اسلام کا تصورِ رواداری
ڈاکٹر اختر حسین عزمی
بنیاد پرستی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے الفاظ کی معنویت کو جس طرح آج مغرب نے دھندلا دیا ہے، ایسے ہی مکالمہ بین المذاہب، انسان دوستی (humanism)، اعتدال پسندی، امن اور رواداری (tolerance) کے خوش کن الفاظ کو وہ اپنے مفہوم کا لبادہ اُوڑھانے پر مُصر ہے۔ اس طرح اُس نے اہلِ دین کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے۔ مغالطے کی اس دُھول میں شرک کا رد، حاکمیت الٰہی کا مطالبہ، اپنی تہذیب و ثقافت کے احیا پر مسلمانوں کا اصرار اور یہود و نصاریٰ کی دوستی کے بارے میں ان کی احتیاط کی روش، بدامنی اور شدت پسندی میں اضافے کا سبب قرار پاتے ہیں، جب کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے لاکھوں انسانوں کو اپاہج، عراق میں ۵لاکھ بچوں کو ادویات کی عدم دستیابی کا شکار کرنے والا امریکا اور فکری آزادی کے نام پر فرانسیسی شاتمِ رسولؐ جریدے کی پشت پر کھڑا یورپ اور دیگر ممالک کے ۴۰حکمران رواداری کے ’معلّم‘ قرار پاتے ہیں۔
قرآن اور اسوۂ رسولؐ میں اپنے عقائد و افکار پر غیرمتزلزل یقین اور دوسروں کے جذبات کا لحاظ رکھنے کا جو حسین امتزاج ملتا ہے، اس سے رواداری کے حقیقی مفہوم سے آشنائی حاصل ہوتی ہے اور عصرِحاضر میں اس کے فروغ کی راہیں بھی نظر آتی ہیں۔ اسوۂ رسولؐ کی روشنی میں رواداری کے تصور کی وسعت اور گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یورپ آج جس رواداری کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے، وہ محض خیالات کی لیپاپوتی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اسوۂ رسولؐ کی روشنی سے مغرب کی طرف سے رواداری کے فروغ کے نام پر برپا تحریک کے مکروہ عزائم بھی نظر آئیں گے اور یہ بھی کہ مغرب اور ہمارے تصورِ رواداری میں کیا فرق ہے اور اگر اس فرق کو ہم نے نظرانداز کردیا تو پھر ہم خود اپنی روایات و اقدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
مغرب جو لبرلزم اور رواداری کے نام پر ہم سے ہماری اقدار چھیننا چاہتا ہے، خود کس قدر متشدد ہے اس کا اندازہ یورپ میں مسلمان خاتون کے سر پر اسکارف اور مساجد کے میناروں پر عائد ہونے والی پابندی سے لگایا جاسکتا ہے۔ محض اسکارف کی پابندی کرنے والی خاتون کو مقدمے کی سماعت کے دوران عین کمرۂ عدالت میں پولیس کی موجودگی میں قتل کرنا بقول اقبال مغرب کے ’اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ کا منظر دکھاتا ہے۔ اس لیے ہمیں مغرب سے متاثر ہوئے بغیر رواداری کی ان بنیادوں کو تلاش کرنا ہے جو امنِ عالم کے قیام میں انسانیت کے کام آسکیں اور تمام اقوام کو اُن کی تہذیب وثقافت کے تحفظ کا احساس دلا سکیں، نہ کہ رواداری کے نام پر ان کی اقدار پر ڈاکا مارنے اور کمزور اقوام کی خودداری چھیننے کا سنہری جال ہوں۔
کیا رواداری کا فروغ دو مخالف اور متصادم نظریات کی محض لیپاپوتی سے ممکن ہے؟ اس کا جواب اگر نفی میں ہے تو پھر مخالف نظریات کی موجودگی میں دیگر اقوام کا مل جل کر رہنے کا کیا طریقۂ کار ہو؟یہ وہ سوال ہے جس کا ہمیں جواب تلاش کرنا ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں غلط اور صحیح کی بنیادیں اور ہیں اور اہلِ اسلام کے ہاں اور۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ایک کے ہاں درست ہیں اور دوسرے کے ہاں غلط۔ اگر کچھ باتوں میں اشتراک پایا بھی جاتا ہے، تو بہت سی باتوں میں ٹکراؤ بھی ہے۔ ٹکراؤکی صورت میں دونوں سے سازگاری ممکن نہیں۔
۞رواداری کا مفہوم
رواداری سے مراد کسی انسانی اجتماعیت کا ان باتوں کو جنھیں وہ نظریاتی طور پر اپنے دائرے میں غلط اور ناپسندیدہ سمجھتی ہے، دوسرے انسانوں کو جو انھیں پسند کرتے ہیں، ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے انھیں اختیار کرنے کا حق دینا اور ناپسندیدگی کے باوجود برداشت کرنا ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جب تک انسانوں کو ارادہ و عمل کی آزادی ہے، وہ ایک ہی نظامِ فکر کے پابند نہیں ہوسکتے اور جزوی تفصیلات میں تو ان کے درمیان اختلاف کا ہونا ان کے مزاج اور ذوق کے تنوع کے باعث ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبی دعوت و تذکیر ہی قرار دیا ہے: فَذَکِّرْ ط اِِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ o(الغاشیہ ۸۸:۲۱)، اور ساتھ ہی آپ کو بتایا کہ آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں: لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍo(الغاشیہ ۸۸:۲۲)۔ لہٰذا اس فرمان کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تذکیر اور یاد دہانی میں انتہائی نرمی اختیار کی۔ ایک طرف اہلِ کفر کو لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ(الکافرون۱۰۹:۶)کہہ کر ان کے مشرکانہ عقائد سے براء ت و بے زاری کا اعلان کیا تو دوسری طرف لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ۲:۲۵۶) فرما کر انسانیت کے اس حق کو بھی باو رکرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ قبولِ ہدایت کے لیے کسی قسم کے جبر کو پسند نہیں کرتا۔
۞اہمیت و ضرورت
حق و باطل کے معرکے میں نظریاتی جنگ بہرحال انسانی اذہان کے میدان میں لڑی جائے گی۔ اس لیے باطل کو ختم کرنا اور انسان کو آخری حد تک باطل سے نتھی رہنے سے بچانے کی کوشش کرنا مسلمانوں پر لازم ہے۔ جیساکہ فرمایا: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔ یہ اسی لیے فرمایاکہ جذباتِ انسانی کو کم سے کم ٹھیس پہنچا کر ان کے دل جیت لیے جائیں۔ حق اور باطل کا مقابلہ بھی ناگزیر ہے لیکن یہ مقابلہ انسان کی تکریم کے لیے ہے نہ کہ اس کی تذلیل کے لیے۔ انسانوں پر حق کو بہ جبر مسلط کرنے میں انسان کی تکریم ہے اور نہ حق کی، بلکہ ان دونوں کی تکریم اس میں ہے کہ انسان آزادانہ مرضی سے حق کو قبول کرے: فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ لا (الکھف۱۸:۲۹) ’’اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے ایک ایک مظہر پر ضرب لگائی۔ اہلِ شرک کی کٹ حجتیوں کا مدلل جواب دیا۔ اہلِ کفر کی ایک ایک خامی کو نمایاں کیا لیکن سواے ایک مقام کے اہلِ کفر کو بھی ٰٓیاََیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ کہہ کر مخاطب نہیں کیا گیا۔ بتوں کی کمزوریوں کو نمایاں کیا لیکن آپؐ نے بتوں کی تضحیک و استہزا کو اپنا شعار نہ بنایا، کیونکہ اللہ کا حکم تھا: وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوً م ا بِغَیْرِ عِلْمٍ ط (الانعام۶:۱۰۸)’’اور جن کو یہ کافر اللہ کے مقابلے میں پکارتے ہیں تم انھیں گالیاں مت دو ورنہ وہ بھی اللہ کو بغیر علم کے دشنام دیں گے‘‘۔
تمام انبیا ؑ اپنی قوموں کے شرک اور غلط کاریوں پر جب تنقید کرتے ہیں تو بار بار وہ مخاطبین کو یٰقُوْمِ (اے میری قوم) کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ قرآن نے منافقین کے رذائل کو کھول کھول کر سورۂ بقرہ، سورۂ منافقون، سورۂ احزاب اور دیگر سورتوں میں بیان کیا ہے لیکن ایک مقام پر بھی یاایھاا لمنافقون کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا گیا۔ انھیں اہلِ ایمان کے صیغۂ خطاب میں ہی یاایھا الذین امنوا کے الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی وفات پر اس کے کفن کے لیے اپنی قمیص بھی پیش کردی(بخاری، رقم الحدیث ۵۷۹۵)۔ آپؐ نے ایک یہودی کا جنازہ گزرتے ہوئے دیکھا تو آپؐ مجلس میں اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ (بخاری، رقم الحدیث، ۱۳۱۲)
قریش کے ایک سردار عتبہ بن ربیعہ نے آپؐ سے سمجھوتا کرنے کے لیے دولت، عورت اور حکومت کی جو پیش کش کی وہ آپؐ کی بلندیِ کردار اور مقاصدِ جلیلہ کے مقابلے میں انتہائی گھٹیاتھی، لیکن آپؐ نے اپنے مقام و مرتبہ سے فروتر ان باتوں کو نہ صرف صبروتحمل سے سنا بلکہ اپنی بات شروع کرنے سے قبل آپؐ نے اس سے استفسار کیا کہ اے ابوالولید! کیا تم نے اپنی بات مکمل کرلی؟ گویا اس کی بات کو مکمل سننا ضروری سمجھا گیا۔ مزید یہ کہ عتبہ کو اس کی کنیت ابوالولیدسے پکار کر آپؐ نے گویا اُمت کو یہ سبق دیا کہ کافر خواہ کتنی ہی گھٹیا بات کرے، اس کا ادب و احترام تر ک نہیں کیا جائے گا۔
میثاقِ مدینہ کی شرائط میں یہود و مشرکین کی مذہبی آزادیوں کے تحفظ کا شامل کرنا، حقوقِ انسانی اور بین الاقوامی معاہدات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ واضح طور پر ملتا ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق کے الفاظ یہ ہیں: لِلْیَھُودِ دِیْنُھُمْ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ دِیْنُھُمْ (یہود کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین)۔ (ڈاکٹر محمد حمیداللہ، The First Written Constitution in the World، ص ۲۴)
مذہبی اختلاف جسے قریش نے ذاتی عناد میں تبدیل کرلیا تھا، جنگِ بدر میں قیدیوں سے حُسنِ سلوک کا مظاہرہ اور مخالفین اسلام سے مسلمان بچوں کی تعلیم کی خدمت لینا، رواداری کی عظیم مثال ہے۔ جس جہاد کو آج رواداری کا دشمن باور کرایا جاتا ہے، اللہ کے نزدیک وہی جہاد درحقیقت دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ذریعہ ہے: وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط (الحج۲۲:۴۰) ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جائیں‘‘۔
نجرانی عیسائیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاہدہ کیا تھا اس کی ایک شق یہ تھی: اَنْ لَا تُھَدَمَ لَھُمْ بِیْعَۃٌ ، وَلَا یُخْرَجَ لَھُمْ قِسٌّ ، وَلَا یُفْتَنُوا عَنْ دِیْنِھِمْ ، مَا لَمْ یُحْدِثُوا حَدَثًا اَوْ یَأکُلُوا الرِّبٰوا ،’’ان کے کسی معبد کو منہدم نہیں کیا جائے گا نہ کسی پادری کو نکالا جائے گا۔ تبدیلی مذہب کے لیے انھیں مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جب تک وہ کوئی نئی بات نہ نکالیں یا سود نہ کھائیں، معاہدہ برقرار رہے گا‘‘۔(سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۶۴۴)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں اہلِ حیرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک شق امام ابویوسفؒ نے یہ بیان کی ہے: وَلَا یُمْنَعُوا مِنْ ضَرْبِ النَّوَاقِیْسِ، وَلَا مِنْ اِخْرَاجِ الصُّلْبَانِ فِیْ یَوْمِ عِیْدِھِمْ ، ’’ان کو کلیسا کی گھنٹیاں بجانے یا اپنی عید کے دن صلیب نکالنے سے منع نہیں کیا جائے گا‘‘۔ (ابویوسف، کتاب الخراج، ص ۱۵۴)
عہدفاروقی میں عیسائیوں کو ناقوس بجانے کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی گئی، اس کا کچھ اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے: اَنْ یَضْرِبُوْا نَوَاقِیْسَھُمْ فِیْ أَیِّ سَاعَۃٍ شَآؤُوْا مِنْ لَیْلٍ وَنَھَارٍ اِلَّا فِیْ اَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ ’’کہ وہ نمازوں کے اوقات کے ماسوا دن اور رات کے جس پہر میں بھی چاہیں، اپنی گھنٹیاں بجا سکیں گے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۵۸)
امنِ عالم کا قیام اور روے زمین پر آباد افراد و اقوام کو اس قابل بنانا کہ وہ آزادانہ تبادلۂ خیال کی فضا میں سانس لے سکیں، جس میں ہرفرد کو اپنی راے رکھنے کا حق حاصل ہو اور باہمی افہام و تفہیم کا موقع ملے، وقت کی ضرورت ہے تاکہ باہمی میل جول (interaction) کے نتیجے میں اسلام کی حقانیت اور حکمت اہلِ کفر پر واضح ہوسکے۔ باہمی میل جول کا فائدہ ہمیشہ اس نظریاتی تحریک کو ہوتا ہے جس کا نظریہ ذہنوں کو مسخر کرنے اور دلوں کو موہ لینے کی صلاحیت (potential) رکھتا ہو۔
۞غیرمسلم اہلِ علم کا اعتراف
نجران کے عیسائیوں کا وفد (۹ہجری) مدینہ حاضر ہوا اور آپؐ نے مسجد نبویؐ میں انھیں اپنی رسوم و عبادات ادا کرنے کی اجازت دی (شبلی نعمانی، سیرۃ النبیؐ، ج۲،ص ۵۱) ،اور ایک ایسا منصفانہ اور ہمدردانہ معاہدہ کیا کہ ولیم میور جیسا متعصب مستشرق بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ لکھتا ہے:
محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] نے بشپوں، پادریوں اور راہبوں کو یہ تحریر دی کہ ان کے گرجاگھروں اور خانقاہوں کی ہر چیز ویسے ہی برقرار رہے گی۔ کوئی بشپ اپنے عہدہ، کوئی راہب اپنی خانقاہ سے اور کوئی پادری اپنے منصب سے معزول نہیں کیا جائے گا اور ان کے اختیارات، حقوق میں کسی قسم کا تغیر نہ کیا جائے گا اور جبر وتعدی سے کام نہیں لیا جائے گا۔ (ولیم میور، Life of Mohammad،ص ۱۵۸)
فاضل ہندو محقق شری سندر لال جی اپنے مضمون ’آنحضرت کی زندگی‘ میں لکھتا ہے: ’’حکمران کی حیثیت سے محمدصاحب نے غیرمسلموں کو یہاں تک کہ بت پرستوں کو بھی اپنی ریاست کے اندر رہتے ہوئے، اپنے مذہبی مراسم ادا کرنے کی پوری پوری آزادی بخشی اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فریضہ قرار دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ مدنی آیت ہے اور محمدصاحب کی پوری زندگی اس آیت کی جیتی جاگتی تصویر ہے‘‘۔
برطانوی مصنفہ آرم اسٹرونگ سیرتِ طیبہؐ پر اپنی کتاب میں یوں اعترافِ حقیقت کرتی ہے:
محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے ایک ایسے مذہب اور روایت کی بنیاد ڈالی جو مغربی تصور کے باوجود تلوار کی ثقافت پر مبنی نہیں تھی،اور جس کا نام اسلام ، امن و سلامتی کی علامت ہے۔(آرم اسٹرانگ ، Muhammad a Western Attempt to Understand Islam،ص ۲۶۶)
برٹرینڈرسل لکھتا ہے: ’’عیسائیت اور ان کے علَم برداروں نے ہمیشہ اسلام اور حضرت محمدؐ کے خلاف باطل پروپیگنڈا جاری رکھا ہے، جب کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ محمدؐ ایک عظیم انسان اور فقیدالمثال مذہبی رہنما تھے۔ وہ ایک ایسے دین کے بانی تھے جو بُردباری، مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر کھڑا ہے‘‘۔(برٹرینڈرسل، Why I am not Christian، ص ۵۲)
۞رواداری __ ایک حقیقت پسندانہ عمل
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حضوؐر نہ تو مردم بیزار اور گوشہ نشین ہستی تھے اور نہ شدت پسندی آپؐ کے مزاج کا حصہ تھی۔ آپؐ کی گوشہ نشینی کی زیادہ سے زیادہ مدت وہی ہے جو نزولِ وحی سے قبل آپؐ نے غارِحرامیں اختیار کی۔ نزولِ وحی کے بعد آپؐ کبھی غارِحرا میں زاویہ نشین نہ ہوئے۔اس کے بعد آپ انسانوں کے اندر ان کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے۔ قبل از بعثت آپؐ ایک بھرپور کاروباری زندگی گزار رہے تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مکہ کی مال دار اور کاروباری خاتون حضرت خدیجہؓ آپؐ سے متاثر ہوئیں۔ بعثت سے قبل آپؐ ایک سرگرم سماجی زندگی گزارتے تھے جس کا ثبوت معاہدہ ’حلف الفضول‘ میں آپؐ کی شرکت اور حجراسود کی تنصیب میں آپؐ کی فہم و فراست اور اہلِ مکہ کاآپؐ پر اعتمادہے۔ ایک ایسا شخص جس کی جوانی ایک بھرپور عملی زندگی کا تاثر رکھتی ہے، جب وہ الہامی ہدایت کی روشنی میں لوگوں کو اصلاح و ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے تو یہ بات قابلِ فہم ہے کہ اس کی شخصیت کے سابقہ عمل اور تجربات اس کی دعوتی زندگی میں نظر آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسوۂ رسولؐ میں ہمیں اس بات کا اظہار ملتا ہے کہ آپ جہاں ایک طرف ٹھیٹھ عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر ایک اجتماعیت کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے وہاں آپؐ معاشرے میں انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ایک عملی انسان تھے۔ ایک عملی انسان میں جہاں اپنے نظریات و عقائد اور زندگی کے تصورات پر کاربند ہونے اور اس کے ابلاغ کی تڑپ ہوتی ہے، وہاں دوسروں کے جذبات کا لحاظ کرنا بھی اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔
۞رواداری کی حدود
بظاہر تو رواداری کی صدا اس طبقے کی طرف سے بلند ہونی چاہیے جو کمزور اور اقلیت میں ہو لیکن امرواقع یہ ہے کہ اس کا پُرزور مطالبہ بالعموم status quoکی حامی قوتوں کی طرف سے ہوتا ہے، جیساکہ اہلِ مکہ نے حضوؐر کے پیغام کی قوتِ تاثیر سے ڈر کر آپ کو سمجھوتے کی میز پر لانے کی کوشش یہ کہہ کر کی: اِءْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ھَذَا اَوْ بَدِّلَہٗ ، اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے تبدیل کردو، تو اللہ نے حضوؐر سے کہلوایا کہ:قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَآءِ نَفْسِیْ ج اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ج (یونس ۱۰:۱۵)’’کہو کہ میرا یہ کام نہیں کہ میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کرلوں، میں تو اس وحی کا پابند ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔ غیروں کی خوش نودی کے لیے اگر مسلمان اپنے دین کے اصولوں میں کتربیونت کرتے ہیں تو اللہ کے نزدیک اس سے بڑھ کر ظلم کوئی نہیں۔ وہ اللہ کے ہاں مجرم قرار پائیں گے اور انھیں دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل نہ ہوگی: فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ o(یونس ۱۰:۱۷) ’’پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے‘‘۔ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کے معاملے میں کسی لاگ لپیٹ اور مفاہمت خواہانہ رویے (compromising attitude) سے اللہ نے اپنے رسولؐ اور ان کے صحابہؓ کو منع فرمایا: وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ o(القلم۶۸:۹) ’’یہ کافر تو چاہتے ہیں کہ تم کچھ مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں‘‘۔
مداہنت جس کا ذکر یہاں اللہ نے ناپسندیدگی کے ساتھ کیا ہے، کیا ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت مفسرین کی آرا کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: لَوْ تُرَخِّصْ لَہُمْ فَیُرَخِّصُوْنَ اَوْتَلِیْنُ فِیْ دِیْنِکَ فَیَلِیْنُوْنَ فِیْ دِیْنِھِمْ ’’کچھ تم ان کے لیے ڈھیل نکالو تو پھر یہ تمھارے لیے ڈھیل پیدا کریں یا یہ کہ تم اپنے دین میں نرمی لے آؤ تو یہ بھی اپنے دین میں نرمی لے آئیں‘‘۔(تفسیر ابن جریر ،ج ۱۹، ص ۲۸)
امام قرطبیؒ کے مطابق: فَاِنَّ الْاِدِّھَانَ: اَللِّیْنُ وَالْمُصَانِعُ، وَقِیْلَ: مُجَامَلَۃُ الْعَدُوِّ مُمَایَلَتُہٗ ، وَقِیْلَ: مُقَارَبَۃٌ فِی الْکَلَامِ وَالتَّلْیِیْنُ فِیْ الْقَوْلِ ’’ادھان کا مطلب ہے ڈھیل پیدا کرلینا اور سازگاری چاہنا۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد ہے مخالف کے ساتھ لحاظ کا رویہ اختیار کرلینا اور میلان باہمی چاہنا۔ دوسرے قول کے مطابق: اس سے مراد کلام میں ایک دوسرے سے قربت پیدا کرنا اور بات میں ملائمت لے آنا‘‘۔ (تفسیر قرطبی، ج ۹، ص ۲۳۰)
امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: حضرت عبداللہؓ بن عباس سے مروی ہے کہ ’’اللہ کے اس فرمان سے مراد ہے کہ تم ان کے لیے معاملہ کچھ ڈھیلا کرو تو پھر یہ بھی تمھارے لیے ڈھیل پیدا کرلیں گے‘‘۔(تفسیر ابن کثیر،ج ۴، ص ۴۰۳)
قرآن کے نزدیک کسی بھی عقیدے یا نظریے کو قبول کرنے یا رد کرنے، صحیح کہنے یا غلط کہنے کا اختیار تو انسانوں کو حاصل ہے لیکن یہ اختیار نہ اس عقیدے کے مخالفین کو حاصل ہے اور نہ اس کے ماننے والوں کو کہ وہ اس عقیدہ کی تشریح و تعبیر اس کے اصل مراجع سے ہٹ کر کریں۔ جذبات انسانی کا احترام بجا مگر حق کا احترام اس سے بڑی چیز ہے اور حق کے احترام کی بات کرنا، باطل کے خلاف دعوت و تبلیغ کرنا، رواداری کے خلاف نہیں۔ البتہ یہ رواداری کے خلاف ہے کہ تلوار کے زور پر لوگوں سے کلمہ پڑھوایا جائے۔
اسوۂ رسولؐ کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ حسنِ سلوک، نرمی اور رواداری انسانوں کے ساتھ کرنے کا ہمیں حکم ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ۲:۸۳) ’’لوگوں سے بھلی بات کہنا‘‘، چاہے و ہ باطل پر ہی کیوں نہ ہوں لیکن خود باطل نظریات کسی رواداری کا استحقاق نہیں رکھتے کیونکہ ان سے رواداری حق کی بھینٹ دیے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقابلہ تو حق و باطل پر مبنی نظریات و رجحانات کے درمیان ہوگا لیکن اس کو بہرحال انسانی قلوب و اذہان میں برپا ہونا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ حق و باطل کی اس مڈبھیڑ میں اس سرزمین کا نقصان کم سے کم ہو، اور انسانی جذبات کم سے کم برانگیختہ ہوں۔ جیسے ایک ڈاکٹر کی اصل جنگ مرض کے خلاف ہوتی ہے۔ یہ جنگ اسے مریض کے جسم کے حساس اعضا کے درمیان لڑنا ہوتی ہے۔ وہ کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ محض کسی اذیت کے خوف سے مریض کا علاج ترک نہیں کردیتا۔ گویا کوئی معاملہ بھی، جس میں اللہ اور رسولؐ نے کسی بات کا فیصلہ کردیا ہو، اس میں کسی گروہ کی پسندوناپسند کا خیال رکھنا اسلام کے نزدیک رواداری نہیں۔ البتہ ایسی بات یا موضوع جسے دین نے مباح رکھا ہو یا جس کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہو، اس میں لوگوں کے رجحانِ طبع، آسانی اور پسند کا لحاظ کرنا اور شدت و غلو اور انتہاپسندی سے بچنا ہی اسوۂ رسولؐ ہے۔
اس موقف کی تائید ایک روایت کرتی ہے جو مداہنت اور رواداری کے درمیان حضوؐر کے متوازن اسوۂ کو نمایاں کرتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ بِالْیَھُوْدَّیَّۃِ وَلَا بِالنَّصْرَانِیَّۃِ وَلٰکِنِّیْ بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِیَّۃِ الْسُّمْحَۃِ ’’مجھے نہ تو یہود کے اندازِ دین داری کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور نہ نصرانی مذہبیت کے ساتھ، مجھے اس موحدانہ طرزِ بندگی کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے جس میں وسعت و آسایش ہے‘‘۔(مسند احمد، رقم ۲۱۶۲۰)
اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلٰی اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْسُّمْحَۃُ’’دین داری کا انداز اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، وہ ٹھیٹھ موحدانہ طرز کی بندگی، جس میں خوب نرمی و میانہ روی ہو‘‘ (بخاری، رقم الحدیث ۳۷، طبرانی، رقم ۷۵۶۲)۔ یہ الفاظ اس طویل حدیث کا حصہ ہیں جس میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کچھ حبشی لوگ عید کے روز آئے اور انھوں نے مسجد میں ایک رقص نما کھیل پیش کیا۔ تب نبیؐ نے مجھے بھی بلا لیا۔ میں آپ کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر ان کا کھیل دیکھتی رہی یہاں تک کہ میں نے خود ہی ان کی طرف سے توجہ پھیر لی۔(مسند احمد، مسلم)
حضرت عروہؓ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے کہا: اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: لِتَعْلَمَ الیَھُوْدُ اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فُسْحَۃٌ اِنِّیْ اُرْسِلْتُ بِحَنِیْفِیَّۃٍ سُمْحَۃٍ (مسنداحمد، رقم ۲۳۷۱۰)۔ علامہ البانی نے خُذُوْا یَابُنَیَّ رفدہ! حَتّٰی تَعْلَمَ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فُسْحَۃٌ ’’شاباش حبش کے جوانو! تاکہ عیسائی و یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں بڑی وسعت ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(ناصرالدین البانی: السلسلۃ الصحیحہ)
زمانۂ جاہلیت میں شرک و بت پرستی کو غلط جاننے اور عام بُرائیوں سے دامن کش رہنے والے صاحبِ عزم انسانوں کو ’حنیف‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے لیے قرآن نے حَنِیْفًا مُّسْلِمًا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حنف یحنف کا مطلب مڑا ہونا بھی ہے اور سیدھا ہونا بھی۔ میلان ختم کرلینا بھی ہے اور میلان پیدا کرلینا بھی۔ ایک طرف سے ٹوٹنا دوسرے سے جڑنا۔ گویا حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی طرف سے بالکل ہٹ کر کسی اور طرف کا ہو لے۔ چنانچہ حنیفیت کا معروف معنی ہے سب معبودوں سے ناتا توڑ کر ایک ہی معبود کا ہو رہنا۔ سمحہ کے معنی ہیں میانہ روی، معقولیت، اعلیٰ ظرفی، وسعت نظر کے ساتھ آسانی و نرمی، رواداری و رحم دلی۔ گویا اسلام مذہبی جکڑبندیوں کا نام نہیں۔ اسلام میں جائز خواہشات کو دبا دینا اور جذبات و احساسات کا قتل جائز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں ہمیں حنیفیہ اور سمحہ کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ایک طرف ایسے اصول ہیں جن پر کوئی مفاہمت نہیں، یعنی باطل سے کوئی مفاہمت نہیں، یکسو ہوکر ایک رب کا ہورہنا ہے۔ دوسری طرف دعوت و تربیت، ابلاغ اور قائل کرنے میں کوئی جبر نہیں۔ دعوتی عمل میں معقولیت، مخاطبین کی سہولت کا خیال ، نہ ماننے والوں سے کسی الجھاؤ کا شائبہ تک نہ ہونا، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ کے شرک بے زار اعلان کے ساتھ ہر ایک کو بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا کی نوید جاں فزا ۔ (مسلم ، رقم ۳۲۶۲ )
اصولی مسائل میں جب خاندان میں آپؐ کے واحد پشتی بان چچا ابوطالب نے بھی سردارانِ قریش کے دباؤ اور اپنی مجبوریوں کا احساس دلا کر ایک موقعے پر آپؐ کو کچھ مفاہمت کی راہ دکھانا چاہی، تو آپؐ کا یہ فرمانا کہ واللہ !اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں تو بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آؤں گا۔ آپؐ کے اس اسوہ میں ہمارے لیے یہ رہنمائی موجود ہے کہ دینی اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ عتبہ بن ربیعہ کی طرف سے کلمہ کی دعوت چھوڑنے کے نتیجے میں حکومت و دولت کی پیش کش کو آپؐ کی طرف سے ٹھکرا یا جانا معمولی بات نہیں۔ کوئی دانش ور کہہ سکتا ہے کہ آپؐ پہلے حکومت بنالیتے اور پھر حکومت کی طاقت سے توحید کی دعوت کی ترویج کرتے لیکن آپ نے اصولِ توحید کی تنفیذ کے لیے مشرکانہ سیادت کا بارِ احسان ہونا گوارا نہ کیا۔
اسوۂ رسولؐ کی روشنی میں ایک مسلمان کا کام دین کو بلاکم و کاست انسانوں تک پہنچا دینا ہے۔ اب کوئی اللہ کے نازل کردہ دین کو نہیں مانتا تو اس زندگی میں اسے اس کی پوری آزادی حاصل ہے۔ اس کا فیصلہ روزِ محشر اللہ نے کرنا ہے، ہم نے نہیں۔ البتہ دنیا میں باطل کے پرستاروں پر ان کی غلطی واضح کرنا اور انھیں عذابِ الٰہی سے ڈرانا ہماری ذمہ داری ہے۔
۞مسلم مکاتبِِ فکر کے درمیان رواداری
اب تک ہم نے دیگر اقوام و مذاہب کے معاملے میں رواداری کے مفہوم کے تعیین کی کوشش کی ہے۔ اب خود مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے جس رواداری کی ضرورت ہے، اسے سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
اس میں شک نہیں کہ آج مسلمانوں میں بہت سے مکاتب فکر ہیں جن میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پائی جاتی ہیں۔ کسی کو کسی کی توحید مشکوک نظر آتی ہے تو کوئی کسی دوسرے کو منکرِ رسولؐ قراردیتا ہے۔ عقائد اور معاملات میں کہیں کہیں بڑے انحرافات بھی نظر آتے ہیں۔ ان پر تنقید نہ کرنا بھی اُمت کے مفاد میں نہیں۔ اُمت کو اصل دین پر قائم رکھنے کے لیے اصل دین کا اُجاگر کرتے رہنا ضروری ہے۔ لیکن اس تنقیدوتحقیق کو ایسے اصولوں کا پابند رکھنا ضروری ہے جو ہمیں اسوۂ رسولؐ سے حاصل ہوتے ہیں۔
لوگوں پر کفروشرک کے فتوے لگانا، جب کہ وہ کلمہ گو ہوں، یہ نبویؐ دعوت کا اسلوب نہیں ہے، خصوصاً جب ان پر کوئی دعوتی حجت بھی قائم نہ ہوئی ہو۔ حضوؐر پر تو منافقین کا نفاق واضح تھا، آپؐ نے کبھی کسی منافق کو بھی منافق کہہ کر مخاطب نہیں فرمایا۔ قرآن میں کسی ایک جگہ بھی یایھا المنافقون کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے حالانکہ قرآن میں جگہ جگہ منافقین کے رذائل بیان ہوئے ہیں۔ جب بھی کسی مسلمان یا مسلمانوں کے کسی گروہ کی خامی حضوؐر کے علم میں آتی تو آپؐ برسرِ منبر اس خرابی پر توجہ ضرور دلاتے لیکن ان افراد کا نام کبھی نہ لیتے تھے۔
اگر کسی امر پر دلیل ملتی ہو اور اُمت کے معتبر اہلِ علم کی گواہی بھی موجود ہو تو اس کی روشنی میں یہ کہنا کہ یہ کام شرک ہے، یا یہ رویّہ کفر ہے، یہ گناہ ہے یا فسق ہے، اس کے کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کسی متعین فرد یا گروہ کا نام لے کر اُسے کافرومشرک، بدعتی یا منافق کہنا بہت سے پہلوؤں سے تحقیق و تفتیش کا متقاضی ہے۔ لوگوں کو خدا کا حق بتانے میں پُرحکمت اور مؤثر انداز اختیار کرنا ضروری ہے۔
جہاں حق بات کے اظہار کی استطاعت و اہلیت نہ ہو یا جہاں باطل کو رد کرنے کی حالات اجازت نہ دیتے ہوں، وہاں وقتی طور پر خاموش رہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت موسٰی ؑ جب ۴۰روز بعد بنی اسرائیل کی طرف واپس آئے اور انھیں گؤپرستی میں مبتلا پایا تو انھوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون ؑ سے پوچھا: مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا oاَلَّا تَتَّبِعَنِط (طٰہٰ۲۰:۹۲۔۹۳) ’’تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ تم میرے طریقے پر عمل نہ کرو‘‘۔ تو حضرت ہارون ؑ نے جواب میں کہا: اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ (طٰہٰ۲۰:۹۴) ’’مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔
حضرت موسٰی ؑ کے بعد قوم نے جو بت پرستی اور سرکشی کی راہ اختیار کی، سورۂ اعراف کے مطابق حضرت ہارون ؑ کو اپنی جان کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں قوم کے انتشار کا خطرہ محسوس ہوا تو انھوں نے حضرت موسٰی ؑ کی واپسی کے انتظار تک جو مصلحت اختیار کی، قرآن نے اسے ناپسندیدہ قرار نہیں دیا۔
دین کے اجتہادی و فروعی معاملات میں حضوؐر نے مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو نہ صرف برداشت کرنے کی تربیت دی بلکہ اس عمل کو حصولِ فضیلت کا ذریعہ قرار دیا۔ فرمایا: اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَاءَ وَ اِنْ کَانَ مُحِقًّا ’’میں اس شخص کے لیے جنت کے وسط میں گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے‘‘۔(ابی داؤد، رقم ۴۸۰۰)
قوم کے فتنہ و ہیجان میں مبتلا ہونے کے خطرے کے پیش نظر آپ نے اپنے پسندیدہ عمل کو بھی ترک کردیا۔ خانہ کعبہ کی عمارت ادبارِ زمانہ کے باعث ان بنیادوں پر موجود نہ تھی جن پر اسے حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا، حضوؐر ایسا کرنا چاہتے تھے لیکن فتنہ پیدا ہوجانے کے اندیشے سے ایسا نہ کیا۔ ایک دن حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میرا دل چاہتا ہے کہ خانہ کعبہ کی عمارت انھی بنیادوں پر تعمیرکروں جہاں اسے حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا لیکن اس وجہ سے رُک جاتا ہوں کہ تیری قوم نئی نئی مسلمان ہوئی ہے‘‘۔ (بخاری، رقم ۱۴۸۳)
اللہ کے رسولؐ جنھوں نے دعوتِ حق کے بیان میں کبھی سختیوں اور مخالفتوں کی پروا نہ کی اور نہ کسی ملامت کا خوف کھایا، وہ اس بات سے کیوں محتاط ہیں کہ خانہ کعبہ کی نئی تعمیر سے قوم بگڑ جائے گی۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ دین کا اساسی مسئلہ نہ تھا کہ جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ کسی بھی ملامت کا خوف نہ کھاتے۔ چونکہ یہ مسئلہ فروعی نوعیت کا تھا اس لیے آپؐ نے لوگوں کے جذبات کا لحاظ کرکے کعبہ کی تعمیرنوپر ترجیح دی۔ گویا مسلمانوں کو یہ راہ دکھائی کہ وہ فروعی معاملات میں آپس میں اُلجھنے سے زیادہ اُمت کے اتحاد کو اہمیت دیں اور باہمی رواداری کا رویّہ اپنائیں۔
اسوۂ رسولؐ میں ہمیں احکامِ شریعت کے فہم و استنباط میں توسّع اور تنوع کی اتنی گنجایش نظر آتی ہے کہ اس میں تعدّد مسالک کا قبول کیا جانا، ہمارے اَسلاف کی شان دار علمی روایت کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ اس ذریعے سے انسان کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور تعمیری و تحقیقی عمل کے لیے ایک سازگار ماحول بنانے میں بے حد متوازن آداب و حدود رہنمائی کا کام دے سکتے ہیں۔
بخاری میں ہے کہ حضوؐر نے بنی قریظہ کی طرف ایک دستے کو روانہ کرتے ہوئے نصیحت کی: لَایُصَلِّیَنَّ اَحَدٌ الْعَصْرَ اِلَّا فِیْ بَنِی قُرَیْظَۃَ ’’کوئی بھی شخص بنی قریظہ کی بستی کے سوا نمازِعصر نہ پڑھے‘‘۔ صحابہ کرامؓ ابھی راستے میں تھے کہ انھیں محسوس ہوا کہ وہ نمازِ مغرب سے پہلے کسی طرح بھی بنی قریظہ کی بستی میں نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس لیے ایک گروہ نے نماز قضا ہونے کے اندیشے کے پیش نظر کہا کہ نمازِ عصر یہیں ادا کرلینی چاہیے۔ دوسروں نے کہا کہ آپؐ کا حکم بنی قریظہ میں پہنچ کر نمازِ عصر ادا کرنے کا ہے۔
پہلے گروہ نے اس کی تاویل کی کہ آپؐ کا مقصد تھا کہ ہم جلد از جلد وہاں پہنچیں لیکن اب ایسا ممکن نہیں، جب ہم نمازِعصر کے دورانیے میں وہاں نہیں پہنچ سکتے تو نماز قضا نہ کریں۔ لہٰذا ایک گروہ نے عصر کی نماز راستے میں پڑھی، جب کہ دوسرے گروہ نے منزل پر پہنچنا ضروری سمجھا لیکن ان کی نماز قضا ہوگئی۔ آپ سے اس معاملے کا ذکر کیا گیا تو آپؐ نے کسی کی بھی سرزنش نہ فرمائی: فَذُکِرْ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ فَلَمْ یُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْھُمْ (بخاری، رقم ۴۱۱۹)
ایک اور حدیث جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ اور عطاءؓ بن یسار ہیں، کے مطابق دوصحابی سفر پر تھے کہ پانی کی عدم دستیابی کے باعث تیمم کرکے نماز ادا کرلی اور پھر مزید سفر پر روانہ ہوگئے۔ ادا کی گئی نماز کا وقت ابھی باقی تھا کہ پانی میسر آگیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ اب ہمارا عذر ختم ہوگیا ہے اور نماز کا وقت بھی باقی ہے، لہٰذا ہمیں وضو کرکے نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔دوسرے نے کہا کہ میں تو نہیں دہراؤں گا کیونکہ جس وقت ہم نے تیمم سے نماز پڑھی تھی اس وقت ہمارا عذر موجود تھا۔ جب بارگاہِ رسالتؐ میں رہنمائی کے طلب گار ہوئے تو جس نے نماز نہیں دُہرائی تھی آپؐ نے اس سے کہا کہ تو سنت کو پاگیا اور تیرے لیے تیری نماز کافی ہوگئی، جب کہ نماز دہرانے والے سے فرمایا کہ تمھارے لیے دہرا اجر ہے۔ (ابوداؤد) گویا آپؐ نے دونوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ میں بھی مختلف علمی ذوق و مزاج اور علمی سطح کے افراد موجود تھے اور حضوؐر نے قرآن و حدیث کے فہم و تعبیر میں ان کے اختلاف کو جائز قرار دیا۔ اس لیے کہ دونوں آرا رکھنے والوں کو قولِ رسولؐ کی حجیت اور اہمیت سے انکار نہیں تھا لیکن پیش آمدہ نئی صورت حال میں آپؐ کے الفاظ کی تفہیم و تعبیر میں اختلاف ہوا۔ اس لیے آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں کی۔
اسوۂ رسولؐ کے اسی پہلو کے پیش نظر اَسلاف میں وہ روادارانہ طرزِعمل دکھائی دیتا ہے جس کا تذکرہ شاہ ولی اللہ کی کتاب الانصاف میں ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے کہا کہ آپ کے مجموعہ احادیث موطا کی فقہی آرا کا کیوں نہ تمام اُمت کو سرکاری طور پر اس کا پابند کردیا جائے، تو امام مالکؒ نے انھیں یہ کہہ کر منع فرما دیا کہ امیرالمومنین ایسا نہ کریں۔ مختلف دیار میں محدثین و فقہا پہنچ چکے ہیں جن کے علم و تقویٰ پر وہاں کے لوگوں کا اعتماد قائم ہے۔ آپ زبردستی کرکے ان پر زیادتی کریں گے۔ اسی طرح امام شافعیؒ جو نمازِ فجر میں دعاے قنوت پڑھنے کے قائل تھے۔ جب انھوں نے کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ کے مدرسے میں نمازِ فجر پڑھائی اور دعاے قنوت نہ پڑھی، تو لوگوں نے پوچھا کہ آج آپ نے دعاے قنوت نہیں پڑھی، تو آپ نے فرمایا کہ آج میں ان کے شہر میں ہوں جو ایسا نہیں کرتے۔ لہٰذا میں نے اس کے خلاف کرنا مناسب نہ جانا۔ ( الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، ص ۴۱)
آج کے عالمی گاؤں (GlobalVillage) ،نئی دنیا میں جس تہذیبی اور ثقافتی کش مکش سے ہمیں واسطہ ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جہاں ایک طرف دین کے ٹھیٹھ اور واضح تصور کو اپنانے کی ضرورت ہے، وہاں داعیانِ دین کے لیے زمانہ شناس ہونا بھی ضروری ہے۔ اپنے زمانے کو سمجھے بغیر اگر ہم نے کوئی اقدام کیا تو اس کمزوری کا فائدہ کفر ہی کو ہوگا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آج بین الاقوامی سطح پر بحث ہورہی ہے، ان کے بارے میں کسی ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر اسوۂ رسولؐ کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک رہنما خطوط متعین کیے جائیں، تاکہ ایک طرف ہم اپنی اقدار و روایات کا تحفظ کرسکیں تو دوسری طرف دیگر اقوام کے سامنے اسلام کا تشخص پیش کرسکیں۔
_______________
No comments:
Post a Comment