Search This Blog

Monday, 21 April 2014

مجددّ الف ثانی ؒسے علامہ اقبال ؒ. Mujaddid Alfsani se Allama Iqbal

مجددّ الف ثانی ؒسے علامہ اقبال ؒ

رانا عبدالباقی
 

تاریخ اِس بات کی شاہد ہے کہ آریا ہندو سماج یا ہندوازم کے علمبردار 1700 سے1500 قبل مسیح کے دوران افغانستان میں پہلا پڑائو ڈالنے کے بعد موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی دراوڑی تہذیب کو شکست دے کر فاتحین کے طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے ۔ اُنہوں نے برّصغیر جنوبی ایشیا کو "بھارت ماتا" قرار دے کر ہندوستان کو اپنا وطن بنایا اور مقامی لوگوں کیساتھ ظالمانہ سلوک کرتے ہوئے اُنہیں غلاموں سے بدتر یعنی شودر اورملیچھ کی پوزیشن میں رکھ کے سیاسی اور سماجی طور پر مقامی آبادیوں پر غلبہ حاصل کرلیا ۔ آریا ہندو سماج یاہندوازم کے ماننے والے ذات پات کے نظام کے تابع تھے چنانچہ ذات پات کے نظام کو سماجی ہتھیار کے طور استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے مقامی باشندوں کے علاوہ ہندوستان پر حملہ آور ہونے والی دیگر فاتح قوموں کے زوال پزیر ہونے پر اُنہیں بتدریج اپنے سماجی نظام میں جذب کرلیا۔ حتیٰ کہ وقت گزرنے کیساتھ ہندو سماج کے ذات پات کے ظالمانہ نظام کے خلاف جنم لینے والی مقامی سماجی تحریکوں جین مت اور بل خصوص بدھ مت جسے جنوبی ایشیا میں مضبوط مرکزی ہندو حکومت کے بانی چندرگپت موریا کے پوتے اشوک بادشاہ کے بودھ ازم قبول کرنے کے بعد کابل سے بنگال تک چند صدیوں تک عروج حاصل رہا کو کچھ عرصہ برداشت کرنے کے بعد ہندوازم نے انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ شکل اختیار کرتے ہوئے اِن دونوں مقامی تہذیبوں کو بھی شودر اور ملیچھ کے طور پر ہندوازم میں جذب ہونے پر مجبور کر دیا ۔ ہندوازم کے جذب و کمال کا یہ سلسلہ ہندوستان میں ظہور اسلام تک جاری و ساری رہا ۔ محمد بن قاسم کی سندھ کی فتوحات نے بلاآخر ہندوازم کی اِس سماجی قوت کو موثر طور پر چیلنج کیا اور بعد میں افغانستان کے راستے آنے والے اسلامی اثرات کے باعث مسلمان فاتحین نے ہندوستان میں سلطنتیں قائم کیں اور غلبہ اسلام کو ایک ہزار برس پر محیط کر دیا ۔ ہندوستان میں فکر اسلامی کے خلاف ہندوازم کی شدت پسندی ہندو مورخوں اور دانشوروں میں پیدا ہونے والی اِس سوچ کو بخوبی واضح کرتی ہے کہ ہندوازم نے ہندوستان میں آنے والے ہر مذہب اور قوم کو اپنے اندر جذب کرلیا لیکن یہ مسلمان کیسے لوگ ہیں جو شدہی سنگھٹن اور جبر و تشدد کے باوجود اسلامی تہذیب سے منحرف ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں ؟

 پروفیسر منّور کی یہ دلیل اپنی جگہ درست ہے کہ مسلم فاتحین کیساتھ لاکھوں مسلمان صحرائے عرب ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں سے ہندوستان میں آئے لیکن یہ بھی درست ہے کہ دینِ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے لاکھوں مقامی ہندوئوں نے بھی اسلام قبول کیا اور پھر وہ دین اسلام پر ہی قائم رہے ۔ گو کہ ہندوستان میں مسلم حکومتوں کے دور میں مسلمانوں کی عددی تعداد ہندوئوں کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم رہی لیکن مسلم سلطنتوں کے زوال پزیر ہونے پر بھی ہندوازم اسلامی تہذیب کو ہندو سماج میں جذب کرنے میں ناکام رہا۔ہندوازم کی جانب سے ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کو ختم کرنے کیلئے تین منظم کوششیں کی گئیں پہلی 1527 میں جب تاریخ میں رانا سانگا کے نام سے موسوم راجپوت جنگجو سردار کی قیادت میں ایک سو راجپوت راجوں اور مہاراجوں کی ایک لاکھ سے زیادہ پُر جوش افواج جن کے دلوں کو جنگی جنون سے گرمانے کیلئے ہزاروں ہندو خواتین و نوجوان بچے ہندو مذہبی جنگی ترانوں گاتے ہوئے آخری وقت تک میدان جنگ میں موجود رہے ، نے کنواح کے مقام پر جنگ کا آغاز کیا جہاں مغل بادشاہ ٔ اسلام ظہیرالدین بابر نے ہندوازم کی افواج کو شکست فاش دے دوچار کیا ۔ دوسری کوشش شہنشاہ اکبرا ور جہانگیر کے زمانے میں کی گئی جب راجپوت ہندو سرداروں نے دربار مغلیہ میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل کرکے فکر اسلامی کو اندر سے کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن مجدّد الف ثانی ؒ نے اِس کوشش کو ہندوازم کی جانب سے بدھ مت اور جین مت کی طرز پر ہندوستان میں اسلام کو مٹانے کی جارہانہ سماجی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے مسلمان علماء و فقیہ کو خوابٔ خرگوش سے جگانے کیلئے تجدیدٔ احیائے دین کی موثر آواز بلند کی اور ہندوازم کی فکرِ اسلامی کو جذب کرنے کی پالیسی کا زور کسی حد تک توڑ ڈالا۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بال جبریل میں مجدّد الف ثانی ؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا :
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
 جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
 اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
درج بالا منظر نامے میں جب شہنشاہ شاہ جہاں کے بیٹوں کے درمیان جنگ تخت نشینی شروع ہوئی تو ہندوازم کے حمایت یافتہ شہزادہ دارالشکوہ کے خلاف مجدّد الف ثانی ؒ کی فکرِ اسلامی کے علمبرداروں نے خونریز جنگِ تخت نشینی میں اورنگ زیب عالمگیر کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ تیسری کوشش اورنگ زیب عالمگیر کی موت کے بعد زوال پزیر مغلیہ سلطنت کے خلاف 1761 میں منظم مرہٹہ افواج نے تخت دہلی کے ارد گرد کے تمام علاقوں پر قبضہ مستحکم بنانے کے بعد کی لیکن زوال پزیر مغلیہ سلطنت کی حالت زار کودیکھتے ہوئے اپنے وقت کے ولی ، شاہ ولی اللہ کی اپیل پر احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست فاش دیکر ہندوازم کی اِس کوشش کو بھی ناکام بنا دیا ۔ لیکن اِن کڑے امتحانوں سے سرخرو ہونے کے بعد حالات پر مسلمان امراء اور نوابین کے درمیان مفادات کی سوچ حاوی ہوگئی اور احمد شاہ ابدالی کی ہندوستان سے واپسی پر ہندو پس پردہ سازشوں کے باعث مغلیہ سلطنت زوال پزیر ہوکر مسلم نوابین و امراء میں تقسیم ہوتی چلی گئی چنانچہ ہندوازم نے اپنی حکمرانی کے احیاء کیلئے مسلمان نوابین کے خلاف اپنی سازشوں کو جاری رکھا اور بالآخر ہندوستان میں انگریز کمپنی بہادر کی اُبھرتی ہوئی طاقت کیساتھ گٹھ جوڑ کر کے 1857 کی جنگ آزادی میں تخت دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ہندوستان میں مسلم حاکمیت کی آخری نشانی کو مٹا دیا گیا ۔ گو کہ 1857 کی تخت دہلی کی جنگ میں برہمن ہندو سماج سے بیزار چھوٹی ذات کے ہندوئوں نے بشمول مرہٹہ پیشوا کے جانشین المعروف نانا صاحب، جھانسی کی رانی وغیرہ نے اپنے مفادات کے پیش نظر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے سے گریز نہیں کیا لیکن اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بیشتر ہندو راجوں مہاراجوں اور سکھوں کی مدد سے نہ صرف انگریزوں کو ہندوستان کی تقدیر کا مالک بنا دیا بلکہ 1857 کی جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری بھی مسلمانوں پر عائد کر کے مسلمانوں کے خلاف تاریخ کی بدترین انتقامی کاروائی کو مہمیز دی ۔(جاری)

No comments:

Post a Comment