Search This Blog

Wednesday, 21 August 2013

اردو کی حمدیہ شاعری میں جدید اسالیب کی دھنگ

اردو کی حمدیہ شاعری میں جدید اسالیب کی دھنگ

لغوی اعتبار سے حمد وہ نثر پارہ یا شعری مرقع ہوتا ہے جس میں خالقِ کائنات کی تعریف کی جائے۔ میرے خیال میں حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو اور رب کائنات کو اس کے ذاتی یا صفاتی ناموں سے اس طرح پکارا جائے کہ اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہو، اور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے تعلق خاطر ظاہر ہو۔ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہو، انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے عظمتِ خالق کا تذکرہ آئے یا انسانی عجز و انکسار کا احساس اشعار میں ڈھل جائے۔ کائنات کی وسعتوں کے ذریعے تکبیر رب کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا شعری مرقع بنتا ہو۔ اللہ کی بڑائی کے تصور کے ساتھ آفاق (کائنات) سے مکالمہ ہو یا انفس (اپنی ذات) سے، یا براہِ راست ربّ العالمین سے… ہر قسم کی شعری آواز (Poetic Voice) حمد کے ذیل میں آئے گی۔
جدید اسالیب کا ذکر نکلا ہے تو یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ذاتِ قدیم کی تعریف میں اسلوب کی جدت کے کیا معانی ہوسکتے ہیں۔ سو عرض ہے کہ کائنات کی ہر شے تغیر پذیر ہے، کیوںکہ اس کا خالق ہر آن نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ کل یوم ھو فی شان (29) الرحمن۔ (اللہ ہر آن نئی شان میں ہے) یعنی اس کی بنائی ہوئی کائنات کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور ربّ تعالیٰ اسے ہر بار ایک نئی صورت دیتا ہے جو پچھلی صورتوں سے مختلف ہوتی ہے۔
ذاتِ باری تعالیٰ قدیم ہے اور کائنات حادث۔ انسان کی تخلیق کائنات کی تخلیق کے بہت بعد میں عمل میں آئی ہے، اس لیے حادث مخلوقات میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ کائنات میں اس جدید مخلوق کو شعور، علم، احساس اور تخیل کی دولت سے مالامال کرکے اس کی فطرت میں تغیر پسندی ودیعت فرما دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے تخلقوا باخلاق اللہ (خود کو اللہ کے اخلاق سے آراستہ کریں) کی تعلیم بھی دے دی گئی۔ اخلاقِ عالیہ کا بنیادی تصور وہی ہے جو سورۃ رحمن کی درج بالا آیت میں مذکور ہوا، یعنی رب کائنات ہمہ وقت نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ پھر مومن کو ہدایت کی گئی کہ اس کے دو دن یکساں نہیں گزرنے چاہئیں۔
اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کو قوانین فطرت کے عین مطابق خود کو ڈھالنے کی تعلیم دیتا ہے۔ تغیرپذیری بھی فطرت کا اٹل قانون ہے جس پر انسان کچھ تو بحالت ِمجبوری (بے اختیارانہ) عمل پیرا ہے اور کچھ شعوری طور پر خود کو اس قانون سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اسے شعوری طورپر ایسا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
تکرار (Repetition) نہ تو کائنات کے خمیر میں رکھی گئی ہے اور نہ ہی انسان کے ضمیر میں یکسانیت (غیر متبدل ماحول) کو قبول کرنے کا داعیہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ یکسانیت سے اکتا کر انسان شعوری طور پر خود کو اور اپنے ماحول کو بدلتا رہتا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل انسانی زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ادب چوںکہ زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اس لیے لسانی رویوں، لفظیات اور نثری و شعری تخلیقات میں تبدیلی عہد بہ عہد جاری رہتی ہے۔ جس طرح انسان کی انفرادی زندگی میں اس کی عمر کے ہر حصے کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اسی طرح معاشرے کی اجتماعی زندگی کی عہد بہ عہد ضروریات مختلف ہوتی ہیں جن کا عکس کم و بیش ہر ادبی تخلیق پر پڑتا ہے۔ چناںچہ انفرادی اسلوب (Style) اگر فکر کے انفرادی زاویے، ترتیب الفاظ سے معانی پیدا کرنے کی مخصوص صلاحیت، تخلیق کے مواد یا مافیہ (Content) اور اس کی صورت، ہیئت یا پیکر (Form)، لفظ برتنے کے مخصوص ڈھنگ، بات کرنے کے خاص آہنگ یعنی انفرادی لہجہ (گو یہ شعر گوئی میں بڑی مشکل بات ہے۔ انفرادی لہجہ ہزاروں شعرا میں سے صرف دو چار ہی کو میسر آتا ہے)، زندگی کے عکس قبول کرنے کے ذاتی نقطہ نظر اور انفرادی افتاد طبع کے تحت وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح کسی خاص عہد کے اجتماعی اسلوب میں زبان کے عصری استعمالات، سائنسی اکتشافات کے ادراک، فکری بلوغت کی عمومی سطح اور فکر غالب کی مخصوص رَو (روحِ عصر) نیز عمرانی حالات سے طبائع پر پڑنے والے اجتماعی اثرات سے پیدا ہونے والی حسیت کی وہ زیریں رو (Undercurrent) بھی شامل ہوتی ہے… جو کاریز کی طرح کسی عہد کی تمام تخلیقی تحریروں میں لفظوں کی ساخت (یا زمین) کے نیچے تیزی سے بہہ رہی ہوتی ہے۔گویا اجتماعی سطح پر ادب میں بننے والا اسلوب کسی خاص عہد کا مکمل اسلوبِ زندگی ہوتا ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حمدِ باری تعالیٰ کے ضمن میں اردو شاعری کی دنیا میں کیسے کیسے رنگ ابھرے اور کیسی کیسی آوازیں سنائی دیں۔
اردو کی پہلی معلومہ تصنیف مثنوی ’’کدم رائو پدم رائو‘‘ فخرالدین نظامی نے سن 839ھ تا 860ھ مطابق 1421ء تا 1435ء کے درمیانی عرصے میں لکھی تھی۔ آج اس مثنوی کی زبان کے دو تین فی صد الفاظ ہی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ اس مثنوی کی ابتدا حمدیہ اشعار سے ہوئی ہے۔ اردو کی ابتدائی شکل دیکھنے کے لیے اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
گسائیں تمہیں ایک دنہ جگ ادار
برو برد نہ جگ تہیں دینہار
آقا مالک تُو ہی دونوں جہانوں (یا زمانوں) کا سہارا ہے۔ ٹھیک ٹھیک بحروبر، خشکی و تری دونوں جہانوں کا دینے والاہے۔
چنہار انگھے رچنہار توں
رہنبار بہ بچھیں رہنہار توں
بنانے والا آگے بنانے والا تُو، رہنے والا پیچھے رہنے والا تُو۔
اس شاعری کا اسلوب نہایت سادہ ہے جس میں صداقت بلا کم و کاست، بالکل غیر جذباتی انداز میں بیان کر دی گئی ہے۔لیکن الفاظ سمجھنے مشکل ہیں۔اب ذرا بعد کی مروج زبان سے اس کا موازنہ کیجیے!
سراج اورنگ آبادی (پیدائش 1124ھ وفات 1177ھ، 1714ء تا 1767ئ) تک آتے آتے زبان کس قدر صاف ہوگئی اور بیان میں کیسا لوچ پیدا ہوگیا، اس کا اندازہ ان کے حمدیہ اشعار سے ہوگا:
دیکھا ہے سراج آتش و خاک آب و ہوا کوں
سب میں صفتِ ذاتِ الٰہی نظر آئی
میں سمجھتا تھا کہ اس یار کا ہے نام و نشاں
یار بے نام و نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سامنے ہے جس کوں حسن لایزال
دم بدم خوش حال ہیں ہر حال میں
تجلیاتِ الٰہی کا اوس میں پرتو ہے
ہوا ہے جب سیں دل آئینہ دار گلشنِ حسن
سراج کا کلام تین سو سال بعد کا ہے۔ ان کی لفظیات آج کے لسانی ڈھانچے سے مختلف ہونے کے باوجود غیر مانوس نہیں ہیں۔ سراج اورنگ آبادی کی حمدیہ شاعری میں تلاشِ حق کی روداد بھی ہے، احساسات کی بو قلمونی بھی اور قلبی واردات کا عکس بھی۔
رفتہ رفتہ تصوف کی آمیزش نے شاعری کا رخ مجاز سے حقیقت کی طرف موڑ دیا۔ حمدیہ شاعری علیحدہ صنفِ سخن کے طور پر تو بہت کم ہوئی لیکن محبوب ِحقیقی کا حسن، قدما کی غزل کے بیشتر اشعار میں جھلکنے لگا، مثلاً:
مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعین کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا
(سوداؔ)
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تُو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منھ دکھا سکے
(خواجہ میر دردؔ)
یاں خار و خس کو بے ادبی سے نہ دیکھنا
ہاں عالمِ شہود ہے آئینہ ذات کا
(شیفتہؔ)
دل ہو کہ جان تجھ سے کیوں کر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری جاں ہے سو مال تیرا
(حالیؔ)
محبوبِ حقیقی کے تصور میں شعر گوئی کی ایک مضبوط روایت قائم تو ہوئی لیکن اس شاعری میں بیشتر بیانیہ لہجہ اور سادہ اسلوب ہی سامنے آسکا۔ فلسفیانہ خیالات کی پیچیدہ بیانی اور مابعد الطبیعاتی مسائل کی گہرائی غالب کے قلم کی محتاج تھی۔ غالب نے اردو شاعری کو فکری بلندی اور فلسفیانہ عمق سے آشنا کیا اور وحدت الوجودی افکار کو شعری جمالیات سے اس طرح ہم آہنگ کیا کہ ان کی شاعری زمان و مکان کی حدود سے بہت آگے کی چیز بن گئی۔ غالب روشِ عام پر چلنے والے شاعر نہ تھے، اس لیے انھوں نے خاص اہتمام سے حمدیہ شاعری نہیں کی بلکہ اپنے دیوان کی ابتداء ایسے شعر سے کی جو وحدت الوجودی فکر کی گہرائی، اسلوب کی جدت اور امیجری کی ایک نادر مثال ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
غالب کی غزلوں میں تصوف کا فکری نظام ان کی تخلیقی دانش کا اس طرح حصہ بن گیا تھا کہ انھوںنے جہاں محبوبِ حقیقی کی بات کی، خیال کی رفعت اور بیان کی ندرت نے شاعری کو شعری لطافت کے ساتھ ساتھ صوفیانہ قلبی حرارت بھی عطا کردی۔غالب نے کہیں تو خالق کو اپنی ذات میں جھانک کر اپنے اور خالق کے موازنے کے توسط سے عرفان کی کوشش کی، کہیں شکوۂ نارسی کیا اور کہیں اپنی حیرت کے احساس سے نگارخانۂ تخلیق کو حیرت کدہ بنا دیا، مثلاً:
کس کی برقِ شوخیٔ رفتار کا دلدادہ ہے
ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے
گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدۂ حیراں مجھ سے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں
غالب کے اس شاعرانہ رویّے اور اسلوب نے اردو شاعری کو اعتبار اور موضوعاتِ شاعری کو وقار عطا کیا۔ اس طرح حمدیہ مضامین کے حوالے سے بھی غالب اردو شاعری میں جدید رجحانات اور نادر طرزِ احساس کا اولین شاعر قرار پایا۔ غالب کے بعد اقبال کو اپنا پورا نظامِ تخلیق انہی خطوط پر استوار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جن کی وجہ سے شعری پردے پر محبوبِ حقیقی کے صفاتی نقوش اُبھر رہے تھے۔ اقبال کی فکری اساس مابعدالطبیعاتی تفکر پر تو تھی لیکن انھوںنے وحدت الوجودی فلسفہ ٔ تصوف کے بر عکس ایک الگ نظام فکر کی بنا رکھی جس میں عبد و معبود کے اتحاد کا شائبہ تک نہ تھا۔ انھوںنے عبد کو الگ تشخص دیا اور خود کو (یا انسان کو) ایک پروانۂ ہوش مند بنا کر پیش کیا۔ جو وصل کو مرگِ آرزو سمجھ رہا تھا اور ہجر کی لذتِ طلب کو ایک نعمت ِغیرمترقبہ جانتا تھا۔
اقبال کی شاعری میں فرد کی انائے جزوی انائے کلی میں کہیں مدغم نہیں ہوئی، جب کہ انائے کلی کے قریب ہونے کی آرزو کو اس نے مختلف جہتوں سے دیکھا اور اپنے داخلی احساسات کو فکری اصابت کے ساتھ تخلیقی تجربے کا جزو بنایا۔ اقبال کی شاعری عبد و معبود کے درمیان مکالمہ بھی ہے اور عشقِ حقیقی کی کیفیتوں کا اظہار بھی۔ اس کی شاعری میں آفاق کی تسخیر کی فکری حرارت بھی ہے اور کائنات میں غورو خوض کے نتیجے میں حقیقت ِکبریٰ تک رسائی کا اشاریہ بھی۔ اقبال کو اس کے ہمہ وقتی مکالماتِ عبدو معبود نے جرأتِ رندانہ بھی عطا کی جس میں وہ نازِ عبودیت کے زیر اثر عبد ِبے باک نظر آتے ہیں۔ اس رویّے نے اقبال کی پوری شاعری کو ایک نوع کی حمدیہ شاعری کا پیکر دے دیا، کیوںکہ اس شاعری کے مطالعے سے تصورِ خالق ہی کے مختلف لونی عکس (Shades) ظاہر ہوتے ہیں۔
اقبال کی شاعری میں حمدیہ شاعری کی روح اس طرح جاری و ساری ہے کہ اس میں حمد کے تمام امکانات جلوہ ریز ہیں۔ شکوہ جواب شکوہ تو بیانیہ قسم کی نظمیں ہیں، لیکن ’’جگنو‘‘ ان کی ایسی نظم ہے جس میں مظاہرِ قدرت کو بڑی فنکارانہ چابکدستی اور ہنرمندی سے شعری جامہ پہنایا گیا ہے۔
ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی
رنگیں نوا بنایا مرغانِ بے زباں کو
گل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی
نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
رنگیں کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی
اس قسم کی مثالوں کی اقبال کے تخلیقی نگار خانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ بالِ جبریل کی بیشتر غزلوں میں اقبال اپنے رب سے مکالمہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
تُو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا ربّ لامکاں تیرا ہے یا میرا
محمدؐ بھی ترا جبریلؑ بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں ترا ہے یا میرا
تُو ہے محیطِ بے کراں میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خذف تو تُو مجھے گوہرِ شاہوار کر
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر
یہ مشتِ خاک یہ صرصر یہ وسعتِ افلاک
کرم ہے یا کہ ستم، تیری لذتِ ایجاد
قصور وار، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کرسکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشتِ سادہ وہ تیرا جہانِ بے بنیاد
مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے نا پائیدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط کیا ہے تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگیٔ جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
اقبال کے ہاں حمدیہ مضامین کا تنوع دیدنی ہے اور عبد کا اپنے معبود سے مکالمہ بالکل نئے انداز کا ہے۔ اقبال کی شاعری میں تصورِ الہ کی تفہیم فلسفیانہ سطح پر بھی ہوئی ہے اور ایمانیاتی نہج پر بھی، لیکن ان کی تفہیم میں بنیادی عنصرعشق کاہے جوسب تفہیمات پر غالب ہے۔
حمدیہ مضامین کا غزلوں میں منعکس ہونا اقبال کے بعد تقریباً معدوم ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف کی روایت نے ادب پر جو کچھ اثرات مرتب کیے تھے زندگی کے بے رحم مادّی تقاضوں نے اس روایت ہی کا گلا گھونٹ دیا۔ اقبال کی سطح کا شاعر اقبال سے قبل اور ان کے بعد تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے، اس لیے اس حقیقت کا اعتراف کرلینے میں عافیت ہے کہ اقبال کا لہجہ اور فکری نظام اقبال پر ہی ختم ہوگیا۔ اب کسی شاعر پر اقبال کی چھوٹ تو پڑسکتی ہے، اس کی کلّیت کا دوبارہ ظہور ممکن نہیں ہے۔
لیکن اقبال کے بعد شعری اسالیب میں جو تبدیلیاں آئیں اور شاعری میں، بالخصوص نظم گوئی میں جو فکری رو داخل ہوئی اُس کے اثرات آج کی حمدیہ شاعری پر پڑے، اور ان اثرات کی وجہ سے حمدیہ شاعری بھی شعری جمالیات سے قریب تر ہوگئی اور اس شاعری میں صرف مافیہ، مواد یا متن (Text) ہی لائقِ توجہ نہ رہا بلکہ اسلوبِ بیاں بھی مرکز ِنگاہ بننے لگا۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد شعراء و ادبا کو اپنی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا تو کچھ شعراء و ادباء تو پاکستانی ثقافت کی بنیادوں کی تلاش میں دور تک نکل گئے اور کچھ ان بنیادوں میں دہریت (Secularism) کے عناصر داخل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن جن شعراء و ادبا نے تحریک پاکستان کے اصل مقاصد سے وابستگی کو اپنی بقا کے لیے ضروری جانا، انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا رخ اسلامی ادب و شعر کی آبیاری کی طرف موڑ دیا۔ نتیجتاً حمدونعت کی شاعری کا ایک واضح رجحان پیدا ہوگیا جس کے باعث نعتیہ شاعری کو ادبی سطح پر اس طرح ابھر نے کا موقع ملا کہ اس عہد کی شعری تحریکوں میں نعت گوئی کی تحریک ہی غالب تحریک ٹھیری۔ نعت کے مقابلے میں حمد کم لکھی گئی جس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ انسان کی نظر خوگرِ پیکر محسوس ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ورالوریٰ ہے۔ حمد و نعت کی طرف شعراء کے عمومی میلان نے یہ اثر دکھایا کہ وہ شعراء بھی اس طرف متوجہ ہونے لگے جو شعر گوئی کی نزاکتوں اور ادبی ضرورتوں سے آگاہ تھے، چناں چہ ان شعراء نے جب حمدو نعت کے موضوعات کو اپنایا تو اپنا شاعرانہ وقار برقرار رکھا اور اس طرح شاعری کی ان اصناف پر بھی جدید شاعری کے وہ تمام اسالیب اثرانداز ہونے لگے جو عمومی شاعری کو اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔
اسلوب (Style) موضوع کے انسلاک سے بھی بنتا ہے، صنفِ سخن کی ہیئت کے حوالے سے بھی وجود میں آتا ہے، اور زندگی پر پڑنے والے اجتماعی عمرانی اثرات کے تخلیقی انعکاس سے بھی اپنی نمود پاتا ہے۔ انفرادی اسلوب، ذاتی لہجہ اور مخصوص شاعرانہ طرزِ ادا پانے والے شعرا تو دنیا کی تمام زبانوں کی طرح اردو میں بھی گنے چنے ہیں۔ اس مضمون میں تو ایسے شاعروں میں سے صرف دو ہی مذکور ہوئے ہیں: غالب اور اقبال۔ لیکن شاعری کی اجتماعی فضا پر تخلیقی رجحانات، ادبی میلانات، عصری حسیت، لسانی رویوں، سائنسی شعور اور طرز احساس نے جو اثرات بھی مرتب کیے ہیں ان اثرات کا انعکاس حمدیہ شاعری پر بڑا واضح ہے۔
ایسے سوالات کے ذریعے وجودِ باری تعالیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرنا جن کا جواب صرف اور صرف اثبات ہی میں دیا جاسکے، متکلمین کا وتیرہ رہا ہے۔ شعرا میں غالب نے استفہامیہ لہجہ اختیار کیا۔ ہمارے عہد میں اس سوال پر بھرپور طریقے سے سوچا گیا اور اس سوال کے مختلف رنگ حمدیہ شاعری میں بکھیرے گئے ہیں۔ حفیظ تائب نے مظاہرِ کائنات کی مادی صداقتوں کے حوالے سے اس سوال پر غور کیا اور صنعت ترصیع و تکرار لفظی کے جمالیاتی تاثر سے اپنی حمدیہ شاعری کو ایک خوبصورت تخلیقی پیکر میں ڈھالا ہے۔ واضح رہے کہ صنعتوں کو محض صنعت گری کے لیے برتنے والے شاعر عام طور سے لفظوں کے بڑھئی (Carpenter of words) تو بن جاتے ہیں، شاعر نہیں بن پاتے۔ لیکن حفیظ تائب نے بہ یک وقت دو شعری صنعتوں کو اپنی تخلیقی جینئس کا حصہ بناکر حمد کہی ہے جس سے شاعری میں دلکشی بھی پیدا ہوگئی ہے اور فلسفیانہ گہرائی بھی۔
کس کا نظام راہ نما ہے اُفق اُفق
کس کا دوام گونج رہا ہے اُفق اُفق
شانِ جلال کس کی عیاں ہے جبل جبل
رنگِ جمال کس کا جما ہے اُفق اُفق
کس کے لیے نجوم بکف ہے روش روش
بابِ شہود کس کا کھلا ہے اُفق اُفق
کس کے لیے سرودِ صبا ہے چمن چمن
کس کے لیے نمودِ ضیاء ہے اُفق اُفق
مکتوم کس کی موجِ کرم ہے صدف صدف
مرقوم کس کا حرفِ وفا ہے اُفق اُفق
کس کی طلب میں اہلِ محبت ہیں داغ داغ
کس کی ادا سے حشر بپا ہے اُفق اُفق
سوزاں ہے کس کی یاد میں تائبؔ نفس نفس
فرقت میں کس کی شعلہ نوا ہے اُفق اُفق
وجودِ باری تعالیٰ کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوال کی پر چھائیاں بڑے شاعرانہ اسلوب اور خلاقانہ عمل کے ساتھ عاصی کرنالی نے اپنی حمدیہ شاعری میںاُبھاری ہیں۔ فکری ترفع اور تخلیقی لطافتِ احساس کا مرقع دیکھنا ہو تو ان کی درج ذیل حمد ملاحظہ فرمائیے:
مشتِ گِل کو آدم زندہ بنا دیتا ہے کون
دل میں احساسات کی شمعیں جلا دیتا ہے کون
کون میرے ذہن میں کرتا ہے مضمونوں کی کاشت
میرے آگے شعر کے خرمن لگا دیتا ہے کون
ہاتھ کس کا شب کی زلفوں میں پروتا ہے نجوم
صبح کے رخسار پر سورج سجا دیتا ہے کون
کس کا دشتِ نقش گر کرتا ہے مٹی پر عمل
فرش پر خوش رنگ تصویریں بچھا دیتا ہے کون
کون رکھ دیتا ہے شب کو نطق بلبل میں غزل
صبح دم کلیوں میں چھپ کر مسکرا دیتا ہے کون
جب مسافر کے قدم رک جائیں ہمت ٹوٹ جائے
منزلِ امید پر آکر صدا دیتا ہے کون
کس کا پا کر حکم پھر جاتے ہیں طوفانوں کے رُخ
ڈوبتی کشتی کو ساحل پر لگا دیتا ہے کون
جب حجاب روبرو چھونے کو ہوتی ہے نظر
دیدۂ تحقیق پر پردے گرا دیتا ہے کون
جس کے دریا میں سفینوں کی طرح بہتے ہیں ہم
ہاں اسی نادیدہ قوت کو خدا کہتے ہیں ہم
ریاضؔ حسین چوہدری نے بھی اسی حوالے سے نقشِ فن ابھارے ہیں۔ ان کی کاوشِ فن میں اسلوب کی جدت، لفظیات کی نادرہ کاری اور اپنی داخلی کیفیات کے حوالے سے ربِّ کائنات کی حمدکرنے کا رجحان جھلکتا ہے:
لذتِ غم کو محیطِ داستاں کس نے کیا
دل کی ہر دھڑکن کو پابندِ فغاں کس نے کیا
کس نے مجھ کو بخش دی لوح و قلم کی مملکت
آب و گل کی کشمکش کا ترجماں کس نے کیا
کس کے اذنِ عام سے سرگوشیاں کرتا ہے دل
منحرف چہروں کا اس کو رازداں کس نے کیا
ان ہوائوں کو دیا کس نے تغیر کا نصاب
آبشاروں کو پہاڑوں سے رواں کس نے کیا
ہر کلی کے دامنِ صد چاک میں رکھ کر گلاب
ہر برہنہ شاخ کو رشکِ جناں کس نے کیا
نام کس کا ہے جزیروں کی سحر کے وردِ لب
پھر ہوا کو کشتیوں کا بادباں کس نے کیا
کس نے لکھی ہے درودوں سے کتابِ ارتقا
حور و غلماں کو بھی اپنا ہم زباں کس نے کیا
کس نے مدحت کے چراغوں کو شعاعِ نور دی
ایک شاعر کو حریفِ کہکشاں کس نے کیا
خوشبوئوں کو کس نے بخشا ہے تکلم کا ہنر
تتلیوں کو ملک گل کا حکمراں کس نے کیا
آخرِ شب کون سلجھاتا ہے میری اُلجھنیں
ماسوا اس کے علاجِ دردِ جاں کس نے کیا
کس نے توصیفِ پیمبر کا کیا منصب عطا
مجھ کو مداح شہؐ کون و مکاں کس نے کیا
تابش نعت نبیؐ کو کس نے بخشا ہے دوام
میرے فن کی چاندنی کو جاوداں کس نے کیا
ہر قدم پر منزلوں نے نقشِ پا چومے ریاضؔ
اپنی رحمت کو شریکِ کارواں کس نے کیا
تشکیک، لاادریت (Agnosticism) اور بے یقینی و لادینی کے زیراثر وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں مختلف النوع سوالات اُبھرتے رہے ہیں۔ متکلمین، فلاسفہ، علمائے دین اور اہلِ دانش و بینش اپنے اپنے انداز میں ان سوالات کے جوابات دیتے رہے ہیں۔ شاعر، ان سوالات پر غور کرتا ہے تو تخلیقی لطافت، فکری نظافت اور لہجے کی صباحت میں جواب دیتا ہے۔ شاعر کا جواب سازِ اندروں کے تار چھیڑنے کے لیے مضراب کا کام کرتا ہے۔ غالب نے کہا تھا:
محرم نہیں ہے تُو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
اور افتخار عارف بے یقینی کے گنبد میں اس طرح اذانِ یقین دیتے ہیں:
ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
جو خلعتِ انتساب پہنا کے وقت کی رو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
حجاب کو رمزِ نور کہتا ہے اور پر تو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
’’کوئی نہیں ہے‘‘
کہیں نہیں ہے
یہ خوش یقینوں کے، خوش گمانوں کے واہمے ہیں
جو ہر سوالی سے
بیعتِ اعتبار لیتے ہیں
اس کو اندر سے ماردیتے ہیں
کون ہے وہ جو لوحِ آبِ رواں پہ سورج کو ثبت کرتا ہے
اور بادل اچھالتا ہے
جو بادلوں کو سمندروں پر کشید کرتا ہے اور بطنِ صدف میں
خورشید ڈھالتا ہے
وہ سنگ میں آگ، آگ میں رنگ، رنگ میں روشنی کے
امکان رکھنے والا
وہ خاک میں صوت، صوت میں حرف، حرف میں زندگی کے سامان رکھنے والا
نہیں کوئی ہے
کہیں کوئی ہے
کوئی تو ہوگا! (مکالمہ)
(جاری ہے)
افتخار عارف نے بے یقینی کے گنبد میں دراڑیں ڈالیں تو صبیح رحمانی نے احساس کی قندیل روشن کرتے کرتے براہِ راست رب تعالیٰ کے وجود کی نشاندہی کردی اور یقین کی کیفیت کو حسیاتی سطح پر بیان کی روشنی سے ہم کنار کردیا:
فصیل پر ہیں ہوا کی، روشن چراغ جس کے
سیاہ راتوں میں جس نے روشن شجر کیے ہیں
رقم چٹانوں پہ راز ہائے ہنر کیے ہیں
وہ جس کی رحمت نے دشت کے دشت
سبزہ و گل سے بھر دیے ہیں
وہ جس کی مدحت میں حرف و آواز گنگنائیں
خموشیاں جس کے گیت گائیں
وہ جس کے جلوے اُفق اُفق ہیں
وہ جس کی کرنیں شفق شفق ہیں
ازل سے پہلے
ابد سے آگے
اسی کو ہر اختیار حاصل
اسی کو عزو وقار حاصل
وہ ایک مالک
اسی کا سب ہے
وہی تو رب ہے
کائنات کے مشاہدے کے ذریعے نگاہِ تصور سے ذاتِ واجب الوجود تک رسائی اور غیب الغیب حقیقتِ کبریٰ کا ادراک، شعرا کو وجدانی سطح پر ہوتا ہے اور وہ اس ادراک کو جب شعر کا جامہ پہناتے ہیں تو اپنے تجربے کو اس طرح بھی جزوِ ہنر بناتے ہیں جس طرح محسن احسان نے اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھالا ہے:
سرِ افلاک ہے وہ اور تہہِ دریا وہ ہے
ذرۂ خاک سے ہر آن ہویدا وہ ہے
شبنمِ صبح میں وہ اور شفقِ شام میں وہ
کتنی شکلوں سے مری روح میں اترا وہ ہے
اس کا احساس دلاتی ہے سیاہی شب کی
نورِ خورشید میں ہر لمحہ دمکتا وہ ہے
پپڑیاں جمتی ہیں جب خشک زمیں کے لب پر
رحمتیں بن کے گھٹائوں سے برستا وہ ہے
سینۂ سنگ میں کرمک کو بھی دے رزق مدام
یہ حقیقت ہے کہ ہر ذات کا داتا وہ ہے
نوک ہر خار پہ جب رقص میں ہو اوس کی بوند
دل پہ یہ راز کھلے ارفع و اعلیٰ وہ ہے
آدمی نے کئی اصنام تراشے لیکن
آخرش سمجھا فقط لائقِ سجدہ وہ ہے
اک نظر دیکھ کہ اے بے خبر کاوشِ رنگ
پس ہر پردۂ گل انجمن آرا وہ ہے
نعمتیں اس کی میں جھٹلائوں تو جھٹلا نہ سکوں
میرا رازق، مرا مالک، مرا ملجا وہ ہے
اس حمدیہ کاوشِ ہنر میں کائناتی مشاہدہ، اپنی ذات کا روحانی سفر، تاریخی شعور اور احساسِ تشکر اس خوب صورتی سے شعری پیکر کا حصہ بنے ہیں کہ قاری کو عظمتِ خالق کا احساس بھی ہوتا ہے اور ایک قسم کی روحانی مسرت بھی میسر آتی ہے۔ متصوفانہ شاعری میں قرآن کریم کی آیت ’’ونحن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ (آیت 16 سورہ ق پ26) (اور ہم اس کی رگِ گردن سے بھی بڑھ کر اس کے قریب ہیں) کے داخلی تجربات کو بھی بیان کیا گیا ہے اور اس طرح کی باتیں کی گئی ہیں کہ میری جان بھی تُو ہے، میرا ایمان بھی تُو ہے اور میرا سب کچھ تُو ہی ہے۔ مقبول نقش نے اس تجربے کو شاعرانہ نقشِ جمیل میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ان کا ذاتی احساس کائناتی حوالہ معلوم ہونے لگا ہے۔ مقبول نقش کے بیان میں شعریات کی باز آفرینی کا عمل بھی ہے اور جدید اسلوب کا نمونہ بھی!
حاصلِ ہر نفس بھی تُو، منزلِ ہر نظر بھی تُو
شوقِ تمام کے لیے زادِ رہِ سفر بھی تُو
فکر مری شکستہ پا، ذکر ترا کروں تو کیا
واقعہ بعد ازاں بھی تُو، قصۂ پیشتر بھی تُو
کیسا نشیب اور فراز، یہ تو ہے اک حجابِ راز
شاخِ بلند تر بھی تُو، حسرتِ بال و پر بھی تُو
حسنِ نظر کی بات ہے، ذوقِ سفر کی بات ہے
منزلِ دل نشیں بھی تُوُ، جلوۂ رہ گزر بھی تُو
پھیلے ہوئے ہیں میرے ہاتھ اور اسی یقیں کے ساتھ
فلسفۂ دعا بھی تُو، فلسفۂ اثر بھی تُو
ہنستا ہے مجھ پہ آج بھی یہ مرا دامنِ تہی
پھول بھی تُو ثمر بھی تُو، شاخ بھی تُو، شجر بھی تُو
اہلِ نظر کی این و آں، نقش کے واسطے کہاں
نقش کا رنگِ فن بھی تُو، نقش کا نقش گر بھی تُو
حمدِ باری تعالیٰ کے بہت سے پہلو تو صرف انسان کی اپنی ذات اور اس وسیع کائنات کے بارے میں غور و فکر کرنے سے ہی نکل آتے ہیں۔ شاعر اپنے موضوع کے ساتھ جتنا مخلص اور شعری آہنگ سے جتنا مانوس ہوتا ہے، فکر کے موتی اور فن کے گوہر اسی قدر دامن قرطاس میں بھر لیتا ہے۔ شاعر اپنی سانسوں کی آمد و شد پر غور کرتا ہے تو اسے ہر دھڑکن اور سانسوں کے زیر وبم میں حمد کی آواز سنائی دیتی ہے:
اپنے رب کی حمد و ثناء میں
دھڑکن کا مدھم آہنگ ہو
یا سانسوں کے زیر وبم کا
اک بے نام تسلسل
کیا ہے؟
اگر یہ تسبیح و تہلیل نہیں ہے؟
(وظیفہ گردش لہو، سرشار صدیقی)
شاعر تو جب اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں پر بھی غور کرتا ہے تو اسے ہر اسم میں حمد مضمر نظر آتی ہے۔
خوبیوں کے تری شایاں کلمہ ہے نہ کلام
تیرے ہر اسم میں مضمر ہے مگر حمد تمام
(حشمت یوسفی)
منور بدایونی نے اپنی ذات کا سفر کیا تو یہ حقیقت کھلی کہ ان کا دل ہی چراغِ طور بن گیا ہے۔
منور میں نے جب دل پر نظر کی
منور اک چراغِ طور دیکھا
(منوربدایونی)
پہلے حمد ربّ العزت میں اس کے جلال کی ہیبت کا احساس جھلکتا تھا تو اب جدید شاعر رب کائنات کے جمالِ جہاں آراء کا متلاشی ہو کر اسے نیم رومانی لہجے میں یاد کرتا ہے اور حمدیہ شاعری کرتے ہوئے اپنی شخصیت کا بھرپور تداخل (Involvement) ظاہر کرتا ہے۔
اے خدا!
میری دعا ہے
کہ گجر دم کی پر اسرار فضائوں میں
ترانطق
کسی شاخِ برہنہ پہ اترتی ہوئی چڑیا کی طرح
میرے دل میں
کسی بے نام سے احساسِ مسرت سے
مسلسل چہکے!
(احمد ندیم قاسمی)
رب تعالیٰ سے اس طرح مخاطب ہونے میں مُلَّا کی خشیت کے بجائے صوفی کی بے باکی ظاہر ہوتی ہے، لیکن اس پکار میں داخلی کیفیات کا بھرپور عکس موجودہ ہے۔ آج کی شعری کاوشوں میں داخلیت کا عنصر اس لیے غالب ہے کہ خارجی ماحول ایک عذاب بن گیا ہے۔ آشوبِ امروز کا علاج قوموں اور افراد نے ہمیشہ داخلیت کی پناہ میں جاکر کیا ہے۔ شعرا کا تو وتیرہ ہی یہ رہا ہے کہ جہاں عیش و آرام کی زندگی میسر آئی انھوں نے ظاہر پرستی شروع کردی اور خارجی ماحول کی رنگینیوں کو شعر کا موضوع بنا لیا… لیکن جہاں زمانے نے آنکھیں پھیریں اور دن کڑے ہونے لگے، وہ داخلی دنیا میں کھو گئے۔ لکھنوی اور دہلوی دبستانوں کا فرق یہی تو ہے۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ میں یہ عرض کررہا تھا کہ آج پوری دنیا میں جو خوف و ہراس کا عذاب آیا ہوا ہے اور دانشِ حاضر نے جو قیامت برپا کررکھی ہے اس کا اثر ادب میں مختلف قسم کے رجحانات کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ حمدیہ شاعری میں جو تصورِالٰہ اُبھرا ہے اس میں بھی رومانویت کے عناصر صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان عناصر کو ملائیت قبول کرے یا نہ کرے، تصوف کی روایت سے آگاہ اور شعر کی داخلیت کے پرستار اس رجحان کو ضرور سراہیں گے۔ دیکھیے اسی طرز احساس نے حنیف اسعدی کو رب سے شاعرانہ مکالمہ (Poetic discourse) کرنے کا کیسا سلیقہ ارزانی کیا ہے:
روح میں، تن میں، رگ و پے میں اتاروں تجھ کو
اور پھر دل کی صدا بن کے پکاروں تجھ کو
تیرے مظہر ہیں مری ذات کے زنداں میں اسیر
خود کو پامال کروں اور ابھاروں تجھ کو
(حنیف اسعدی)

No comments:

Post a Comment