Search This Blog

Friday 2 August 2013

مسجد الا قصیٰ کے تعلق سے ایک غلط فہمی

مسجد الا قصیٰ  کے  تعلق سے ایک غلط فہمی 
وقار علی روغا نی

 گذشتہ دنوں پو رے عالم اسلام میں شبِ معراج مذہبی جو ش و جذبے کے ساتھ منا یا گیا ۔ واقعہ معراج اگر ایک جا نب حضور نبی کریم ۖ کی ذات اقدس کی بزر گی اور محبو ب خدا ہو نے پر مہر تصدیق ثبت کر تی ہے تو دوسری جا نب یہ انسا نیت کی معراج بھی ہے کیو نکہ ایک انسا ن ہی کو اللہ تعا لیٰ نے اپنی جناب میں رفعتوں سے سر فراز کیا ۔
اس دن کی منا سبت سے ملک کے تمام اخبارات نے خصو صی ایڈیشنز شائع کئے اور اس واقعہ کی منا سبت سے قابل قدر مضا مین منظر عام پر آئے۔ایک غلط فہمی ،جس کی جا نب میں اشا رہ کر نا ضروری سمجھتا ہوں،یہ ہے کہ اس دن اور دیگر مواقع پر جو تصویر اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور جسے عام طور مسجد الا قصیٰ سمجھا جا تا ہے وہ صحیح نہیں۔ اس تصویر میں سنہری گنبد کی ایک ہشت پہلو عمارت دکھا جا تی ہے اور عام لو گ اسے ہی مسجد الا قصیٰ سمجھتے ہیں جو کہ صحیح نہیں کیونکہ یہ تصویر گنبد الصخرا کی ہے جسے انگریزی میں Dome of the Roch کہا جا تا ہے ۔آئیے!میں آپ کے ساتھ یر و شلم ،بیت المقدس ،مسجد القصیٰ اور گنبد الصخرا سے متعلق مختصراً کچھ معلو ما ت شیئر کر لوں ۔ یر و شلم شہر دنیا کا قدیم شہر ہے جس پر اس وقت اسرائیل کا قبضہ ہے اور اس کے تین اطراف میںفلسطینی اتھا رٹی کا علا قہ ''مغر بی کنا رہ ''واقع ہے ۔یر و شلم دنیا کا واحد شہر ہے جو تینوں آسما نی اور وحدا نی مذا ہب اسلام ،عیسائیت اور یہو دیت کے ما ننے والوں کے لئے مقد س اور قابل احترام ہے کیو نکہ اس میں تینوں مذاہب  ما ننے والوں کے مقدس مقامات مو جو د ہیں۔
حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد مصر سے واپسی پر بنی اسرائیل نے فلسطین میںمضبو ط حکو مت اور ریاست قائم کی ۔حضرت دائود ۖ اور حضرت سلیمانۖ کا دور حکو مت بنی اسرائیل کا ممتاز ترین اور سنہری دور تھا ۔اس علا قے پر بنی اسرائیل کی حکو مت تقریباً 120بر س تک رہی ۔حضرت سلیمان اپنے دور  حکو مت میں یہاں''ہیکل سلیما نی ''تعمیر کی اور یہی ہیکل بنی اسرائیل کا مقد س ترین مقام ہے ۔یہ در اصل ایک عما رتی کمپلیکس تھا جس میں حضرت سلیمان کا سیکریٹریٹ بھی واقع تھا ۔ یہ ہیکل جس خطے پربنا یا گیا تھا اسے
 بیت المقد س کہا جا تا ہے ۔اس کی لمبا ئی 460 گز اور چو ڑا ئی 330گز ہے ۔ 
300قبل مسیح میں جب با بل کے با دشاہ بنو کد نصر نے یر وشلم پر حملہ کرکے اس کو تباہ کیا تو اس کمپلیکس کو بھی نقصان پہنچا ۔بنو کد نصر نے یرو شلم پر قبضہ کر کے بنی اسرائیل کی حکو مت ختم کی اور انہیں غلام بنا لیا ۔ 
پچاس بر س بعد ایران کے سائر س نے جب یہ علا قہ فتح کیا تو یہو دیوں کو ہیکل سلیما نی دو بارہ تعمیر کر نے کی اجازت ملی اور اسے دو بارہ تعمیرکر لیا گیا ۔تا ہم 70ء میں رو میوں نے حملہ کر کے ہیکل سمیت پو رے یر و شلم کو ایک مر تبہ پھر تبا ہ کر دیا اور یہو دیوں کا قتل عام کیا ۔جاس تبا ہی میں ہیکل سلیما نی کی شر قی دیوار ایک حصہ سلامت رہ گیا جسے دیوار گر یہ  (Willing Wall)کے نام سے جا نا جا تا ہے اور اب یہ یہو د کا مقد س تر ین مقام اور قبلہ ہے ۔جہاں وہ آکر اپنے سنہری دور کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں اور عبادت کر تے ہیں۔
300بر س بعد638ء میں سید نا عمر  کے دور خلافت میںمسلما نوں نے یرو شلم فتح کیا اور سید نا عمر  خو د شہر کی چا بیاں لینے کے لئے یر و شلم تشریف لے گئے ۔ اس وقت ہیکل سلیما نی کی پو ری عمارت کھنڈر بنا ہوا تھا اور گناد سے اٹھا پڑا تھا ۔حضرت عمر جب وہاں تشریف لے گئے تو خو د اپنے ہاتھوں سے اس احا طے کی صفا ئی شروع کی اور اس طرح وہاںسے سا را گندا ٹھوا کر اس کو صاف کروا دیا۔ بعد ازاں انہوں نے اس احا طے کے جنو بی حصے میں ایک جگہ نماز پڑھنے کے لئے مخصو ص کر دی ۔ یہی آج کا مسجد الا قصیٰ ہے۔مسجد کی کل لمبا ئی 220گز اور چو ڑا ئی 103گز ہے ۔غالباًاسی مقام پر حضرت سلیما ن  کے دور حکو مت میں بھی مسجد آبا د تھی ۔بعد ازاں یہ علا قہ ساڑھے چار سو بر س تک مسلما نوں کے قبضے میں رہا ۔ یہ تو ہوابیت المقدس ،مسجد الا قصیٰ اور یر و شلم کا تعارف  اب آتے ہیں قبتہ الصخرا کی طرف ۔''صخرا ''عر بی زبان میں چٹا ن کو کہتے ہیں۔اس سے متعلق بہت کم معلو ما ت مو جو د ہیں ۔اس چٹا ن کی اونچا ئی پا نچ فٹ ہے اور اس کے ار د گر د لکڑی کا کٹہرا لگا ہوا ہے ۔اس کے او پر وہ سنہری گنبد ہے جو عام طور پر تصاویر میں نظر آتا ہے اور جسے لو گ مسجد الاقصیٰ سمجھتے ہیں۔
یہ مسجد الا قصیٰ کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ کو ئی الگ مسجد ہے ۔ بس ایک چٹا ن  ہے جس پر یہ عمارت تعمیر ہو ئی ہے ۔ اس کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ صحا بہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے دور میں اس کی کو ئی اہمیت نہ تھی ۔ نہ اسے کو ئی تقد س حاصل تھی ۔بنو امیہ کے دور میں ولید بن عبد الما لک نے ا س پر گنبد تعمیر کروا یا او ر لو گوں کو خا نہ کعبہ کی بجا ئے اس کی زیارت کر نے کی تر غیب دلا ئی کیو نکہ اس وقت مکہ معظمہ میںعبد اللہ بن زبیر کی حکو مت تھی ا وررجولوگ حج کر نے مکہ معظمہ جاتے وہ وہاں ان سے بیعت لیتے تھے ۔اس اعتبار سے ولید بن عبد الما لک کا یہ اقدام مذہبی نہیں بلکہ خالص سیا سی اقدام تھا ۔ اس ضمن میں بہت سی احادیث بھی گھڑ لی گئیں جو احا دیث کے چھ اہم کتا بوں میں جگہ نہ پا سکیں اور تمام اہل علم نے انہیں ضعیف کہا ۔ابن القیم  اور البا نی  جیسے علما ء حدیث نے انہیں جھو ٹا اور من گھڑت قرار دیا۔ یہ چٹا ن مسجد الاقصیٰ سے شمال کی جانب 175گز کے فا صلے پر واقع ہے چو نکہ مسجد میں قبلہ جنو ب کی طر ف ہے اس لئے نمازی جب نماز پڑھتے ہیں تو ان کی پشت اس چٹا ن کی جا نب ہو تی ہے ۔رہا یہ مسئلہ کہ قبة الصخرا کیوں اتنی مشہو ر ہو ئی تو اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ پی ایل او سمیت آزا دی فلسطین کی تمام تنظیمیں اوائل میں سیکو لر تھیں اور انہوں نے قصداً ایک مسجد کو اپنے شعار کے طر زپر نہیں اپنا یا بلکہ مسجد الا قصیٰ کی بجائے قبة الصخرا کو شعار کے طور پراپنا یا گیا اور یہیں سے مو جو دہ زما نے میں اس عمارت کو شہر ت ملی ۔ (یواین این )

No comments:

Post a Comment