آآآ آٹزم۔۔۔۔۔بچوں کی ایک انوکھی بیماری
ڈاکٹرنزیرمشتاق
ڈاکٹرنزیرمشتاق
ایک
ٹی وی چینل پر سیریل ’’آپ کی انترا‘‘ دیکھنے کے بعد ایک دُکھی ماں کو
ایسا لگا کہ جیسے اس کی تین سالہ بیٹی ہی سیریل کی مرکزی کردار ’’انترا‘‘
ہے ۔ اُسے یوں لگا جیسے اس کی بیٹی بھی انترا کی طرح ’’آٹزم‘‘ میں مبتلا
ہے ۔ اس نے فون پر مجھ سے کچھ سوالات پوچھے جن کامیں نے جواب دیا لیکن وہ
مطمئن نہیں ہوئی ،پھر اُس نے خواہش ظاہر کی کہ میں ’’فکر صحت ‘‘ کالم میں
تفصیل سے اس بیماری کے متعلق لکھو۔اُس دکھیاری ماں کی خواہش کا احترام کرتے
ہوئے میں نے کمسن بچوں کی انوکھی بیماری آٹزم کے متعلق یہ مضمون لکھا ۔
آپ بھی پڑھئے اور اس بیماری کے بارے میں جانکاری حاصل کریں ۔
آٹزم
کے لغوی معنی خود فکری ، خیال پرستی ، اپنے تصورات کے سمندر میں ڈوبے رہنا
،بیرونی حقائق سے لاتعلقی ظاہرکرنا ہیں، یعنی اس بیماری میں مبتلا بچہ
’’اپنی دنیا‘‘ میں گم ہوکے رہ جاتاہے ، اسے بیرونی دنیا سے کوئی سروکار
نہیں ہوتا ۔ اس کی توجہ صر ف اپنے نفس یا ’’خودی‘‘ پر ہوتی ہے ۔
1943ء میں معروف آسٹریائی ماہر امراض نفسیات لیوکینر (Leo Kanner) نے
دو سے تین سال کی عمر کے بچوں میں ایک انوکھا سینڈروم دریافت کیا جس میں
مبتلا بچہ صرف اپنی دنیا اور اپنے خیالوں میں گم رہتاہے ۔اس سینڈروم کو اس
نے ابتدائی خود فکریٔ اطفال (Early Infantile Autism) کا
نام دیاہے ۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ یہ بیماری لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں
میں زیادہ پائی جاتی ہے اوراس مرض کی عجیب وغریب ’’دماغی کیفیت‘‘ زندگی کے
پہلے سال کے آخر ی مہینوں میں (کسی بھی صورت میںدوسرے سال کے بعد
نہیں)نمایاں ہوتی ہے ۔
ایک
نارمل صحت مند بچہ تین برس کی عمر کے بعد اپنے ماں باپ اور ’’دوسرے
اپنوں‘‘ کے ساتھ ایک سماجی بندھن باندھنے کے اہل ہوجاتاہے لیکن آٹزم میں
مبتلا بچہ ایسا کرنے میں ناکام رہتاہے ۔ وہ سماجی زنجیر سے کٹا ہوا حلقہ
لگتاہے اور دوسرے نارمل بچوں کے برعکس بیرونی حقائق کی طرف کوئی توجہ نہیں
دیتا ہے ۔ وہ خیال پرستی کا شکا رہوجاتاہے اور اپنے ہی خیالات کے قفس میں
مقید ہوجاتاہے ، وہ ارد گرد کے ماحول کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی
’’خودی‘‘ اور ’’نفس ‘‘ کا اسیر ہوکے رہ جاتاہے ۔
تحقیقات
سے ثابت ہواہے کہ آٹزم میں مبتلا بچے کے والدین ذہنی، محنتی اور پیشہ
وارانہ و اقتصادی طور کامیاب ہوتے ہیں ، وہ زندگی کی شاہراہ پر کچھ حاصل
کرنے کے لئے بہت تیزی سے دوڑتے ہیں ۔ وہ اپنی سائنسی ، علمی ، ادبی
یافنکارانہ سرگرمیوں میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں بیرونی دنیا کی کوئی
خبر نہیں ہوتی ہے ۔ ایسے والدین کی نجی زندگی بالکل سطحی اور ’’سرد‘‘ ہوتی
ہے او ربچے کو ان کی طرف سے صحیح معنوں میں وہ محبت اور شفقت نصیب نہیں
ہوتی جس کا ایک بچہ حقدار ہوتاہے ۔ ماں باپ بچے کے تئیں سردمہری کا اظہار
کرتے ہیں ، خاص کر ماں اپنے بچے پر ممتا کے پھول نچھاور کرنے میں کوتاہی
اور سردمہری سے کام لیتی ہے ۔
جب
آٹزم میںمبتلا بچے کو ماہر امراضِ نفسیات کے پاس لایا جاتاہے تو اس کے
والدین یہ باور کرچکے ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ ذہنی طور ناقص یا پیدائشی پاگل
ہے یا پھر عقب ماندگی فکری (Mental Retardation) کا
شکارہے ۔ انہیں اپنے بچے کی اصلی بیماری کے بارے میں کوئی علمیت نہیں ہوتی
۔ اکثر والدین بچے کی بیماری کو بھوت پریت ، آسیب یا جن پری وغیرہ کا
سایہ مانتے ہیں اور ڈاکٹروں یا ماہرامراض نفسیات سے مشورہ کرنے کی بجائے
نقلی پیروں فقیروں کے درباروں میںحاضری دیتے ہیں ۔
آٹزم
جیسی انوکھی بیماری میں مبتلا بچہ تین چار سال کی عمر میں خاموش رہنا پسند
کرتاہے ۔ وہ دوسروں سے باتیں کرنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتاہے ،کسی کے
سوال کا جواب دینے کی بجائے سرجھکائے اپنے ہی خیالوں میں گم صم رہنے کو
ترجیح دیتاہے اور اگر کوئی اس سے بار بار سوالات پوچھے تو وہ غصّے کی آگ
میں جلنے لگتاہے ۔ اس میں دوسروں کے احساسات او ر جذبات سمجھنے کی صلاحیت
بالکل موجود نہیں ہوتی ہے وہ اپنی تنہائی کے کمرے میں محصور ہوکر سبھی
کھڑکیاں اور دروازے بند کرلیتاہے ۔وہ ہروقت اُداسی اور خاموشی کے ویران
جنگل میں بھٹکتا رہتاہے اور اگر کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش
کرتاہے تو وہ زخمی شیرنی کی طرح بپھراٹھتا ہے ۔ کوئی اس سے کچھ الفاظ یا
کوئی جملہ کہے تو وہ طوطے کی طرح وہی الفاظ یا جملہ دہراتارہتاہے ۔ آٹزم
میں مبتلا بچے میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو’’تم‘‘ سے اور
سامنے والے کو ’’میں‘‘ سے مخاطب کرتاہے ۔ اسے دوسرے لوگوں سے کسی بھی قسم
کی دلچسپی نہیں ہوتی ہے لیکن وہ اپنے پسندیدہ کھیلوں میں حد سے زیادہ
دلچسپی لیتاہے ، وہ کئی گھنٹوں تک اپنی پسندیدہ چیزوں یا کھلونوں کے ساتھ
سرگرم رہتاہے اور اسے کبھی’’ تھکاوٹ‘‘ محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ وہ ہرممکن
طریقے سے اپنی یکسوئی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتاہے ۔ وہ کمرے کی چیزوں
کو ہر وقت ایک ہی ’’اسٹائل‘‘ میں دیکھتے رہنے سے یک گونہ خوشی محسوس کرتاہے
، اسے ہروقت یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کوئی اس کے کمرے کی چیزوں کی ترتیب
بدل نہ دے ۔ماحول اور اطراف سے حد درجہ بے خبری اور لاپرواہی اور دوسروں کی
طرف بے توجہی سے بچے کو قریب سے دیکھنے والا یہ نتیجہ اخذکرتاہے کہ بچہ
ذہنی طور ناخیز یا دماغی طور بہت کمزور ہے مگر درحقیقت ایسا بچہ دوسرے بچوں
کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتاہے ۔ اس کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت
موجود ہوتی ہے جو عام بچوں میں نہیں ہوتی ہے ۔ جب بچے کو غور سے دیکھا
جاتاہے تو اس کے چہرے پر سنجیدگی کے گہرے بادلوں کے علاوہ تنائو بھی نظر
آتاہے لیکن جب اس کے ماں باپ یا چاہنے والے ذرا سنجیدگی سے غور کرتے ہیں
تو وہ ظاہری طور ذہین نظر آتاہے ۔ اس کی یاداشت بہت تیز ہوتی ہے اور وہ
رٹہ لگانے میں خاصی مہارت رکھتاہے ۔ وہ کچھ بھی بار بار دہرا کر ذہن میں
محفوظ کرسکتاہے ۔ وہ کاغذات کے ایک شیٹ پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچتے
کھینچتے کوئی حیران کن ’’پینٹنگ‘‘ بناسکتاہے ۔ ان سب اوصاف کے باوجود بھی
آٹزم میں مبتلا بچہ ایک جذباتی خلاء میں زندگی گذارتاہے اور عمر بھر دوسرے
نارمل بچوں کے مقابلے میں (دیکھنے والوں کی نظروں میں) ذہنی طور ناقص ہی
رہتاہے ۔ اس مرض میں مبتلا بعض بچے پانچ یا چھ سال کی عمر کے بعد کسی حد تک
ذہنی طور پختہ ہوکر دوسروں کی طرف توجہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہ
کچھ نارمل قسم کے حرکات انجام دینا سیکھ جاتے ہیں لیکن دیکھنے والوں کو
پھر بھی وہ حرکات عجیب وغریب یا ابنارمل ہی لگتے ہیں ۔
تحقیقات
سے ثابت ہواہے کہ ایسے بچوں کے مرکزی نظام اعصاب میں کوئی موروثی نقص
موجود ہوتاہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے نارمل بچوں کے مقابلے میں ’’ایک مختلف
اندازمیں‘‘ پروان چڑھتے ہیں ۔ اس بیماری کی کوئی مخصوص وجہ مشخص نہیں ہوسکی
ہے ۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے لئے والدین یا بچہ خودذمہ دار نہیں ہے
کیونکہ کوئی بھی سائنس دان یا ڈاکٹر ابھی تک اس دماغی نقص کا پتہ نہیں لگا
سکاہے جس سے یہ بیماری بچے کی زندگی کے پہلے سال میں شروع ہوتی ہے ۔ کچھ
محققین نے اندازہ لگایا ہے کہ اس بیماری کے وجوہات میں مو روثی محرکات کا
اہم رول ہے ۔
علامات:
آٹزم میں مبتلا بچے میں درج ذیل علامات پائے جاتے ہیں ۔
زبان ۱
آٹزم میں مبتلا بچہ
بہت دیر کے بعد زبان (بولنا )سیکھتاہے ۔
کوئی
سوال پوچھنے پر جواب دینے کی بجائے وہی سوال دہراتاہے ۔ مثلاً اگر آپ
آٹسٹک بچے سے پوچھیں ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ تو وہ بلا فاصلا جواب میں کہے
گا ’’ تمہارا نام کیاہے؟‘‘۔
جو کچھ بولتاہے اس کے معنی واضح نہیں ہوتے ہیں ،الفاظ سننے والے کی سمجھ میں نہیں آتے ہیں ۔
بار بار ایک ہی لفظ ،جملہ یا گیت کے بول دہراتاہے ۔
بات چیت کرنے میں کبھی پہل نہیں کرتاہے ۔
بات چیت شروع بھی کرے تو بیچ میں ہی ادھوری بات چھوڑ کر چلا جاتاہے ۔
۲-سماجی طور:
تنہا کھیلنے کو ترجیح دیتاہے ۔
اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ گھل مل جانے سے کتراتاہے ۔
اپنے سے کمسن یا اپنے سے بڑے بچوں کے ساتھ کھیلنے کو ترجیح دیتاہے ۔
دوست بنانے میں دلچسپی نہیں لیتاہے ۔
سامنے والے کے ساتھ آنکھیں نہیں ملاتا ہے ،ہر وقت آنکھیں چرانے کی کوشش کرتاہے ۔
اپنی خوشیاں دوسروں کے ساتھ بانٹنے کی کوشش نہیں کرتاہے ۔
کوئی اسے گلے لگائے ،پیا رکرے یا چومے تو اسے اچھا نہیں لگتاہے ۔
غیر فطری برتاؤ:
ہرو قت حددرجہ ’’یکسانیت ‘‘پسند کرتاہے ۔
اپنے طرزِ زندگی میں کسی بھی قسم کے بدلائو سے ناراض ہوجاتاہے ۔
چیزوں
کو گھمانے میں بے حد دلچسپی دکھاتاہے ۔مثلاً لٹّو کو دن بھر گھماسکتاہے ۔
پہیے، پنکھے یا ایسی گھومنے والی چیزوں کی طرف فوری متوجہ ہوجاتاہے ۔
دیکھنے والے کو چہرے اور جسم کے عجیب وغریب حرکات دکھاتاہے۔
اُچھلنے اور تالی بجانے میں بے حد دلچسپی لیتاہے ۔
کبھی کبھی بغیر کسی وجہ کے بار بار اور زور زور سے ہنستاہے ۔
بغیر کسی وجہ کے ’’سٹپٹا جاتا‘‘ اور روٹھ جاتاہے ۔
درد کی شدت محسوس نہیں کرتا ہے ۔
گرمی یا سردی کی طرف بے حسی ظاہر کرتاہے ۔
آوازوں یا موسیقی کی طرف بہت زیادہ یا بہت کم توجہ دیتاہے ۔
علاج:
بدقسمتی
سے ابھی تک آٹزم کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا ۔ ماہر نفسیات ، کونسلر
اور سکول میں استاد ، گھر میں والدین اور دوسرے آشنا بچے کی مدد کرسکتے
ہیں اور اس کی طرف مخصوص توجہ دے کر اسے سماجی زندگی کے دائرے کے اندر لانے
میں اپنا رول نبھا سکتے ہیں ۔ آٹزم میں مبتلا بچے کی فنکارانہ صلاحیتوں
کو اُجاگر کرنا والدین اور استاد وں کا فرض ہے ۔
No comments:
Post a Comment