حضورنبی کریم بحیثیت ِداعی اعظم
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاءکی آخری کڑی ہے اور اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور پر نبوت و رسالت ہی نہیں ، فہم و فراست ، ذہانت و فطانت بھی ختم کردی تھی ۔پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے جو بہترین نظام زندگی اس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر قیامت تک کے لئے ہوسکتاتھا ، وہ نظام زندگی اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاءکے ذریعہ اپنی کامل اور اکمل ترین شکل میں دے دیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے : ۔
ترجمہ:اے نبی ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بنا کر ۔ بشارت دے دوان لوگوں کو جوتم پر ایمان لائے ہیں ، کہ ان کے لئے اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔(الاحزاب ۔۔۔۴۵تا۴۷)
حضور ﷺختمی مرتبت نے ان اہل ایمان کو اللہ کے جس فضل کبیر کی بشارت دی ، وہ ایک ایسے نظام زندگی کی صورت میں برپا کرکے دکھا دیا ، جس نے ہر طاقتور کو کمزور کرکے رکھ دیا جب تک اس سے کسی کا غصب شدہ حق واپس نہ لے لیا اور ہر کمزور کو طاقتور بنادیا جب تک اسے اس کا حق نہ دلا دیا۔ حکومت و اقتدار ،ذریعہ عیش و عشرت کی بجائے کانٹوں کی سیج بن کر رہ گئے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک بے آسرا و بے سہارا ضعیفہ بھی امیرالمومنین کا گریبان پکڑ کر اپنا حق وصول کرلیتی تھی ۔
آنحضورکی دعوت کے عمل میں ایک ہی جذبہ ، ایک ہی روح اور ایک ہی خواہش نظر آتی ہے کہ مخاطب کسی طرح حق کی آواز سن لے اور اس کی صداقت کو تسلیم کرلے ۔ حضورنے ہمیشہ اپنے مخاطبین کو بھی مختلف وجوہ سے اپنی بے غرضی و ایثار کا احساس دلایا ۔ حضور فرمایاکرتے تھے کہ ”میں اس کام کا تم سے صلہ نہیں مانگتا “اور”میرا صلہ تو خدا ئے رب العالمین ہی کے ذمے ہے ۔“
غزوہ اُحد میں حضور کو لہو لہان کردیاگیاتھا ، شدید ترین اذیت کے لمحات میں آنحضورنے دعا فرمائی ۔”اے اللہ میری قوم کو بخش دے ، یہ حقیقت کا علم نہیں رکھتے “(مسلم )۔ طائف کے سفر میں آپسے جو سلوک روا رکھا گیاوہ ناقابل بیان ہے مگر ان کے حق میں بھی آنحضورنے بد دعا نہیں کی بلکہ اس توقع کا اظہار فرمایا کہ ان کی اولاد تو ایمان لے آئے گی، چند ہی سالوں بعد یہ توقع پوری ہوگئی تھی ۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضورسے عرض کیا کہ یوم احد سے بھی زیادہ سخت دن آپ پر آیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری قوم کی جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ اٹھائی ہیں اور سب سے زیادہ تکلیف جو میں نے اٹھائی وہ عقبہ کے دن تھی ۔ جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبدیالیل کے سامنے پیش کیا ،تو اس نے مجھے اپنی حفاظت میں لینا قبول نہ کیا پھر میں رنجیدہ ہو کر سیدھا چلا ۔ ابھی میں ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سراٹھایا تو بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا ۔ میں نے دیکھا تو اس میں جبریل تھے ۔ انہوںنے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپسے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ۔ اب اللہ نے پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ اس کو آپایسے کافروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں ۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا ۔ اے محمد!یہ سب کچھ آپکی مرضی ہے اگر آپ چاہیں تو میں دو پہاڑوں کو ان کافروں پر لا کر رکھ دوں ؟تو رسول اللہ نے فرمایا ۔ نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہیں کریں گے۔
یہ ایک داعی کی دلسوزی ، خیر خواہی اور ہمدردی کی بہترین مثالیں ہیں ، ایسے ہی طرز عمل سے ایک بہترین مخالف بھی بالآخر حق کی طرف ضرور کھنچتاہے ۔ اگر آج ہم حضورکے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضورکے مشن کو پیش نظر رکھیں اور داعی اعظم نے دعوت کو پھیلانے کے سلسلے میں جو ہدایات ارشاد فرمائیں ، ان پر عمل کریں تو ہماری دعوت موثر اور مفید ہوگی ۔ ہم آسانیاں پیدا کرنے والے بن جائیں گے ۔ نفرتوں کو ختم کرسکیں گے اور محبت و رواداری کا درس دے سکیں گے ۔ ہم حضورکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی دعوت کے کام میں جانیں گھلانے والے بن جائیں گے۔ ہمہ وقت دعوت کے کام میں منہمک ہو جائیں گے اور وہ دلسوزی اپنے سامنے رکھ کر مشعل راہ بنائیں گے جس کا مظاہرہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ ، طائف اور اُحد میں فرمایا تھا ۔
موجودہ دور میں دنیا بھرمیں طرح طرح کے جو فتنے اٹھائے جارہے ہیں۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے محبت و عقیدت اور عشق کے جذبے کو فروزاں کریں۔ حضور نبی پاک سے عشق و محبت اُمت مسلمہ کا اصل سرچشمہ اور قوت کا خزانہ ہے۔ اسلام دشمن قوتیں اس خزانے کو لوٹنے کے درپے ہیں۔ ہمیں اس خزانے کی حفاظت کرنی ہے اور حُرمتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جانیں تک قربان کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔
ترجمہ:اے نبی ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بناکر اور روشن چراغ بنا کر ۔ بشارت دے دوان لوگوں کو جوتم پر ایمان لائے ہیں ، کہ ان کے لئے اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔(الاحزاب ۔۔۔۴۵تا۴۷)
حضور ﷺختمی مرتبت نے ان اہل ایمان کو اللہ کے جس فضل کبیر کی بشارت دی ، وہ ایک ایسے نظام زندگی کی صورت میں برپا کرکے دکھا دیا ، جس نے ہر طاقتور کو کمزور کرکے رکھ دیا جب تک اس سے کسی کا غصب شدہ حق واپس نہ لے لیا اور ہر کمزور کو طاقتور بنادیا جب تک اسے اس کا حق نہ دلا دیا۔ حکومت و اقتدار ،ذریعہ عیش و عشرت کی بجائے کانٹوں کی سیج بن کر رہ گئے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک بے آسرا و بے سہارا ضعیفہ بھی امیرالمومنین کا گریبان پکڑ کر اپنا حق وصول کرلیتی تھی ۔
آنحضورکی دعوت کے عمل میں ایک ہی جذبہ ، ایک ہی روح اور ایک ہی خواہش نظر آتی ہے کہ مخاطب کسی طرح حق کی آواز سن لے اور اس کی صداقت کو تسلیم کرلے ۔ حضورنے ہمیشہ اپنے مخاطبین کو بھی مختلف وجوہ سے اپنی بے غرضی و ایثار کا احساس دلایا ۔ حضور فرمایاکرتے تھے کہ ”میں اس کام کا تم سے صلہ نہیں مانگتا “اور”میرا صلہ تو خدا ئے رب العالمین ہی کے ذمے ہے ۔“
غزوہ اُحد میں حضور کو لہو لہان کردیاگیاتھا ، شدید ترین اذیت کے لمحات میں آنحضورنے دعا فرمائی ۔”اے اللہ میری قوم کو بخش دے ، یہ حقیقت کا علم نہیں رکھتے “(مسلم )۔ طائف کے سفر میں آپسے جو سلوک روا رکھا گیاوہ ناقابل بیان ہے مگر ان کے حق میں بھی آنحضورنے بد دعا نہیں کی بلکہ اس توقع کا اظہار فرمایا کہ ان کی اولاد تو ایمان لے آئے گی، چند ہی سالوں بعد یہ توقع پوری ہوگئی تھی ۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضورسے عرض کیا کہ یوم احد سے بھی زیادہ سخت دن آپ پر آیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری قوم کی جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ اٹھائی ہیں اور سب سے زیادہ تکلیف جو میں نے اٹھائی وہ عقبہ کے دن تھی ۔ جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبدیالیل کے سامنے پیش کیا ،تو اس نے مجھے اپنی حفاظت میں لینا قبول نہ کیا پھر میں رنجیدہ ہو کر سیدھا چلا ۔ ابھی میں ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سراٹھایا تو بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا ۔ میں نے دیکھا تو اس میں جبریل تھے ۔ انہوںنے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپسے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ۔ اب اللہ نے پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ اس کو آپایسے کافروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں ۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا ۔ اے محمد!یہ سب کچھ آپکی مرضی ہے اگر آپ چاہیں تو میں دو پہاڑوں کو ان کافروں پر لا کر رکھ دوں ؟تو رسول اللہ نے فرمایا ۔ نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہیں کریں گے۔
یہ ایک داعی کی دلسوزی ، خیر خواہی اور ہمدردی کی بہترین مثالیں ہیں ، ایسے ہی طرز عمل سے ایک بہترین مخالف بھی بالآخر حق کی طرف ضرور کھنچتاہے ۔ اگر آج ہم حضورکے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضورکے مشن کو پیش نظر رکھیں اور داعی اعظم نے دعوت کو پھیلانے کے سلسلے میں جو ہدایات ارشاد فرمائیں ، ان پر عمل کریں تو ہماری دعوت موثر اور مفید ہوگی ۔ ہم آسانیاں پیدا کرنے والے بن جائیں گے ۔ نفرتوں کو ختم کرسکیں گے اور محبت و رواداری کا درس دے سکیں گے ۔ ہم حضورکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی دعوت کے کام میں جانیں گھلانے والے بن جائیں گے۔ ہمہ وقت دعوت کے کام میں منہمک ہو جائیں گے اور وہ دلسوزی اپنے سامنے رکھ کر مشعل راہ بنائیں گے جس کا مظاہرہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ ، طائف اور اُحد میں فرمایا تھا ۔
موجودہ دور میں دنیا بھرمیں طرح طرح کے جو فتنے اٹھائے جارہے ہیں۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے محبت و عقیدت اور عشق کے جذبے کو فروزاں کریں۔ حضور نبی پاک سے عشق و محبت اُمت مسلمہ کا اصل سرچشمہ اور قوت کا خزانہ ہے۔ اسلام دشمن قوتیں اس خزانے کو لوٹنے کے درپے ہیں۔ ہمیں اس خزانے کی حفاظت کرنی ہے اور حُرمتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جانیں تک قربان کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment