Search This Blog

Saturday 20 July 2013

مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں!

مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں!

بلاشبہ رمضان المبارک کی عظمت نزول قرآن سے وابستہ ہے اور قرآن بنی نوع انسان کو جو مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے اسی کی پیروی میں دنیوی واخروی زندگی کی فلاح ہے اور لاریب کہ یہ فیضِ فکر عمل انسان کی متاع عزیز ہے۔ اور کس قدر خوش قسمت ہیں وہ نفوس جو ان فیوض وبرکات کو اپنی زندگی کا اثاثہ بنارہے ہیں اور اپنی فردا کو سنوار رہے ہیں، وہ انسان کا مستقبل اس کے ہاتھ میں تھماتا ہے کہ چاہے تو درخشاں بنائے اور چاہے تو تاریک تر! اور قوموں کے حالات اور عذابوں کے تذکرے بھی اسی لیے ہیں کہ ماضی کی امتوں کے حالات واقعات سے عبرت حاصل کریں اور اپنے مستقبل کی فکر کریں۔

یہ کتاب بیکراں… تدبر وفکر کا جہاں… پُر زور تاثیر کی حامل… مقفیّٰ اور مسجع بیان… متحیرکن اسلوب… خالقِ کائنات کی صناعی کی مظہر… انسان کو حسن وجمال سے آشنا کرنے والی… نور حق سے منور اور باطل کے چنگل سے چھڑانے والی… عبدیت کا اظہار ذی شان، جس میں پنہاہ بندے کا عزت ووقار… انسان کو انسانیت سے سرفراز فرمانے والا کلام … جس میں تخلیق کی رفعت کا شعور پنہاں ہے… امتیازات پر ضرب کاری اور وحدت الہٰ کا درسِ عظیم… نور تحقیق کا منبع… وہ کلام جو دعوت دیتا ہے کہ تحقیق کی بنیاد علم اور حکمت کو بنائو اور تحقیقات کے بل پر عمل تسخیر کو اپنی متاع حیات بنالو! ’’اولی الالباب‘‘ کو پکارتے یہ کتاب مقدسہ کے اوراق… جن میں فہم وفراست اور علم وحکمت کے خزانے پوشیدہ ہیں… یہ کتاب جس کے فیوض وبرکات پر جتنی تحقیق کی جارہی ہے اتنے ہی نئے نئے حقائق منکشف ہورہے ہیں۔ قرآن کا یہ اعجاز کہ بندے کو ہر روز نئی شان اور جستجو کا نیا جہان عطا کرتا ہے۔ جس کو اقبال نے کہا
’’ہر لحظ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘‘

مگر ہم نے قولاً اور عملاً اس کتاب کا کیا تعارف پیش کیا دنیا کے سامنے…؟ اگر یہ دیکھنا ہے تو دیکھیں کہ ہم نے سماج میں کیا مرتبہ متعین کیا اس کتاب مقدس کا۔ اور کیا مقام ہے ہماری زندگی میں اس کتاب کا… کیا رویہ ہے ہمارا اس کے آفاقی پیغام کے ساتھ…!

میں ایکسپو سینٹر میں بک فیئر کے موقع پر تاج کمپنی کے اسٹال پر موجود قرآن کی طباعت کے مختلف انداز دیکھ رہی تھی۔ کہ معاً ایک باریش صاحب نے اسٹال پر آتے ہوئے با آواز بلند کہا ’’مولانا فلاں‘‘ کا قرآن ہے آپ کے پاس؟ میں نے چونک کر نظریں اٹھائیں کہ قرآن ’’مولانا فلاں‘‘ کا کیسے ہوگیا؟ تھوڑی دیر میں میں نے دیکھا کہ اسٹال پر موجود نو عمر لڑکا کسی کو قرآن کے مختلف نسخے دکھاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ ہے مولانا عثمانی کا قرآن۔ یہ ہے مولانا تھانوی کا قرآن… یہ نئی طباعت میںمولانا اصلاحی کا قرآن،مولانا دریا آبادی اور مولانا مودودی کے قرآن بھی موجود ہیں۔ ان سب کے بیچ اللہ تعالیٰ کا قرآن کہاں کھو گیا؟ ایک انتہائی تکلیف دہ احساس وہاں کھڑے کھڑے رگ وپے میں سرایت کرگیا۔ کہ آہ… ہوئے کس درجہ فقہیانِ حرم بے توفیق، جب میں نے اسٹال کے ذمہ دار فرد سے بات کی کہ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ قرآن مولانائوں کے نام سے فروخت ہورہے ہیں۔ تو فرد متعلقہ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نسخے زیادہ تر اپنے شارحسین ومفسرین کے ناموں سے ہی فروخت ہوتے ہیں۔ مگر میں ایک سوال ذہن سے چپکا ہوالے کر اسٹال سے ہٹ گئی کہ کیا بات واقعی اتنی ہی سادہ ہے؟ اور قرآن سے وہ تعلق محسوس ہوا جو کسی مظلوم سے محسوس ہوتا ہے۔ اور قرآن کے ساتھ ایک عجیب ’’بے چارگی‘‘ کا تعلق تو بچپن میں اس وقت قائم ہوا تھا جب محلہ میں دو نابینا بھائی جو ہر جمعرات کو بھیک مانگنے آیا کرتے تھے وہ محلے میں کھڑے ہو کر اس وقت تک با آواز بلند تلاوت کرتے رہتے تھے جب تک ان کی جیب میں مطلوبہ رقم نہ آجاتی یا محلے کے ہر گھر سے آٹھ آنے یا 4 آنے نہ مل جاتے۔ اور کتنی خواہش تھی امی جان مرحومہ کی کہ بھائی قرآن حفظ کرے۔ جتنی بار اسے محلے کی مسجد میں بھیجا وہ مدرسے کے نابینا حافظ جی کی گیلی قمچیوں کی شدید ضربوں سے ہیبت زدہ ہو کر بھاگ کھڑا ہوتا…! اور پھر وہ خود قرآن سے ہی خوف زدہ ہوگیا اور کسی سے بھی پڑھنے پر آمادہ نہ ہوتا۔ بلکہ ابا جی مرحوم مجبور کرتے تلاوت کے لیے تو قرآن کو جزدان سے نکالتے ہوئے اس کی رنگت پیلی پڑجاتی۔ اور اکثر گھروں میں علاوہ ماہ رمضان، قرآن ان سپاروں کی مدد سے پڑھا جاتا گاہے بگاہے جو اپنے مرحومین کی ایصال ثواب کے لیے ان کی برسی پر گھروں میں پہنچا دیے جاتے۔ جو نسبتاً مہذب لوگ ہوتے وہ اپنے گھروں میں قرآن خوانی رکھ لیا کرتے۔ اور اس قرآن خوانی کو معتبر بنانے اور ’’ختم‘‘ کو اعتبار بخشنے کے لیے اکثر مدرسے کے بچے آتے۔ وہ جس انداز میں قرآن پڑھتے تو اس وقت کا ننھا ذہن سوچا کر تاکہ کیا اللہ میاں اونچی آواز سنتے ہیں؟ (معاذ اللہ) ان مدرسے کے بچوں کا حلق کے آخری سرے سے پڑھنا اور انتہائی متحرک جسم، تو وہ بے چارے ایک سپارہ پڑھ کر ہانپنے لگتے جو بریانی یا مٹھائی کے شوق میں ہر ایسے موقع پر محلے کے ہر گھر میں موجود ہوتے۔ بچپن کے ذہن میں قرآن کے ساتھ نہ معلوم کیوں غم کا تصور پیوستہ تھا۔ اور حافظ جی کے ساتھ نابینا کا۔ کیونکہ خوشی کے موقع پر کبھی کسی کو قرآن پڑھتے دیکھا ہی نہ تھا۔ قرآن موت کے گھر میں، میت کے سرہانے، سوئم، چالیسویں، برسی کے موقع پر ہی ختم کیا جاتا تھا مجالس میں۔ ہاں مجھے محلے کی وہ خالہ بھی رمضان مقدس میں اکثر یاد آتی ہیں جو رمضان شریف سے قبل نئے جزدان سنہری بیلوں اور ستاروں سے مزین تیار کرتی تھیں اور محلے بھر کی عورتیں (قرآن کی سالگرہ کا جشن منانے کے لیے) ماہ رمضان میں قرآن کو نئے لباس سے مزین کرتیں۔ تب گھر میں موجود تمام قرآن گھر کی بلند جگہوں سے جھاڑ جھاڑ کر اتارے جاتے اور میز کی زینت بنتے کہ رمضان میں بہرحال تلاوت تو گھر کے ہر فرد کو کرنا ہے۔ لہٰذا سالانہ ضرورت پڑتی تھی نصف درجن قرآن کے نسخوں کی جو عموماً ہر گھر میں موجود تھے اور گھر کی کسی بلند ترین جگہ پر رکھتے ہوئے۔ سہ ماہی، ششماہی دھول البتہ جھاڑی جاتی ان پر سے کہ کتاب مقدس ہے ’’بے ادبی‘‘ نہ ہوجائے۔ اور بچوں کے تو قرآن کو ہاتھ لگانے کا تصور بھی محال۔ کہ بے ادبی ہوجائے گی۔ نانی جان مرحومہ کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے آواز لگاتیں کہ یہ میرے ہاتھ سے قرآن لے کر رکھ دو تو وہ لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کے ہاتھ میں دینا پسند کرتیں…! یوں لگتا تھا کہ ایسی مقدس کتاب ہے کوئی کہ بس فرشتے ہی چھوسکتے ہیں… نہ معلوم آج بھی اس کتاب سے کون کسی درجہ کا تعلق اور تعارف رکھتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں کیا سلوک روا رکھتا ہے۔ دنیا کی سب سے مظلوم کتاب کہا جائے کتاب مقدسہ کو تو بے جانہ ہوگا۔ ماہ مبارک قرآن کی سالگرہ کا جشن… سالگرہ کے موقع پر گردش ایام یوں پیچھے چلی جاتی ہے کبھی کبھی…
اللہ کرے کہ اس کتاب سے فیض یاب ہونا سیکھیں اس کے فیض کو عام کرنا سیکھ جائیں۔ کہ اقبال نے تو کہا کہ

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

No comments:

Post a Comment