Search This Blog

Thursday, 8 June 2017

روزے کے لیے متعین و مخصوص موسم نہ ہونے کے فوائد



روزے کے لیے متعین و مخصوص موسم نہ ہونے کے فوائد
ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم (پیرس)

یہودی، عیسائی اور ہندو یا تو خالص شمسی حساب کرتے ہیں یا قمری سال میں وقت بہ وقت کبیسہ (Intercalation) کر کے ایک مہینہ کا اضافہ کرتے ہیں تاکہ قمری سال کی مدت بھی اتنی ہی طویل ہوا کرے جتنی شمسی سال کی ہے اس لحاظ سے ان کے روزے ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتے ہیں ۔ مسلمان قمری حساب کا حساب کرتے ہیں ان کی جنتری چاند کے مہینوں کے لحاظ سے ہوتی ہے جس میں کبیسہ(Intercalation) نہیں کیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کا مہینہ رمضان بتدریج باری باری سال کے ہر موسم میں آتا ہے ۔

قمری سال کے مہینوں سے حساب کرنا بہتر ہے یا شمسی سال کے مہینوں سے ؟ جس کرۂ ارض پر ہم بستے ہیں اس کا موسم ہر جگہ یکساں نہیں ہے لوگ ہر موسم کی شدت سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ خواہ گرمی کی شدت ہویا سردی کی۔ اس طرح کسی علاقہ کی گرمی اور سردی کے موسم محض اضافی امر ہیں ۔ مثلاً جاڑ ے کا موسم مکہ میں بڑ ا خوشگوار ہوتا ہے اور وہ قطبوں کے قریب (کناڈا، شمالی یورپ میں ) ایسا نہیں ہوتا۔ گرما قطب شمالی اور جنوبی کے قریب بہترین موسم ہے لیکن خط استواء کے پاس اور ریتلے صحرا میں ایسا نہیں ہے ۔ موسم بہار ہرجگہ ایک معتدل موسم ہو سکتا ہے ، لیکن خطِ استواء کے قریب بہت سے ملکوں میں (مثلاً جنوبی ہندوستان میں )موسم بہار ہوتاہی نہیں ، یہاں کے لوگ موسمِ بہار جانتے ہی نہیں ۔ اور ان ملکوں میں صرف تین موسم ہوتے ہیں ۔ سردی، گرمی اور بارش۔ ایک ایسے مذہب کیلئے جو تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے ، اگر ہم روزہ رکھنے کیلئے کوئی خاص زمانہ مقرر کر دیں تو بعض لوگوں کیلئے مدامی طور پر آسانی ہو گی اور بعض لوگوں کیلئے مدامی سختی اورتکلیف یا کسی اور طرح زمین کے بعض علاقوں کے باشندوں کیلئے سہولت بخش نہ ہو گا لیکن اگر روزہ رکھنے کے زمانے میں موسم باقاعدگی کے ساتھ بدلتے رہیں تو آسانی اور سختی باری باری سے آتے رہیں گے اور کوئی شخص روزہ کا قانون بنانے والے پر خفا نہ ہو گا۔ ا سکے علاوہ روزہ رکھنے کیلئے موسموں کی اس تبدیلی کا یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ ہر قسم کے موسم میں روزہ رکھنے کے عادی ہوجائیں اور یہ عادت کاٹ کھانے والے جاڑ ے میں اور جھلسانے والے گرما میں کھانے اور پینے سے رک جانے کی یہ قابلیت ، مومن کو صبر کرنے کی قوت عطا کرتی ہے مثلاً جنگ کے محاصرہ کے وقت ، غذا اور غلہ کے تاجروں اور آب رسانی کے عملے کی ہڑ تال کے وقت جبکہ کھانا ، پانی مشکل سے ملتا ہے یا ملتا ہی نہیں ۔

(اقتباس: روزہ کیوں؟ از ڈاکٹر حمیداللہ)

امن کا مہینہ رمضان المبارک



امن کا مہینہ رمضان المبارک
محمد آصف اقبال

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر کام، اس کے لیے ہے، مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ اس دن فحش بات نہ کرے، شور نہ کرے، اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑائی لڑے تو دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، روزے دار کے منہ کی مہک اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: جب افطار کرتا ہے تو افطار پر خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے پر خوش ہوگا (الفتح الربانی: ترتیب مسند احمد)۔ حدیث نبوی ۖکی روشنی میں رمضان کے مہینہ کی فضیلت، روزہ کی اہمیت اور اس کے فوائد، اللہ سے قربت اور اس کے مخصوص حکم کی بجاآوری کے نتیجہ میں رب العالمین کی تجلی اور اس سے حاصل ہونے والی لا محدود خوشی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مسلمان کے لیے روزہ نہ صرف عبادت ہے بلکہ اس کی فلاح، ترقی اور ارتقا کا ذریعہ ہے۔ روزہ کے دوران اس کی شخصیت خود اس کے لیے اور عالم انسانیت کے لیے امن و امان کا ذریعہ بنتی ہے وہیں اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر انسان کا ارتقا رک جاتا ہے، وہ ترقی نہیں کر پاتا اور نہ ہی وہ اللہ کا قرب حاصل کر پاتا ہے۔ حدیث میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ کہی گئی ہے کہ جب تم روزہ کی حالت میں ہو اور کوئی تم سے بد کلامی کے ساتھ پیش آئے یا لڑائی کرے تو اس سے کہہ دیا جائے کہ میں روزہ سے ہوں۔ روزہ سے ہوں یعنی اس حالت میں نہیں ہوں کہ تم سے تمہارے اس غلط رویہ کا غلط انداز سے جائز بدلہ لوں بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم روزہ جیسی مخصوص عبادت میں خلل نہ ڈالو۔ میرا تعلق اس وقت راست اللہ سے منسلک ہے اور میں دوران ِعبادت اس تعلق کو منقطع نہیں کرنا چاہتا۔ روزہ دن بھر کی عبادت: ہم جانتے ہیں کہ جب بندہ نماز میں اللہ کے سامنے ظاہری و باطنی طور پر تعلق استوار کر لیتا ہے تو دورانِ نماز وہ لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا، اللہ کی جانب رخ کرنے کے بعد اِدھر ادھر نہیں دیکھتا، اگر کوئی بدکلامی کرنے یا لڑنے جھگڑنے پر آجائے تو بحالت نماز اس سے پرہیز کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح روزہ کی حالت میں بھی بندہ عبادت میں ہوتا ہے، اللہ سے اس کا تعلق استوار ہو چکا ہوتا ہے، لہذا روزہ کی حالت میں وہ لڑائی جھگڑے، بدکلامی وغیرہ سے پرہیز کرتا ہے اور اپنی عبادت میں خلل ڈالنے والوں سے نرمی اختیار کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ میں روزہ سے ہوں یا میں روزہ دار ہوں۔ سلامتی ہو تم پر اور اللہ تعالی تم کو ہدایت عطا فرمائے۔ اگر ایک مرتبہ ایسا کرنے پر وہ اپنے رویہ سے گریز نہیں کرتا تو اس کو دوبارہ متوجہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روزے کے ڈھال ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ روزہ نفسانی شہوت سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ کا مقصد صرف کھانا پینا ترک کر دینا نہیں، بلکہ دوسرے گناہوں اور اخلاقی خرابیوں سے بھی بچانا ہے۔ حدیث میں روزے کے ڈھال ہونے کا بیان ہے اور کہا گیا کہ جب تم روزے سے ہو تو فحش بات نہ کرو اور شور و شغب نہ کرو۔ پھر جب تم کو پرہیز کرنے کی عادت ہو جائے گی تو یہی تمہاری ڈھال ہوگی جو تمہاری حفاظت کرے گی ہر اس برائی سے جس سے اللہ اور اس کا رسول منع کرتے ہیں۔
 
رمضان کے عشروں کی حقیقت: رمضان کے مہینہ کو اللہ رب العزت نے تین عشروں میں تقسیم کیا ہے۔ اور ہر عشرہ (دس دن)کی خاص فضیلت رکھی ہے۔ پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا عذاب جہنم سے نجات کا ہے۔ پہلے عشرہ کی ابتدا ہی سے اللہ رب العالمین کی بے انتہا رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ جس کا ظاہری مشاہدہ اس طرح ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والا ہر عام و خاص بندہ اللہ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کو اس مشینی دور میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور انسان مادی ترقی کے لیے جنونی حد تک سرگرم عمل ہے، اللہ تعالی اس کو توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس بھنور سے نکل کر نیکی کے موسمِ بہار میں عبادت کی جانب راغب ہو، نیکی کے کام انجام دے، روزے داروں کا روزہ کھلوائے، برائیوں اور معصیت کے کاموں سے پرہیز کرے، غریبوں، مسکینوں، حاجتمندوںکی مدد کرے، بے انتہا فیاضی کا مظاہرہ کرے اور اللہ تعالی کی رحمتیں سمیٹتا چلا جائے۔ اس طرح جب وہ ان کاموں میں مصروف ہو جائے گا اور اللہ کی عبادت کو شعوری طور پر انجام دینے والا بن جائے گا تو نہ صرف رحمت بلکہ اس کی مغفرت بھی کی جائے گی۔ صراط مستقیم پر خود چلنے اور معاشرہ میں لوگوں کو تعاون کرنے کے نتیجہ میں جو معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے اس کا لازمی تقاضہ ہے کہ ایسے افراد کو جہنم سے بچا لیا جائے۔ مزید اس آخری عشرہ میں شب قدر کی تلاش، اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی، آئندہ اپنی زندگی کو اللہ کے بتائے طریقہ پر استوار کرنے کا عہد، قرآنِ حکیم کا مطالعہ، یہ سب مل کر اس کے لیے نجات کا سامان بہم پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالی رمضان المبارک کے مہینہ کے اختتام پر اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ تقوی کیا ہے؟ زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خار دار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعتِ حق کی راہ سے ہٹ کر بد اندیشی و بد کرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا، یہی تقوی ہے اور اس ہی کے لیے اللہ تعالی نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوی دوا ہے جس کے اندر خدا ترسی و راست روی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے۔ مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعتِ امر کی صفت کو نشو و نما دینے کی کوشش کرے تو یہ چیز اس میں اتنا تقوی پیدا کر سکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی گیارہ مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خار دار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج (ثواب)اور منافع (اجر)کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہو کر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقوی کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامہ اعمال میں بھوک پیاس اور رتجگے کے سوا اور کچھ نہیں پا سکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے، ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزہ مستثنی ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں (متفق علیہ)۔

 عبادات کی حکمت: اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں ان میں حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالی نے بندوں پر خصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندے کی کامیابی اور سعادت دارین کا موجب ہیں۔ اللہ تعالی کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ خلوصِ نیت اور حضور قلبی ہے۔ اگر عبادت کا بنیادی محرک رضائے الہی نہ ہو تو اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب بلکہ حدیث نبوی ۖکے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ دوسری اہم بات یہ کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتا بلکہ عبادات میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے، کہ تندرستی کے بعد رکھے یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے (یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے)۔ آخری بات یہ کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہیں۔ یہ فرائض محض عبادت برائے عبادت نہیں، بلکہ اخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات و فوائد بھی ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہر نہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پر اس کا براہ راست مثبت اثر ہوتا ہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساںہے۔ ارشاد ربانی ہے: (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے)جو اس پیغمبر، نبی امی ۖ کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور بندشیں کھولتا ہے، جن میں جکڑے ہوئے تھے (اعراف:)۔

 رمضان کا پیغام: معلوم ہوا کہ یہ مہینہ ہدایت حاصل کرنے اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کا ہے۔ اس ماہ مبارک میں معاشرہ میں ایک ایسی فضا قائم ہو جاتی ہے جس میں ہر طرف بندے سکون و عافیت اور محبت و ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے اور بدکلامی سے گریز کرتے ہیں، آپس میں ملتے جلتے اور روزہ داروں کے افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کی نہ صرف تلاوت کرتے ہیں بلکہ اس کا شعوری طور پر مطالع کرتے ہیں۔ قرآنی احکامات کو اپنی زندگی میں رائج کرتے ہیں اور تقوی کی صفت سے ہمکنار ہونے کی مکمل سعی و جہد کرتے ہیں۔ اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں لے آتے ہیں جو اسلامی معاشرہ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ برادرانِ وطن کے لیے بھی یہ پیغام پیش کرتا ہے کہ اگر اسلام کے مطابق زندگی کو ڈھال لیا جائے تو یہ سکون و عافیت کی فضا جو چہار جانب محسوس کی جارہی ہے وہ آئندہ دنوں میں بھی برقرار رہ سکتی ہے بشرطیکہ جس طرح رمضان میں شب و روز گزارے ہیں اسی طرح سال کے گیارہ مہینوں میں بھی ان پر عمل کیا جاتا رہے۔

سحری اور افطار کا مسنون وقت



سحری اور افطار کا مسنون وقت
از:   محمد اسلم غازی

                وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص ثُمَّ اَتِمُّواالصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج ..... (البقرہ : 187)  ترجمہ: اور راتوں کو کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو رات کی سیاہ دھاری سے صبح کی سفید دھاری نمایاں نظر آجائے۔ پھر رات ہونے تک اپنا روزہ پورا کرو۔
                روزہ انسان میں صبر اور تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ صبر کا مفہوم ثابت قدمی ہے۔ یعنی روزہ اللہ کی اطاعت میں ثابت قدمی پیدا کرتا ہے۔ تقویٰ کا مفہوم اللہ کا ڈر ہے یعنی روزہ اللہ کا ڈر پیدا کرتا ہے۔ روزہ صبح صادق کے وقت سحری کرنے سے شروع اور غروب آفتاب کے و قت افطار پر ختم ہوتا ہے۔ سحری اور افطار کے آداب ملحوظ رکھنا روزہ دار کے لیے ضروری ہے۔ فی زمانہ سحری اور افطار کے بہت سے آداب کا لحاظ کیا جاتا ہے لیکن ختم سحری اور افطار کے اوقات  میں بڑی شدت برتی جاتی ہے۔ اس مضمون کے ذریعے سحری اور افطار کے مسنون اوقات کی نشان دہی اور ان میں برتی جانے والی شدت کا ازالہ مقصود ہے۔
 
                اوقات سحری و افطار کے خوشنما و دیدہ زیب رنگین کارڈ رمضان المبارک کی آمد سے ہفتہ بھر قبل سے ہی مساجد کے باہر تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا انتہائی شوق سے یہ کارڈ حاصل کرتا ہے تاکہ رمضان میں اُسے اوقات سحری و افطار کی معلومات بسہولت ملتی رہے۔ ان کارڈوں پر احتیاطاً سحری کا وقت صبح صادق کے آغاز سے 10منٹ قبل اور افطار کا وقت غروب آفتاب سے 5منٹ بعد درج کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر صبح صادق  04:55 پر ہے تو ختم سحری 04:45 درج ہوگا اور غروب آفتاب 07:13پر ہے تو وقت افطار 07:18 درج ہوگا۔ محلے کی مساجد میں صبح صادق ہونے سے نصف گھنٹہ قبل سے ہی لائوڈ اسپیکر پر اعلان شروع کردیے جاتے ہیں کہ سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ بعض جگہ تو صبح صادق سے دس منٹ قبل ہی ختم سحری کا اعلان بذریعہ اذان کیا جاتا ہے جو جہالت اور دین سے عدم واقفیت کا ثبوت ہے کیونکہ صبح صادق سے قبل اذان فجر دینا غلط ہے۔ اس اذان کو سن کر کوئی نماز فجر پڑھ لے تو وہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ صبح صادق ہونے کے بعد ہی نماز فجرپڑھی جانی چا ہیے۔ ختم سحری سے قبل مساجد کے لائوڈ اسپیکروں سے بار بار تیز آواز میں توجہ دہانی کرانا مناسب طریقہ نہیں ہے۔ اس سے بچنا چاہیے کیونکہ دیگر خلق خدا کو خواہ مخواہ پریشانی ہوتی ہے۔ اسی طرح اکثر مساجد میں مؤذن حضرات مغرب کی اذان کارڈ پر مطبوعہ وقت سے بھی دو تین منٹ بعد دیتے ہیں۔ گویا اصل غروب آفتاب کے 78منٹ بعد افطار کیا جاتا ہے جوغلط ہے۔
 
                قرآن کے مطابق رات کی سیاہ دھاری سے صبح کی سفید دھاری نمایاں نظر آنے کو صبح صادق کہا جاتا ہے۔ آسمان میں صبح صادق کے آثار اچانک نہیں بلکہ دھیرے دھیرے نمودار ہوتے ہیں جس میں چند منٹ لگتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ ''صبح کی سفید دھاری نمایاں ہونا'' اس پر دلالت کرتے ہیں کہ سحری بلا جھجک صبح صادق تک کھائی جاسکتی ہے۔ حضور اور صحابہ کا طرز عمل بھی یہی تھا جس کے ثبوت میں چند احادیث پیش کی جارہی ہیں  :
(1)         حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ نبی نے فرمایا ''جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور اس وقت برتن بھی اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس برتن کو اپنے ہاتھ سے نہ رکھے جب تک کہ اپنی حاجت اس سے پوری نہ کرلے۔'' (ابودائود۔ حوالہ تفہیم الاحادیث۔ جلد4صفحہ 82(
(2)         رسول اللہ نے فرمایا ''کھائو پیو، بلند ہونے اور اوپر اٹھنے والی دھاری تمہیں پریشان و مضطرب نہ کرے۔ جب تک سرخ پھیلی ہوئی دھاری نمودار نہ ہو اس وقت تک کھائو پیو۔'' (ابودائود، ترمذی، حوالہ: ایضاً صفحہ 84 ،97(
                اہل علم حضرات کا تعامل یہی ہے کہ روزہ دار پر اس وقت تک کھانا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ سرخ دھاری افق پر نہ پھیل جائے(حوالہ: ایضاًصفحہ84)
                امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق سحری تاخیر سے کھانے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ (حوالہ: ایضاً صفحہ84)

 اسی طرح افطار میں عجلت کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ دلیل کے طور پر چند حدیثیں پیش ہیں:
(1)         حضرت سہل سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔'' (متفق علیہ، حوالہ ایضاً صفحہ75)
(2)         حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مجھے اپنے بندوں میں سے سب سے زیادہ پسند وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔'' (ترمذی۔ حوالہ ایضاً صفحہ84)
(3)         حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''یہ دین نمایاں اور غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود اور نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔'' (ابودائود، ابن ماجہ۔ حوالہ ایضاً صفحہ89)

سحری میں تاخیر اور افطار میں عجلت پسندیدہ عمل اس لیے قرار دیے گئے ہیں کہ مسلمان اللہ کے حکم کی اطاعت ٹھیک اسی طرح کرتا ہے جس طرح ایک فوجی اپنے کمانڈر کے Caution کاشن پر فوراً عمل کرتا، اُس کے حکم کی تعمیل میں ثابت قدمی دکھاتا اور اس کی حکم عدولی سے ڈرتا ہے۔ اگر فوجی کمانڈر کے بتائے ہوئے وقت سے پہلے ہی کام بند کردے یا حکم ملنے کے سات آٹھ منٹ بعد اس پر عمل کرے تو کیا ایسا فوجی کمانڈر کے عتاب سے بچ سکتا ہے؟ ایک فوجی کی طرح مسلمان بھی یہ نہیں کرسکتا کہ اللہ نے تو فرمایا کہ صبح صادق تک اور غروب آفتاب کے فوراً بعد کھائو پیو مگر وہ صبح صادق نمایاں ہونے سے پندرہ منٹ پہلے اور غروب آفتاب کے 8منٹ بعد تک کھانے پینے سے رکے رہنے کو زیادہ محتاط اور قرین حکمت و مصلحت سمجھے۔ نعوذباللہ کیا یہ خدا سے زیادہ حکیم بننا نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کی حکم عدولی اور اس سے بے خوفی نہیں ہے؟

                سائنس کی مدد سے انسان کو صبح صادق، طلوع اور غروب آفتاب کے اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہوگئے ہیں جن میں سیکنڈ بھر کی غلطی کا امکان بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل سائنس کا نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کمال ہے جس نے اپنی کائنات میں سورج، چاند اور ستاروں کی گردش کا ایک انتہائی چست نظام ترتیب دے رکھا ہے۔ اللہ نے اپنے فضل سے اس کا علم انسانوں کو عطا کردیا ہے لیکن بعض لوگ خدا کے اس نظام پر بھروسہ نہیں کرتے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو عذر پیش کرتے ہیں کہ گھڑیاں درست نہیں ہوتیں اس لیے افطار میں تاخیر کرنا چاہیے۔ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ تمام مسلمانوں کی گھڑیاں غلط وقت بتاتی ہیں۔ تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے کام کرنے کے لیے تو لوگ اپنی گھڑیاں درست اور صحیح وقت پر کرتے ہیں لیکن دینی حکم پر عمل کرنے کے لیے بجائے گھڑی ٹھیک کرنے کے افطار کے وقت میں ہی من مانی تاخیر کی جارہی ہے۔ اگر کسی کو اپنی گھڑی کے بارے میں شک ہو کہ آگے یا پیچھے ہے تو اُسے دوسروں سے صحیح وقت معلوم کرکے ٹھیک وقت پر افطار کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کا یہ رویہ قطعاً درست نہیں ہے کہ غروب کا وقت یقینی طور پر معلوم ہے اور اکثر مسلمانوں کی گھڑیاں بھی صحیح وقت بتا رہی ہیں اس کے باوجود وقت غروب کے 78 منٹ بعد افطار کریں۔ البتہ کوئی مسلمان ایسی جگہ رہتا ہو جہاں وقت طلوع و غروب کا تعین ممکن نہ ہو، نہ اُس کے پاس کوئی ٹائم ٹیبل ہو، نہ گھڑی ہو تو وہ آسمان کے آثار یعنی روشنی اور سیاہی کو اپنا رہنما بنا کر سحری اور افطار کرے۔


Wednesday, 12 April 2017

سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ


انبیا کی پسندیدہ سواری


سب سے بڑی دولت ۔ مولانا سید احمد ومیض ندوی


امیر المومنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ


ضرورت ہے خود احتسابی کی ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ضرورت ہے خود احتسابی کی

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

درخت جب اندر سے کھوکھلا ہو کر سوکھ جائے تو اس کو گرانے میں نہ دیر لگتی ہے اور نہ دشواری پیش آتی ہے۔ درخت کاٹنے والا بہت آسانی سے اور کم وقت میں اس کو کاٹ دیتا ہے؛ بلکہ جڑیں تک اکھیڑ دیتا ہے، یہی حال قوموں اور گروہوں کا ہے، جو قوم خود اپنے نظریہ پر عمل نہیں کرتی، جو گروہ خود اپنے اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتا، جس کے قول و فعل میں کھلا ہوا تضاد ہوتا ہے، جو الفاظ کے دریا تو بہا سکتا ہے؛ لیکن عملی دنیا میں اس کی بساط ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ہوتی، وہ قوم اپنی بقاء کی لڑائی نہیں لڑ سکتی اور نہ اپنے چابک دست دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے، قرآن مجید نے یہودیوں کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے کہ ان کے قول و فعل میں یکسانیت نہیں ہے۔

اس وقت مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں، وہ دشمنوں کی دشمنی کا رونا روتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا رونا رویا جائے، جن لوگوں کو آپ کی فکر، آپ کے عقیدہ، آپ کے طرزِ زندگی، آپ کی تہذیب و ثقافت، آپ کے تاریخی ورثہ؛ یہاں تک کہ آپ کے وجود اور آپ کے نام سے بھی نفرت ہے، ان سے اس بات کے سوا اور کس بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے؛ ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ آپ کے دین کا تحفظ کریں گے اور آپ کی شریعت کو محفوظ رکھیں گے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص آگ سے پیاس بجھانے کی اور برف سے ایندھن کے کام آنے کی توقع رکھے؛ اس لئے ہندوستان کے موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ جہاں ہم عوامی رائے عامہ کے ذریعہ پُرامن احتجاج کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان پوری جرأت اور اعترافِ حقیقت کے ساتھ آپ اپنا محاسبہ کریں اور اپنے طرزِ عمل میں ایک بنیادی تبدیلی لائیں۔

اس وقت حکومت سے ہم جن مسائل میں نبرد آزما ہیں، اس کے بارے میں ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہمارا یہ رویہ کس حد تک دین کے مطابق ہے؟

اس وقت ایک پیچیدہ اور نازک مسئلہ بابری مسجد کا ہے، اس میں شبہ نہیں کہ یہ مسجد تھی، مسجد ہے اور یہ شرعاً ہمیشہ مسجد ہی رہے گی، نیز بجا طور پر حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مقدمہ کا خود ساختہ عقیدہ اور آستھا کے نقطۂ نظر سے نہیں؛ بلکہ ملکیت کے لحاظ سے اس کا جائزہ لیا جائے، ہمارا یہ دعویٰ سوفیصد درست ہے؛ لیکن غور کیجئے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اوقاف کی جتنی جائیداد پر حکومت اور ہمارے غیر مسلم بھائی قابض ہیں،اسی قدر یا اس سے بھی زیادہ اوقاف کی جائیداد کے بڑے حصہ کو ان کے متولیوں نے بیچ دیا ہے، خود مسلمان وقف کی جائیداد پر قابض ہیں، جس عمارت کا کرایہ پانچ، دس ہزار روپئے ہونا چاہئے، خود مسلمان اس کا کرایہ پچاس اور سو روپئے ادا کرتے ہیں، یہاں تک کہ مسجدوں کے املاک پر بھی مسلمانوں نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم خود تو اوقاف میں بے جا تصرف کریں اور اپنی ذاتی املاک کی طرح اس میں تصرف کریں اور حکومت سے اس بات کی توقع رکھیں کہ وہ ہمارے اوقاف کی اور ہماری مسجدوں اور قبرستانوں کی حفاظت کرے گی۔

اسلام نے نکاح کو بہت آسان رکھا ہے، مسلمان عید، بقرعید میں جتنا خرچ کرتے ہیں، نکاح میں اتنا خرچ کرنا بھی ضروری نہیں، صرف ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے،جس میں نہ کوئی کرایہ خرچ ہوتا ہے اور نہ سجاوٹ کی گنجائش ہوتی ہے، نکاح کے ساتھ صرف ایک دعوت، ’’دعوتِ ولیمہ‘‘ رکھی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے قیمتی ولیمہ فرمایا وہ اس طور پر کہ ایک بکرا ذبح کیا؛ البتہ نکاح میں ایک لازمی ذمہ داری مہر کی ہے اور اس کو عقد کے وقت ہی ادا کردینا مسنون ہے۔

لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ برادرانِ وطن کا اثر قبول کرتے ہوئے نکاح کو نہایت ہی مشکل عمل بنا دیا گیا ہے،جس میں بعض اوقات لڑکی والے اپنا گھر تک بیچ دیتے ہیں، لڑکی والوں پرجہیز کا بارگراں تو ہے ہی، ایک بڑی نقد رقم کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، فنکشن ہال اور کھانے کے مینو تک کی تعیین ہوتی ہے اور یہ سارا بوجھ لڑکی والوں کے سر ڈالا جاتا ہے، دوسری طرف مہر ایک رسمی چیز بن کر رہ گئی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرطلاق کی نوبت آئی تب مہر ادا کیا جائے گا، اس طرح اسلام کا تصور نکاح مسخ ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں امت کی لاکھوں بیٹیاں سسک سسک کر تجرد کی زندگی گزار رہی ہیں، اس غیراسلامی اور غیراخلاقی عمل پر ہمیں حکومت یا قانون نے مجبور نہیں کیا ہے؛ بلکہ یہ ہمارا اپنا بگاڑ ہے۔

شریعت کے خاندانی زندگی سے متعلق قوانین میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی ہے، یہ گنجائش اس لئے؛ کہ معاشرہ میں اخلاقی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی باقی رہے، بہت سی دفعہ یہ اجازت ایک سماجی ضرورت بھی بن جاتی ہے؛ لیکن قرآن نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ شوہر دونوں بیویوں کے درمیان عدل سے کام لے، اگر وہ عدل قائم نہ کر سکے تو اس کے لئے دوسرا نکاح کرنے کی گنجائش نہیں ’’وَ اِنْ لم تعدلوا فواحدۃ‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دوسری شادی کے جو واقعات پیش آتے ہیں، ان میں نوے فیصد واقعات میں دوسرا نکاح کسی ضرورت اور سنجیدہ جذبے کے ساتھ نہیں کیا جاتا؛ بلکہ پہلی بیوی کو تکلیف پہنچانے کے لئے انتقامی جذبہ سے کیا جاتا ہے اور انصاف کی شرط کو اس طرح بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے کہ ایک بیوی کے ساتھ تو محبوبہ اور معشوقہ کا معاملہ کیا جاتا ہے اور دوسری کو اس طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ نہ اسے بیوی کے حقوق ملتے ہیں اور نہ وہ شوہر کی زندگی سے آزاد ہوتی ہے، اس کو لٹکا کر رکھا جاتا ہے ، اس طرزِ عمل سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے، لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ ایک درست حکم کا غلط استعمال ہے؛ اس لئے وہ خود اسلام کو اس خدا ناترس شخص کی غلطی کا مجرم سمجھنے لگتے ہیں، حالاںکہ شریعت نے نہ صرف یہ کہ عدل کی شرط کے ساتھ دوسرے نکاح کی اجازت دی ہے؛ بلکہ اس بات کو بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفاء کیا جائے، ایک بیوی کی موجودگی میں بلاضرورت دوسرا نکاح کرنے سے گریز کیا جائے۔

نکاح کا رشتہ محبت و سکون کا رشتہ ہے؛ تاکہ شوہر و بیوی پُر سکون زندگی گزار سکیں، اسی رشتہ سے نسل انسانی کا بقاء اور خاندانی نظام کا استحکام متعلق ہے؛ اسی لئے شریعت کا منشا یہ ہے کہ جب ایک بار رشتۂ نکاح قائم ہوجائے تو اسے استوار رکھا جائے اور حتی المقدور اس کو ٹوٹنے سے بچایا جائے، شوہر کی طرف سے رشتۂ نکاح کے ختم کردینے کو طلاق کہتے ہیں اور بیوی کے مطالبہ پر شوہر کے رشتہ ختم کردینے کو خلع، شریعت میں طلاق کو بھی ناپسند کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کو تمام جائز چیزوںمیں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر بھی لعنت بھیجی ہے، جو کسی نامعقول سبب کے بغیر خلع کا مطالبہ کرے، پھر اگر طلاق دینی ہی پڑے تو ایک اور زیادہ سے زیادہ دو فعہ دینی چاہئے ، ایک ساتھ تین طلاقیں دینا سخت گناہ ہے، اس سے قطع نظر کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین شمار کی جائیں گی یا ایک؟ اس بات پر تمام ہی اہل علم متفق ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ ہے۔

لیکن مسلم سماج میں طلاق کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو نوے فیصد طلاق کے واقعات غصہ، وقتی رنجش یا شوہر کے رشتہ داروں کی طرف سے چڑھانے اور اُکسانے کی بنا پر پیش آتے ہیں، اور اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ بہت سے واقعات میں ایک ساتھ تین طلاقیں دیدی جاتی ہیں، اسی طرح عورتوں کی طرف سے خلع کے مطالبات بعض دفعہ بہت ہی معمولی اسباب اور قوتِ برداشت کی کمی کی بنا پر کئے جاتے ہیں، مسلمانوں کا یہ عمل برادرانِ وطن کے درمیان اسلام کی غلط تصویر پیش کرتا ہے اور یہی تصویر ذریعہ ابلاغ کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے، اس میں شبہ نہیں کہ اس میں ذرائع ابلاغ کی مبالغہ آمیزی کا بھی دخل ہوتا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارا سماج ہی اس کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔

شریعت اسلامی نے مرحومین کے ترکہ کی تقسیم کا ایک جامع، مربوط اور عادلانہ نظام پیش کیا ہے، اس میں کچھ رشتہ دار وہ ہیں جو’’ اصحاب الفروض‘‘ کہلاتے ہیں، یہ وہ حضرات ہیں جن کے حصے خود قرآن مجید میں پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، ان میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی ہیں، شوہروں کی طرح بیویاں بھی ہیں اور اولاد کی طرح ماں باپ بھی ہیں؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اس تقسیم پر بہت کم عمل کیا جاتا ہے، اکثرو بیشتر ماں باپ کے ترکہ پر بیٹے قبضہ کرلیتے ہیں، یعنی اپنی بہنوں کو ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں، بعض دفعہ خود والدین کی بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ مکان، کاروبار اور زمین دار گھرانوں میں زرعی اراضی پر بیٹیوں کو حق نہ دیا جائے، انہیں تھوڑا بہت نقد رقم دے کر کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کی شادیوں پر پہلے کافی اخراجات ہوچکے ہیں، اسی طرح مرنے والے کا پورا ترکہ لڑکے آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں، ماں باپ کا حصہ نہیں دیتے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ ماں کی پرورش کے لئے ہم لوگ کافی ہیں، اب انہیں ترکہ میں حصہ کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں کہ اگر کوئی جواں سال یا ادھیڑ عمر شخص کا انتقال ہوگیا، اس نے بوڑھے والدین بھی چھوڑے اور جواں بیوی اور بچے بھی، تو بیوی بچے پورے ترکہ پر قابض ہوجاتے ہیں، اور وہ بوڑھے ماں باپ جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے ان کی پرورش کی تھی اور چھوٹے سے بڑا کیا تھا، ان کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

یہ سب ظلم کی مختلف صورتیں ہیں، جو ہمارے سماج کا معمول بن چکی ہیں، اللہ تعالیٰ نے میراث کو بے جا تصرف سے روکنے کے لئے صراحت فرمائی ہے کہ یہ ’’فریضۃ من اللہ‘‘ ہے یعنی یہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حصہ ہے، یہ انسان کا مقرر کیا ہوا حصہ نہیں ہے کہ اس کو اس میں کمی بیشی کا اختیار ہو، اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہیں جو عورت کو حق میراث دیتا ہو، دنیا کے دوسرے قوانین نے بھی اسلام کے قانون میراث سے استفادہ کیا ہے؛ لیکن بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے لئے روشنی فراہم کرتے، ہم نے خود اپنی زندگی میں شریعت کا چراغ بجھا دیا ہے۔

اسلام نے تقسیم میراث کی بنیاد اس اصول پر رکھی ہے کہ قریب ترین رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار ترکہ کا مستحق نہیں ہوگا؛ اس لئے اگر مرنے والے کے بیٹے بھی موجود ہوں اور ایسے پوتے بھی جن کے والد دنیا سے گزر چکے ہیں تو چچائوں کے مقابلہ میں باپ سے محروم پوتوں کو ترکہ میں حصہ نہیں ملے گا؛ لیکن شریعت نے ان کے لئے دوسرا راستہ کھلا رکھا ہے، ایک یہ کہ دادا ترکہ سے محروم ہونے والے پوتوں کے لئے وصیت کردے؛ تاکہ دادا کی وفات کے بعد ان کو بھی کچھ مل جائے، اور اس ایک تہائی ترکہ تک وصیت کرنے کی گنجائش ہے، دوسری گنجائش یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں پوتوں کو کچھ ہبہ کردے۔ اس طرح وہ اپنے ضرورت مند پوتوں، پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں کی مدد کر سکتے ہیں؛ لیکن افسوس کہ اس جانب بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔

اسلام کا قانون نفقہ ایک جامع قانون ہے، جو انسان کو پیش آنے والی تمام صورت حال کا احاطہ کرتی ہے؛ اس لئے جیسے اولاد کا نفقہ باپ پر اور باپ نہیں ہو تو دادا پر واجب ہوتا ہے اور بیوی کا نفقہ شوہر کے ذمہ ہے، اسی طرح بعض حالات میں بھائیوں، بہنوں اور چچائوں وغیرہ پر بھی بے سہارا خواتین اور یتیم بچوں کا نفقہ واجب ہے؛ لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت مطلقہ یا بیوہ ہوجائے تو بھائی سمجھتا ہے کہ اس پر اس کی بہن کے نفقہ کی ذمہ داری نہیں، یا بچے یتیم ہوجائیں تو چچا یہ نہیں سمجھتے کہ اب ہمارے اپنے بچوں کی طرح ہمارے بھائی کے بچوں کی بھی ہم پر ذمہ داری ہے؛ بلکہ اگر کبھی کچھ حسن سلوک کرد یا تو اس کو ایک احسان خیال کرتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ غیرمسلم معاشرہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں بے سہارا عورتوں اور بچوں کی کفالت و پرورش کا کوئی مستحکم نظام نہیں ہے ، غلط تصور پر مبنی اس تصویر میں میڈیا کے لوگ رنگ بھر کر اسے اور خوفناک بنادیتے ہیں اور اسلام کو نعوذ باللہ ایک بے رحم اور غیر منصف مزاج مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت عدالتیں ایسے فیصلے کر رہی ہیں جو واضح طور پر شریعت سے متصادم ہیں، لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اس کی نوبت اسی وقت آتی ہے جب خود مسلمان اپنے مقدمات سرکاری عدالتوں میں لے کر جاتے ہیں، اپنے علماء اور قاضی و مفتی سے رجوع کرنے کے بجائے ان لوگوں سے اپنا معاملہ طے کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو نہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں، نہ رسول پر، قرآن کے بیان کے مطابق یہ ایک منافقانہ طرز عمل ہے کہ زبان سے تو ہم اللہ اور اس کے رسول کی بات مایں اور عملی طور پر ہم اسے نظر انداز کردیں۔

اگر ہمیں ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے دینی تشخص کو بچانا ہے تو سر کٹانے کا جذبہ کافی نہیں، پہلے ہمیں اپنے اندر سر جھکانے کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، شریعت کے احکام خواہ ہماری چاہت اور مفادات کے خلاف ہوں؛ لیکن ہم اس کے سامنے جھک جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہشوں اور چاہتوں پر غالب رکھیں؛ کیوںکہ جس قول کے پیچھے عمل کی طاقت نہ ہو، وہ دوسروں کو قائل نہیں کرسکتا، جو شخص اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو اور اس کا جسم زندگی کی حرارت سے محروم ہو، اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ باہر کے دشمنوں کا مقابلہ کرسکے۔