Search This Blog

Thursday 29 August 2013

شام کی خانہ جنگی میں کلیسا کا کردار

شام کی خانہ جنگی میں کلیسا کا کردار

فتح محمد ملک

آغازِکار ہی سے شام میں بشر الاسدکی حکومت کا تختہ اُلٹنے میں پادری حضرات سرگرمِ عمل چلے آ رہے ہیں۔ اسی جُرم کی پاداش میں اطالوی پادری Paolo Dall'Oglioکو جون 2012ءمیںملک بدر کر دیا گیا تھامگر وہ جلد ہی باغیوں کے زیرِ تسلط علاقے میں واپس آ گئے تھے۔ موصوف شام کی آبادی کے آٹھ فیصد کے رہبر و رہنما تھے مگر خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد تمام باغی گروپوں سے نظریاتی اور عملی تعاون میں مصروف ہو گئے تھے۔ گزشتہ دنوں جب دو بڑے باغی گروہوں کے درمیان باہمی جنگ و جدل شروع ہو گئی اور نتیجتاً القاعدہ نے آزاد شامی فوج کے قائد کمال حمامی کو قتل کر دیا تو پادری موصوف القاعدہ کے ٹھکانے پر پہنچے تاکہ ہر دو متحارب گروہوں کو باہمی اتفاق و اتحاد کی دولتِ نایاب سے فیض یاب کر سکیں۔یہاں پہنچنے کے بعد وہ لاپتہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اُنکی وفات حسرت ِآیات کی خبر روم میں پہنچی تو پوپ نے اُن کیلئے اجتماعی دُعا کا اہتمام فرمایا۔ ہر چند موصوف کی گمشدگی یا وفات انتہائی افسوسناک ہے تاہم ایک پادری کا بشرالاسد کی حکومت کیخلاف علمِ بغاوت بلند کرنا اور باغیوں کی نظریاتی اور عملی رہنمائی کا دم بھرنا بھی انتہائی افسوسناک ہے ۔اِس پر مجھے مغرب کی سامراجی سیاست میں کلیسا کے کردار پر اقبال کی نظم ”لادین سیاست“ ایک بار پھر یاد آئی ہے۔ اِس نظم میں اقبال نے فرنگی سیاست کو ایک ”دیوِبے زنجیر“قرار دے کر ہمیں متنبہ کیا ہے کہ :
متاعِ غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اِس کی
تو ہیں ہراولِ لشکر کلیسیا کے سفیر!

آج کی صلیبی جنگ میں عیسائی طالبان کی اِس وقتی ناکامی نے مغرب کی سامراجی قوتوں کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ اب وہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام میں شام پر براہِ راست حملہ آور ہونے کے بہانے ڈھونڈنے لگے ہیں۔ اُنکے اِن سامراجی عزائم کی راہ کی سب سے بڑی رُکاوٹ رُوس کی حکومت ہے جواقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور سے لیس ہے۔ روس کا کہنا یہ ہے کہ ثبوت کے بغیر شام پر یہ الزام سراسر فریب ہے۔ شام کی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ جن علاقوں میں باغی گروہوں کی عملداری ہے اُنہیں مغربی سامراج کیمیائی ہتھیار مہیا کر رہا ہے۔ جہاں تک شام کی حکومت کا تعلق ہے وہ اپنے ہی عوام سے یہ سلوک ہر گز نہیں کر سکتی ۔اِن تازہ ترین الزامات پر مجھے عراق میں صدام حسین کی حکومت پر ہمہ گیر تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگایا گیا تھا۔عراق کی تباہی کے بعد وہاں سے ایسا کوئی ہتھیار برآمد نہ ہوا تھا۔ یہ گویا عراق پر حملہ آور ہونے کا ایک بہانہ تھا۔ 

میں یہاں یہ یاد دلانے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ عراق پر بعث پارٹی کی حکومت تھی۔ ہر چند صدام حسین کا طرزِحکمرانی آمرانہ تھا تاہم بعث پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی تھی جسے ایک عیسائی مائیکل افلاک نے اب سے دُور اُسی سال قائم کیا تھا جس سال آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں قراردادِ پاکستان منظور کی تھی۔ 1940ءسے یہ سوشلسٹ پارٹی عرب دُنیا میں ایک انسانی فلاحی نظام پر کاربند چلی آ رہی تھی۔ صدام حسین کے عراق میں تعلیم اور علاج مُفت مہیا کیا جاتا تھا۔ بچوں کودرسی کتابوں اور سٹیشنری کے ساتھ ساتھ دوا اور دُودھ بھی مُفت مہیا کیا جاتا تھا۔ امریکی جارحیت نے صرف صدام حسین سے اقتدار ہی نہیں چھینا تھا بلکہ عراق کے بچوں سے مُفت علاج اور مُفت تعلیم کے سے انسانی حقوق بھی چھین لیے تھے۔ ہمارے ایک شاعر حسن عابدی نے اپنی متعدد نظموں میں امریکی جارحیت کے باعث بغداد کی ہمہ گیر تباہی کا موازنہ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی سے کیا ہے جن میں عراق پر بلاجواز امریکی یلغار کے نظریہ سازوں اور ہلاکت آفریں حکمتِ عملی وضع کرنیوالوں کے مقابلے میں ہلاکو خان فقط ایک طفلِ مکتب نظر آتا ہے۔ یہاں میں حسن عابدی مرحوم کی فقط ایک نظم بعنوان ”ہلاکواب جو تم بغداد آﺅ گے“کا ذکر کرونگا جس میں امریکی جارحیت کے باعث بغداد کی ہمہ گیر تباہی کا موازنہ ہلاکو خان کے ہاتھوں قدیم بغداد کی تباہی سے کیا گیا ہے۔ نظم کے اختتامی حصے میں ہلاکو کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اب وہ بغداد آیا تو اُسے اپنے سے کہیں بڑے ہلاکو خان سے پنجہ آزمائی کرنا پڑیگی: .... ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گے‘ علی بابا کے سونے کے خریطے، خیمہ و خرگاہ سارے لٹ چکے ہوں گے....
جہاں عشوہ طراز و حیلہ گر مرجینا رہتی تھی
وہاں اک اور ہی دنیا کے نوسرباز بیٹھے ہیں
یہاں مٹی میں جادو ہے، زمیں سونا اگلتی ہے
ہوا میں تیل کی بُو ہے
ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گے
تو پھر واپس نہ جاﺅ گے۔
آج کی دُنیا کے یہ” نوسرباز “عراق میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد اب مصر اور شام میں اپنی عقلِ عیّار کے جوہر دکھانے میں مصروف ہیں۔فیض نے برسوں پہلے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ:
برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
کس کھوج میں ہے تیغِ ستم گر لگی ہوئی؟
آج اس سوال کا جواب شام مصر کی خانہ جنگی ہے۔ امریکہ نے شام کی حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا ہے تو روس نے باغیوں کو یہی الزام دیا ہے۔ ایران نے بھی رُوس کی پرزور تائید کی ہے۔ امریکہ تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اِسے اِس خوف نے گھیر لیا ہے کہ اگر وہ براہِ راست حملہ کر کے شام کی حکومت کو گرا دیتا ہے تو النصرہ، احرار الشام اور القاعدہ کی سی قوتیں زور پکڑ کر شام اور عراق پر مشتمل ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کے تصور کو حقیقت بنا سکتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو نہ اسلامی جمہوریت گوارا ہے نہ سوشِلسٹ آمریت۔ چنانچہ شام اور مصر میں خانہ جنگی کو مسلسل ہوا دی جا رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز (24- 25۔اگست )میں Edward N. Luttwak کا مضمون بعنوان Keep Syria in Stalemate چشم کُشا ہے۔ کاش دُنیائے اسلام کا حکمران طبقہ ان عزائم سے عبرت پکڑ سکے!

No comments:

Post a Comment