Search This Blog

Tuesday, 27 August 2013

مولانا مودودی کے مطالعہ کی وسعت

مولانا مودودی کے مطالعہ کی وسعت

پروفیسر سید محمد سلیم

دوسری ہجری میں یونانی فلسفہ عالم اسلام میں داخل ہو گیا جس کی وجہ سے اچھے خاصے طبقے میں فکری انتشار اور فکری گمراہی پھیل گئی۔ مباحثہ اور مجادلہ کے نتیجے میں مسلمانوںمیں دو حریف گروہ پیدا ہو گئے۔ معتزلہ اور اشاعرہ ۔ یہ حالات جاری رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے امام غزالی ؒکو پیدا کردیا۔ امام غزالیؒ اپنے زمانہ کی نابغہ روزگار (Genuis) ہستی تھی۔ ’’انہوں نے پہلے یونانی فلسفہ کا گہری ‘‘نظر سے مطالعہ کیا اور ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ کتاب لکھی۔ پھر اس پرناقذانہ نظر ڈالی اور ’’نہا فتہ الفلاسفہ‘‘ کتاب لکھی اور یونانی فلسفہ کارد لکھا۔ اس دن سے عالم اسلام میں یونانی فلسفہ کا زور ٹوٹ گیا۔
اس مطالعہ کے نتیجے میں امام غزالی میں خاص ایمان، یقین اور اسلام کی حقانیت پر پختہ ایمان پیدا ہو گیا۔ پھر انہوں نے اس ایقان و اعتماد کے قلم سے اسلام کی تشریح کی۔ نظام اسلام کی حکمتیں بیان کیں۔ ’’احیائے علوم الدین‘‘ اسی دور کی کتاب ہے۔ ایک مدت تک یہ کتاب اسلام کی سب سے بڑی شارح شمار کی جاتی رہی ہے۔
گزشتہ دو صدیوں سے مغربی اقوام کا عالم اسلام پر غلبہ رہا ہے۔ اس دوران مغربی فلسفہ، مغربی فکر، الحاد و دہریت اور آزاد خیالی نے مسلمانوں کے دل و دماغ میں نفوذ حاصل کرلیا، جس کے بعد مسلمانوں میں فکری انتشار اور فکری گمراہی پھیلی۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے اللہ تعالیٰ نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ [1903-1979ئ] کو پیدا فرمایا۔ انہوں نے اپنی خداداد ہمت اور قابلیت سے پہلے تمام مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا اور ناقدانہ نظر سے ان کو پرکھا۔گزشتہ چار صدیوں میں یورپ کے اندر الحاد، دہریت اور آزاد روی کی جو فصل پروان چڑھی ہے، اس کا مطالعہ کیا۔ اس فکر کے اساطین کی فکری اور عملی زندگیوں کا مطالعہ کیا۔ اس تقابل اور تنقید کے نتیجے میں مولانا مودودیؒ کے اندر اسلام کی حقانیت پر پختہ یقین اور ایمان پیدا ہوگیا۔ مغربی فکر سے مغلوبیت اور مرعوبیت کا رجحان ہوا ہوگیا۔
پھر مولانا مودودیؒ نے ایمان و یقین کی خوشبو پھیلانی شروع کی، اسلام کی تشریح کے لیے کتابیں لکھنا شروع کیں، اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفہیم جدید فکری انداز میں پیش کرنا شروع کی۔ مولانا نے قرآن مجید کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کے نام سے پیش کی۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا کی فکر میں وہ گیرائی اور بیان میں وہ گہرائی عطا فرمائی ہے کہ مولانا کی کتابیں عوام اور خواص ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان ترجموں کو بھی ان زبانوں میں قبولیتِ عامہ حاصل ہو رہی ہے اور اسلامی فکر کی اشاعت ہورہی ہے۔
مولانا مودودیؒ نے اپنے وسیع مطالعہ کی داستان کہیں بیان نہیں کی تھی۔ تیس سال کی طویل مدت کے بعد جب تفہیم القرآن تکمیل کو پہنچی تو اس سلسلے میں کئی تقریبات منعقد ہوئی تھیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں مولانا مودودیؒ نے اپنے مطالعہ کی وسعت کو بیان کیا تھا (15 جولائی 1972ئ)، وہ فرماتے ہیں:
’’اس موقع پر میں مختصر طور پر آپ کو یہ بتائوں گا کہ تفہیم القرآن میں اور اپنی دوسری کتابوں میں مَیں نے جو طرز استدلال اسلام کو حق ثابت کرنے اور توحید اور رسالت اور وحی اور آخرت اور اسلام کے اخلاقی و تمدنی اصولوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے، وہ دراصل میری ان تحقیقات کا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد شروع کیں۔ اگرچہ میں ایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوا تھا۔ میرے والد مرحوم اور میری والدہ مرحومہ دونوں نہایت دیندار تھے اور میں نے اُن سے پوری مذہبی تربیت پائی تھی۔ لیکن جب میں ہوشیار ہوا اور جوانی کی عمر میں داخل ہوا، تو میرا طرز فکر یہ تھا کہ کیا میں صرف اسی وجہ سے مسلمان ہوں کہ مسلمان کا بیٹا ہوں؟ اگر اس وجہ سے میرا مسلمان ہونا برحق ہے تو اس وجہ سے پھر ایک عیسائی کا بھی جو عیسائی گھر میں پیدا ہوا ہے، عیسائی ہونا برحق ہوگا۔ اور ایک ہندو کا بھی جو ہندو کے گھر میں پیدا ہوا ہے، ہندو ہونا برحق ہوگا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے خود تحقیق کرکے معلوم کرنا چاہیے کہ حق فی الواقع کیا ہے۔ اس حالت میں مَیں نے اپنے فیصلے کو معطل رکھا۔ میں دہریہ یا ملحد نہیں ہوگیا بلکہ میں نے اپنے فیصلے کو صرف معطل رکھا اور تحقیقات کرنے کی کوشش کی۔
اس سلسلے میں مَیں نے ویدوں کے تراجم لفظ بہ لفظ پڑھے۔ گیتا لفظ بہ لفظ پڑھی۔ ہندو مذہب کے فلسفے اور ہندو مذہب کی تاریخ اور ہندو شاستروں کو پڑھا۔
بدھ مذہب کی اصل کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں ان کو پڑھا۔ اس طرح بائبل پوری کی پوری پڑھی اور پادری ڈومیلو کی تفسیر کی مدد سے پڑھی، تاکہ یہ نہ ہو کہ میں کوئی متعصبانہ مطالعہ کروں، بلکہ میں نے اپنے دماغ سے ہر تعصب کو نکال کر ان چیزوں کو پڑھا تاکہ تحقیق کروں کہ حق کیا ہے۔ عیسائیت اور یہودی مذہب دونوں کے متعلق میں نے وسیع معلومات فراہم کیں اور خود عیسائیوں اور یہودیوں کی اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھا۔ تلمود کے جتنے بھی حصے مجھے مل سکے، میں نے وہ سب پڑھے۔
پھر میں نے دہریوں اور ملحدوں اور مادہ پرستوں کے فلسفے پڑھے، اور جن لوگوں نے سائنس کے نام سے دنیا میں الحاد اور دہریت پھیلائی ہے ان کو پڑھا، نہ صرف ان کو پڑھا بلکہ جن مغربی مفکرین کے پیچھے مغربی دنیا چل رہی ہے، ان کے شخصی حالات میں نے پڑھے، تاکہ یہ معلوم کروں کہ یہ لوگ سلیم الطبع (Sane) اور ہوشمند (Sober) تھے بھی یا نہیں۔ کیونکہ ایک انسان بسا اوقات بڑے دلائل کے ساتھ ایک نظریہ پیش کرتا ہے مگر اس کا کردار بتاتا ہے کہ اس کا ذہن متوازن نہیں ہے۔ اس لیے میں نے ان کے خیالات پڑھنے کے ساتھ ان کی سوانح عمریاں بھی پڑھیں تاکہ معلوم کروں کہ فی الواقع وہ انسانیت کے قابل اعتماد راہبر ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
اس سارے مطالعہ کے بعد میں نے پھر قرآن مجید کو بغور پڑھا۔ کیونکہ بچپن سے میری تعلیم عربی کی تھی، اس وجہ سے مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی کہ میں ترجموں کی مدد سے اس کو پڑھتا۔ میں براہِ راست قرآن کو سمجھ سکتا تھا اور میں نے بارہا اچھی طرح سمجھ کر اسے پڑھا۔ اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اصل ماخذ کا مطالعہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کو جاننے کے لیے حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ اس تفصیلی مطالعہ اور غور وخوض کے بعد میں اس نتیجے پرپہنچا کہ:
اس سے زیادہ معقول اور اس سے زیادہ مدلل مذہب کوئی نہیں ہے جسے قرآن مجید پیش کرتا ہے۔
اور اس سے زیادہ مکمل رہنماکوئی نہیں جیسے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اور انسانی زندگی کے لیے اس سے زیادہ مفصل اور صحیح پروگرام کہیں نہیں پیش کیا گیا جیسا کہ قرآن و حدیث میں پیش کیا گیا ہے۔
پس میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا بلکہ اپنی تحقیق سے خوب جانچ پڑتال کرکے میں اس دین پر ایمان لایا ہوں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تفہیم القرآن میں جہاں جہاں بھی عقائد اور ایمانیات اور احکام کے متعلق قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرتا ہوں وہاں معقول طریقے سے ان کی حقانیت دلائل کے ساتھ ثابت کرتا ہوں۔ یہ وہی دلائل ہیں جن سے درحقیقت میں اسلام کی حقانیت کا قائل ہوا، جن سے میں توحید کا قائل ہوا، جن سے میں رسالت کا قائل ہوا، جن سے میں وحی کا قائل ہوا، جن سے میں اسلام کے ایک مکمل نظام زندگی ہونے کا قائل ہوا، جن سے میں اس بات کا قائل ہوا کہ اسلام ہر زمانے کے لیے انسان کی بہترین رہنمائی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ میں دراصل ایک نومسلم ہوں، محض نسلی مسلمان نہیں ہوں۔
اس مطالعہ و تحقیق کے ثمرات میں جن کی مدد سے میں ایک مدت تک خلقِ خدا کو اسلام سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ براہِ راست قرآن کے ذریعہ سے اسے نہ سمجھا جائے۔ میری دلی خواہش تھی کہ تفہیم القرآن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور حدیث کا ایک مجموعہ مع شرح مرتب کروں تاکہ فہم دین میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ مگر تیس سال اس پہلے ہی کام میں گزر گئے اور اب کوئی محنت طلب کام کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں رہی۔‘‘
(آئین: تفہیم القرآن نمبر15 دسمبر 1972ئ)
اس خطاب میںمولانا مودودیؒ نے اپنے مطالعہ کی تفصیل اور وسعت بیان کی ہے۔ بعض دوسرے مقامات پر صرف مدتِ مطالعہ کا ذکر کیا ہے۔
رسالہ مسلم دہلی بند [1923ء ] ہو جانے کے بعد مولانا اپنے بڑے بھائی ابو محمد مودودی کے پاس بھوپال چلے گئے۔ وہاں کے قیام کے متعلق مولانا لکھتے ہیں:
’’ڈیڑھ سال تک سوائے خالص مطالعہ کے دیگر مشاغل ترک کر دیئے۔ ڈیڑھ سال میں نے بالکل پڑھنے سوچنے کے لیے وقف کردیا۔ علوم قدیم و جدید کے جتنے ذخائر تک میری رسائی ممکن تھی، میں نے ان سے استفادہ کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ غور وفکر اور مطالعہ کو میں نے اس شدت اور تسلسل سے جاری رکھا کہ آخر کار میرے اعصاب پر تکان کے آثار ہویدا ہونے شروع ہو گئے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر مدت ِمطالعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’جب میں نے اخبار الجمیعتہ دہلی سے علیحدگی اختیار کر لی [1928ء ] تو مزید پانچ سال صرف مطالعہ اور لکھنے پڑھنے اور اپنی علمی استعداد بڑھانے میں صرف کیے‘‘۔ اس مدت میں مولانا نے منقولات کی تعلیم کاندھلوی بزرگ سے حاصل کی اور معقول کی تعلیم مولانا عبدالسلام نیازی خیر آبادی سے حاصل کی۔
مدتِ مطالعہ کا ایک اور مقام پر ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں بیس ماہ کی پہلی گرفتاری کے بعد جب رہائی ملی [27مئی 1950ء ] تو ایک تقریر میں مولانا مودودیؒ نے فرمایا:
’’میں نے اپنی 47 سالہ عمر میں تقریباً دو تہائی حصہ مطالعہ اور تحقیق میں اور غور وفکر میں صرف کیا ہے۔ اس تیس سال کی مدت میں پڑھ کر، سن کر، سوچ کر، سمجھ کر، مشاہدہ اور تجربہ کرکے میرے ذہن کا ایک خاص سانچہ بن چکا ہے اور میری زندگی کا ایک نصب العین قرار پا چکا ہے۔ میں اس پر پورے اطمینانِ قلب سے ایمان لایا ہوں۔ کوئی مجھے یہاں سے ہلا نہیں سکتا۔‘‘
وسعت ِمطالعہ کا ذکر مولانا مودودیؒ نے اس طرح کیا ہے:
’’جاہلیت کے زمانے میں مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں، مگر جب آنکھ کھول

کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھاسب ہیچ تھا۔ علم کی جڑ تو اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھاتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں، پھر بھی حل نہ کر سکے، ان کو اس کتاب نے ایک دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا۔ میری محسن بس یہی کتاب ہے۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ حیوان سے انسان بنا دیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی۔ ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملہ کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے۔ انگریزی میں ایسی کنجی کو شاہِ کلید (Master Key)) کہتے ہیں جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو میرے لیے یہ قرآن مجید شاہِ کلید ہے۔ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔‘‘
[محمد عمران ندوی: میری محسن کتابیں]
اس بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ اس مقام پر پہنچتے پہنچتے مولانا مودودیؒ قرآن کی روشنی میں علوم کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے۔ ان کی نظر آفاقی ہو گئی تھی۔ دنیا کے مفکرین اور دانشور ان کو بچے اور بونے نظر آتے تھے۔ علم و فضل کی دنیا میں اس سے بلند کوئی مرتبہ نہیں۔ فکری بلندی سے عملی میدان میں قدم رکھنے کے لیے بس ایک ہی قدم کی ضرورت تھی۔ سو وہ بھی ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ لکھتے وقت مصنف کو حاصل ہو گیا تھا۔ اس کتاب کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں:
’’اس کتاب (الجہاد فی الاسلام) نے سب سے زیادہ فائدہ خود مجھے پہنچایا ہے۔ میں نے جب اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا تھا تو میرے اندر دینی حمیت سے زیادہ قومی حمیت کا جذبہ کام کررہا تھا، لیکن تالیف اور تحقیق کے دوران جب مجھے ایک ترتیب کے ساتھ اسلام کے اساسی نظریات اور اس کے تفصیلی احکامات کا غور سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ میں نہ صرف نظام شریعت کا فہم اور اس کی حقانیت کا غیر متزلزل یقین ابھر آیا بلکہ اس نظام کے احیاء کا ولولہ بھی مجھ میں پیدا ہو گیا اور اس کے لیے کام کرنے کا طریقہ بھی میری سمجھ میں آ گیا… اس کے بعد میں نے اخبار نویسی کے مروج اور پامال راستے کو خیر باد کہنے کی ٹھان لی، ’’الجمعیت‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لی اور یہ طے کیا کہ صحافت کی دنیا میں اگر قدم رکھوں گا تو صرف اس شرط پر کہ اسے دینِ حق کی خدمت کا ایک ذریعہ بنائوں۔ اس کے بعد مزید پانچ سال تک پھر صرف مطالعے، لکھنے پڑھنے اور اپنی علمی استعداد بڑھانے کا کام کرتا رہا۔
( آئین، تفہیم القرآن نمبردسمبر 1972۔ ص 183)

No comments:

Post a Comment