Search This Blog

Wednesday, 21 August 2013

ادب اور سنجیدگی

ادب اور سنجیدگی

رضی مجتبی
میں ادب اور سنجیدگی کے باہمی اور گہرے رشتے کا پوری سنجیدگی سے قائل ہوں، اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ ادب میں جس چیز کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہم محسوس کرتے ہیں، وہ اعلیٰ سطح کی سنجیدگی ہے۔ لہٰذا اگر اعلیٰ اور ادنیٰ ادب میں فرق کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ اس میں ایک بہت بنیادی کردار سنجیدگی ادا کرتی ہے، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ یہ سنجیدگی ہی ہوتی ہے جو کسی ادب پارے کو انسانی احساس کی کایا کلپ کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے۔ اس سنجیدگی کا اظہار دونوں طرح سے ہوتا ہے، یعنی کسی فن پارے کے جہانِ معنی کی سطح پر بھی، اور اُس کے تخلیق کار (ادیب یا شاعر) کے رویّے کی سطح پر بھی۔ ادیب یا شاعر کے رویّے کا اندازہ اُس کے اندازِ نگارش یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلوبِ فن کی بنیاد بننے والے عناصر سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ عناصر موضوع اور ہیئت کے انتخاب سے لے کر الفاظ اور تکنیک تک کے استعمال میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
لفظوں میں تھوڑا بہت ردو بدل ہوسکتا ہے لیکن ویسے کچھ اسی طرح کے خیالات تھے جن کا اظہار میں نے گزشتہ دنوں اپنے قریبی دوستوں کی ایک مختصر سی محفل میں کیا تھا۔ میری بات سن کر ایک دوست نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے تو ایک سوال کیا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ادب کے لیے سنجیدگی ایک لازمی شرط ہے؟‘‘
میں نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہے کہ میں ادب کے لیے سنجیدگی کو ایک لازمی شرط سمجھتا ہوں۔
بس میرے یہ کہنے ہی کی دیر تھی کہ محفل کا رنگ بدل گیا اور ایک بحث چھڑ گئی۔ ایک صاحب نے جو غالب کے بڑے پرستار ہیں اور انھیں غالب کا شاید پورا نہیں تو آدھا دیوان ضرور حفظ ہوگا، مجھے مخاطب کرکے کہا: ’’میں کوئی ادیب یا دانش ور تو نہیں ہوں، اس لیے آپ سے کوئی علمی وادبی بحث نہیں کر سکتا، لیکن مجھے آپ کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ آپ کو اپنی الگ رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ اس پر انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو غالب کے کچھ شعر سنانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: ضرور ضرور، بسم اﷲ کیجیے۔ اس لیے کہ غالب کا تو میں خود بڑا عاشق ہوں، لہٰذا اُس کو ہر بار سننا یا پڑھنا میرے لیے قندِ مکررکی طرح ہوتا ہے۔ موصوف نے غالب کے شاید درجن بھر سے زیادہ شعر سنا ڈالے، جن میں سے چند میں یہاں درج کرتا ہوں:
گو نہ سمجھوں اُس کی باتیں ، گو نہ پائوں اُس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
———
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرماویں گے کیا
———
یہ مسائلِ تصوف ، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
———
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
———
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے
———
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اشعار سنانے کے بعد انھوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ غالبؔ کے ان شعروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ یہ سارے کے سارے اشعار قابلِ توجہ ہیں۔ ان کو سن کر آدمی محظوظ بھی ہوتا ہے اور ان کے معانی پر غور بھی کرتا ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ لگ بھگ یہ سب وہ اشعار ہیں جو غالب کو غالب ثابت کرتے ہیں۔ وہ صاحب بولے کہ یوں نہیں، صاف لفظوں میں بتائیے کہ یہ شعر اچھے ہیں یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جو اشعار غالب کو واضح طور پر غالب ثابت کرتے ہیں، ان کے اچھا ہونے میں بھلا کیا شبہ ہے! یہ غالب کے کرافٹ اور اسٹائل کو اُس کی انفرادیت کا ایسا جواز ثابت کرتے ہیں جو پوری اردو شاعری میں کسی اور کا حصہ نہیں۔ ساتھ ہی میں نے یہ وضاحت بھی کی کہ اس فقرے میں، مَیں نے اسٹائل کے وہی معنی لیے ہیں جو Style is the man والے بیان میں استعمال ہوتے تھے۔
میرے اس جواب پر وہ دوست مسکرائے اور بولے: بس تو پھر آپ کا مقدمہ رد ہوگیا۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ہوگیا؟ کہنے لگے: اس لیے کہ ان میں سے کسی شعر میں وہ سنجیدگی تو نہیں پائی جاتی، جس کی آپ نے ادب کے لیے شرط عائد کی تھی۔
میں ابھی اس بات کا کوئی جواب دینے ہی والا تھا کہ محفل میں موجود ایک اور صاحب نے جو ہمارے دوستوں میں بہت پڑھاکو مشہور ہیں اور طنز ومزاح کے تو وہ ان تھک قاری ہیں، کہا کہ اگر آپ کے اس سنجیدگی والے ایشو کو سامنے رکھ لیا جائے تو پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، کرنل محمد خاں، شفیق الرحمن، ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی، ضمیر جعفری، دلاور فگار اور عطاء الحق قاسمی وغیرہ میں سے کسی کو بھی بڑا ادیب قرار نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ ان میں سے کسی نے بھی ایسا ادب تخلیق نہیں کیا جو آپ کی سنجیدگی والے معیار پر پورا اُتر سکے۔ بحث میں خاصی گرما گرمی آگئی تھی اور دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہو رہے تھے۔ جو لوگ شامل نہیں تھے، وہ بھی اس گفتگو کو دل چسپی سے سن رہے تھے۔ بہرحال پھر یہ ہوا کہ میرے جواب سے قبل ایک اور صاحب نے بات آگے بڑھائی اور بولے: اس طرح طنز ومزاح کا تو پورا کا پورا ذخیرہ ہی ادب سے خارج ہوجائے گا، کیوں کہ اس میں تو آپ کو سنجیدگی کا نام ونشان تک نہیں ملے گا۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے آپ؟
مجھے پوری سچائی کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ان میں سے کسی بات نے ایک لمحے کے لیے بھی مجھے پریشان نہیں کیا، نہ ہی کوئی الجھن پیدا ہوئی اور نہ ہی غصہ آیا… بلکہ اگر آپ کو اندر کی بات بتائوں تو میں کہوں گا کہ ان باتوں یا سوالوں سے مجھے دل ہی دل میں یک گونہ خوشی ہورہی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ میں جن لوگوں کے ساتھ اس وقت بیٹھا ہوں، وہ نہ صرف یہ کہ ادب پڑھتے ہیں، بلکہ پوری توجہ اور سنجیدگی سے پڑھتے ہیں۔ صرف پڑھتے ہی نہیں بلکہ اُس کے بارے میں سوچتے بھی ہیں اور اُس کے لیے اپنی ایک رائے بھی قائم کرتے ہیں۔ میرے لیے زیادہ خوشی کی بات اس گفتگو میں یہ تھی کہ میرے وہ سب دوست جو اس محفل میں تھے، ان میں سے کسی ایک نے بھی ادب کو اپنا کیریئر نہیں بنایا تھا، بلکہ سب کے سب پیشے کے لحاظ سے بینکر تھے۔ ہاں اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے جو شعر کہتے یا افسانہ لکھتے رہے ہیں، شاید اب بھی لکھتے ہیں۔ بہرحال دیکھا جائے تو ہم انھیں باقاعدہ ادیب یا شاعر کہنے کے بجائے شوقیہ فن کار کہہ سکتے ہیں۔ سو مجھے اسی بات کی زیادہ خوشی تھی کہ اس گفتگو کے دوران کسی طرح کی ادیبانہ یا شاعرانہ خودسری یا نظریہ بازی کا مظاہرہ نہیں ہورہا تھا، اور نہ ہی کسی کو اپنی بات کو منوانے کی ضد اور عجلت تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب ادب کے اچھے اور سنجیدہ قاری تھے۔ اُن کی طرح میں بھی خود کو صرف اور صرف ادب کا ایک ادنیٰ قاری سمجھتا ہوں۔ لہٰذا اس بات چیت کا مقصد اس نکتے یا مسئلے کو سمجھنا سمجھانا تھا، خود کو دانش ور ثابت کرنا ہرگز نہیں تھا۔
ہمارے درمیان خاصی بحث ہوتی رہی۔ اپنے اپنے نکتۂ نظر کا اظہار سب نے پورے زور شور سے کیا۔ جس کے ذہن میں جو بات آئی اور جو دلائل سمجھ میں آتے رہے، انھیں پیش کیا گیا۔ بہرحال خلاصہ یہ کہ نشست کے اختتام پر میں خوش تھا، بلکہ ہم سب خوش تھے کہ ہم نے بہت اچھا وقت گزارا اور بہت اچھی باتیں ہوئیں۔ مجھے زیادہ خوشی تھی، اس بات کی کہ میں اپنی بات واضح کرنے اور اپنا نکتۂ نظر دوستوں تک پہنچانے میں کامیاب رہا اور یہ کہ ساری بحث و تمحیص کے بعد بھی ہم میں سے کوئی hurt نہیں ہوا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس نشست کا اختتام ایک طرح سے اتفاقِ رائے پر اور خوشی کے ساتھ ہوا۔
اس گفتگو کے نتیجے میں یہ خیال میرے ذہن میں آیا کہ میں اپنی تحریروں میں بارہا ادب کے لیے سنجیدگی کا سوال اٹھاتا رہا ہوں اور اعلیٰ ادب کے لیے high seriousness کی بات کرتا رہا ہوں۔ اس کا پورا امکان ہے کہ میرا یہ بیان کچھ لوگوں کے لیے الجھن کا سبب بنتا رہا ہو۔ سو کیا مضائقہ ہے اگر میں اس حوالے سے اپنے مؤقف کی وضاحت کردوں۔ اس لیے آئندہ سطور میں یہی کوشش کروں گا۔ تاہم اس سے پہلے میں اپنے اُن دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو اس گفتگو کا محرک بنے۔ ان کی باتوں نے نہ صرف مجھے اپنے اس نکتۂ نظر کی وضاحت کی تحریک دی، بلکہ خود میرے ذہن میں اس کے کئی اور پہلو روشن کیے جو شاید پہلے اتنے روشن اور واضح نہ تھے۔
ادب میں یہ سوال یعنی high seriousness کا تقاضا سب سے پہلے مغرب میں میتھیو آرنلڈ نے کیا تھا۔ بعد ازاں اور بھی کئی لوگوں نے اس مسئلے پر بات کی اور یہ ایک باقاعدہ مکتبِ فکر سا بن گیا۔ اب میں جن نکات کو بیان کرنے جارہا ہوں، وہ اصل میں زیادہ تر اسی مکتبِ فکر سے ماخوذ ہیں اور مغرب کے اُن نمائندہ دانش وروں اور ادیبوں کی آرا پر مبنی ہیں جنھوں نے اس مسئلے پر بات کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بیان میں میرا اپنا زاویۂ نظر بھی شامل ہوگیا ہے۔ میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ میرے اپنے زاویۂ نظر سے اصل میں میری مراد یہ ہے کہ میں نے مغربی اہلِ دانش اور اہلِ ادب کی اس بحث میں جن باتوں کو قبول کیا ہے، ان میں اپنے مشرقی ذہن کی بھی کچھ نہ کچھ چیزیں شامل کردی ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس گفتگو میں، ساری نمائندگی صرف مغرب کی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ اپنے کلاسیکی ادب (جس میں شاعری اور داستان دونوں کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے) کے علاوہ جو تھوڑا بہت فارسی ادب میں نے پڑھا ہے اور اس سے جتنا کچھ اور جس طرح سمجھا ہے، اس کو بھی ان نتائج میں شامل کرلیا ہے۔
ادب میں سنجیدگی سے مراد ہے ایک ذمہ دارانہ اور باشعور رویّے کا اظہار۔ یہ اظہار موضوع کے انتخاب میں بھی ہوتا ہے، اُس کے ٹریٹمنٹ کے مرحلے میں بھی ہوتا ہے، اسلوبِ بیان کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس رویّے کا اظہار لفظیات میں اور متن کے سانچے میں بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ معنی کی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اس سے آگے معنی کے معنی میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک لکھنے والے کے لیے سنجیدگی دراصل ایک ذہنی رویّے کا درجہ رکھتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ایک سطح پر اسے طرزِ فکر بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح کسی نظریے یا فلسفے کے ضمن میں ہم دیکھتے ہیں اس طرح سنجیدگی کے کوئی set parameters تو نہیں ہیں کہ جن کو اختیار کرنا ہر ایک کے لیے لازمی ہو۔ ہر ادیب، شاعر اس سلسلے میں آزاد ہے کہ وہ اسے اپنے انداز اور اپنے طریقے سے اختیار کر سکتا ہے۔ بس اُس کے لیے ایک بات ناگزیر ہے کہ وہ اس کے لیے جو چاہے طریقہ اختیار کرے، لیکن وہ اسے شعوری طور پر اختیار کرے گا اور اس ضمن میں اپنے ہر اقدام کا ذمہ دار ہوگا۔ میتھیو آرنلڈ کا کہنا ہے کہ کسی نظم (ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی شعری اظہار) کو پرکھنے کے لیے ہمارے پاس بنیادی طور سے دو معیارات ہوتے ہیں، ایک اس میں ’’اعلیٰ صداقت‘‘ اور دوسرے ’’اعلیٰ سنجیدگی‘‘ کا اظہار۔ برطانیہ کا بے مثال (مگر اتنا ہی متنازع یا بدنام) ڈراما نگار آسکر وائلڈ تو یہ کہتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی ہی اتنی اہم شے ہے کہ اُس کے لیے سنجیدگی کا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ مجھے اُس کی اس بات پر غور کرتے ہوئے اکثر یہ خیال گزرتا ہے کہ اپنی زندگی کے ایک غیر سنجیدہ تجربے نے شاید آسکر وائلڈ کو اس نتیجے تک پہنچایا ہوگا۔ بہرحال، سارتر نے اس سلسلے میں بہت اہم اور قابلِ غور بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’سنجیدگی کی روح‘‘ دراصل یہ یقین ہے کہ اشیا میں ایک معروضی اور خود مختار اچھائی (خیر) ہوتی ہے، جسے لوگ اپنے اپنے انداز سے دریافت کرتے ہیں۔
میتھیو آرنلڈ کے پیش کردہ سنجیدگی کے اس تصور کو جہاں ہم خیال اور تائید کرنے والے لوگ میسر آئے وہیں اس تصور کو مسترد کرنے والے بھی کچھ لوگ سامنے آئے اور نمایاں ہوئے۔ اس خیال کو رد کرنے والوں کا کہنا تھا کہ سنجیدگی کو اوپر سے کسی فن پارے میں شامل کرنا اُسے مصنوعی بنا دیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنجیدگی فن پارے کی تروتازگی ختم کرکے اُسے بوسیدہ بنا دیتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ جس طرح ایک اہم اور غور طلب تصور یا نظریے کے ساتھ ہوتا ہے کہ اُسے حق میں بولنے والوں کے ساتھ ساتھ خلاف بولنے والے بھی ملتے ہیں، ایسا ہی میتھیو آرنلڈ کے سنجیدگی کے تصور کے ساتھ بھی ہوا۔ انیسویں صدی کی اس بحث کے دو طرفہ دلائل آج مغربی ادب کی فکری تاریخ کا حصہ ہیں۔
اہلِ مشرق کے ہاں دیکھا جائے تو سنجیدگی کے اس تصور پر الگ سے کوئی بحثیں نہیں ملتیں۔ اس کی وجہ اصل میں یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسے انفرادی حیثیت میں دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اس لیے کہ مشرق کا مزاج کلیت کا ہے۔ یہاں fragmentationکے بجائے اپروچ کو composite رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ بہرحال مشرق ہو یا پھر مغرب، ادب میں سنجیدگی سے مراد یبوست، خشکی یا پژمردگی ہرگز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نہ ہی اس طرزِ فکر سے مراد یہ ہے کہ کسی ادب پارے کو غیر ضروری طور پر ادق یا گنجلک بنایا جائے یا اُسے فلسفیانہ رنگ دیا جائے۔ سنجیدگی کے نکتۂ نظر کا مقصود یہ بھی نہیں ہے کہ ادب سے عوام کو دور کر دیا جائے اور اسے صرف اور صرف خواص کی ایک سرگرمی بنا کر رکھ دیا جائے۔
پھر آخر یہ سنجیدگی ہے کیا؟ سنجیدگی سے مراد ہے (جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا) تخلیقِ ادب میں شعور اور ذمہ داری کے ساتھ اختیار کیا گیا ایسا طرزِ عمل جو متانت اور خلوص کا اظہار کرتا ہے اور اپنے قاری کے اندر انھی جذبوں کو سب سے پہلے بیدار بھی کرتا ہے۔ ادب میں سنجیدگی کرافٹ اور اسٹائل کو نقصان نہیں پہنچاتی، بلکہ انھیں زیادہ مؤثر اور معنی خیز بنادیتی ہے۔ ادب انسانی جذبوں اور احساسات کی اگر تہذیب کرتا ہے تو سنجیدگی اس تہذیب کے نقش کو زیادہ اُبھارتی اور روشن کرتی ہے۔ یہ سنجیدگی ہی ہے جو کسی ادب پارے کے ذریعے قاری کے دل اور دماغ کی صورتِ حال پر سب سے پہلے اثرکرتی ہے اور اکثر اوقات انسانی ذہن کی کایا کلپ کردیتی ہے۔
اب یہ سوال کہ اگر سنجیدگی کو ادب کا جزوِ لازم گردانا جائے تو پھر وہ نگارشاتِ ادب جو طنز ومزاح کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں، اور سنجیدہ فن پاروں کے وہ اجزا جن میں مزاح کا عنصر شامل ہوتا ہے، کیا انھیں ادب کے زمرے میں شامل نہیں کیا جائے گا؟ میرا خیال ہے کہ یہ رائے، یہ خیال یا یہ سوال سراسر ایک بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اب اس غلط فہمی کو مکمل طور پر دور ہوجانا چاہیے۔ اس لیے کہ مندرجہ بالا سطور میں اس بات کی وضاحت بالکل صاف لفظوں میں کر دی گئی کہ سنجیدگی سے مراد یبوست یا خشکی نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ہے لکھنے والے کی متانت، خلوص اور ذمہ داری کا اظہار اور اس کے پورے شعور کے ساتھ۔ چناں چہ وہ تحریریں جو مزاح کے پیرائے میں پیش کی جاتی ہیں، انھیں ادب سے خارج کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ ادب کا حصہ ہیں بشرطے کہ وہ ادب کے اپنے داخلی معیارات پر کما حقہٗ پوری اُترتی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا لکھنے والا بھی اتنا ہی کمیٹڈ ہوتا ہے، جتنا کسی بھی دوسری صنفِ ادب کا لکھنے والا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ مزاح کی تحریریں خواہ وہ نثر میں ہوں یا شعر میں، ان کی تخلیق کے لیے بھی گہری سنجیدگی درکار ہوتی ہے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ان کے لیے تخلیق کار کو زیادہ سنجیدگی سے کام لینا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اسی متانت اور خلوص کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو کسی دوسری صنفِ ادب کے لیے مطلوب ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو غالب کے ایسے اشعار:
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
———
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
یا اقبال کے ایسے اشعار:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
میں ان اشعار میں مزاح کے عنصر سے انکار نہیں کرتا۔ وہ یقینا موجود ہے، لیکن یہ مزاح ایک گہری سنجیدگی، متانت اور خلوص کا پیدا کردہ ہے۔ مزاح ان اشعار میں صرف تفریحِ طبع کا سامان نہیں ہے، بلکہ جب میں ایسے شعروں پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے ان میں اپنی بات کو آسانی اور شگفتگی کے ساتھ بیان کردیا ہے، ورنہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے، جس نکتے کی طرف اشارہ کر رہا ہے، وہ بہت گہرا اور دقیق ہے۔ اسی اصول کا اطلاق پورے مزاحیہ ادب پر ہوتا ہے، خواہ وہ نثر میں تخلیق کیا گیا ہو یا شعر میں۔ یعنی بات اصل میں اس شعور اور احساس کی ہے جو کسی فن پارے کے پس منظر میں کارفرما ہوتا ہے۔ یہاں مثال کے طور پر میں نثری ادب سے پطرس بخاری کے دو مضامین ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ اور ’’میبل اور میں‘‘ کا حوالہ دوں گا۔ اس کے بعد کرنل محمد خاں کی ’’جنگ آمد‘‘ کا، ابنِ انشا کی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ یا مشتاق احمد یوسفی کی ’’آبِ گم‘‘ کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی فن پارے پر ذرا توجہ اور سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ مصنف نے بیان کی ساری شگفتگی کے باوجود اس میں پیش کیے گئے نکتے کو پوری ذمہ داری، متانت اور خلوص کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اور یہ کہ اس کا منشا یہ ہے کہ اس کے قارئین ذرا ان پہلوئوں پر دوسرے زاویے سے بھی غور کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ایک بڑی ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے اور نہایت سنجیدگی سے ہی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ تو بس یہی وہ نکتہ ہے جس کے ذریعے ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ادب کے لیے سنجیدگی ایک ناگزیر شے ہے اور یہی سنجیدگی تخلیق کار کے رویّے کا تعین کرتی ہے اور اس کے ذریعے ادب زیادہ بامعنی اور باوقار ہوتا ہے۔


No comments:

Post a Comment