Search This Blog

Friday, 27 April 2018

نعت، کچھ روایتی اور کچھ غیرروایتی معروضات


نعت، کچھ روایتی اور کچھ غیرروایتی معروضات
ناصر عباس نیّر

ہرزہ سرائی سے مراد محض دیگر اصناف شعر نہیں، جن کی اہمیت شاعر کی نظر میں کم ہوجاتی ہے،بلکہ نعت کہنے والی زبان، مختلف نقطہ ء نظر ، مختلف مذہب ومسلک کے حامل لوگوں کے خلاف نازیبا الفاظ ادا کرنے سے ابا کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام طرح کے سماجی فساد ہرزہ سرائی سے شروع ہوتے ہیں۔اس بات پر باردگر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت چوں کہ اس زبان کے ذریعے ثقافت کا حصہ بنتی ہے،جسے سب مذاہب کے لوگ ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں، اس لیے عقیدت سے تشکیل پذیر ہونے والی نشانیات ہندئوں ، سکھوں اور وسرے مذاہب کے شعرا کو بھی نعت لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ان کی نعتیں ،پیمبر اعظم ﷺ کی ذات کی بے غرضانہ مدحت کے ساتھ ساتھ ، یہ امر بھی باور کراتی ہیں کہ سچائی،اپنے لیے عقیدت مند خود پیدا کرلیتی ہیں،اور یہ عقیدت مند سماجی ہم آہنگی کی قابل قدر علامت ہوتے ہیں۔
عشق کا جذبہ ،عقیدت کا مقابل نہیں ،مگر عقیدت سے کہیں زیادہ گہرا ہے ۔عقیدت میں رسمیت ہوسکتی ہے ،مگر عشق میں نہیں؛عقیدت میں ایک طرح کی اجتماعیت ہے ،مگر عشق انفرادی ،داخلی ،موضوعی ہے۔اگر عقیدت کے تحت لکھی گئی نعت ایک ثقافتی کردار اداکرتی ہے ،تو عشق ِ نبی ﷺ میں لکھی گئی نعتیں ،روحانی رفعت اور نفسیاتی قلبِ ماہیت ممکن بنانے کا غیر معمولی امکان رکھتی ہیں۔تاہم ایک فرد کی روحانی رفعت کبھی اس شخص کی ذات تک محدود نہیں رہتی؛چراغ کی مانند اس کی لو،ارد گرد کے افراد کی روحوں میں چھائی تاریکی کو مٹاتی ہے ،کبھی روحانی رفعت پانے والے کے عمل کے ذریعے، کبھی اس کے قول و گفتگو کے وسیلے سے ،اور کبھی سماج میں اس کی خاموش شرکت سے۔ واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جہاں عقیدت ہو،وہاں عشق بھی موجود ہو،مگر جہاں عشق ہوگا،وہاں عقیدت لازماً ہوگی۔دوسرے لفظوں میںکہا جاسکتا ہے کہ عشق،عقیدت کی انتہا بن سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں عشق بے بصر نہیں ہوتا؛ اس میں بھی سچائی پر یقین موجود ہوتا ہے۔عشق ِ نبی ﷺ ان عظیم صداقتوں پر اعتقاد کا حامل ہوتا ہے ،جن کا علم مستندمذہبی متون(تحریری وزبانی) کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
عشق نبی ﷺ کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد ﷺ ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیﷺ کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورت ِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیﷺ میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی ﷺ کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ احمد جاوید کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:
کا ش اس بات سے محفوظ رہیںیہ لب وگوش
جو مرے سید وسردار نے فرمائی نہیں
گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی ﷺ کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذبہ محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول ﷺکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے ،اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی ،بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے )۔جدید شاعری میں منفی قلب ِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورت حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، خالد احمد کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں۔
زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض عشق رسول ہوں
بڑی پاک خاک ہے یہ گلی، میں اسی کی دھول کا پھول ہوں
یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوئوں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلب ِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبی ﷺ کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی ﷺ میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوئوں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
عالم بشریت کی زد میں آسمان ۔۔۔یعنی وہ بلند ترین مقام ،جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،اور جس کے سبب،انسانی تخیل عظمت وبلندی کا تصور کرسکتا ہے۔۔۔کے ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی بساط کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نبی ﷺکی معراج ،بشری دنیا کو یہ تحریک دیتی ہے کہ وہ خاک سے افلاک تک پہنچے۔یہی کچھ مقدس تجرید کے عشق میں ہوتا ہے۔
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول ؐ
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول ؐ
بیدم وارثی
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
(پیر نصیر الدین پیر(
مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے ،مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول ﷺ سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی ﷺ کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوئوں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میںتعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگر اقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اقبال کی شاہکار نظم’ مسجد قرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی ،اور جو تکمیل فن کا مظہر ہوتی ہے۔

مرد خد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیںجن کا نہیں کوئی نام
عشق دم جبریل ،عشق دل مصطفیٰ
عشق خدا کارسول ،عشق خدا کا کلام
عشق کے مضراب سے نغمہ ء تار حیات
عشق سے نورحیات، عشق سے نارحیات
آخر ی بات !اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔نعت اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں نعت کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میںجب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے لگے۔پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔ نعتیہ شاعری مذہبی قومی شناخت کی تشکیل کا ذریعہ بنی،لیکن اس موضوع پر گفتگو کسی اور موقع پر!

نعتیں
افتخار عارف

دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے
درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے
میں خود یوں ہی تو نہیں آ گیا ہوں محفل میں
کہیں سے اذن ہوا ہے تو حاضری ہوئی ہے
خدا کا شکر غلامانِ شاہ بطحا میں
شروع دن سے مری حاضری لگی ہوئی ہے
مجھے یقیں ہے وہ آئیں گے وقتِ آخر بھی
میں کہہ سکوں گا زیارت ابھی ابھی ہوئی ہے
یہ سر اُٹھائے جو میں جا رہا ہوں جانبِ خلد
مرے لیے مرے آقا نے بات کی ہوئی ہے
عثمان انیس

مرے خوابوں میں آجائو مدینے جا نہیں سکتا
رُخِ زیبا دِکھا جائو مدینے جا نہیں سکتا
کرے روشن زمانے کو تُمہارا نُور ایسا ہے
میرے دِل میں سما جائو مدینے جا نہیں سکتا
یہ پانی کیا بجھائے گا مری ہے تِشنگی ایسی
کہ پھِر کوثر پِلا جائو مدینے جا نہیں سکتا
یہ مانا عشق کا میں نے بڑا گہرا سمندر ہے
مْجھے اِس میں ڈبا جائو مدینے جا نہیں سکتا
ہوا مدہوش کچھ ایسا پڑا ہوں خوابِ غفلت میں
مْجھے اِس سے جگا جائو مدینے جا نہیں سکتا
پڑا ہوں قبر میں کب سے کہ اَب جانا ہے جنت میں
مْجھے رستہ دِکھا جائو مدینے جا نہیں سکتا
تُمہارا امتی ہو کر پڑا ہوں آقا غُربت میں
مرے دِن بھی پھِرا جائو مدینے جا نہیں سکتا
نہیں ہے یاد اَب مْجھ کو سبق میں بھُول بیٹھا ہوں
مجُھے چْھٹی دِلا جائو مدینے جا نہیں سکتا
تُمہیں جو دیکھ لے عثماں بڑا ہی خُوب لِکھے گا
مجھے نعتیں سنا جائو مدینے جا نہیں سکتا
اسامہ امیر

ہم درد کے ماروں کو خزینے کی طرف سے
سرکار بلاتے ہیں مدینے کی طرف سے
یہ گل جو معطر ہے چمن زار میں اپنے
خوشبو ہے محمدؐ کے پسینے کی طرف سے
میں جائوں گا اک روز شہہِ طیبہؐ سے ملنے
آواز کوئی آتی ہے سینے کی طرف سے
حسانؓ کے صدقے سے مجھے نعت ملی ہے
میں ورنہ غزل گو ہوں قرینے کی طرف سے
آنکھوں پہ لگائوں گا انہیں روشنی دوں گا
میں خاک اٹھائوں گا دفینے کی طرف سے

حشراتُ الارض

حشراتُ الارض

قاضی مظہر الدین طارق

یہ حشرات کی دنیا ہے،اب تک صرف حشرات’انسیکٹس‘ کی نو لاکھ مختلف اَقسام ’اسپیشیز‘ اس زمین پر شناخت کی جا چکی ہیںجو سب قبیلوں میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔خیال ہے کہ بیس فیصد اور بھی ہیں جن کو اب تک شناخت نہیں کیا جا سکا ہے،(یاد رہے یہ صرف چھے پیر والے کیڑوں مکوڑوں کی بات ہو رہی ہے،چھے سے زیادہ پیروں والے جیسے: مکڑی، کیکڑے، صد پا ،وغیرہ۔اور دیگر سارے ’آرتھوپوڈز‘ ان میں شامل نہیں) ۔
یہ تو دور کی بات ہے کہ زمین پر ہم کواِن سے کیا فائدہ ہے ،اِن کی سب سے بڑی اہمیّت یہ ہے کہ اگرکسی بھی وجہ سے ان کی ساری یاچند نسلیںبھی ختم ہو جائیں تو سبزیاں اور پھل جو ہم مزے لے کر کھاتے ہیں زمین سے ناپید ہو جائیں گے ،نہ شہد ہوگا نہ ریشم ،کیا یہ کچھ کم نقصان ہوگا؟
صرف ایک شہد کی مکھی اتنے پھلوں اور سبزیوں کی ’پولی نیشن‘ میں مدد دیتی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتی توہم شہد کے علاوہ تین چوتھائی پھلوں اور سبزیوں سے محروم ہو جاتے۔
اس کے بر خلاف اگر سب انسان بھی اس زمین سے رُخست ہوجائیں تو اس زمین کی زندگی پر کچھ نمایاں فرق نہ پڑے سوائے اس کے کہ چند جونؤں اور پیٹ کے کیڑوں کو غذا کی تلاش میںذراسی مشکل ہوگی۔
پھردوسرے جانوروں کے مقابلے میںحشرات کی زندگی بھی عجیب زندگی ہے۔پیدا ہونے کے بعد، چارچار،چھے چھے، آٹھ آٹھ بالکل مختلف شکلیں تبدیل کرکے جوان ہوتی ہیں۔
حشرات اُس خاندان ’فائیلم ‘سے تعلق رکھتے ہیں جس کا نام ’آرتھو پوڈا‘ ہے۔’آرتھو‘ معنی جُڑے ہوئے، ’پوڈ‘معنیٰ پیر۔ان کے جسم کی ساخت کو قائم رکھنے کے لئے جسم کے اندر زِندَہ ہڈیوں کے بجائے باہر مُردہ خَول ہوتا ہے،جب یہ پیدا ہوکر نشونما پاتا ہے تو ان کے جسم کے لئے پرانا خَول چھوٹا پڑجاتا ہے ۔ہربار ان کو اپنا خول توڑ کر باہر آنا پڑتا پھر ان کو نیا خَول ملتا ہے۔
پھراِن میںکسی کی آدھی سے زیادہ زندگی پانی کے اندر گزرتی ہے،کوئی پھولوں کا رس چوستا ہے تو کوئی خون،کوئی دوسرے کیڑوں کو کھاتا ہے توکوئی اپنے سے بڑے جانوروں کا گوشت، تو کوئی نباتات۔
سب سے حیرت انگیززندگی ریشم کے کیڑے کی ہے ،جوجوان ہونے کے بعد کچھ کھاتا ہی نہیں صرف انڈے دیتا ہے اور مرجاتا ہے۔
اس صفحے پر ہم صرف چند ایک نمونے ہی پیش کر یں گے۔

شہد کی مکھیاں

اس کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم،ملکہ مکھی :اس کے پیدا ہو کر بڑا ہونے تک ۱۶ دن لگتے ہیں ،اس کی زندگی۲سے ۳ سال کی ہوتی ہے ۔
دوسری قسم، مَکّھے(ڈرونز):ان کوپیدا ہوکربڑے ہو نے تک۲۴ دن لگتے ہیں،ان کی زندگی دو ہفتے کی ہوتی ہے۔
تیسری قسم، مزدور مکھی(ورکر)،۲۱دن میں بڑی ہوتی ہے،اور ۶ہفتے تک زندہ رہتی ہے۔
ایک چھتّے میں تقریباًپچاس ہزار مکھیاں ہوتی ہیں۔
ملکہ مَکّھی کا کام صرف انڈے دینا ہے۔ایک چھتّے میں ایک سے زیادہ ملکہ مکھیاں پیدا ہوجائیں ، تو ایک مکھی کا فرض ہرتا ہے کہ وہ اپنی سب بہنوں کو ختم کر دے۔ملکہ مکھی اپنے چھتّے سے دور جا کردوسرے مَکھے تلاش کرتی ہے۔
مَکّھے ، ملکہ مکھی کو ڈھونڈ کر ان سے ملتے ہیں اوراس کے بعد فوراً ہی مرجاتے ہیں۔
پھرملکہ اپنے چھتّے میں واپس آکر اس کے ہر خانے میں ایک انڈہ دیتی ہے،تین سے چار دن میں اس میں سے لاروا نکلتا ہے، جس کو مزدور مکھی کھلاتی ہے۔
جب کئی مرتبہ جون تبدیل کرنے کے بعد لاروا بڑا ہوجاتا ہے تو آخر میںپیوپا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پیوپا کے اندردو ہفتے تک زبردست تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جس کے بعد وہ مکھی بن کر اپنے سخت اور مُردہ خَول کو توڑ تی ہے اور خانے سے باہرآ جاتی ہے۔

تتلیاں

یہ درخت کے پَتَّوں پر انڈے دیتی ہیں،اس سے رینگنے والا کیڑے’کیٹرپلّرز‘پیدا ہوتے ہیں ،جواِن ہی پَتَّوں کو کھاتے ہیں، بڑے ہوتے جاتے ہیں،خَول بدلتا جاتا ہے ،پھرآخر میں خود اپنے اطراف ایک خَول بنا کر خود ہی اس میں قید ہو جاتے ہیں،ہے کوئی جو اپنی مرضی سے اپنی قید خود پسند کرے؟ اس کی زندگی کے اس حصے کو ’پیوپا‘ کہتے ہیں،دیکھنے میں تو یہ مُردہ لگتا ہے کھاتاہے نہ پیتا ہے، لیکن اس کے اندر اتنا زبردست کام ہورہا ہے جو باہر سے نظربھی آتا ہے،پورے کاپورا ڈزائین ہی تبدیل ہوتا ہے، ایک رینگنے والے کیڑے سے ایک اُڑنے والی تِتْلِی بن کر باہر آ رہا ہے،اس میں حیرت بھی ہے اور غور و فکر کا اعلیٰ مقام بھی۔
آئیے !آج ایک بالکل نئی دنیا کی طرف چلتے ہیں۔

کھٹمل

اِس کی زندگی ان تینوں سے مختلف ہے۔سب سے پہلے انڈے سے ایک بچہ نکلتا ہے جس کو ’نِمْف‘ کہا جاتا ہے،یہ بچہ تقریباً اپنے ماں باپ جیسا ہی ہوتا ہے،صرف رنگ کا فرق ہوتا ہے، شروع میں یہ بہت چھوٹا اوراِس کا رنگ بالکل ہلکہ ہوتا ہے،جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے ،اس کارنگ بھورا پھر سُرخ ہوتا جاتا ہے۔
خاص کر’نمف‘بچے انسانی خون زیادہ پسند کرتا ہے،جب یہ خون پی کر اپنے سخت اور بے جان خَول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے،توپھر رب تعالیٰ اس کو دوسرا خَول عطا کرتا ہے،اس کو بچپن سے جوانی تک پانچ بار اپنا خَول بدلنا ہوتا ہے،پانچویں بار جب یہ اپنی جون بدلتا ہے تو مکمل جوان ہو چکا ہوتا ہے،اب وہ جو خون پیتا ہے تواس کارنگ زیادہ سُرخ اور پیٹ لمبا ہو جاتا ہے۔
توجہ کیجیے! اب تک ’اِنسیکٹس ‘کی نولاکھ(۰۰۰,۹۰۰) مختلف اَقسام’اسپیشیز‘دریافت ہو چکی ہیں ۔ان کو دریافت کرنے والوں،نام رکھنے والوں،پڑھنے اور پڑھانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو کہے کہ’’اللہ کے پاس ’چوآئیس‘نہیں تھی،اُس نے جو بنادیا سو بنادیا،‘‘۔اس زمین پر زندگی کاربن کی بنیاد پر ہے،کیا وہ چاہتا تو سیلیکون کی بنیاد پر حیات کو تشکیل نہیںدے سکتا تھا؟

چیونٹیاں

اس کی بھی تین قسمیں ہوتی ہیں:
پہلی قسم ،ملکہ چیونٹی۔
دوسری قسم،نر چیونٹا’ڈرون‘۔
تیسری قسم،کام والی’ورکر چیونٹی‘۔
ملکہ چیونٹی ہزاروں کی تعداد میں انڈے دیتی ہیں۔اِن سے تین قسم کے لاروے نکلتے ہیں، جن کو کام والی چیونٹیاں غذا تیار کرکے فراہم کرتی ہیں۔لاروے کھا کھا کر جب موٹے ہوتے جاتے ہیں تو ہر بار اپنا نر م خَول بدلتے جاتے ہیں۔
پھرآخر میں وہ لاروے سخت خَول والے پیوپوں میں خود اپنے آپ کو بند کر لیتے ہیں۔اور پیوپوں میں خالق جیسے چاہتا اُن کو نرم کیڑوں سے بالکل مختلف ڈیزائیں میں بنا کر باہر نکال ے آتا ہے، اِن میں سے چند ملکہ بناتے ہیں چند سونر چیونٹے’ڈرونز‘ بناتے ہیں، اور لاکھوں کی تعداد میں کام والی چیونٹیاں ’ورکر‘مادہ پیدا کرتے ہیں مگریہ انڈے نہیں دے سکتیں۔
کام والیاں کئی قسم کی ہوتی ہیں،پورے کنبے کی حفاظت کرنے والیاں’فوجی‘،باہر سے پتّے دانے لانے والیاں’شکاری‘، اِن کو جراثیم سے پاک کرنے والی ’صفائی والیاں‘،پھروہ چیوٹیاں جو سخت دانوں اور پتّوں کو خانوں میں جما کر اِس سے نرم پھپوند اُگاتی ہیں ’کاشتکارچیونٹیاں‘، تب جاکرلاروں اور پورے کنبے کو کھلاتی ہیں۔
اِن سب کے اعضاء اِن کے کام کے مطابق ہوتے ہیں،جیسے فوجی کے کاٹنے والے،شکاری چبانے والے ،صفائی والوں کے منہ سفنج جیسے تاکہ اِس سے وہ اپنے انزائیمز کا پوچا لگا سکیں۔