Search This Blog

Monday 21 April 2014

اقبالؒ اور احترام انسان . Iqbal aur Ihterame Insan

اقبالؒ اور احترام انسان

ڈاکٹر سید محمد اکرم 


اقبالؒ کے نزدیک انسان کائنات کی تخلیق کا عالی ترین مقصد ہے۔ اس کی تخلیق احسن تقویم پر ہوئی ہے۔ اس کے فکروعمل کی وسعتوں کا کوئی حساب نہیں اس  کے ہنگامہ ہائے نوبہ نو کی کوئی انتہا نہیں۔ اقبال انسانی تہذیب کی روح ورواں اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ انسان کا احترام کیا جائے:۔  …؎
برتر از گردوں مقام آدم است 
اصل تہذیب  احترام آدم است 
انہوں نے کہا میں انسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور میراعقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات  میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات وافکار میں آپ کو عموماً جاری وساری نظر آئے گا۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک جو انسان کا احترا م نہیں کرنا وہ انسان دوست نہیں ہے وہ خدا دوستی اور خدا پرستی کا دعوی نہیں کر سکتا۔ مخلوق سے محبت ہی خالق سے محبت ہے۔ 
اقبالؒ جہاں انسان دوست قوتوں کا احترام کرتے ہیں وہاں انسان دشمن قوتوں کے رویوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں تاکہ آج پردہ تہذیب  میں جو غاری گری اور آدم کشی کا عمل جاری ہے اسے روکا جا سکے۔ اقبالؒ کے دور میں مغربی استعمار نے قبائے انسانی کو چاک کیا۔ یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس اقبالؒ نے مغربی تہذیب کے تباہ کن رویوں کے خلاف ہو گئے۔ ان کے کلام کا ایک عظیم حصہ لادین سیاست کی نفی اور بے رحم اور خودغرض ملوکیت کے خلاف آواز ہے۔ 
علامہ اقبالؒ نے کیمبرج میں کہا میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت ومادیت سے محفوظ رہیں۔ اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مذہب وحکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ اس طرح ان کی تہذیب اخلاق سے محروم ہو گئی۔لیگ آف نیشنز طاقتور اقوام نے کمزور اقوام کو اپنے تصرف میں لانے کا ایک ادارہ بنا لیا۔ اقبالؒ نے اسے کفن چوروں کی انجمن کا نام دیتے ہوئے کہا…؎ 
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند  
بہر تقسیم قبور انجمنے  ساختہ اند 
علامہ اقبالؒ کا تمام  کلام انسان کے احترام، اس کی حفظ وبقا اور ترقی وارتقا کی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھا:۔  
’’میری فارسی نظموں کا مقصد اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری طلب وجستجو تو صرف اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید  معاشرتی نظام تلاش کیا جائے اور عقلاً  یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات، رتبہ ودرجہ اور رنگ ونسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے۔ یورپ اس گنج گراں مایہ سے محروم ہے۔
تاریخ میں اکثر جنگوں کی بنیاد علاقائی، لسانی اور نسلی اختلافات ہیں۔ اسلام دنیا کا واحد نظام حیات جس نے ان فساد انگیز اور تباہ کن اختلافات کو ختم کرنے اور انسانی برادری کو انسانیت کے نام پر متحد کرنے کی کوشش کی۔ پیغمبرؐ اسلام نے فرمایا…’’تم میں کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔
اقبالؒ لکھتے ہیں:۔ ’’قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گوناں گوں روابط کا ایک اعلی اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔ قرآنی تعلیمات کا یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس کے پیش نظر گوئٹے نے (بہ اعتبار ایک تعلیمی قوت) اسلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:۔ اس تعلیم میں کوئی خامی نہیں۔ ہمارا کوئی نظام اور ہمیں پر کیا موقوف ہے کوئی انسان بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔  
ہر بڑا تخلیقی مفکر ایک مثالی انسان کا تصور پیش کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ سے کسی نے سوال کیا کہ انسان کامل کے متعلق آپ کا تصور کیا ہے تو انہوں نے کہا نبیؐ اکرم تمام انسانوں کے لئے کامل ترین نمونہ ہیں جو بھی آپؐ کے اخلاق کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے وہ انسان کامل بن جاتا ہے۔ اقبالؒ کی تمام تصنیفات اور منظومات و بیانات نبی علیہ اسلام کے اعلی اخلاق کی توصیف وتعریف سے مملو ہیں۔ اللہ تعالی نے آپؐ کے حلق کو خلق عظیم سے تعبیر فرمایا انک لعلی خلق عظیم۔ نبیؐ  اکرم نے فرمایا کہ میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث  ہوا ہوں۔ حضور علیہ السالم سراپا رحمت ہیں۔ مومنین کے لئے رئوف رحیم ہیں۔ رحمتہ للعالمین  ہیں یعنی سارے جہانوں کے لئے رحمت۔ فتح مکہ آپؐ کی رحمتہ للعالمینی کا وہ بے مثال مظاہرہ ہے جو چشم تاریخ نے اس سے پہلے  اور اس کے بعد کبھی نہ دیکھا۔ آپؐ نے فرعون  صفت تمام دشمنوں کو لاتژیب علیکم الیوم کہہ کر بلاشرط معاف فرما دیا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ رسولؐ پاک کی ذات میں تمہارے  لئے بہترین نمونہ ہے۔ لقدکام لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ نبیؐ مکرم کے اسوہ حسنہ کو اپنے انفرادی  اور اجتماعی معاملات میں پیش نظر رکھیں اور سب انسانوں کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش آئیں۔  
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات کا خلاصہ محبت و مساوات کی بنیاد پر ایک آفاقی معاشرے کی تشکیل ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان  کا یکساں احترام کیا جائے۔ اسلام ناگزیر طور پر عالم انسانی کے لئے امن کا مذہب ہے۔ کیونکہ اسلام اتحاد  انسانی کا عظیم داعی ہے۔ اسلام نے بنی نوغ انسان کے اتحاد کے ضمن میں جو پہلا قدم اٹھایا وہ ایک ہی نوع کے اخلاقی ضابطے رکھنے والوں کو اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔  قرآن کریم نے اعلان کیا کہ اے اہل کتاب آئو ہم اللہ تعالی کی توحید پر متحد ہو جائیں  جو ہم سب کے درمیان مشترک ہے۔‘‘ 
علامہ اقبالؒ نے اپنی وفات سے چند ماہ پیشتر سال نو کے پیغام میں جو یکم جنوری 1938 کو ریڈیو لاہور سے نشر کیا گیا کہا:۔ 
’’تمام دنیا کے ارباب فکر دم بخود سوچ رہے ہیں کہ تہذیب کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کا انجام یہی ہونا تھا کہ ایک انسان دوسرے انسان کی جان و مال کے دشمن بن کر کرہ ارض پر زندگی کا قیام ناممکن بنا دیں۔  دراصل انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے اور جب تک دنیا کی تمام علمی قوتیں اپنی توجہ کو احترام انسانیت پر مرکوز نہ کر دیں یہ دنیا بدستور  درندوں کی بستی بنی رہے گی۔ قومی وحدت بھی ہرگز قائم دائم نہیں۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو رنگ و نسل و زبان سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی اور ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو ختم نہ کیا جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح وسعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی  نہ ہوں گے …؎ 
بہ آدمی نرسیدی خدا چہ می جوئی 
ز خود گریختہ ای آشنا چہ می ہوئی 

No comments:

Post a Comment