Search This Blog

Friday 25 January 2013

صبح میلاد‘ نئے دور کا آغاز

صبح میلاد‘ نئے دور کا آغاز

کالم نگار  |  ڈاکٹر علی اکبر الازہری




ربیع الاول کا دامن ان سعید ساعتوں کا امین ہے جو ماہ و سال کی لاکھوں گردشوں کی نقیب ٹھہریں۔ قدرت ان تقدس مآب لمحات پر آج تک رشک کناں ہے جو آمد مصطفی کیلئے وقف تھیں۔ خالق ارض و سما کو بھی وہ صبح بہاراں یقینا محبوب ہوگی جب اس کا شاہکار تخلیق حسن مطلق کے جلوﺅں کا مظہر بن کر رونق بزم جہاں ہورہا تھا۔ جس طرح زمین کا کوئی حصہ انوار و تجلیات الہٰیہ کی بارش کیلئے حرمین کا مقابلہ نہیں کرسکتا اسی طرح وقت کا وہ لمحہ تقدس اور احترام میں صدیوں پر محیط ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول کو اہل زمین کے درمیان مبعوث فرمایا۔ اسی وجہ سے اہل عشق و محبت ہمیشہ سے ۲۱ ربیع الاول کے دن میلاد رسول کا جشن ذوق و شوق سے مناتے آتے ہیں کہ یہ دراصل اللہ جل مجدہ کے اس احسان عظیم پر اظہار شکر و سپاس ہے جو اس نے اہل ایمان پر بعثت رسول کی صورت میں فرمایا۔ لاکھوں سلام ہوں اس ساعت دل افروز پر جب وادی مکہ میں سیدہ آمنہ کی گود کو بطحا کے چاند نے منور فرمایا۔ نبی محتشم رسول اکرم کی بعثت جس طرح غیر معمولی واقعہ تھی اسی طرح وہ معاشرہ اور وقت بھی غیر معمولی نوعیت کا حامل تھا اس لئے نہیں کہ اس میں اعلیٰ انسانی اقدار کی پامالی ہورہی تھی بلکہ اس لئے غیر معمولی تھا کہ انسانیت سرے سے ناپید ہوچکی تھی۔ وہ کونسی برائی تھی جو اس وقت کے عربوں کی عادت میں شامل نہ تھی۔ عصمت فروشی سے لے کر انسان فروشی تک کے بازار لگتے تھے۔ غلامی کے پھندوں میں جکڑے ہوئے انسانوں کے ساتھ حیوانوں سے بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ عورتوں سے اس قدر نفرت بڑھ گئی تھی کہ بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ”حق“ اسی کے پاس تھا جو طاقتور تھا۔ زیادہ معزز وہی تھا جس کی دھونس زیادہ تھی۔ گویا دنیا میں ظلم و جبر ہی قانون تھا اور یہی دستور حیات۔ اسی شب تاریک کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے اس نور سرمدی کو ظہور بخشا۔۔۔ جسے ہم صبحِ میلاد کہتے ہیں۔
صبحِ میلاد دراصل صبحِ انقلاب تھی کیونکہ یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ نہ صرف مکہ میں رہنے والوں کیلئے بلکہ پورے عرب و عجم کے سب انسانوں کیلئے ۔۔۔ حضور کی ولادت و بعثت دنیا میں نئے نظام کا آغاز تھا۔ انسانیت نواز اور حق و انصاف پر مبنی نظامِ سیاست و معیشت اور شاہکارِ ربوبیت کے شایانِ شان نظامِ تعلیم و تربیت کا آغاز۔ اس الوہی نظام کے خدوخال قرآنی آیات اور اسوہ¿ رسول کے ذریعے مکہ مکرمہ میں واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔ قرآن حکیم کی پہلی وحی سے تعلیم و تفکیر کی دعوت کا آغاز ہوگیا تھا۔ جوں جوں قرآن اترتا گیا توں توں روشنی پھیلتی چلی گئی۔ علم کی روشنی، عقائدِ حقہ کی روشنی اور عملِ صالح کی روشنی۔۔۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی گئی تو صاف ظاہر ہے صدیوں سے بت پرستی کرنے والوں نے نبی اکرم کی دعوت اسلام کو ابتداءمیں رد کردیا لیکن اسلام کی تعلیمات اور پیغمبرِ اسلام کی سیرت و کردار میں جو کشش اور اپنائیت تھی، اسکے اثرات معاشرے میں تیزی سے سرائیت کررہے تھے۔ ان اثرات کو مظلوم طبقات نے زیادہ تیزی سے قبول کیا۔ ان طبقات میں غلام، بے آسرا اور کمزور لوگ پیش پیش تھے۔ کیونکہ انہیں پہلی مرتبہ معلوم ہورہا تھا کہ کوئی مسیحا ایسا بھی آیا ہے جسے ان کمزوروں کے مسائل اور مصائب کی فکر ہے۔ اسکی نظر میں امیر و غریب، حاکم و محکوم، مردو عورت، کالا اور گورا حتی کہ آقا اور غلام کی حیثیت برابر ہے۔ انسانی مساوات اور کمزوروں کے حقوق کا احترام اس معاشرے میں چونکہ ایک اجنبی تصور تھا اس لئے یہی چیز اس کا پہلا تعارف ثابت ہوئی۔ پسے ہوئے لوگوں نے اسلام کے دامن سے وابستگی اختیار کرنا شروع کی تو ان کے آقاﺅں کو فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے مصطفوی مشن کی شدید مخالفت شروع کردی۔ حضور نے بعثت سے ہجرت تک پورے 13 سال اس مخالفت، مخاصمت اور اہانت آمیز رویوں کا جرا¿ت، استقامت اور حکمت سے مقابلہ کیا حتی کہ آپ نے مادر وطن چھوڑ کر یثرب جانے اور اسے اسلامی تحریک کا اگلا مرکز بنانے کا فیصلہ فرمایا۔ 
محبوبِ خدا کے قدم چوم کر خاکِ یثرب رشکِ فلک بن گئی۔ یہ شہر حضور کے جلوﺅں سے مدینة المنورہ ہوگیا اور اسکے رہنے والوں پر اللہ پاک نے بے پایاں رحمتوں کا نزول فرمایا۔ ان خوش بخت لوگوں نے اللہ کے محبوب رسول کیلئے اہل مکہ کے برعکس کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے انکے سینے اسلام کیلئے بھی جلد کھول دیئے۔ رسول اکرمنے حیات طیبہ کا بقیہ حصہ اسی شہر دلربا میں گزارا حتی کہ فتح مکہ کے بعد بھی آپ نے دوبارہ اہل مدینہ کے ساتھ ہی رہنے کو ترجیح دی۔ مدینہ منورہ میں حضور نے جس سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور روحانی انقلاب کو منظم فرمایا اسے اب ساری دنیا تک پھیلنا تھا۔ چنانچہ حضور کے صحابہ کرامؓ نے اس الوہی مشن کو دنیا کے کونے کونے میں پہچانے کا عزم کرلیا ۔ اقوام کی تاریخ میں یہ انوکھا واقعہ ہے کہ چند سالوں کے اندر اندر تین براعظموں میں اسلام کا پرچم لہرا دیا گیا۔ یہ معجزہ صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ جذبوں اور خالص امنگوں کے طفیل ممکن ہوا۔
اسلامی تحریک اور مصطفوی مشن کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ کا پیغامِ حق تھا جس میں انسان کی دنیوی اور اخروی نجات اور کامیابی کی ضمانت تھی۔ گویا اسلام نے ہر اس اختیار اور طاقت کو چیلنج کردیا جو مخلوق خدا کے حقوق کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اسکی ایک واضح مثال واقعہ کربلا ہے جو اقتدار اور کردار کے درمیان ایک تاریخ ساز معرکہ ہے۔ نواسہ رسول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ مصطفوی کردار کے نمائندے تھے اور چاہتے تھے کہ جس نظام ریاست کو رسول اکرم اور خلفائے راشدینؓ نے جگر کا خون دیکر قائم کیا وہ پوری نسل انسانی تک من و عن پہنچ جائے مگر یزید روائتی ملوکیت و روائتی شہنشاہیت کا نمائندہ بن کر دھونس اور دھاندلی سے حکومت مسلط کرنا چاہتا تھا۔ یہ وہ بنیادی نقصان تھا جو اسکی جاہ پرستی سے اسلامی تاریخ کو پہنچ رہا تھا اور فرزند رسول جگر گوشہ بتولؓ نے اپنے اور اپنے اہل و عیال کی معصوم جانوں کی قربانی دی اور کربلا کے ریگزاروں میں اپنا مقدس خون بہا کر شجر اسلام کی آبیاری بھی فرمائی۔ 
اسلامی تاریخ کے تمام قابل ذکر ادوار ملوکیت کے زیر اثر رہے تاہم ان بادشاہوں میں اچھے برے لوگ موجود رہے۔ نیک اور عادل بادشاہوں نے اسلام کی خدمت بھی کی اور ہوس پرستوں نے اسلام کو بازیچہ اطفال بھی بنایا۔ مگر چونکہ اسلام کا نظام تعلیم و تربیت، نظام عدل و انصاف، نظام معاشرت و معیشت اہل افراد کے ہاتھوں میں رہا، اس لئے بادشاہت کی خرابیاں براہ راست عوام تک نہیں پہنچ پائیں۔



No comments:

Post a Comment