Search This Blog

Tuesday, 27 August 2013

علم وعمل کے بغیر دعا ؟

علم وعمل کے بغیر دعا ؟

مولانا ابوالکلام آزاد
صلیبی جہاد نے ازمنہ وسطیٰ کے یورپ کو مشرق وسطیٰ کے دوش بدوش کھڑا کردیا تھا۔ یورپ اس عہد کے مسیحی دماغ کی نمائندگی کرتا تھا اور مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے دماغ کی۔ اور دونوں کی متقابل حالت سے ان کی متضاد نوعیتیں آشکارا ہوگئی تھیں۔ یورپ مذہب کے مجنونانہ جوش کا عَلم بردار تھا اور مسلمان علم و دانش کے عَلم بردار۔ یورپ دعائوں کے ہتھیار سے لڑنا چاہتا تھا اور مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ یورپ کا اعتماد صرف خدا کی مدد پر تھا، مسلمانوں کا خدا کی مدد پر تھا لیکن خدا کے پیدا کئے ہوئے سرو سامان پر بھی تھا۔ ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا، دوسرا روحانی اور مادی دونوں کا۔ پہلے نے معجزوں کے ظہور کا انتظار کیا، دوسرے نے نتائجِ عمل کے ظہور کا۔ معجزے ظاہر نہیں ہوئے لیکن نتائج عمل نے ظاہر ہوکر فیصلہ کردیا۔
ژاویل کی سرگزشت میں بھی یہ متضاد تقابل ہر جگہ نمایاں ہے۔ جب مصری فوج نے منجنیقوں کے ذریعے سے آگ کے بان پھینکنے شروع کئے تو فرانسیسی جن کے پاس پرانے دستی ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہ تھا، بالکل بے بس ہوگئے۔
ژاویل اس سلسلے میں لکھتا ہے:
’’ایک رات جب ہم ان برجیوں پر جو دریا کے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھیں، پہرہ دے رہے تھے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری (یعنی منجنیق) کہتے ہیں، لاکر نصب کردیا اور اس سے ہم پر آگ پھینکنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر میرے لارڈ والٹر نے جو ایک اچھا نائٹ تھا، ہمیں یوں مخاطب کیا: ’’اس وقت ہماری زندگی کا سب سے بڑا خطرہ پیش آگیا ہے کیونکہ اگر ہم نے ان برجیوں کو نہ چھوڑا اور مسلمانوں نے ان میں آگ لگا دی تو ہم بھی برجیوں کے ساتھ جل کر خاک ہوجائیں گے، لیکن اگر ہم برجیوں کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں تو پھر ہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ ہم ان کی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں خدا کے سوا کوئی نہیں جو ہمارا بچائو کرسکے۔ میرا مشورہ آپ سب لوگوں کو یہ ہے کہ جوں ہی مسلمان آگ کے بان چلائیں ہمیں چاہیے کہ گھٹنوں کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے۔‘‘
چنانچہ ہم سب نے ایسا ہی کیا۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلا بان چلا، ہم گھٹنوں کے بل جھک گئے اور دعا میں مشغول ہوگئے۔ یہ بان اتنے بڑے تھے کہ جیسے شراب کے پیپے، اور آگ کا جو شعلہ ان سے نکلتا تھا اس کی دم اتنی لمبی ہوتی تھی جیسے ایک بہت بڑا نیزہ، جب یہ آتا تو ایسی آواز نکلتی جیسے بادل گرج رہے ہوں۔ اس کی شکل ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے ایک آتشیں اژدھا ہوا میں اڑ رہا ہے۔ اس کی روشنی نہایت تیز تھی۔ چھائونی کے تمام حصے اس طرح اجالے میں آجاتے تھے جیسے دن نکل آیا ہو۔‘‘
اس کے بعد خود لوئس کی نسبت لکھتا ہے:’’ہر مرتبہ جب بان چھوٹنے کی آواز ہمارا ولی صفت بادشاہ سنتا تھا تو بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور روتے روتے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ہمارے نجات دہندہ سے التجائیں کرتا: مہربان مولیٰ ہمارے آدمیوں کی حفاظت کر۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے بادشاہ کی ان دعائوں نے ہمیں ضرور فائدہ پہنچایا۔‘‘
لیکن فائدے کا یہ یقین خوش اعتقادانہ وہم سے زیادہ نہ تھا، کیونکہ بالآخر کوئی دعا بھی سودمند نہ ہوئی اور آگ کے بانوں نے تمام برجیوں کو جلا کر خاکستر کردیا۔
یہ حال تو تیرہویں صدی مسیحی کا تھا، لیکن چند صدیوں کے بعد جب پھر یورپ اور مشرق کا مقابلہ ہوا تو اب صورتِ حال یکسر الٹ چکی تھی۔ اب دونوں جماعتوں کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے تھے، اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی اسے اب یورپ نے اختیار کرلیا تھا۔
اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ علمائے ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کردینا چاہیے کہ نجات کے لیے تیر بہدف ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کردیا۔ شیخ عبدالرحمن الجبرتی نے اس عہد کے چشم دید حالات قلمبند کیے ہیں اور یہ بڑے ہی عبرت انگیز ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیر بخارا نے اسے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے۔ اُدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کررہی تھیں، اِدھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے یا مقلب القلوب، یامحول الاحوال کے نعرے لگا رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلے کا نکلنا تھا، جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو دوسری طرف ختم خواجگان۔ دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لیے تو وہ ترک ِعمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں۔
(بحوالہ غبار خاطر سوئے حرم۔ ماہ جولائی 2008ئ)
مولانا ابوالکلام آزاد

No comments:

Post a Comment