Search This Blog

Tuesday 27 August 2013

مصر سیکولر قوتوں کی وحشت و درندگی

مصر سیکولر قوتوں کی وحشت و درندگی

سید وجہیہ حسن

مصر کا بحران سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ 14 اگست کے دن اخوان کے احتجاجی دھرنا کیمپوں پر فوجی حملے اور قتل عام کے بعد جنرل السیسی کی حکومت کو ہر طرف سے ہی تنقید کا سامنا ہے۔ اس قتلِ عام کے بعد عام خیال یہی تھا کہ اخوان اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کریں گے اور ممکن ہے اس کے نتیجے میں جنرل السیسی کے فوجی اقتدار کے ساتھ کسی شراکت کے فارمولے پر بات آگے بڑھے۔ لیکن فوج کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم و جبر کے باوجود اخوان کے مؤقف میں تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیئے ہیں۔ پچھلا پورا ہفتہ اس حال میں گزرا ہے کہ فوج کی طرف سے کرفیو اور ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے باوجود اخوان کے کارکنان اور حامیوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ہیں اور فوجی حکومت سے اپنی بیزاری کا اعلان کیا ہے۔ فوجی حکومت کا ظلم و ستم بھی اپنے عروج پر ہے۔ اب تک حکومتی تشدد کے نتیجے میں 3 سے 4 ہزار مصری شہید ہوچکے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں‘ جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہیں۔ اخوان کے مرشدِ عام محمد بدیع گرفتار کرکے نظربند کردیے گئے ہیں‘ جبکہ دیگر اہم رہنمائوں سمیت ہزاروں افراد گرفتار ہیں۔ گرفتار افراد پر بہیمانہ تشدد اور دورانِ حراست گرفتار افراد کے قتل کی خبریں اخباروں کی زینت بن رہی ہیں۔ دوسری طرف فوجی جنتا اخوان المسلمون اور اس کے سیاسی ونگ ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ پر پابندی عائد کرنے کے متعلق غور و خوض کررہی ہے۔ ایسی صورت حال میں مصری عوام کا مستقبل اخوان المسلمون کی جدوجہد کے نتائج سے براہِ راست وابستہ ہوگیا ہے۔ اخوان کی کامیابی کا مطلب ملک میں جمہوریت کا فروغ‘ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی بحالی ہوگا، جب کہ خدانخواستہ جنرل السیسی کی اخوان المسلمون کو کچل دینے کی حکمت عملی کی کامیابی کا نتیجہ حسنی مبارک دور کی واپسی ہوگا۔ حسنی مبارک کے وکیل نے دو دن قبل ہی بیان دیا ہے کہ حسنی مبارک جلد ہی رہا کردیئے جائیں گے۔ ایسے میں مصر میں ملٹری ڈکٹیٹر شپ کی واپسی کے آثار گہرے ہوتے نظر آرہے ہیں۔
صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ دراصل مصری فوج‘ خلیجی ریاستوں‘ امریکہ اور مصر کے لبرل عناصر کی مشترکہ سازش کا مرہونِ منت تھا۔ مصری فوج تو دیگر مسلم ممالک کی افواج کی طرح اقتدار اور ڈالروں کی حرص میں مبتلا اور اسلام سے الرجک ہے۔ اخوان کے برسراقتدار آنے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مصری فوج کو نہ صرف اپنے لامحدود اختیارات میں عوام کو شریک کرنا پڑے گابلکہ اس کی شاہ خرچیاں بھی جاری نہ رہ سکیں گی۔ چنانچہ جوں ہی امریکہ اور خلیجی ممالک کی طرف سے گرین سگنل ملا، اس نے مصر کے لبرل عناصر کو مجتمع کرنا شروع کردیا۔
مصر کے لبرل عناصر قبطی عیسائیوں‘ شیعہ فرقہ اور لبرل اشرافیہ پر مشتمل ہیں۔ یہ تینوں کسی نہ کسی طرح حسنی مبارک کے اقتدار سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ چنانچہ امریکی آشیرباد اور ڈالروں کی مدد سے ان سب کو یکجا کرنا مشکل نہ تھا۔ ان کے ساتھ پروپیگنڈہ کے لیے مصری میڈیا مشین موجود تھی۔ چنانچہ ’’تمرد‘‘(Tamarrod) تحریک وجود میں آگئی، اور عوامی مظاہروں اور قرارداد کے ذریعے جنرل السیسی سے اپیل کی گئی کہ وہ ملک کی بقاء اور جمہوریت کے فروغ کی خاطر صدر مرسی کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھال لیں۔
خلیجی ریاستوں میں سعودی حکمرانوں کے پاس یہ سنہری موقع موجود تھا کہ وہ مصر کی 60 سالہ تاریخ کی پہلی منتخب حکومت کا ساتھ دیتے اور پوری عرب دنیا میں مقبول اخوان المسلمون کے محسن بن جاتے۔ لیکن سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے اخوان کی مقبولیت کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے مصری فوج کو ایک بار پھر مصری عوام پر مسلط کرنے میں مدد دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ ان ریاستوں ہی کا اثر و رسوخ تھا کہ مصر کی سیاست میں موجود دوسری مقبول ترین پارٹی (نور پارٹی)جو سلفی نظریات کی حامل ہے، اس نے اخوان کو دھوکا دیتے ہوئے لبرلز‘ امریکہ اور فوجی جنرلوں کا ساتھ دیا۔ یہی حال جامعہ الازہر کا تھا۔ ایک لکھنے والے نے لکھا ہے کہ نور پارٹی اور جامعہ الازہر کا جرنیلوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ دراصل مصر کے مذہبی طبقات کو اخوان کی متوقع جدوجہد سے دور رکھنے کی شعوری کوشش تھی۔ سعودی حکمران تو اخوان کی مخالفت میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انہوں نے مصری افواج کی طرف سے اخوان کے حامیوں کے قتل عام اور تشدد کو ’’دہشت گردی اور شدت پسندی‘‘ کے خلاف لائقِ تحسین اقدام قرار دے دیا۔
صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ تو بلاشبہ مصری فوج‘مصر کے لبرل عناصر‘ خلیجی عرب ریاستوں اور امریکہ کا مشترکہ ہدف تھا، لیکن فوج کے اقتدار میں آجانے کے بعد اب ان سب کے اہداف مختلف نظر آتے ہیں۔
امریکہ مشرق وسطیٰ کے لیے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ کی پذیرائی کے پیچھے واضح امریکی مقاصد ہیں۔ لیکن ان مقاصد کی راہ میں اخوان المسلمون کی مقبولیت رکاوٹ ہے۔ امریکہ نے اس کا حل ’’سول وار‘‘ کی شکل میں ڈھونڈا ہے۔ چنانچہ لیبیا ہو یا شام… امریکہ کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان دونوں ممالک میں امریکہ‘ اقوام متحدہ کے ذریعہ فوری انتخابات کا مطالبہ کرسکتا تھا جو عوام کا مطالبہ تھا۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ذریعہ ان دونوں ممالک میں اپوزیشن کے ہاتھ میں ہتھیار تھما دیے ہیں۔ کیوں؟ جواب واضح ہے، انتخابات کے نتیجے میں اخوان یا کوئی اور مذہبی گروہ ہی برسراقتدار آئے گا۔ چنانچہ ان دونوں ممالک کی حکومتیں مسلح باغیوں سے لڑنے کے لیے ہر طرح کا اسلحہ استعمال کررہی ہیں اور امریکی سینیٹر جان مکین مسلح باغیوں سے خفیہ ملاقاتیں کررہے ہیں۔ یوں دو اہم مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بج رہی ہے۔ امریکہ مصر میں بھی ایسی ہی ’’سول وار‘‘ کا خواہشمند ہے۔ لیکن یہ اخوان کی دانشمندی ہے جس نے ابھی تک یہ صورت حال پیدا نہیں ہونے دی ہے۔
خلیجی ریاستیں ’’اسٹیٹس کو‘‘ چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جنوری 2011 ء سے پہلے والا مصر واپس آجائے۔ یعنی حسنی مبارک یا اس کے کسی جانشین کی آمریت ایک بار پھر طویل عرصہ کے لیے مصر پر مسلط ہوجائے۔ کیونکہ اگر اخوان کی عوامی اسلامی حکومت کا تجربہ مصر میں کامیاب ہوگیا تو پھر اس تجربے کو دیگر ملکوں کے عوام میںبھی پذیرائی ملے گی اور کئی دہائیوں پر مشتمل چودھراہٹ کا نظام خطرے میں پڑجائے گا۔
مصر کے لبرل عناصر اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ مصر ایک بار پھر فوجی آمریت کی طرف جارہا ہے۔ چنانچہ ان کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ جنرل السیسی اپنے چنیدہ کچھ افراد کے ذریعے آئین نہ تشکیل دیں بلکہ اس کے لیے غیر متنازع افراد کو ذمہ داری دی جائے۔ پھر انہیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ حسنی مبارک دور کے فوجی جرنیلوں کو مصر کے مختلف صوبوں کا گورنرنامزد کردیا گیا ہے۔
ایسے میں اصل امتحان اخوان المسلمون کی قیادت کی سیاسی بصیرت اور وسیع القلبی کا ہے۔ اخوان کی قربانیوں نے بلاشبہ ان کے سیاسی مخالفین کے دل میں بھی ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کردیا ہے۔ اخوان اس موقع پر ا پنے مخالفین کے ساتھ کسی کم از کم مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہوکر ایک نئی مشترکہ جدوجہد شروع کرسکتے ہیں۔ ایک ایسی جدوجہد جو مصر کی موجودہ ’’فوج بمقابلہ اخوان المسلمون‘‘ کشمکش کو ’’بمقابلہ مصری عوام‘‘ جدوجہد میں تبدیل کردے۔
بلاشبہ مصر میں اخوان کی جدوجہد نے پورے مشرق وسطیٰ میں امکانات کے نئے در کھول دیے ہیں۔ مصر میں تبدیلی مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی بنیاد ہوگی۔ اسی طرح مصر میں ڈکٹیٹرشپ کی واپسی کے اثرات بھی پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment