Search This Blog

Thursday 29 August 2013

اسلامی مالیاتی انڈسٹری پر ایک بڑا سوالیہ نشان

اسلامی مالیاتی انڈسٹری پر ایک بڑا سوالیہ نشان

محمد زبیر مغل…
zubair.mughal@alhudacibe.com
یہ امر بظاہر خوشی کا باعث ہے کہ عالمی اسلامی مالیاتی انڈسٹری 1.3ٹریلین ڈالرسے زائد حجم تک پہنچ چکی ہے جو یقینی طور پر لوگوں کو سود سے نجات کے ساتھ ساتھ ایک اچھے کاروبار کا ذریعہ بھی میسر کر رہی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 2000 سے زائد اسلامی مالیاتی ادارے اسلامی بنکاری، اسلامی انشورنس (تکافل)، اسلامی فنڈ، مضاربہ، اجارہ، اسلامی بانڈ (سکوک) اور اسلامی مائیکرو فنانس سمیت چند دیگر صورتوں میںشریعہ سے ہم آہنگ اسلامی مالیاتی خدمات میں سرگرم ہیں۔اگرہم ان تمام خدمات کے مارکیٹ شیئرز کو بظاہر دیکھیں تو دل دکھا دینے والے اعداد و شمار کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری و مالیات صرف امراء تک ہی محدود ہوکر رہ گئی اور Capitalism کے مطابق منافع کی ہوس نے اسلامی مالیاتی انڈسٹری کو بھی آ گھیرا ہے جس کی وجہ سے اسلامی مالیاتی انڈسٹری میں غریبوں کے لیے خدمات میسر نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کمرشلزم نے انہیں اس طرح اپنے سحر میں لے لیا ہے کہ غریبوں کے ساتھ کاروبار یا فنانس کرنا ان کے ایجنڈے سے بالکل نکل چکا ہے۔
ورلڈ بنک سے متعلقہ ایک ادارے (CGAP) Consultative Group to Assist the Poor کی مارچ 2013,ء کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں اسلامی مائیکروفنانس کے اداروں کا کل حجم 800 ملین USD تک جا پہنچاہے جو تقریبا 1.3 ملین افراد کو خدمات دستیاب کر رہے ہیں جبکہ الہدیٰ سنٹر آف ایکسی لینس برائے اسلامی مائیکروفنانس کی ایک حالیہ ریسرچ رپورٹ کے مطابق اسلامی مائیکروفنانس کے اداروں کا کل حجم جولائی 2013ء میںتقریباایک بلین ڈالر ہے اور دنیا بھر میں کل اسلامی مائیکروفنانس اداروں کی تعداد 300 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اسلامی مالیاتی انڈسٹری کے 1.3 ٹریلین کے حجم میں اسلامی مائیکروفنانس کا حصہ 1% سے بھی کم ہے جو کہ اسلامی مالیاتی انڈسٹری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اوران اداروں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت بھی۔ان اعدادوشمار سے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لیتے ہیںمثلا معاشرے میں امیر اور غریب کا توازن 1%:99% ہے؟ کیا اسلامی مالیات میں صرف امیر کے لیے مالیاتی مصنوعات ہیں؟ غریب کے لیے نہیں؟ کیا اسلامی فنانس ایک خاص طبقہ کے لیے ہے؟ کیا یہ ایک طبقاتی نظام ہے؟ وغیرہ وغیرہ، اور یقینی طور پر ان ابھرنے والے سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔
اسلام کی تعلیمات کے تناظر میں اسلامی مالیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی مالیات کا اصل محور ہی غریب کی فلاح ہے اور اس میں غربت کے خاتمے کے بہتریں اصول موجود ہیں اسلام تو غریب سے شروع ہو کر غریب پر ہی ختم ہونے کا دین ہے ،اگر ہم دیگر مذاہب کا مطالعہ کریںتو یہ بات علم میں آتی ہے کہ غربت کا خاتمہ اسلام میں معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ مذہبی ذمہ داری ہے جو کہ زکوۃ، صدقہ، فطر، عشر، قرض وغیرہ وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں کے مذہبی فرائض میں شامل ہے جبکہ دیگر مذاہب کے نزدیک یہ مذہبی فریضہ کے بجائے معاشرتی فریضہ ہے اور وہCorporate Social Responsibility (CSR)کے نام سے دنیا میں غربت کے خاتمے کے لیے مصروف عمل ہیں 

No comments:

Post a Comment