پردہ ڈالنے سے حقیقت مٹ نہیں سکتی
کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے اور حقیقت پر کتنا ہی دبیز پردہ ڈال دیا جائے‘ وہ ایک نہ ایک دن ضرور سامنے آتی ہے، اور جن حقائق پر زیادہ دنوں تک پردہ پڑا رہتا ہے اور وہ جب سامنے آتے ہیں تو سنسنی پھیل جاتی ہے اور پھر اعتراف اور کچھ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کچھ ایسا ہی حال جنگِ آزادی میں علماء کی خدمات‘ قربانیوں اور کردار کا رہا ہے۔ کہاں مسلمانوں کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا! علماء کا کردار تو بہت دور کی چیز ہے‘ وہ بھی اس نئی نسل کے ذریعے جس کی پرورش کہنے کو آزاد ہندوستان کی آزاد فضا میں ہوئی ہے‘ لیکن اس آزاد فضا پر مذہبی تعصب اس قدر حاوی رہا کہ نئی نسل نہ تو اس سے زیادہ دیکھ سکی جتنا اسے دکھایا گیا، نہ اس سے زیادہ پڑھ سکی جتنا اس کو پڑھایا گیا، اور نہ اس سے زیادہ سوچ سکی جتنا اسے ذہن نشین کرایا گیا۔ رہی بات آزاد ہندوستان کی حکومتوں کی، جن کی ذمے داری تھی کہ وہ جنگِ آزادی میں شروع سے آخر تک خدمات انجام دینے والی شخصیات اور ان کی قربانیوں کو دیانت داری کے ساتھ جمع کراتیں اور آزادی میں ان کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرکے شہریوں کو ان ہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتیں تاکہ قربانی دینے والوں نے آزاد ہندوستان میں جس جذبے، اتحاد اور یک جہتی کا خواب دیکھا اور ’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘ کی انگریزوں کی پالیسی کو للکارا تھا‘ آزاد ہندوستان کی تعمیر ان ہی بنیادوں پر ہوتی تو آج کسی کو بھی حق تلفی، زیادتی، نا انصافی، عدم مساوات اور پسماندگی کی شکایت نہ ہوتی۔
جدوجہدِ آزادی میں مسلمانوں خصوصاً علماء کا کردار ایک ایسا باب ہے جو اب تک کھولا ہی نہیں گیا ہے۔ اس معاملے میں تاریخ کے صفحات پر بھی اور حکومت کی پالیسی میں بھی مکمل بے حسی طاری رہی۔ اب بھی مولانا محمودحسن دیوبندی کی قربانیوں کے اعتراف میں جو ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا اس سے اگرچہ امید کی کرن نظر آرہی ہے اور اس بند باب کے کھلنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی ہے کہ قربانیوں کا اعتراف یا اعزاز صرف ان ہی تک محدود نہ رہ جائے اور جدوجہدِ آزادی کی پیشی پر بھی موجودہ اقلیت کی اصطلاح غالب نہ ہوجائے۔ کیونکہ تجربہ یہی کہتا ہے اور ملک کی پالیسی بھی یہی کہتی ہے کہ اقلیتوں کو نہ تو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرو اور نہ انہیں زیادہ اوپر اٹھائو۔ آزاد ہندوستان سے پہلے بھی اور آزاد ہندوستان کے بعد بھی ملک کی تعمیر میں ان کی نمائندگی برائے نام ہونی چاہیے۔ اس لیے جو لوگ جنگ آزادی کی صرف ایک مسلم اور مذہبی شخصیت کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ کے اجرا سے خوش ہیں‘ انہیں زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ علماء کی خدمات کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کرانے اور ملک کی تاریخ میں انہیں ایک اہم مقام دلانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، تب ہی مسلمانوں کے بارے میں بھی سوچ بدلے گی اور سیدھے سادے اور مذہبی وضع قطع میں نظر آنے والے علماء کے بارے میں بھی یہ غلط فہمی دور ہوسکتی ہے کہ وہ صرف مذہبی کام ہی کرسکتے ہیں، ملک میں سیاسی انقلاب نہیں لاسکتے۔ آج کل ویسے بھی پوری دنیا میں یہ ماحول بنا ہوا ہے کہ اسلام پسندوں کو انقلاب لانے میں مہارت حاصل ہے اور وہ جس طرح ذہن سازی کرسکتے ہیں اس سے فکری‘ سیاسی‘ سماجی‘ تعلیمی‘ معاشی غرض یہ کہ ہر طرح کا انقلاب آسکتا ہے‘ پھر ہندوستانی علماء نے جنگِ آزادی میں اس ہنر کا استعمال کیوں نہیں کیا ہوگا! اور آگے بھی انہیں موقع ملا تو وہ ملک و قوم کے مفاد میں حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ پہلے بھی انہوں نے مختلف مسائل میں ملک و قوم خصوصاً مسلمانوں کی رہنمائی کی اور اب بھی کررہے ہیں۔ ویسے بھی دنیا میں حقیقی اور ابدی انقلاب صرف اسلام ہی لاسکا، تو یہ کام اس کے سچے پیروکاروں سے زیادہ اور کون اچھی طرح کرسکتا ہے!
جدوجہدِ آزادی میں مسلمانوں خصوصاً علماء کا کردار نہ تو کسی سے مخفی ہے اور نہ ہی آزادی کی تاریخ ان کی خدمات کے تذکرے کے بغیر پوری ہوسکتی ہے۔ مذہبی تعصب تو آزادی سے پہلے بھی تھا‘ چونکہ اُس وقت آزادی کے متوالوں کی منزل صرف برطانوی حکومت کا خاتمہ تھا اس لیے مٹھی بھر لوگوں کا یہ تعصب اور اوپر سے انگریزوں کی ریشہ دوانیاں سماج کو تقسیم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں‘ لیکن آزادی کے فوراً بعد بلکہ آزادی کے حصول کے آخری ایام میں ہی جب انگریزوں کا ہندوستان سے جانا طے ہوگیا تھا۔
مذہبی تعصب نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور اس کے شکار مسلمان ہوئے۔ اسی وجہ سے ملک تقسیم ہوا‘ پھر آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت‘ مذہب اور ہر طرح کی سرگرمیوں سے جڑی ہوئی زبان اردو پر حملہ ہوا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے پہلی سرکاری زبان بنانے کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں ہندی اور اردو کو برابر ووٹ ملنے کے باوجود خصوصی اختیار کے ذریعے صرف اردو کو پیچھے نہیں کیا گیا تھا بلکہ مسلمانوں کو حاشیے پر کیا گیا تھا۔ اُس وقت اگرچہ اسے ایک اتفاقی واقعہ کہہ کر نظرانداز کردیا گیا‘ لیکن بعد کے واقعات سے ظاہر ہوگیا کہ وہ ایک گہری سازش تھی۔ اردو اُس وقت ہندی کی مدمقابل تھی لیکن آج تعصب اور نظرانداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اپنی بقا کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ اُس وقت تک ہندوستان میں مسلمانوں کی پوری تاریخ یا کلچر فارسی اور ہندی میں محفوظ تھا۔ انہیں جب حاشیے پر ڈال دیا گیا تو مسلمانوں کی تاریخ اور کلچر بھی حاشیے پر چلے گئے۔ اگر آزادی کے بعد سرکاری سطح پر اردو کو وہ مقام حاصل رہتا جو ہندی کو اب تک حاصل رہا ہے تو جنگِ آزادی میں مسلمانوں کی خدمات فراموش نہ کی جاتیں۔ خصوصاً علماء کی قربانیاں تو صرف اردو میں ہی محفوظ ہیں۔ اگر محبانِ اردو ان کو محفوظ نہ رکھتے اور انہیں لکھتے پڑھتے نہیں تو آج شیخ الہند کی خدمات کا اعتراف بھی حکومت نہ کرتی۔ اب بھی اس بات کا اندیشہ ہے کہ تحریک آزادی کے مسلم لیڈروں کی فہرست میں ایک نام کا اضافہ کرکے حکومت پھر سے معنی خیز خاموشی اختیار کرلے، اور جب حکومت خاموشی اختیار کرلے گی تو نئی نسل بھی مسلمانوں خصوصاً علماء کی خدمات سے نابلد رہے گی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس باب کو اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر شاملِ نصاب کیا جائے تاکہ کوئی اسے نظرانداز بھی کرنا چاہے تو نہ کرسکے۔
آزادی کے بعد صرف مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کو ہی نظرانداز نہیں کیا گیا بلکہ مذہبی تعصب نے ہر میدان میں مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے‘ حقوق سے محروم کرنے اور انہیں پسماندہ بنانے کا کام کیا۔ آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں‘ وہ اسی متعصبانہ سوچ‘ نظریے اور عمل کی دَین ہے جس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح آزادی کے بعد یہ تاثر دیا گیا کہ جدوجہدِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار برائے نام تھا‘ اسی طرح آج یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا کردار ہی برائے نام نہیں ہے بلکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی حیثیت بھی ثانوی درجے کی ہے۔ کچھ تو اس میں ہماری غلطی ہے کہ ہم نے علماء کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اُن دانشوروں کو اہمیت دی جنہوں نے مسلمانوں کی پہچان بنانے کے بجائے اپنی پہچان بنانے کا کام کیا اور اب بھی کررہے ہیں، تو علماء کے بارے میں حکومت سے حسنِ ظن کی توقع کیسے کرسکتے ہیں! علماء کی خدمات کا اعتراف اور انہیں شاملِ نصاب کرنا ہی جدوجہدِ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کو اہم مقام دلاسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اسی پہلو سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ آزادی کے66برس بعد مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف تو کرلیا گیا لیکن یہ اعتراف بھی ایک رسم بن کر پھر نظروں سے اوجھل ہوجائے گا
No comments:
Post a Comment