں میںجنگجو عربوں کو باندھ دیناایک عدیم النظیر واقعہ تھا۔علاوہ ازیں انسانی معاشرت کے تمام اہم گوشوں میں عظیم انقلاب برپا کرکے ایک نئی دنیائے تہذیب و تمدن کی تشکیل کرنا ایک عہد آفرین شخصیت اور رحمت عالم ہی کا کام تھا۔دنیاکی بڑی بڑی شخصیتیں کسی ایک فن یا کمال کے سبب مشہور اور عظیم ہیںمگرنبی اکرم کی ذات بابرکات کا کرشمہ ملاحظہ ہوکر وہ ہر باب میں بے مثال تھے۔گفتار، کردار،ا قدار، اخلاقی، معاشرتی، روحانی، عسکری اورسیاسی میدانوں میں وہ لا جواب اور یگانہ¿ روزگار تھے۔کیا دنیا میں کسی اور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ روزانہ دنیا کے گوشے گوشے میں خدا کے نام کے ساتھ اس کا نام عزت و احترام سے پکارا جائے اور اسکی ہر ایک ادا پر درود و صلوٰة کا نذرانہ پیش کیاجائے؟ ایسی ہم گیرانہ دلنواز شخصیت کا ذکر جمیل دل و دماغ کی تنویر اور فلاح و کامرانی کا سب سے بڑا موثر ذریعہ ہوتا ہے۔شاعر مشرقؒ کی شاعری کے تار و پود میں عشقِ رسول کا جذبہ اس قدر رچا لیا ہے جس طرح سونے کی انگوٹھی میں ہیرے کا نگینہ جڑا ہو۔
عام نسبت گو شاعر زیادہ تر جذبہ¿ محبت کی شدت اور ذاتی حالات پر زور دیتے ہیں بہت کم شعراءجذبات کی شدت کے ساتھ ساتھ بلندی¿ افکار اور جدتِ خیالات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ علّامہ اقبالؒ بہترین شاعر ہونے کے علاوہ بلند مرتبہ فلسفی اور مفکر بھی تھے اسلئے انہوں نے بڑی خوبصورت سے گہرے جذبات کو اعلیٰ افکار کے ساتھ اس طرح ملا دیا ہے کہ انکی شاعری کو نئی آب و تاب میسر آگئی ہے۔ جذبات نگاری اور فلسفہ طرازی کا یہ دلچسپ اور وجدآور امتزاج درج ذیل اشعار میں یوں پیش کیا گیا ہے۔ وہ رحمتِ عالم اور سرکارِ دو جہاں کی بارگاہ میں اس طرح نعت سرا ہوتے ہیں....
آیہ¿ کائنات کا معنی¿ دیر بایاب تُو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بُو
لَوح بھی تُو قَلَم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہءرنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّہ¿ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِجنیدو بایزید تیرا جمالِ بے نقاب
شوق ترا اگرنہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
٭٭٭
وہ دانائے سُبل،ختم الرسل،مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی¿ سینا!
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طاہا
علامہ اقبالؒ کو اس بات کا سخت صدمہ ہے کہ توحید کا عقید ہ رکھنے اور عشق رسول کا بلند دعویٰ کرنے والے مسلمان عوام اور مذہبی راہنما دراصل اپنی آستینوں میں دولت اور منصب و اقتدار کی خواہش کے کئی بُت چھپائے ہوئے ہیں اور عجمی نظریات نے اسلام کے چشمہ¿ صافی کو گدلا کر رکھ دیا ہے۔ان حالات میں وہ انہیں اسلامی تعلیمات کے پیغام سے آشنا کرکے حیات نو دینے کے خواہاں ہیں۔اس بنیادی نکتے کو وہ اپنی ایک نظم” عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمة للعالمین“ میں الفاظ کا یوں حسین جامہ پہناتے ہیں....
اے ظہور ِتُو شباب زندگی!
جلوہ رت تعبیرِ خواب زندگی
اے زیں از بارگاہت ارجمند!
آسماں از بوسہ¿ بامت بلند
مسلم ازسِرّ نبی بیگانہ شد
باز ایں بیت الحرم تبخانہ شد
ازمنات و لات و عزّیٰ و ہُبل
ہر یکے دارد بُتے اندر بغل
شیخ ما از برہمن کافر تر است
زانکہ رُو راسومنات اندر سراست
مُردہ بُود از آبِ جواں گفتمش
سّرِے از اسرارِ قرآں گفتمش
محفل از شمعِ نوا افروختم
قوم رارمزِ حیات آموختم
( حضور ! آپ کا ظہور زندگی کا شباب ہے اور آپ کا جلوہ زندگی کے خواب کی تعبیر ہے۔آ پکی بارگاہ کی وجہ سے زمین ارجمند ہوئی ہے اور آسمان آپ کے روضہ کی چھت کو بوسہ دے کر بلند ہے۔مسلمان نبی کی نبوت کے راز سے بیگانہ ہوچکا ہے اور کعبہ دوبارہ بُت خانہ کی مانند ہوگیا ہے۔ہر ایک مسلمان اپنی بغل میں لات و منات،عزّیٰ اور ہبل کا بُت رکھتا ہے۔ہمارا شیخ (مذہبی رہنما) برہمن سے زیادہ کافر نظر آتا ہے کیونکہ اس کا سر سومنات بن گیا ہے۔مسلمان مُردہ ہوگیا ہے اور میں نے اسے آب حیات کا پتہ دیا ہے اور اسے قرآن کے اسرار سے آگاہ کیا ہے۔میں نے اپنی شاعری کی شمع سے محفل کو روشن کردیا ہے اور اپنی قوم کو زندگی کے راز کا درس دیا ہے)۔
علامہ اقبال کے نعتیہ کلام کا مکمل جائزہ لینے کیلئے کئی صفحات درکار ہیں۔میں نے بڑے اختصار کے ساتھ انکے نعتیہ اشعار کی چند نمایاں ترین خصوصیات کا تذکرہ کرنے پر اکتفا کیا ہے۔شاعرِ مشرقؒ کی نعت گوئی بلاشبہ اردو شاعری کی آبرو اور ملت اسلامیہ کی پُر سوز اور ایمان پرور متاعِ حیات ہے۔نعت پیغمبر نے انکے کلام پر ابدیت کی مہر ثبت کردی ہے۔یہ معجزہ بھی رسالتِ محمدی کی بیّن دلیل ہے۔اگر یہ کہاجائے کہ شاعرِ مشرقؒ کے کلام کے متن میں قرآنی تعلیمات اور عشقِ نبی کی روح بولتی ہے تو یہ مبالغہ نہیں۔حضرت علّامہ اقبال کے نزدیک عشق رسول کا معیار تقلیدِ رسول ہے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں۔”مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسوہ¿ رسول کو مدنظر رکھیںتاکہ جذبہ¿ تقلید اور جذبہ¿ عمل قائم رہے“۔(میلاد النبی کے موقع پر تقریر1926ئ)
علامہ اقبالؒ نے جس عظیم ترین انسانی ہستی کی مدح سرائی کی ہے اس پر اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتے صلوٰة و سلام بھیجتے ہیں۔ایسی بے نظیر ہستی کی شان دیکھئے کہ خود خالق کائنات اس کا گرویدہ ہے۔دنیا کی تاریخ کے اوراق الٹتے جائے آپ کو کہیں رسول کریم جیسی ہم جہت،مجموعہ¿ کمالات، مونس و غم خو ار اور انقلابی شخصیت نظر نہیں آئیگی جس میں تمام طاہری اور باطنی خوبیاں بدرجہ¿ اتم موجود ہوں۔ بلاشبہ آپ کی رسالت تمام دنیا والوں کیلئے بہترین نمونہ¿ عمل اور اسوہ¿ کامل کی حامل ہے۔ہادی¿ اعظم تمام امیرو غریب حاکم و محکوم ،سپہ سالاروں، سیاستدانوں، مصلحین، مفکرین‘ قانون سازوں اور راہنماﺅں وغیرہ کیلئے اسوہ¿ حسنہ کی حیثیت رکھتے ہیںجیسا کہ ارشاد خداوندی ہے” لَقَد کان لَکُم فی رسول اللہ اُسوَةُ حَسنة“( تحقیق ہمارے لئے رسول اللہ بہترین نمونہ ¿ عمل ہے)
No comments:
Post a Comment