رمضان میں صحابہؓ کا ذوق عبادت
ڈاکٹر عبدالحمید اطہر
ماہِ
رمضان گزارنے والوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک وہ جس کے لیے اس مہینے
اور سال کے دوسرے مہینوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ ناکام ونامراد شخص ہے۔ دوسرا
وہ جو عابد ہے، صرف عبادت کرتا ہے۔ اس کو رمضان کا ثواب تو ملتا ہے، لیکن رمضان کا
مہینہ گزرتے ہی اس کا جوش وخروش ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی گزشتہ زندگی کی طرف لوٹ
آتا ہے۔ تیسرا وہ جو حضورِ قلب کے ساتھ عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اس مہینے کو
غنیمت جان کر اس دوران میں زیادہ سے زیادہ اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے، اور اس کی پچھلی
اور بعد والی زندگی میں نمایاں فرق پیدا ہوتاہے۔ تیسری قسم کے یہی لوگ اللہ کے رسول
سیدنا محمدؐ کے ساتھی صحابہ کرامؓ تھے۔ رمضان کے دوران انہی بزرگ ہستیوں کے معمولات
کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
صحابہ
کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اپنے معمولات کو ترتیب دینے کے
لیے اپنے اوقاتِ کار مرتب کرتے اور اپنا وقت ضائع ہونے نہیں دیتے تھے۔
غیر
ضروری کاموں سے اجتناب
ابوذرؓ
اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جب تم روزہ رکھو تو جتنا ہوسکے لایعنی
باتوں سے محفوظ رہو‘‘۔ اس روایت کے راوی طلیق جب روزے سے ہوتے تو اپنے گھر سے صرف نماز
کے لیے نکلتے۔ (مصنف ابن ابی شیب)
عمر
فاروقؓ نے فرمایا: ’’روزہ صرف کھانے پینے سے نہیں ہے، بلکہ روزہ جھوٹ، باطل اور لغو
قسم کھانے سے بھی ہے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
دن
کے اوقات میں بھی مسجدیں آباد
ابن
ابی شیبہ نے ابو المتوکل سے روایت کیا ہے کہ: ’’ابو ہریرہؓ اور آپ کے ساتھی جب روزہ
رکھتے تو مسجد میں بیٹھتے‘‘۔ (النہایہ فی غریب الحدیث) صحابہ کرامؓ کی کثیر تعداد ماہِ
رمضان میں اعتکاف کیا کرتی تھی، خصوصاً آخری عشرے میں۔
فقرا
اور مہمانوں کی دعوت
صحابہ
کرامؓ اصحابِ صفہ کو کھانا پیش کرتے تھے۔ یہ مسلمانوں میں سے معاشی لحاظ سے کمزور لوگ
تھے جو مسجد نبوی میں بسیرا کرتے تھے۔ واثلہ بن اسقعؓ سے روایت ہے: ’’جب رمضان آیا
تو ہم صفہ میں تھے۔ ہم نے روزہ رکھا، جب ہم افطار کرتے تو ہم میں سے ایک شخص کے پاس
ایک آدمی آتا اور اپنے ساتھ لے جا کر رات کا کھانا کھلاتا‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء، دلائل
النبوۃ للبیہقی)
صحابہ
کرامؓ وفود اور مہمانوں کے لیے کھانا پکایا کرتے تھے۔ علقمہ بن سفیان بن عبداللہ ثقفی
اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’ہم وفد کے ساتھ رسول اللہؐ سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔
آپؐ نے ہمارے لیے مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دو خیمے لگوائے۔ بلال ہمارے پاس افطار
لے کر آتے تو ہم پوچھتے: ’’بلال، کیا رسول اللہؐ نے افطار کیا؟‘‘ وہ کہتے: ’’ہاں، میں
تمھارے پاس رسول اللہؐ کے ہاں افطار کرنے کے بعد ہی آیا ہوں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)
سحری
اور افطاری میں مدعو کرنا
طاؤسؒ
سے یہ روایت نقل ہے: ’’میں نے ابن عباسؓ کو کہتے ہوئے سنا: ’’عمرؓ نے سحری میں مجھے
اپنے پاس کھانے کے لیے بلایا، تو اسی دوران میں لوگوں کا شورغل سن کر دریافت کیا: یہ
کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا: لوگ مسجد سے نکل رہے ہیں‘‘۔ (مختصر قیام اللیل) دراصل لوگ
اجتماعی سحری کے بعد نکل رہے تھے۔
عبداللہ
بن مسعودؓ کے ساتھ کبھی آپ کے شاگرد سحری کھایا کرتے تھے، چاہے تھوڑا بہت کچھ بھی پاس
ہوتا، اور وہ سحری تاخیر سے کیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے عامر بن مطر سے روایت کیا
ہے کہ انھوں نے کہا: ’’میں عبداللہ کے پاس ان کے گھر آیا، تو انھوں نے اپنی سحری میں
سے بچا ہوا کھانا نکالا، تو ہم نے آپ کے ساتھ سحری کھائی۔ نماز کے لیے اقامت کہی گئی
تو ہم نکلے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیب)
تلاوت
کی کثرت
صحابہ
کرامؓ رمضان میں قرآن کی تلاوت کثرت سے کرتے، بلکہ بعض صحابہؓ تو اس کے لیے فارغ ہی
ہوجاتے، اور اسی کو اپنا مشغلہ بنادیتے۔
مروزی
نے قاسم سے روایت کیا ہے: ’’ابن مسعودؓ پورا قرآن ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک ختم کرتے
تھے، اور رمضان میں ہر تین دن میں ایک ختم کرتے، اور دن میں بہت ہی کم قرآن ختم کرنے
پر مدد لیتے تھے‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی)
سیدہ
عائشہؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ رمضان میں دن کے شروع حصے میں قرآن کی تلاوت کیا کرتی
تھیں، جب سورج طلوع ہوتا تو سو جاتیں۔ (لطائف المعارف)
رمضان
میں تلاوت قرآن کے سلسلے میں سلف کے طریقے کی مناسبت سے ایک اقتباس پیش ہے: ’’ابن رجبؒ
نے رمضان میں تلاوتِ قرآن سے سلف کے شدید تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: بعض سلف رمضان
کے قیام اللیل میں ہر تین رات میں ایک ختم کرتے تھے، اور بعض سات راتوں میں ایک۔ ان
میں قتادہ بھی شامل ہیں، اور بعض دس راتوں میں ایک، جن میں ابو رجاء عْطاردی شامل ہیں‘‘۔
رات
کے معمولات
صحابہ
کرامؓ عام دنوں میں تہجد کی پابندی کیا کرتے تھے اور رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت
میں گزارتے تھے، البتہ رمضان میں تقریباً پوری رات عبادت میں صرف کرتے تھے، اپنے قیام
میں طویل تلاوت کیا کرتے تھے۔ ایک تہائی، نصف یا رات کا اکثر حصہ تلاوتِ قرآن، نماز،
اور ذکر واذکار واستغفار میں لگاتے تھے۔
عبداللہ
بن ابو بکر بن محمد بن عمروبن حزم سے روایت ہے کہ: میں نے ابو ذرؓ کو کہتے ہوئے سنا:
’’ہم رمضان میں قیام اللیل سے واپس ہوتے تو خادموں کو کھانا لانے میں جلدی کا کہتے
کہ کہیں طلوعِ فجر نہ ہو جائے‘‘۔ (موطا امام مالک)
روایتوں
سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ اپنی رات کو چار حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ عام طور
پر آدھی رات نماز میں جاگتے تھے، اور ہر چار رکعت کے درمیان وضو کی مقدار تک آرام کرتے۔
مروزی نے حسن بصریؒ سے روایت کیا ہے: ’’عمر بن خطابؓ نے اْبیؓ کو رمضان میں لوگوں کی
امامت کا حکم دیا تو انھوں نے امامت کی۔ وہ ایک چوتھائی رات سوتے اور دو چوتھائی رات
نماز پڑھتے، اور ایک چوتھائی رات باقی رہنے پر اپنی سحری اور ضرورتوں کے لیے واپس چلے
جاتے‘‘۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی)
بیہقی
وغیرہ نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے: ’’عمر بن خطابؓ کے زمانے میں صحابہ رمضان کے
مہینے میں بیس رکعت نماز پڑھتے تھے، اور عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں طویل قیام کی
وجہ سے اپنے عصا پر ٹیک لگاتے تھے‘‘۔ (السنن الکبری للبیہقی)
عبدالرحمٰن
بن عراک بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’میں نے رمضان میں لوگوں کو پایا کہ
وہ طویل قیام کی وجہ سے اپنے لیے رسیاں باندھتے تھے، تا کہ اس سے سہارا لیں‘‘۔ (مصنف
ابن ابی شیب)
عبداللہ
بن مسعودؓ قرأت طویل کرتے تھے اور بیس رکعت پڑھتے تھے۔ مروزی نے زید بن وہبؒ سے روایت
کیا ہے: ’’عبداللہ بن مسعودؒ ہم کو رمضان کے مہینے میں نماز پڑھاتے ہوئے اس وقت واپس
جاتے، جب کہ ابھی رات باقی رہتی‘‘۔ اعمش کہتے ہیں: ’’وہ 20 رکعت پڑھتے تھے اور تین
رکعت وتر۔‘‘ عطا کہتے ہیں: ’’میں نے ان (صحابہ) کو رمضان میں 20 رکعت اور تین رکعت
وتر پڑھتے ہوئے پایا‘‘۔ (مختصر قیام اللیل)
آخری
عشرے کے معمولات
آخری
عشرے میں عبادت میں صحابہ کرامؓ کی جدوجہد بے انتہا بڑھ جاتی تھی۔ خود بھی عبادت میں
مصروف ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی رات کو جگاتے۔ عبداللہ ابن عمرؓ آخری عشرے میں
اپنے گھر والوں کو جگایا کرتے تھے، جیسا کہ رسول اللہؐ کیا کرتے تھے۔ مجاہد سے روایت
ہے: ’’عمرؓ آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگاتے تھے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیب)
سحری
میں صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ تاخیر سے کرتے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سحری
ختم کرنے اور فجر کی اذان میں 50 سے 60 آیتوں کا فصل رہتا۔ اگر کھانے کو کچھ نہ ہوتا
تو گھونٹ پانی ضرور پیتے، کیوں کہ سحری اس امت کی خصوصیت ہے۔افطار میں صحابہؓ کا معمول
یہ تھا کہ مغرب کی اذان ہوتے ہی کھجور کھا لیتے، کھجور نہ ملتی تو پانی سے افطار کرتے،
یا جو بھی میسر آتا اس سے پہلی فرصت میں افطار کرتے، اور افطار کے وقت مسنون دعاؤں
کا اہتمام کرتے۔
اس
مبارک مہینے میں صحابہ کرامؓ کی سخاوت عروج پر ہوتی۔ عام معمول یہ ہوتا کہ اپنی ذات
پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ خود بھوکے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ
کی اس صفت کی تعریف قرآن مجید میں کی ہے، خصوصاً جب عید کا دن ہوتا تو صدقہ فطر کے
علاوہ بھی فقرا میں اپنا مال تقسیم کرتے تا کہ کوئی بھی اس دن کی خوشی سے محروم نہ
رہے۔
No comments:
Post a Comment