Search This Blog

Friday 2 August 2013

قدس۔۔ دشمن کون؟

 قدس۔۔  دشمن کون؟
عالم نقوی

مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور بیت المقدس کو صہیونی قبضے سے چھڑانے کے لئے امت مسلمہ اورمسلم ممالک کیا کر رہے ہیں ؟'کچھ نہیں 'کے مایوسانہ فقرے کے سوا اس سوال کے جواب میں اور کیا کہا جاسکتاہے ؟مسلم ممالک کی کوئی متحدہ کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔حماس اورحزب اللہ کے سوا'امت کا کوئی دوسرا گروہ ایسا نہیں جو اس وقت بھی آزادی فلسطین کی راہ میں آزادانہ طور پر سرگرم ہو۔ مرحوم یاسر عرفات کی ''الفتح'' تواسی روز مردہ ہو گئی تھی جب اس نے غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدے پردستخط کردئیے تھے۔کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو امن معاہدوں نے انتفاضہ کے خاتمے کے صہیونی منصوبے پرعمل درآمد کو ممکن بنانے کے سوا اورکچھ نہیں کیا۔ یاسر عرفات میں چونکہ حمیت وغیرت کی کچھ رمق باقی تھی اس لئے انہیں پہلے پی ایل او کے ہیڈ کوارٹر راملہ میں خانہ قید کردیاگیا اورپھر موقع ملتے ہی ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹا دیاگیا۔فتح کی موجودہ قیادت سے صہیونیت کو کوئی خطرہ نہیں۔ان حالات میں فلسطین کی سپریم اسلامک کونسل کے چیرمین اورمسجد اقصیٰ کے خطیب وامام شیخ عکرمہ صبری کا شکوہ حق بجانب ہے کہ امت مسلمہ اور بالخصوص عرب اورمسلم ممالک نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ شیخ عکرمہ صبری نے گذشتہ ہفتے الجزیرہ ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے القدس کی حفاظت کے لئے دی جانے والی قربانیوں کو یاد کیا اوربالکل صحیح کہا کہ القدس شہر اسیر مغموم اور یتیم ہو کر رہ گیا ہے اور پورا عالم اسلام اس سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کر کئے ہوئے ہے۔ رہا امریکہ توایک طرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نام نہاداسرائیل مخالف بیان دیتا ہے اوردوسری طرف وہ یروشلم (بیت المقدس شہر)میں فلسطینیوں سے جبراً خالی کرائی گئی زمینوں پرغاصبانہ یہودی آبادکاری کو قانونی حیثیت دینے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ انہوںنے غلط نہیںکہا کہ امریکہ کا نام نہاد نیا امن منصوبہ فی الواقع مسئلہ فلسطین کو سرد خانے میں ڈالے رکھنے کی ایک سازش ہے۔ رہے مذاکرات توغاصب اسرائیل سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ محض وقت گزاری کے لئے مذاکرات کی رٹ لگاتا ہے۔ فلسطینی عربوں کے مسائل حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش اس کی طرف سے کبھی دکھائی نہیں دی۔مسجد اقصیٰ کی بازیابی اوربیت المقدس کی آزادی صرف اس لیے ممکن نہیں ہو پارہی ہے کہ عرب اورمسلم ممالک متحد نہیں ہیں۔ صہیونی مقتدرہ نہیں چاہتا کہ عرب کبھی متحد ہوں لہٰذا اگر ایک طرف عربی وعجمی عصبیت کو ہوا دی جاتی رہتی ہے تو دوسری طرف مذہبی ومسلکی عصبیت کا استحصال بہت بڑے پیمانے پرجاری رہتا ہے۔ صہیونی مقتدرہ کے سب سے بڑے عمیل اسرائیل اورامریکہ آج عرب ممالک ،ایران ،افغانستان، عراق ،پاکستان اورہندوستان وغیرہ میںجوکام سب سے زیادہ شدومد کے ساتھ کر رہے ہیں وہ یہی کہ مسلمانوں کو کسی قیمت پر متحد نہ ہونے دیں۔ہم پچھلے کئی برسوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوںکے داخلی اورمسلکی اختلافات کو اچھالنے کی کوششوںمیں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔سنی شیعہ اختلاف ہی کیا کم تھا کہ اب مْقلّد غیر مْقلد حنفی ،شافعی اور بریلوی ،دیوبندی اختلافات کو بھی نئے سرے سے اٹھایا اوربڑھایا جا رہا ہے اور خطہ عرب میں اس پروپیگنڈے کو ہوادی جا رہی ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل سے زیادہ عرب ممالک کے لئے خطرناک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صہیونی پروپیگنڈہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے خالص ابلیسی ہے۔عربوں کو ایران کے خلاف بھڑکانا اورمسلمانوں کے داخلی اختلافات کو ہوادینا ایک ہی سازش کا حصہ ہیں۔ جس کے پیچھے صہیونیت کا یہ خوف ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد ہی اس کی موت ہے۔دنیا کے ڈیڑھ پونے دوارب مسلمان اور پچاس پچپن مسلم ممالک آج متحد ہو کر کلمة اللہ ھ العلیائ کے پرچم کے نیچے متحد ہو جائیں تودوسرا لمحہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس (یروشلم ) کی آزادی پرمنتج ہوگا۔جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ جو لوگ مسلمانوںکے باہمی انتشار کو ہوا دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ شیعہ سنی،بریلوی ،دیوبندی مقلد غیر مقلداتحاد ممکن نہیں وہی وطن عزیز میں برادران وطن کی اکثریت سے اتحاد کے پرچم اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اگر اس ملک میںہندومسلم اتحادممکن ہے اورمغرب میں یہودی،مسلم اورعیسائی مسلم اتحاد ممکن ہے توآخر جنوبی وسطی اورمغربی ایشیائ میں مسلم۔مسلم اتحادکیوں ممکن نہیں؟بیت المقدس کی آزادی اتحاد امت کے ساتھ مشروط ہے اورآج جو شخص بھی خواہ وہ بظاہر کتنا ہی ''بڑا اورمقدس ''کیوں نہ ہو اتحاد بین المسلمین کے خلاف ہے وہ صہیونیت کا دوست اورمسلمانوں کادشمن ہے۔ فہل من مدکر؟(عالم نقوی)

No comments:

Post a Comment