تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے!
سورۃ القدر میں جس رات کا ذکر ہے اس رات نے درحقیقت پوری کائنات کو ایک خوشی اور سرشاری سے ہمکنار کیا۔ یہ عرش وزمین کے باہمی اتصال کی کتنی خوبصورت کتنی حیرت انگیز رات تھی۔ ایسی رات جس کا اس زمین اور آسمان نے آج تک مشاہدہ نہ کیا تھا۔ انسانی فہم وادراک جتنا بھی ترقی کر جائے وہ اس عظیم رات کی عظمت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے گا۔ کہ وَماَ اَدْرَکٰ مَالَیْلَۃُ الَقْدرہ تم ادراک نہیں کرسکتے لیلتہ القدر کا! کیسا حسین اور وجد میں لانے والا منظر قرآن پیش کرتا ہے کہ فرشتوں کے جھمگٹ میں روح الامین زمین کی جانب رواں دواں ہیں۔ اہل زمین کے لیے سوغات لے کر، کائنات کا سب سے عظیم تحفہ لے کر، آسمان دنیا سے زمین تک ہر طرف نور ہے اور پوری کائنات سراپا نور ہے۔ نہ صرف یہ رات سلامتی ہے طلوع صبح تک بلکہ یہ رات جو عظیم پیغام لے کر آئی ہے وہ پیغام رہتی انسانیت تک کے لیے سلامتی کا پیغام ہے۔
یہ کون سی رات ہے؟ اس میں بہت سی روائتیں ہیں لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ یہ آخری عشرے کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ اور قدر والی رات ہے اور قدر کا مفہوم کہیں علماء ’’تدبیرامر‘‘ بیان کرتے ہیں اور کہیں ’’قدروقیمت‘‘ حقیقتاً دونوں ہی مفہوم اس لفظ ’’قدر‘‘ میں مخفی ہیں۔ کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور توجیح جو اس رات میں کی گئی اس نے واقعتا رہتی دنیا تک کے بندوں کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔ ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سالوں میں انسانیت کی فلاح کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں انجام پایا کہ قرآن کی شکل میں جو عقیدہ، جو قانون، جو آئین، جو اصول وضوابط وضع کیے گئے رہتی دنیا تک انسانوں کی سلامتی ان ہی پر عمل سے وابستہ ہے۔ اس قدر والی رات میں انسانیت کو نئی قدروں سے روشناس کرایا گیا۔ صدیوں سے رائج جاہلیت کے دور کی سب قدریں، سب پیمانے، کُل کی کُل تہذیب اور تمدن سب کو مسترد کردیا گیا۔ اب انسانیت کو ہمیشہ رہنے والی عظیم قدریں اور نئے پیمانے دیے گئے۔ نسلی، نصبی غرور خاک میں ملا دیے گئے ایک دوسرے پر شرف اور برتری کے پیمانے یکلخت تبدیل کردیے گئے!!
اس ایک رات کی عظمت رہتی دنیا تک ثبت کردی گئی… کہ انسانیت اس عظیم ترین یادگار واقعے کو فراموش نہ کردے، اس سے غافل نہ ہوجائے۔ لہٰذا رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہر سال اس عظیم رات کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔اس عظیم واقعہ کی یاد کو زندہ کریں۔ اس رات کو تلاش کریں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جس کسی نے شب قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘ شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت کہ اپنے گزرئے ہوئے روزوشب کا تنہائی میں جائزہ لیا جائے اپنا بے لاک احتساب کیا جائے، جو رعائتیں ہم نے اپنے نفس کو دے دے کر اسے گناہوں کا خوگر بنا دیا ہے آج کی رات وہ حقیقی آئینہ بن جائے جس میں ہم بے لاگ اور بے رحمانہ طریقے سے بغیر خود کو رعائتیں دیے ہوئے اپنا احتساب کرلیں کہ ابھی تو رجوع کا وقت ہے، ابھی تو توبہ النصوح کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ نہ معلوم آنے والے سال میں ہمیں یہ ایمان واحتساب کی قدر والی رات نصیب بھی ہو کہ نہ ہو لہٰذا اس بار ان گھڑیوں کو غنیمت جانتے ہوئے آئندہ کی بہتری کے جو امکانات ہوسکتے ہیں، یہ قدر والی رات دراصل اسی بہتر زندگی کی طرف دعوت دینے والی رات ہے۔ کہ سچی استغفار کریں اپنا کڑا محاسبہ کریں جو نافرمانیاں کرچکے ان پر مذامت کے آنسو بہائیں جو نیکیاں نہ کرسکے آج کی رات میں ان کی توفیق طلب کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بندۂ خاکی اگر اس رات کی حقیقی قدر پہچان لے تو اس ایک رات میں وہ خدا کے قرب کی اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں بھی ممکن نہیں کہ اس رات کے پردے میں جو خزانے چھپے ہیں آج کی رات کی تلاش میں جو گرم دم جستجو ہوگا وہی ان خزانوں کو پاسکے گا۔
حضرت ابن اسی حاتم نے روایت کیا ہے کہ رسول خدا صلی علیہ وسلم نے نبی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر کیا ہے جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغول جہاد رہا اور اس نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے۔ مسلمانوں یہ سن کر تعجب اور رشک کرتے تھے جس پر یہ سورۂ قدر نازل ہوئی اور امت کے لیے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت کردی۔ اس طرح شب قدر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات میں سے ایک امتیاز ہے۔ یہ وہی عظیم رات جس کا ذکر قرآن میں اس طرح ہے ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو ایک با برکت رات میں اتارا ہے یقینا ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں بے شک ہم بھی رسول بھیجنے والے ہیں یہ تمہارے رب کی رحمت کے باعث ہے یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے (الدخان ۴۴:۳۔۶) یعنی رمضان المبارک کی اس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اللہ کے بندوں تک اس کی تعلیمات کو پہنچا دیں۔
ہم اہلیان پاکستان جو اس ماہ مبارک میں اپنی آزادی کا 64 واں جشن منانے جارہے ہیں اور شب قدر کی کسی ایسی ہی عظیم رات کو ہمیں یہ لاالہٰ کی سرزمین عطا ہوئی تھی ہم اس کے وارث بنائے گئے تھے کہ یہاں ایک اللہ کی حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعمیر کریں گے جشن آزادی کی تیاریوں کے ساتھ جب ہم شب قدر کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوں تو اس جائزے اور احتساب کا اس سے بہتر موقع اور کبھی ہمیں نصیب نہ ہوگا کہ ہم بے لاگ احتساب کریں کہ لاالہٰ کی وراث اس سرزمین پر جن فتنوں نے آج سر اٹھایا ہوا ہے آج روزوشب معصوم کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہورہا ہے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں کون سی آزمائش ہے جس کی بھٹی میں ہم اس وقت نہیں سلگ رہے۔ ہم اللہ کی حدوں کو توڑنے رہے اور اس کی نعمتوں سے محروم ہوتے رہے شب قدر میں ملنے والی سعادت (پاکستان) کی ہم نے قدر نہ کی تو شقاوت اور بدبختی ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی۔ ہماری جہالت اور غفلت نے ہمیں آج یہاں لا کھڑا کیا کہ نہ سرحدیں محفوظ ہیں نہ گھر نہ قومی حمیت باتی ہے نہ انسانی جان کی کوئی قیمت ہے۔ یہ سلامتی والی رات یاد دہانی ہے ہمارے لیے کہ حقیقی سلامتی، ہمارے معاشرے کی سلامتی، ہمارے ایمان کی سلامتی، ہمارے کردار کی سلامتی، ہمارے گھروں کی سلامتی، ہمارے دلوں کا سکون وسلامتی سب اس شب قدر میں ہے۔ ہمارا مادّی ارتقاد ہمارے روحانی ارتقاء سے وابستہ ہے۔ اسی سے ہماری تہذیب وتمدن کا ارتقاء وابستہ ہے۔
یہ نورانی رات مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں پھر اسی نورر کی طرف دعوت دے رہی ہے جو 14 سو برس قبل انسانیت کی روح میں جب چمکا تھا تو عرب وعجم ان کے غلام ہوگئے تھے، شرق وغرب میں ان کے اقتدار کا غلبہ تھا۔ وہ عظیم رات جو ملاء اعلیٰ سے ربطہ وتعلق کی رات ہے جس میں جبرائیل امین کا نزول فرشتوں کے جھرٹ میں اہل زمین کی طرف ہوتا ہے۔ ہماری تمام تر محرومیوں اور شقاوت کے باوجود ایک بار پھر یہ عظیم رات ہمیں نصیب ہورہی ہے، لازم ہے کہ ہم اپنی روح اور قلب پر اس کے اثرات کو محسوس کریں اور اسلامی عبادات محض ایک رسم یا وظائف میں اعدادوشمار کی ایک گنتی یا تعداد کے ساتھ کچھ نفلی نمازوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس رات کو ایمان واحتساب کے ساتھ گزارنے کا حکم ہی اس لیے کہ ہمارا قلب زندہ بیدار ہو۔ ہم اللہ سے اور قرآن سے اپنے حقیقی تعلق کا جائزہ لیں اور یہ عبادت کی راتیں ہمیں وہ شعور وبصیرت دے جائیں کہ ہم حقائق پر غوروفکر کرنے کے عادی ہوجائیں اور صرف وہ چند راتوں کی عبادت اور چند گھنٹوں کی حیثیت اور رجوع الی اللہ کی کیفیت نہ ہو بلکہ ہمارے دل کی دنیا اس انقلاب سے دوچار ہو کہ ہمارے عمل سے اس کے ثمرات ظاہر ہوں اور پوری معاشرتی زندگی کے لیے قوت محرکہ بن جائیں۔
بلاشبہ یہ رات بہترین اسلامی نظام تربیت کا ایک جزو ہے۔ اگر ہم اس کو پورے شعور اور ادراک کے ساتھ گزارنے والے بن جائیں۔
یہ کون سی رات ہے؟ اس میں بہت سی روائتیں ہیں لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ یہ آخری عشرے کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ اور قدر والی رات ہے اور قدر کا مفہوم کہیں علماء ’’تدبیرامر‘‘ بیان کرتے ہیں اور کہیں ’’قدروقیمت‘‘ حقیقتاً دونوں ہی مفہوم اس لفظ ’’قدر‘‘ میں مخفی ہیں۔ کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور توجیح جو اس رات میں کی گئی اس نے واقعتا رہتی دنیا تک کے بندوں کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔ ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سالوں میں انسانیت کی فلاح کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں انجام پایا کہ قرآن کی شکل میں جو عقیدہ، جو قانون، جو آئین، جو اصول وضوابط وضع کیے گئے رہتی دنیا تک انسانوں کی سلامتی ان ہی پر عمل سے وابستہ ہے۔ اس قدر والی رات میں انسانیت کو نئی قدروں سے روشناس کرایا گیا۔ صدیوں سے رائج جاہلیت کے دور کی سب قدریں، سب پیمانے، کُل کی کُل تہذیب اور تمدن سب کو مسترد کردیا گیا۔ اب انسانیت کو ہمیشہ رہنے والی عظیم قدریں اور نئے پیمانے دیے گئے۔ نسلی، نصبی غرور خاک میں ملا دیے گئے ایک دوسرے پر شرف اور برتری کے پیمانے یکلخت تبدیل کردیے گئے!!
اس ایک رات کی عظمت رہتی دنیا تک ثبت کردی گئی… کہ انسانیت اس عظیم ترین یادگار واقعے کو فراموش نہ کردے، اس سے غافل نہ ہوجائے۔ لہٰذا رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہر سال اس عظیم رات کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔اس عظیم واقعہ کی یاد کو زندہ کریں۔ اس رات کو تلاش کریں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جس کسی نے شب قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘ شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت کہ اپنے گزرئے ہوئے روزوشب کا تنہائی میں جائزہ لیا جائے اپنا بے لاک احتساب کیا جائے، جو رعائتیں ہم نے اپنے نفس کو دے دے کر اسے گناہوں کا خوگر بنا دیا ہے آج کی رات وہ حقیقی آئینہ بن جائے جس میں ہم بے لاگ اور بے رحمانہ طریقے سے بغیر خود کو رعائتیں دیے ہوئے اپنا احتساب کرلیں کہ ابھی تو رجوع کا وقت ہے، ابھی تو توبہ النصوح کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ نہ معلوم آنے والے سال میں ہمیں یہ ایمان واحتساب کی قدر والی رات نصیب بھی ہو کہ نہ ہو لہٰذا اس بار ان گھڑیوں کو غنیمت جانتے ہوئے آئندہ کی بہتری کے جو امکانات ہوسکتے ہیں، یہ قدر والی رات دراصل اسی بہتر زندگی کی طرف دعوت دینے والی رات ہے۔ کہ سچی استغفار کریں اپنا کڑا محاسبہ کریں جو نافرمانیاں کرچکے ان پر مذامت کے آنسو بہائیں جو نیکیاں نہ کرسکے آج کی رات میں ان کی توفیق طلب کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بندۂ خاکی اگر اس رات کی حقیقی قدر پہچان لے تو اس ایک رات میں وہ خدا کے قرب کی اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں بھی ممکن نہیں کہ اس رات کے پردے میں جو خزانے چھپے ہیں آج کی رات کی تلاش میں جو گرم دم جستجو ہوگا وہی ان خزانوں کو پاسکے گا۔
حضرت ابن اسی حاتم نے روایت کیا ہے کہ رسول خدا صلی علیہ وسلم نے نبی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر کیا ہے جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغول جہاد رہا اور اس نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے۔ مسلمانوں یہ سن کر تعجب اور رشک کرتے تھے جس پر یہ سورۂ قدر نازل ہوئی اور امت کے لیے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت کردی۔ اس طرح شب قدر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات میں سے ایک امتیاز ہے۔ یہ وہی عظیم رات جس کا ذکر قرآن میں اس طرح ہے ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو ایک با برکت رات میں اتارا ہے یقینا ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں بے شک ہم بھی رسول بھیجنے والے ہیں یہ تمہارے رب کی رحمت کے باعث ہے یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے (الدخان ۴۴:۳۔۶) یعنی رمضان المبارک کی اس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اللہ کے بندوں تک اس کی تعلیمات کو پہنچا دیں۔
ہم اہلیان پاکستان جو اس ماہ مبارک میں اپنی آزادی کا 64 واں جشن منانے جارہے ہیں اور شب قدر کی کسی ایسی ہی عظیم رات کو ہمیں یہ لاالہٰ کی سرزمین عطا ہوئی تھی ہم اس کے وارث بنائے گئے تھے کہ یہاں ایک اللہ کی حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعمیر کریں گے جشن آزادی کی تیاریوں کے ساتھ جب ہم شب قدر کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوں تو اس جائزے اور احتساب کا اس سے بہتر موقع اور کبھی ہمیں نصیب نہ ہوگا کہ ہم بے لاگ احتساب کریں کہ لاالہٰ کی وراث اس سرزمین پر جن فتنوں نے آج سر اٹھایا ہوا ہے آج روزوشب معصوم کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہورہا ہے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں کون سی آزمائش ہے جس کی بھٹی میں ہم اس وقت نہیں سلگ رہے۔ ہم اللہ کی حدوں کو توڑنے رہے اور اس کی نعمتوں سے محروم ہوتے رہے شب قدر میں ملنے والی سعادت (پاکستان) کی ہم نے قدر نہ کی تو شقاوت اور بدبختی ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی۔ ہماری جہالت اور غفلت نے ہمیں آج یہاں لا کھڑا کیا کہ نہ سرحدیں محفوظ ہیں نہ گھر نہ قومی حمیت باتی ہے نہ انسانی جان کی کوئی قیمت ہے۔ یہ سلامتی والی رات یاد دہانی ہے ہمارے لیے کہ حقیقی سلامتی، ہمارے معاشرے کی سلامتی، ہمارے ایمان کی سلامتی، ہمارے کردار کی سلامتی، ہمارے گھروں کی سلامتی، ہمارے دلوں کا سکون وسلامتی سب اس شب قدر میں ہے۔ ہمارا مادّی ارتقاد ہمارے روحانی ارتقاء سے وابستہ ہے۔ اسی سے ہماری تہذیب وتمدن کا ارتقاء وابستہ ہے۔
یہ نورانی رات مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں پھر اسی نورر کی طرف دعوت دے رہی ہے جو 14 سو برس قبل انسانیت کی روح میں جب چمکا تھا تو عرب وعجم ان کے غلام ہوگئے تھے، شرق وغرب میں ان کے اقتدار کا غلبہ تھا۔ وہ عظیم رات جو ملاء اعلیٰ سے ربطہ وتعلق کی رات ہے جس میں جبرائیل امین کا نزول فرشتوں کے جھرٹ میں اہل زمین کی طرف ہوتا ہے۔ ہماری تمام تر محرومیوں اور شقاوت کے باوجود ایک بار پھر یہ عظیم رات ہمیں نصیب ہورہی ہے، لازم ہے کہ ہم اپنی روح اور قلب پر اس کے اثرات کو محسوس کریں اور اسلامی عبادات محض ایک رسم یا وظائف میں اعدادوشمار کی ایک گنتی یا تعداد کے ساتھ کچھ نفلی نمازوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس رات کو ایمان واحتساب کے ساتھ گزارنے کا حکم ہی اس لیے کہ ہمارا قلب زندہ بیدار ہو۔ ہم اللہ سے اور قرآن سے اپنے حقیقی تعلق کا جائزہ لیں اور یہ عبادت کی راتیں ہمیں وہ شعور وبصیرت دے جائیں کہ ہم حقائق پر غوروفکر کرنے کے عادی ہوجائیں اور صرف وہ چند راتوں کی عبادت اور چند گھنٹوں کی حیثیت اور رجوع الی اللہ کی کیفیت نہ ہو بلکہ ہمارے دل کی دنیا اس انقلاب سے دوچار ہو کہ ہمارے عمل سے اس کے ثمرات ظاہر ہوں اور پوری معاشرتی زندگی کے لیے قوت محرکہ بن جائیں۔
بلاشبہ یہ رات بہترین اسلامی نظام تربیت کا ایک جزو ہے۔ اگر ہم اس کو پورے شعور اور ادراک کے ساتھ گزارنے والے بن جائیں۔
No comments:
Post a Comment