Search This Blog

Wednesday, 31 July 2013

تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے!

تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے!

سورۃ القدر میں جس رات کا ذکر ہے اس رات نے درحقیقت پوری کائنات کو ایک خوشی اور سرشاری سے ہمکنار کیا۔ یہ عرش وزمین کے باہمی اتصال کی کتنی خوبصورت کتنی حیرت انگیز رات تھی۔ ایسی رات جس کا اس زمین اور آسمان نے آج تک مشاہدہ نہ کیا تھا۔ انسانی فہم وادراک جتنا بھی ترقی کر جائے وہ اس عظیم رات کی عظمت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے گا۔ کہ وَماَ اَدْرَکٰ مَالَیْلَۃُ الَقْدرہ تم ادراک نہیں کرسکتے لیلتہ القدر کا! کیسا حسین اور وجد میں لانے والا منظر قرآن پیش کرتا ہے کہ فرشتوں کے جھمگٹ میں روح الامین زمین کی جانب رواں دواں ہیں۔ اہل زمین کے لیے سوغات لے کر، کائنات کا سب سے عظیم تحفہ لے کر، آسمان دنیا سے زمین تک ہر طرف نور ہے اور پوری کائنات سراپا نور ہے۔ نہ صرف یہ رات سلامتی ہے طلوع صبح تک بلکہ یہ رات جو عظیم پیغام لے کر آئی ہے وہ پیغام رہتی انسانیت تک کے لیے سلامتی کا پیغام ہے۔
یہ کون سی رات ہے؟ اس میں بہت سی روائتیں ہیں لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ یہ آخری عشرے کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ اور قدر والی رات ہے اور قدر کا مفہوم کہیں علماء ’’تدبیرامر‘‘ بیان کرتے ہیں اور کہیں ’’قدروقیمت‘‘ حقیقتاً دونوں ہی مفہوم اس لفظ ’’قدر‘‘ میں مخفی ہیں۔ کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور توجیح جو اس رات میں کی گئی اس نے واقعتا رہتی دنیا تک کے بندوں کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔ ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سالوں میں انسانیت کی فلاح کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں انجام پایا کہ قرآن کی شکل میں جو عقیدہ، جو قانون، جو آئین، جو اصول وضوابط وضع کیے گئے رہتی دنیا تک انسانوں کی سلامتی ان ہی پر عمل سے وابستہ ہے۔ اس قدر والی رات میں انسانیت کو نئی قدروں سے روشناس کرایا گیا۔ صدیوں سے رائج جاہلیت کے دور کی سب قدریں، سب پیمانے، کُل کی کُل تہذیب اور تمدن سب کو مسترد کردیا گیا۔ اب انسانیت کو ہمیشہ رہنے والی عظیم قدریں اور نئے پیمانے دیے گئے۔ نسلی، نصبی غرور خاک میں ملا دیے گئے ایک دوسرے پر شرف اور برتری کے پیمانے یکلخت تبدیل کردیے گئے!!
اس ایک رات کی عظمت رہتی دنیا تک ثبت کردی گئی… کہ انسانیت اس عظیم ترین یادگار واقعے کو فراموش نہ کردے، اس سے غافل نہ ہوجائے۔ لہٰذا رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہر سال اس عظیم رات کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔اس عظیم واقعہ کی یاد کو زندہ کریں۔ اس رات کو تلاش کریں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جس کسی نے شب قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘ شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت کہ اپنے گزرئے ہوئے روزوشب کا تنہائی میں جائزہ لیا جائے اپنا بے لاک احتساب کیا جائے، جو رعائتیں ہم نے اپنے نفس کو دے دے کر اسے گناہوں کا خوگر بنا دیا ہے آج کی رات وہ حقیقی آئینہ بن جائے جس میں ہم بے لاگ اور بے رحمانہ طریقے سے بغیر خود کو رعائتیں دیے ہوئے اپنا احتساب کرلیں کہ ابھی تو رجوع کا وقت ہے، ابھی تو توبہ النصوح کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ نہ معلوم آنے والے سال میں ہمیں یہ ایمان واحتساب کی قدر والی رات نصیب بھی ہو کہ نہ ہو لہٰذا اس بار ان گھڑیوں کو غنیمت جانتے ہوئے آئندہ کی بہتری کے جو امکانات ہوسکتے ہیں، یہ قدر والی رات دراصل اسی بہتر زندگی کی طرف دعوت دینے والی رات ہے۔ کہ سچی استغفار کریں اپنا کڑا محاسبہ کریں جو نافرمانیاں کرچکے ان پر مذامت کے آنسو بہائیں جو نیکیاں نہ کرسکے آج کی رات میں ان کی توفیق طلب کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بندۂ خاکی اگر اس رات کی حقیقی قدر پہچان لے تو اس ایک رات میں وہ خدا کے قرب کی اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں بھی ممکن نہیں کہ اس رات کے پردے میں جو خزانے چھپے ہیں آج کی رات کی تلاش میں جو گرم دم جستجو ہوگا وہی ان خزانوں کو پاسکے گا۔
حضرت ابن اسی حاتم نے روایت کیا ہے کہ رسول خدا صلی علیہ وسلم نے نبی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر کیا ہے جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغول جہاد رہا اور اس نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے۔ مسلمانوں یہ سن کر تعجب اور رشک کرتے تھے جس پر یہ سورۂ قدر نازل ہوئی اور امت کے لیے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت کردی۔ اس طرح شب قدر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات میں سے ایک امتیاز ہے۔ یہ وہی عظیم رات جس کا ذکر قرآن میں اس طرح ہے ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو ایک با برکت رات میں اتارا ہے یقینا ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں بے شک ہم بھی رسول بھیجنے والے ہیں یہ تمہارے رب کی رحمت کے باعث ہے یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے (الدخان ۴۴:۳۔۶) یعنی رمضان المبارک کی اس رات میں  قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اللہ کے بندوں تک اس کی تعلیمات کو پہنچا دیں۔
ہم اہلیان پاکستان جو اس ماہ مبارک میں اپنی آزادی کا 64 واں جشن منانے جارہے ہیں اور شب قدر کی کسی ایسی ہی عظیم رات کو ہمیں یہ لاالہٰ کی سرزمین عطا ہوئی تھی ہم اس کے وارث بنائے گئے تھے کہ یہاں ایک اللہ کی حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعمیر کریں گے جشن آزادی کی تیاریوں کے ساتھ جب ہم شب قدر کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوں تو اس جائزے اور احتساب کا اس سے بہتر موقع اور کبھی ہمیں نصیب نہ ہوگا کہ ہم بے لاگ احتساب کریں کہ لاالہٰ کی وراث اس سرزمین پر جن فتنوں نے آج سر اٹھایا ہوا ہے آج روزوشب معصوم کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہورہا ہے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں کون سی آزمائش ہے جس کی بھٹی میں ہم اس وقت نہیں سلگ رہے۔ ہم اللہ کی حدوں کو توڑنے رہے اور اس کی نعمتوں سے محروم ہوتے رہے شب قدر میں ملنے والی سعادت (پاکستان) کی ہم نے قدر نہ کی تو شقاوت اور بدبختی  ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی۔ ہماری جہالت اور غفلت نے ہمیں آج یہاں لا کھڑا کیا کہ نہ سرحدیں محفوظ ہیں نہ گھر نہ قومی حمیت باتی ہے نہ انسانی جان کی کوئی قیمت ہے۔ یہ سلامتی والی رات یاد دہانی ہے ہمارے لیے کہ حقیقی سلامتی، ہمارے معاشرے کی سلامتی، ہمارے ایمان کی سلامتی، ہمارے کردار کی سلامتی، ہمارے گھروں کی سلامتی، ہمارے دلوں کا سکون وسلامتی سب اس شب قدر میں ہے۔ ہمارا مادّی ارتقاد ہمارے روحانی ارتقاء سے وابستہ ہے۔ اسی سے ہماری تہذیب وتمدن کا ارتقاء وابستہ ہے۔
یہ نورانی رات مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں پھر اسی نورر کی طرف دعوت دے رہی ہے جو 14 سو برس قبل انسانیت کی روح میں جب چمکا تھا تو عرب وعجم ان کے غلام ہوگئے تھے، شرق وغرب میں ان کے اقتدار کا غلبہ تھا۔ وہ عظیم رات جو ملاء اعلیٰ سے ربطہ وتعلق کی رات ہے جس میں جبرائیل امین کا نزول فرشتوں کے جھرٹ میں اہل زمین کی طرف ہوتا ہے۔ ہماری تمام تر محرومیوں اور شقاوت کے باوجود ایک بار پھر یہ عظیم رات ہمیں نصیب ہورہی ہے، لازم ہے کہ ہم اپنی روح اور قلب پر اس کے اثرات کو محسوس کریں اور اسلامی عبادات محض ایک رسم یا وظائف میں اعدادوشمار کی ایک گنتی یا تعداد کے ساتھ کچھ نفلی نمازوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس رات کو ایمان واحتساب کے ساتھ گزارنے کا حکم ہی اس لیے کہ ہمارا قلب زندہ بیدار ہو۔ ہم اللہ سے اور قرآن سے اپنے حقیقی تعلق کا جائزہ لیں اور یہ عبادت کی راتیں ہمیں وہ شعور وبصیرت دے جائیں کہ ہم حقائق پر غوروفکر کرنے کے عادی ہوجائیں اور صرف وہ چند راتوں کی عبادت اور چند گھنٹوں کی حیثیت اور رجوع الی اللہ کی کیفیت نہ ہو بلکہ ہمارے دل کی دنیا اس انقلاب سے دوچار ہو کہ ہمارے عمل سے اس کے ثمرات ظاہر ہوں اور پوری معاشرتی زندگی کے لیے قوت محرکہ بن جائیں۔
بلاشبہ یہ رات بہترین اسلامی نظام تربیت کا ایک جزو ہے۔ اگر ہم اس کو پورے شعور اور ادراک کے ساتھ گزارنے والے بن جائیں۔

Saturday, 27 July 2013

اعتکاف کیسے مفید بنایا جاسکتا ہے

اعتکاف کیسے مفید بنایا جاسکتا ہے

ہم یہاں اعتکاف کے ضمن میں محض رہنمائی کی خاطربطور نمونہ ٹائم ٹیبل تجویز کر رہے ہیں۔اس کی روشنی میں آپ اپنا پروگرام خود مرتب کرسکتے ہیں۔بیسواں روزہ آپ مسجد میں افطار فرمائیں گے اور آخری روزہ افطار کرکے بعد نماز مغرب اعتکاف سے فارغ ہوں گے۔اس لیے ہم شام سے شام تک کا پروگرام دے رہے ہیں۔خواتین بھی بیسواں روزہ افطار کرتے ہی گھرمیں مختص مقام(مُعْتَکَفْ ) میں مقیم ہوجائیں اور نیا چاند نظر آنے تک وہیں رہیں۔
1-افطار سے قبل اور بعد
افطار سے پہلے انفرادی دعا قابل ترجیح ہے مگر اجتماعی دعا بھی کی جا سکتی ہے ۔نمازِ مغرب اور افطاری کے بعد عشاء کے درمیان تراویح میں پڑھی جانے والی منزل کا ترجمہ اور خلاصہ دیکھ لیا جائے تو تراویح میں پڑھی جانے والی منزل کی سماعت کا زیادہ لطف اور اس سے حلاوتِ ایمانی کے نموکا زیادہ موقع پیدا ہوگا۔
2-نماز عشا ء و تراویح کی ادایگی کے بعد
تراویح کے بعد نمازیوں کے سامنے متعلقہ منزل کا خلاصہ کوئی ساتھی پیش کرے۔ا گر مسجد میں پہلے سے اس کا اہتمام ہو تو اسے سماعت فرمائیں۔ پروگرام کے آخر میں اس موضوع سے متعلق سوالات کے جواب دیے جائیں۔ خواتین کا جہاں اجتماعی اعتکاف ممکن ہو وہاں خواتین بھی اس کا اہتمام کرسکتی ہیں۔خواتین کی امامت کوئی صاحبِ علم وفضل اور حافظہ خاتون کر سکتی ہیں۔فرق یہ ہے کہ وہ مرد امام کی طرح آگے الگ کھڑی ہونے کے بجائے صف کے درمیان میں دیگر خواتین کے برابرہی کھڑی ہوں گی۔
3-اجتماعی مطالعہ
تراویح سے فارغ ہونے کے بعد ایک گھنٹہ کے لیے اجتماعی مطالعہ کیا جائے اور پندرہ منٹ باہمی تبادلہ خیالات ، سوال و جواب اور وضاحت وغیرہ کے لیے رکھے جائیں۔سوال و جواب کا مقصد افہام و تفہیم ہو،لایعنی تکرار اور طولانی مباحث سے اجتناب برتا جائے۔ماحول دوستانہ اور خوشگوار رکھنا فرض ہے۔
4-آرام
مطالعے سے فارغ ہو کر فوراً سونے کی تیاری کی جائے اور با وضو سونے کی کوشش کی جائے۔مسنون دعائیں پڑھتے ہوئے بسترپر دراز ہو جائیں اور جب تک نیند نہ آئے دل میں تلاوت کرتے رہیں۔وقت بہت قیمتی متاع ہے۔اس کے ضیاع سے ہمیشہ بچنا چاہیے مگر اعتکاف میں تو ہر لمحہ سوچ سمجھ کر گزارناضروری ہے۔سال بھر میں محض یہ ایک عشرہ ہے، اس لیے اس کی بڑی قدر ہے۔
5-سحر خیزی اور نماز فجر
سحری کے وقت سے حسب توفیق ایک دو یا اڑھائی گھنٹے قبل اٹھیں۔ تیاری کرکے نوافل ادا کریں۔نوافل کے بعد مسنون دعائیں یا احادیث یاد کرنے کی کوشش کریں۔سحری کا وقت ختم ہونے سے قبل سحری سے فارغ ہو جائیں اور اپنے مُعْتَکَفْ سے مسجد کے ہال میں پہنچ کر صفِ اوّل میں نمازفجرباجماعت ادا کریں۔نماز کے بعد مختصر وقت کے لیے تفہیم القرآن یا کسی بھی تفسیرِ قرآن کا اجتماعی مطالعہ کیجیے۔ہمت ہوتوسورج نکلنے تک تلاوت کیجیے اور سورج نکلنے کے بعد نماز چاشت ادا کرکے کچھ دیرکے لیے آرام کرلیجیے۔
6-بیداری
کم و بیش دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد بیدار ہوکر وضو کیجیے۔تحیۃ الوضو کے نفل ادا کیجیے اور پھر تلاوت قرآن مجیدکم از کم ایک پارہ کا اہتمام کیجیے۔تلاوت کے بعد مطالعہ میں وقت گزاریے،ذکر اللہ کے فضائل،سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہؓ کے واقعات سے ایک دوسرے کو تذکیر اور اپنے ایمان کی نمو کا اہتمام فرمائیں۔دنیوی اور لایعنی باتوں سے مکمل اجتناب ازحد ضروری ہے۔
7-نماز ظہر اور ما بعد
نماز ظہر ادا کرنے کے بعدہر ساتھی اپنے ذوق کے مطابق آرام کرنا چاہے تو آرام کرے، تلاوت ونوافل اورمطالعہ کی توفیق ملے تو اس میں اپنا وقت صرف کریں۔کوئی ساتھی سوال پوچھنا چاہے تو اہل علم ساتھی اس کی تشفی کا اہتمام کریں۔سوال و جواب کی یہ محفل سنجیدہ،پرُوقار اور علمی افہام و تفہیم کا نمونہ ہو نہ کہ بحث و مجادلہ کا میدان۔آوازیں پست اور لب و لہجہ شیریں ہونا چاہیے۔ مُعْتَکِفْ حضرات کو اتنی دھیمی آواز میں علمی تبادلۂ خیال کرنا چاہیے کہ دیگرنمازیوں کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو۔
8-نماز عصر اور مابعد
نماز عصر ادا کرنے کے بعد درسِ قرآن ،درسِ حدیث یا کسی موضوع پر گفتگو کی جائے جس کے بعد تمام ساتھی اپنے جذبات وخیالات کا اظہار کریں۔یہ خیالات اپنے آپ کو اور دوسرے احباب کو اللہ سے جوڑنے،آخرت کی فکر پیدا کرنے اور تزکیہ نفس کی منزل پالینے پر مرکوز ہونے چاہییں۔
9-افطار
افطار سے قبل کچھ وقت بالکل تنہائی میں خود احتسابی کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ اپنا جائزہ لیا جائے کہ منزل کی جانب پیش قدمی کی رفتار کیا ہے۔ افطاری اجتماعی طور پر کرنی چاہیے۔مسجد میں موجود نمازیوں کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔اس موقع پر خاموشی یا مسنون دعائیں ہر مُعْتَکِفْ کا امتیازی وصف ہونا چاہیے۔عام قسم کی گفتگو سے اجتناب برتا جائے۔یہ قبولیت دعا کا خصوصی وقت ہوتا ہے اور دعا میں عاجزی سے حسن پیدا ہوتا ہے۔
سب سے اہم بات مُعْتَکِفْ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ذاتی برتائو اور حسن سلوک ہے۔ایثار وقربانی پر بہترین تقریر کرنے سے وہ اثر نہیں ہو سکتا جو عملی مظاہرے سے ہوتا ہے۔جن نئے ساتھیوں کو آپ اعتکاف کی دعوت دے کر اپنے ساتھ شامل کریں گے،ان سے اعتکاف کے بعد مسلسل رابطہ رکھیے۔ان شاء اللہ اس تجربے سے آپ اپنا حلقہ احباب وسیع کرنے اور تحریک کے اثرات پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اعتکاف کے دوران فون،ریڈیو،اخبارات سے تعلق منقطع کرلیں گے تو اعتکاف کے حقیقی مقاصد تک رسائی ممکن ہوگی۔ یہ چیزیں اس انہماک کے منافی ہیں جو اعتکاف کا مقصودِ حقیقی ہے۔
10-مسجد سے رخصتی
جب ماہِ شوال کا چاند نظر آجائے تو اعتکاف کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔نماز مغرب کے بعد مُعْتَکِفْ حضرات اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں مگریہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ غیرضروری تکلفات اور لایعنی اعمال کا اہتمام کرتے ہیں۔مُعْتَکِفْ کو ہار پہنائے جاتے ہیں،مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور چراغاں کیا جاتا ہے۔افسوس ہے کہ بعض لوگ پٹاخے بھی چھوڑتے ہیں۔ ان اعمال کی ہرگز کوئی شرعی حیثیت نہیں بلکہ یہ سب بدعات وخرافات ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے۔ان کی جگہ صدقہ کرنے،تذکیر و نصیحت اور دعاو توبہ کی عادت ڈالنی چاہیے۔ یہی مسنون طریقہ ہے اورامت کی کامیابی کا راز اتباع سنت ہی میں پنہاں ہے۔
مطالعہ کے لیے کتب
ماہِ رمضان میں سب سے زیادہ وقت تلاوت قرآن مجید کے لیے ہی وقف کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ دیگر دینی واسلامی کتب کا مطالعہ بھی تزکیۂ نفس میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ کتب ذوق کے مطابق بھی منتخب کی جاسکتی ہیں تاہم یہاں راہ نمائی کے لیے چند کتب کے نام درج ہیں:
تفہیم القرآن، تفہیم الاحادیث (خصوصاً جلد چہارم)، محسن انسانیت، سیرت سرورِعالمؐ، اذکارِ مسنونہ، رحمان کے سائے میں، سیرت صحابہ وصحابیات پر کوئی سی کتب، تزکیۂ نفس، تحریک اور کارکن، فضائل قرآن، کتاب الصوم، خطبات(سید مودودیؒ)، تزکیۂ نفس پر مولانا امین احسن اصلاحی اور مولاناصدرالدین اصلاحی کی تصانیف مفید رہیں گی۔

مصر میں فوجی مداخلت کے پس پردہ سازشی

مصر میں فوجی مداخلت کے پس پردہ سازشیں

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ

٭امریکی صدر باراک اوبامہ نے مصر میں فوجی کارروائی کو ”سازش نہیں بلکہ انقلاب“ قرار دیا ہے جبکہ جنرل فتح نے فوجی مداخلت کو ” عوامی خواہشات کے احترام میں ملکی مستقبل کیلئے کامیاب سیاسی و نظریاتی جدوجہد“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ( اس کا موازنہ پاکستان کی مسلح افواج کے اٹھائے جانیوالے عہد نامے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے جس میں درج ہے کہ: ”آئین پاکستان کو ہر حال میں مقدم رکھوں گا جو عوام کی خواہشوںکا ترجمان ہے۔“ اس فرض کی ادائیگی کیلئے آرمی چیف کاغیر سیاسی ہونا ضروری ہے لیکن آرمی چیف اگر غیرسیاسی ہوگاتو وہ آئین کی پاسداری کس طرح کریگا؟ یہی سبب ہے کہ آئین کی پاسداری میںجنرل فتح سیاسی بن گیا اور سیاسی بساط الٹ کے رکھ دی۔
٭مصر میں رونما ہونیوالے حالات نے تمام عرب دنیا کے اسلام پسند عناصر کو مصر کی جانب راغب کیا ہے کیونکہ الاخوان کا تعلق اسلام کے مکتب فکر‘ سلسلہءقادریہ سے ہے جو سوڈان‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ تیونس‘ الجیریا‘ عراق‘ اردن‘ شام‘ یمن‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔
٭آرمی نے اس امید پریہ جوا کھیلا تھاکہ وہ جلد ملک کی صورتحال پر قابو پا لے گی لیکن تیس (30)سیاسی جماعتوں کی صدر مرسی کے ساتھ یکجہتی اور مکمل تائید نے حالات کو گمبھیر بنا دیا ہے اس طرح ”مصر ایک تاریخی جال میں پھنس چکاہے۔اسکی مثال نوآبادیاتی دور کی پہیلی کی طرح ہے جس نے مصر سے پاکستان تک کے ممالک کیلئے سیاسی اسلام کے خواب کی امیدوں کو روشن کردیا ہے۔“ پیٹر پروفام (Peter Profam, The Independent)
٭صدر مرسی کے حامیوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ ”ہم مزاحمت جاری رکھیں گے۔ ہم آزاد انقلابی ہیں اور ہم اپنا سفر جاری رکھیں گے۔“
انکے مد مقابل اب فوج ہے جو ملک کی حکمران ہے۔یہ وہی فوج ہے جو حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد اقتدار میں آئی تھی اوراٹھارہ ماہ تک اپنے ہی شہریوں کو قتل کرتی رہی۔اقتدار کی کشمکش اب شروع ہو چکی ہے۔
فوجی مداخلت نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے جس کے سبب مصر سے لے کر ترکی‘ پاکستان اور بنگلہ دیش تک اسلام پسند اور آزاد/سیکولر طبقات کے مابین سیاسی و نظریاتی تصادم کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ پاکستان میں عوام نے ایسے تصادم کو ووٹ کی طاقت سے ناکام بنایا اور اب وہی طاقتیں ’ یعنی عدلیہ ‘ آرمی اور روشن خیال‘ سیکولر اور اسلام پسند ‘ملک میں سیاسی توازن قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں جو ماضی میں حالات کی خرابی کا باعث بنتی رہی ہیں ۔
مغربی میڈیا اس بات کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ مصر میں ”سیاسی اسلام“ کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے حالانکہ اس نظام کو اپنی افادیت منوانے کیلئے مناسب وقت ہی نہیں دیا گیا۔اور اگر مصر میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا تو اس کا الزام مصر میں فوجی مداخلت کی ذمہ دار قوتوں یعنی امریکہ‘ یورپی یونین اور مشرق وسطی میں طاقت کا کھیل کھیلنے والی قوتوں کے سرہے ‘ جنہوں نے ”عوامی خواہشات کے آئینہ دارآئین کو مقدم رکھنے“ کے بجائے فوج کو مداخلت پر اکسایا ہے۔
الاخوان کی محاذ آرائی کی ایک طویل داستان ہے جو1954 ءمیں صدر ناصر کے دور میں شروع ہوئی اور 1970 ءتک رہی ۔اسکے بعد تین دہائیوں تک صدر حسنی مبارک کے مظالم کا شکار رہنے کے بعد2012 ءکے انتخابات میں اسے کامیابی نصیب ہوئی۔اب انہیں جنرل فتح کا سامنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ”جہاں جمال ناصر جیسی طلسماتی شخصیت کامیاب نہیں ہو سکی وہاں جنرل فتح کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
 مصری عوام عرصہ دراز سے سیاسی اسلام کا خواب دیکھ رہے ہیں جسے ختم کرنا جنرل فتح کے بس کی بات نہیں“۔ وقت الاخوان کے ساتھ ہے اور افغانی طالبان کی طرح وہ بھی پرسکون ہیں اور اپنے مقصدسے مخلص ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ غیر ملکی آقاﺅں کے مفادات کی نگران فوج کیخلاف انکی پرامن مزاحمت ضرور کامیاب ہوگی اور وہ دن رات اس ورد میں مصروف ہیں ۔ ”حسبی اللہ و نعم الوکیل“ .... 

فضائے بدر پیدا کر Fazaye Badr paida kar


Saturday, 20 July 2013

مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں!

مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں!

بلاشبہ رمضان المبارک کی عظمت نزول قرآن سے وابستہ ہے اور قرآن بنی نوع انسان کو جو مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے اسی کی پیروی میں دنیوی واخروی زندگی کی فلاح ہے اور لاریب کہ یہ فیضِ فکر عمل انسان کی متاع عزیز ہے۔ اور کس قدر خوش قسمت ہیں وہ نفوس جو ان فیوض وبرکات کو اپنی زندگی کا اثاثہ بنارہے ہیں اور اپنی فردا کو سنوار رہے ہیں، وہ انسان کا مستقبل اس کے ہاتھ میں تھماتا ہے کہ چاہے تو درخشاں بنائے اور چاہے تو تاریک تر! اور قوموں کے حالات اور عذابوں کے تذکرے بھی اسی لیے ہیں کہ ماضی کی امتوں کے حالات واقعات سے عبرت حاصل کریں اور اپنے مستقبل کی فکر کریں۔

یہ کتاب بیکراں… تدبر وفکر کا جہاں… پُر زور تاثیر کی حامل… مقفیّٰ اور مسجع بیان… متحیرکن اسلوب… خالقِ کائنات کی صناعی کی مظہر… انسان کو حسن وجمال سے آشنا کرنے والی… نور حق سے منور اور باطل کے چنگل سے چھڑانے والی… عبدیت کا اظہار ذی شان، جس میں پنہاہ بندے کا عزت ووقار… انسان کو انسانیت سے سرفراز فرمانے والا کلام … جس میں تخلیق کی رفعت کا شعور پنہاں ہے… امتیازات پر ضرب کاری اور وحدت الہٰ کا درسِ عظیم… نور تحقیق کا منبع… وہ کلام جو دعوت دیتا ہے کہ تحقیق کی بنیاد علم اور حکمت کو بنائو اور تحقیقات کے بل پر عمل تسخیر کو اپنی متاع حیات بنالو! ’’اولی الالباب‘‘ کو پکارتے یہ کتاب مقدسہ کے اوراق… جن میں فہم وفراست اور علم وحکمت کے خزانے پوشیدہ ہیں… یہ کتاب جس کے فیوض وبرکات پر جتنی تحقیق کی جارہی ہے اتنے ہی نئے نئے حقائق منکشف ہورہے ہیں۔ قرآن کا یہ اعجاز کہ بندے کو ہر روز نئی شان اور جستجو کا نیا جہان عطا کرتا ہے۔ جس کو اقبال نے کہا
’’ہر لحظ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘

مگر ہم نے قولاً اور عملاً اس کتاب کا کیا تعارف پیش کیا دنیا کے سامنے…؟ اگر یہ دیکھنا ہے تو دیکھیں کہ ہم نے سماج میں کیا مرتبہ متعین کیا اس کتاب مقدس کا۔ اور کیا مقام ہے ہماری زندگی میں اس کتاب کا… کیا رویہ ہے ہمارا اس کے آفاقی پیغام کے ساتھ…!

میں ایکسپو سینٹر میں بک فیئر کے موقع پر تاج کمپنی کے اسٹال پر موجود قرآن کی طباعت کے مختلف انداز دیکھ رہی تھی۔ کہ معاً ایک باریش صاحب نے اسٹال پر آتے ہوئے با آواز بلند کہا ’’مولانا فلاں‘‘ کا قرآن ہے آپ کے پاس؟ میں نے چونک کر نظریں اٹھائیں کہ قرآن ’’مولانا فلاں‘‘ کا کیسے ہوگیا؟ تھوڑی دیر میں میں نے دیکھا کہ اسٹال پر موجود نو عمر لڑکا کسی کو قرآن کے مختلف نسخے دکھاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ ہے مولانا عثمانی کا قرآن۔ یہ ہے مولانا تھانوی کا قرآن… یہ نئی طباعت میںمولانا اصلاحی کا قرآن،مولانا دریا آبادی اور مولانا مودودی کے قرآن بھی موجود ہیں۔ ان سب کے بیچ اللہ تعالیٰ کا قرآن کہاں کھو گیا؟ ایک انتہائی تکلیف دہ احساس وہاں کھڑے کھڑے رگ وپے میں سرایت کرگیا۔ کہ آہ… ہوئے کس درجہ فقہیانِ حرم بے توفیق، جب میں نے اسٹال کے ذمہ دار فرد سے بات کی کہ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ قرآن مولانائوں کے نام سے فروخت ہورہے ہیں۔ تو فرد متعلقہ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نسخے زیادہ تر اپنے شارحسین ومفسرین کے ناموں سے ہی فروخت ہوتے ہیں۔ مگر میں ایک سوال ذہن سے چپکا ہوالے کر اسٹال سے ہٹ گئی کہ کیا بات واقعی اتنی ہی سادہ ہے؟ اور قرآن سے وہ تعلق محسوس ہوا جو کسی مظلوم سے محسوس ہوتا ہے۔ اور قرآن کے ساتھ ایک عجیب ’’بے چارگی‘‘ کا تعلق تو بچپن میں اس وقت قائم ہوا تھا جب محلہ میں دو نابینا بھائی جو ہر جمعرات کو بھیک مانگنے آیا کرتے تھے وہ محلے میں کھڑے ہو کر اس وقت تک با آواز بلند تلاوت کرتے رہتے تھے جب تک ان کی جیب میں مطلوبہ رقم نہ آجاتی یا محلے کے ہر گھر سے آٹھ آنے یا 4 آنے نہ مل جاتے۔ اور کتنی خواہش تھی امی جان مرحومہ کی کہ بھائی قرآن حفظ کرے۔ جتنی بار اسے محلے کی مسجد میں بھیجا وہ مدرسے کے نابینا حافظ جی کی گیلی قمچیوں کی شدید ضربوں سے ہیبت زدہ ہو کر بھاگ کھڑا ہوتا…! اور پھر وہ خود قرآن سے ہی خوف زدہ ہوگیا اور کسی سے بھی پڑھنے پر آمادہ نہ ہوتا۔ بلکہ ابا جی مرحوم مجبور کرتے تلاوت کے لیے تو قرآن کو جزدان سے نکالتے ہوئے اس کی رنگت پیلی پڑجاتی۔ اور اکثر گھروں میں علاوہ ماہ رمضان، قرآن ان سپاروں کی مدد سے پڑھا جاتا گاہے بگاہے جو اپنے مرحومین کی ایصال ثواب کے لیے ان کی برسی پر گھروں میں پہنچا دیے جاتے۔ جو نسبتاً مہذب لوگ ہوتے وہ اپنے گھروں میں قرآن خوانی رکھ لیا کرتے۔ اور اس قرآن خوانی کو معتبر بنانے اور ’’ختم‘‘ کو اعتبار بخشنے کے لیے اکثر مدرسے کے بچے آتے۔ وہ جس انداز میں قرآن پڑھتے تو اس وقت کا ننھا ذہن سوچا کر تاکہ کیا اللہ میاں اونچی آواز سنتے ہیں؟ (معاذ اللہ) ان مدرسے کے بچوں کا حلق کے آخری سرے سے پڑھنا اور انتہائی متحرک جسم، تو وہ بے چارے ایک سپارہ پڑھ کر ہانپنے لگتے جو بریانی یا مٹھائی کے شوق میں ہر ایسے موقع پر محلے کے ہر گھر میں موجود ہوتے۔ بچپن کے ذہن میں قرآن کے ساتھ نہ معلوم کیوں غم کا تصور پیوستہ تھا۔ اور حافظ جی کے ساتھ نابینا کا۔ کیونکہ خوشی کے موقع پر کبھی کسی کو قرآن پڑھتے دیکھا ہی نہ تھا۔ قرآن موت کے گھر میں، میت کے سرہانے، سوئم، چالیسویں، برسی کے موقع پر ہی ختم کیا جاتا تھا مجالس میں۔ ہاں مجھے محلے کی وہ خالہ بھی رمضان مقدس میں اکثر یاد آتی ہیں جو رمضان شریف سے قبل نئے جزدان سنہری بیلوں اور ستاروں سے مزین تیار کرتی تھیں اور محلے بھر کی عورتیں (قرآن کی سالگرہ کا جشن منانے کے لیے) ماہ رمضان میں قرآن کو نئے لباس سے مزین کرتیں۔ تب گھر میں موجود تمام قرآن گھر کی بلند جگہوں سے جھاڑ جھاڑ کر اتارے جاتے اور میز کی زینت بنتے کہ رمضان میں بہرحال تلاوت تو گھر کے ہر فرد کو کرنا ہے۔ لہٰذا سالانہ ضرورت پڑتی تھی نصف درجن قرآن کے نسخوں کی جو عموماً ہر گھر میں موجود تھے اور گھر کی کسی بلند ترین جگہ پر رکھتے ہوئے۔ سہ ماہی، ششماہی دھول البتہ جھاڑی جاتی ان پر سے کہ کتاب مقدس ہے ’’بے ادبی‘‘ نہ ہوجائے۔ اور بچوں کے تو قرآن کو ہاتھ لگانے کا تصور بھی محال۔ کہ بے ادبی ہوجائے گی۔ نانی جان مرحومہ کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے آواز لگاتیں کہ یہ میرے ہاتھ سے قرآن لے کر رکھ دو تو وہ لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کے ہاتھ میں دینا پسند کرتیں…! یوں لگتا تھا کہ ایسی مقدس کتاب ہے کوئی کہ بس فرشتے ہی چھوسکتے ہیں… نہ معلوم آج بھی اس کتاب سے کون کسی درجہ کا تعلق اور تعارف رکھتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں کیا سلوک روا رکھتا ہے۔ دنیا کی سب سے مظلوم کتاب کہا جائے کتاب مقدسہ کو تو بے جانہ ہوگا۔ ماہ مبارک قرآن کی سالگرہ کا جشن… سالگرہ کے موقع پر گردش ایام یوں پیچھے چلی جاتی ہے کبھی کبھی…
اللہ کرے کہ اس کتاب سے فیض یاب ہونا سیکھیں اس کے فیض کو عام کرنا سیکھ جائیں۔ کہ اقبال نے تو کہا کہ

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف