آج کی بدلتی دنیا اور درپیش چیلنج
خالد رحمان
آج کی بدلتی دنیا اور درپیش چیلنج
تبدیلی ہمیشہ سے ہی انسانی زندگی کا اہم مظہر رہی ہے۔ تاہم، عصر حاضر کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تبدیلی کا عمل جس تیزی سے وقوع پذیر ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔تبدیلی کے امکانات، وسعت اور پایداری کا دارو مدار ان عوامل پر ہوتا ہے جو تبدیلی کا محرک بنتے ہیں۔ان میں سے اہم ترین عامل تبدیلی کا رضاکارانہ اور اختیاری نوعیت کا ہونا اورمتوقع طور پر مثبت نتائج کا حامل ہونا ہے۔تبدیلی کو جب جبراً نافذ کیا جاتا ہے ، خواہ یہ جبر بالواسطہ ہویابلاواسطہ، تو نتیجتاً تنائو، غیر یقینی صورت حال اور عمومی بے چینی سر اٹھاتی ہیں۔بلاشبہہ آج دنیا کو درپیش مسائل بہت بڑے ہیں اور ان سے نجات (تبدیلی) کے ہدف کاحصول تمام متعلقین کی طرف سے اعلیٰ ظرفی اور بڑے پن کا تقاضاکرتاہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میںبڑی بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں جن میں ٹکنالوجی کی ترقی،اقتصادی ترقی،معلومات تک تیز، آسان اور سستی رسائی، طب اور صحت کے علوم میں معجزات،نئے اور مؤثر ذرائع پیداوار،آمدورفت اور مواصلات کے دائرے میں آنے والی تبدیلیاں بہت نمایاں اور اہم ہیں۔آج جب ہم اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ مکمل کررہے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ان تبدیلیوں نے انسانی زندگی میں عظیم انقلاب برپا کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے عوام، معاشرے اور معیشتیں باہم ضم ہورہے ہیں،فاصلے سکڑرہے ہیں اور تیز ذرائع مواصلات کی بدولت انسانوں، سامان، سرمایے، معلومات اورعلوم کی حرکت آسان تر ہو چکی ہے۔اب جغرافیائی سرحدیں رکاوٹ نہیں رہی ہیں اور گویا خلائیں بھی مسخر ہو چکی ہیں۔ اس تناظر میں اگرچہ یہ بات درست ہے کہ تبدیلی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی دائروں میں بہت تیزی سے نفوذ کر رہی ہے جن میں انسانی و سماجی تعلقات،علم و تعلیم،تمدن و معاشرہ، سیاست اور معیشت سب ہی شامل ہیں، لہٰذااس میں انسانی ذہن اور زندگی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے، جوخود تبدیلی کا مظہر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت آج کی انسانی زندگی میں نمایاں ترین اور مرکزی مقام حاصل کر چکی ہے۔ اس کا اثر تمام شعبہ ہاے زندگی پر اس طرح حاوی ہو چکا ہے کہ درحقیقت تبدیلی کے ہرعمل کے پیچھے اصل قوت محرکہ یہی نظر آتی ہے۔ اگرچہ، معاشی محرک کے اس غلبے کے نتیجے میں غیر معمولی ترقی ہوئی لیکن اس کے نتیجے میں انسانی زندگی کی بنیادی اقدار بھی تبدیل ہوئی ہیں اور یہ صورت حال دور حاضر میں زندگی کے تمام گوشوں میں نمایاں منفی نتائج بھی در لائی ہے۔سرمایے نے کلیدی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ زندگی کے کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے اہم ترین کردار سرمایے کا ہے اور کثیر سرمایے کے حاملین کے لیے مواقع بھی زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔لہٰذا اس سارے عمل میں سرمایہ کار ہی سب سے زیادہ فوائد سمیٹتا ہے۔اقتصادی لحاظ سے طاقت ور ممالک میں در اصل معاشی طور پر مضبوط افراد و گروہ ہی اپنے ملک میں اور عالمی سطح پر فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں خواہ یہ فیصلے سیاست کے حوالے سے ہوں،تنازعات اور جنگوں کے سلسلے میں یا تعلیم اور صحت عامہ جیسے سماجی شعبے میں ترقی کی بابت۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ ،عالمی بنک اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) جیسے بین الاقوامی اداروں میں فیصلہ سازی اور اثر اندازی میں مخصوص ممالک اور طاقتوںکے کردارکا انحصار بھی ان کی طرف سے کیے جانے والے مالی تعاون پر ہوتا ہے۔۱؎ معاشروں اور قوموں کے اندر بھی افراد اور جماعتوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ کثیر سرمایے کے بغیر قیادت کے حصول یا اسے برقرار رکھنے کا سوچ بھی سکیں۔نتیجتاً امن، ترقی، جمہوریت، انسانی حقوق، غربت کے خاتمہ اور سب کے لیے صحت و تعلیم کی ظاہری کوششوں کے باوجود بدلتی دنیا کے حقائق کچھ اور ہی داستان سناتے ہیں۔ تبدیلی کے اثرات ممالک کے درمیان اور معاشروں کے اندر بھی عدم مساوات جڑیں پکڑتی جا رہی ہے، خواہ یہ معاشرے ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر۔صرف چند اقوام،بلکہ بیش تر صورتوں میں کچھ ادارے یا افراد کو کروڑوں کے ہجوم پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ یہ کوئی انکشاف نہیں ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز پردنیا کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا ۸۷ فی صد صرف ۲۲ امیر ممالک میں پیدا ہوتا تھا، جب کہ دنیا کے باقی ماندہ ۱۷۰ ممالک میں ۸۰ فی صد عوام دنیا بھر کی مجموعی قومی پیداوار کے محض ۱۳فی صد پر روح وبدن کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔دل چسپ امر یہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰برسوں میں اس خلیج میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ امیر ترین ممالک میں بھی ۱۲ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔۲؎ دنیا کے سات متمول ترین افرادکے پاس ۴۱ غریب ممالک(جن کی آبادی ۵۶ کروڑ ۷۰ لاکھ ہے)۳؎ کی مجموعی قومی پیداوار سے زائد دولت ہے، جب کہ دنیا کے آدھے کے قریب عوام (تقریباً۳؍ ارب)دو ڈالر یومیہ سے کم آمدن پر گزاراکرتے ہیں۔جو زندگی مشکل سے گزارتے ہیں اوردنیا میں رونما ہونے والی ترقی میں ان کے لیے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہے۔ ایک ارب انسانوں کو حفظان صحت کے نظام تک رسائی حاصل نہیں۔ایک ارب سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ ۸۰ کروڑ انسان بھوک اور خوراک کی کمیابی کا شکار ہیںاور ہر سال ڈیڑھ کروڑ بچے بھوک کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔۴؎ امیر امیر تر ہوتے جارہے اور غریب غریب ترہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کہیں اور نہیں،خود ریاست ہاے متحدہ امریکا میں تمام بڑی صنعتی اقوام سے زیادہ آمدن میںعدم مساوات پائی جاتی ہے۔۵؎ دولت، مادی فوائد اورمعیشت کی بڑھتی ہوئی مرکزیت نے فرد، سماج اورتحفظ سے وابستہ غیر روایتی چیلنجوں کو جنم دیا ہے جو خاندانی نظام کی کمزوری، انفرادیت پسندی،منشیات اور انسانوں کی غیر قانونی آمدورفت سے لے کرماحولیاتی خطرات تک حاوی ہیں۔ ناہمواریاں صرف اقتصادی دولت اورسماجی شعبے تک ہی محدود نہیںبلکہ ان کا عسکری قوت اور سیاسی میدان میں عدم توازن کے ساتھ بھی اختلاط ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا کا دفاعی خرچ ۲۰۰۹ء تک ۳۱ئ۱۵کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ۲۰۰۸ء کی نسبت حقیقی قدر میں یہ چھے فی صد اضافہ ہے،۶؎ جب کہ ۲۰۰۰ء کے مقابلے میں ۴۹ فی صد ہے۔صرف ۱۵ ممالک بلند ترین اخراجات کے ساتھ دنیا کے کُل دفاعی اخراجات کا ۸۲ فی صد خرچ کرتے ہیں۔امریکا موجودہ عالمی رحجان کا اصل سمت نما پیش کرتا ہے۔اس کے دفاعی اخراجات دنیاکے مجموعی اخراجات کے نصف سے کچھ ہی کم،یعنی ۵ئ۴۶ فی صد ہیں۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امریکی صدر اوباما، جنھوں نے تبدیلی کے نام پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اورانھیں امن کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے،وہ بھی اس رحجان میں تبدیلی نہ لا سکے اورامریکا کے دفاعی اخراجات میں کوئی ٹھیرائو رونما نہیں ہوا۔امریکا کے بعد بہت فاصلے پر چین(عالمی دفاعی اخراجات کا ۶ئ۶فی صد)، فرانس (۲ئ۴فی صد)، برطانیہ (۸ئ۳ فی صد) اور روس (۵ئ۳ فی صد) آتے ہیں۔۷؎ کل عسکری اخراجات دنیا کی مجموعی قومی پیداوار کے ۷ئ۲فی صد کے برابر ہیںیا تخمیناً ۲۲۵امریکی ڈالر فی کس۔آج کرۂ ارض کوجن گمبھیر حالات کا سامناہے، ان خطیر عسکری اخراجات کا ایک معمولی حصہ دنیا کوان سے نجات دلا سکتا ہے ۔اس کثیر رقم کا موازنہ اگردنیامیںامن و سلامتی کو یقینی بنانے والے عالمی ادارے کے مجموعی بجٹ کے ساتھ کیا جائے توحالات کی سنگینی کا صحیح اندازہ ہوتاہے۔ــ اقوام متحدہ، اس کے تمام ذیلی ایجنسیاں اور فنڈ ہر سال ۳۰؍ارب امریکی ڈالر خرچ کرتے ہیں،یعنی صرف چار امریکی ڈالر فی کس۔یہ دنیا کی اکثر حکومتوںکے بجٹ کے مقابلے میںحقیر رقم ہے اور دنیا کے دفاعی بجٹ کے ۳فی صد سے بھی کم ہے، جب کہ دو عشروں سے اقوام متحدہ کو مالی مشکلات در پیش ہیںاور اسے مجبوراً ہر شعبے میں اپنے منصوبوں کو کم کرنا پڑا ہے حالانکہ اس عرصے میں بہت سی نئی ذمہ داریوں نے سر اٹھایا ہے۔کئی رکن ریاستوں نے اپنے تمام واجبات بھی ادا نہیں کیے، جب کہ کئی نے اقوام متحدہ کے رضاکارانہ فنڈ میں عطیات دینے بھی بند کر دیے ہیں۔ ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء تک رکن ممالک کے ذمے عمومی بجٹ کے بقایاجات ۹ئ۸۲ کروڑ امریکی ڈالرتک پہنچ چکے تھے جن میں سے ۹۳فی صد امریکا کے واجبات ہیں۔۸؎ ہم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یک طرفہ فیصلوں (unilateralism) اور پیشگی دفاعی حملوں (pre-emptive strikes) جیسے نظریات عملی طور پر ان ثمرات کو ضائع کر رہے ہیں جو دنیا نے بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق، مساوات اور آزادی کے میدانوں میں حاصل کیے تھے۔ ’قومی مفادات‘کے نام پر بین الاقوامی تعلقات میں بالادستی اور طاقت کی سیاست کا دور دورہ ہے اورعلاقائی تنازعات اور سلگتے ہوئے مسائل روزبروز سر اٹھا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے ادارے عضو معطل بن چکے ہیں۔۹؎ اگرچہ اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد ۲۰۰کے قریب ہے لیکن فیصلے کرنے اور ان کو دنیا پر نافذ کرنے کا اختیار صرف چند ایک کے پاس ہے،بلکہ کچھ معاملات میں عملاً صرف ایک کے پاس۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع کے مباحث کچھ عرصے سے جاری ہیںلیکن ان کا محور بھی یکساں ذہنیت کی حامل کچھ اورطاقتوں کو آگے لانا ہے جس کے باعث دنیا میں طاقت کا توازن مزید بگڑ جائے گا۔علاوہ ازیں عدم توازن کا یہ معاملہ صرف فیصلہ سازی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ فیصلوں کا نفاذ بھی امتیازی طور پر ہوتا ہے۔کمزور کو آسانی سے ہدف بنایا جا سکتا ہے، جب کہ طاقت وربسہولت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر سکتا ہے۔سرحدات کی خلاف ورزی کی جاسکتی ہے،قومی خودمختاری کا کوئی تقدس نہیں،زبردستی مسلط کی گئی اور اپنی مرضی سے تبدیل کی گئی حکومتوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ انداز عالمی نظام اور عالمی امن و سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے جوغیر ریاستی عوامل کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں کواپنے حق میں منظم کریں جو نا انصافیوں سے تنگ آ چکے ہیںاور جن کا اعتماد عالمی نظام اور اس کے نمایندہ اداروں سے تیزی سے اٹھتا چلا جا رہا ہے۔کئی اور چیلنج جن کا دائرہ مختلف ریاستوں کے اندرونی اور ریاستوں کے باہم تنازعات اورمہلک جوہری ہتھیاروں کے افقی اور عمودی پھیلائوسے لے کر بین البراعظمی جرائم تک وسیع ہے اور جو ابھی تک حل طلب رہے ہیں،وہ اسی حقیقت کا ایک اور رخ ہیں۔اس سے بھی زیادہ اہم انسانی تحفظ کو لاحق غیرروایتی خطرات کا وقوع پذیر ہونا اوران کی شدّت ہے۔خوراک کا تحفظ (food security) قدرتی اسباب اور ان کی اپنی غیردانش مندانہ پالیسیوں، دونوں وجوہات کی بنا پر سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ توانائی کے تحفظ (energy security) کا معاملہ اتنا بڑا ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح بڑے پیمانے پر ماحولیاتی آلودگی اور پانی کے مسئلے سے پیدا ہونے والے خطرات، نیز موسمیاتی تبدیلی کے ممکنہ اثرات توجہ طلب اورعملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ بلاشبہہ آج دنیا میںگہری تبدیلیوںکا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔قدیم جغرافیائی و سیاسی حقائق کوآج بڑے بڑے تغیرات، انقلابات اور مدوجزر سے سابقہ درپیش ہے۔نئی صف بندیاں، اتحاد، دوستیاں اور دشمنیاں تشکیل پا رہی ہیں۔علاقائی طاقت کے نئے مراکز، چاہے عالمی نہ ہوں، کئی برسوں سے ظاہر ہو رہے ہیں اور اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عالمی اور علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات کے حوالے سے غیرریاستی عناصر کا کردار نمایاں تر ہوتا جارہا ہے۔ عالمی معیشت اگرچہ ابھی تک عمومی طور پر ترقی یافتہ شمالی ممالک کے کنٹرول میں ہے لیکن اس میں بھی تبدیلی کا رحجان واضح دکھائی دیتا ہے۔چین، ترقی کی جانب غیر معمولی سبک رفتاری سے سفر کرتے ہوئے،عالمی معیشت کی اس تبدیلی کی قیادت کر رہا ہے۔چین کی شان دار ترقی کے ساتھ ہی ساتھ روس، بھارت اور برازیل جیسے ممالک کاعالمی اقتصادیات میں کردار اور حصہ بھی نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ اپنے اثر ا ت بھی دکھا رہا ہے۔ لیکن کیا یہ عدم مساوات، نا انصافی،طاقت کے استعمال،جارحیت ،غربت اور بیماری، جہالت اور انسانوں، منشیات اور اسلحہ کی غیر قانونی نقل و حمل جیسے مذکورہ بالا مسائل کے تدارک کے لیے معاون ثابت ہو رہا ہے ؟ مطلوبہ انقلاب:موجودہ افکار کے اس پار ایک نظر جس منظر نامے پر اوپر بحث کی گئی وہ تبدیلی کے لیے بیک وقت چیلنج اور موقع پیش کرتا ہے۔ اگرچہ مذکورہ بالا مسائل میں سے ہر ایک کے حل کے لیے مخصوص اور متعین لائحہ عمل درکار ہے لیکن ان کے پایدار اور جامع حل کے لیے ان مسائل کی بنیادی وجوہات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کی جڑیں زندگی اور ترقی کے معاصر فلسفے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے بنیادی طور پر معاملات کو ابتداً فکری سطح پر طے کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ انسانی زندگی سے وابستہ تنوع کے باعث شناخت اور باہم مسابقت کے لیے جدوجہدکا معاملہ انسانی نفسیات کاایک فطری اور لازمی جزو ہے، تاہم امن اور ترقی کے فروغ کی خاطر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رحجان کو صحت مند مسابقت اور دو طرفہ فوائد (win-win situation) کی راہ پر ڈالنے کے لیے اس کی سمت متعین کی جائے۔ بدقسمتی سے survival of the fittest کے نظریے پر چلنے والا موجودہ نظام ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ کبھی بھی صحت مند مقابلے کا ماحول فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ اس نظا م نے انفرادی و اجتماعی سطح پر طاقت کے استعمال کواتنی فوقیت دے دی ہے کہ اس کے آگے اخلاقی اصولوں کی کوئی وقعت نہیں رہی۔تنازعات ایسے حالات کا ناگزیر تقاضا بن جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔موجودہ نظریے کی بنیاد سرمایہ دارانہ طرز پر ہے جس کی زمام کار معاشی طور پر مستحکم ممالک کے ہاتھوںمیں ہے۔اس کی ترویج امدادی ایجنسیاں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کر رہے ہیںجن میں سے قابل ذکرعالمی بنک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور بڑے کاروباری ادارے(کثیرالاقوامی اور بین الاقوامی کمپنیاںMNCs and TNCs) ہیں۔ سرمایے کی تشکیل،آزاد منڈی کی معیشت،نجکاری اور غیر ملکی امداد اسی نظریے اور نظام کے اہم عناصر ہیں جس میں معاشی فوائد کے حصول کے لیے اصولوں،اخلاقی اقداراور سماجی وجمہوری تصورات کی کوئی حقیقی اہمیت نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی مفاد کے حصول کی راہ میں صحیح و غلط، جائزوناجائز، مساوات و عدم مساوات اور انصاف و ناانصافی جیسے تصورات بے معنی ہو چکے ہیں۔ بجاے اس کے کہ’ ’سماجی ترقی کے پیش نظر اخلاقی و اصولی انتخاب کو جانااور اپنایا جائے‘‘ بڑھوتری کے حجم و شرح،سرمایے کی تشکیل،بیرونی امدادووسائل کی تخصیص، زیادہ سے زیادہ منافع خوری اور انفرادی فوائد کا جنون عروج پر ہے اور انسانی فلاح اور سماجی بہبود سمیت دیگر تمام امور کو بالاے طاق رکھ دیا گیا ہے۔’انصاف اور انسانی بہبود ‘کے بجاے ’مہارت‘اس نظریے میں نصب العین بن چکی ہے جس میں اصل زور نمو پذیری (growth) پرہے۔غربت میں کمی اور عوامی بہبود کے اہداف کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں خودبخود حاصل ہو جائیں گے۔ لہٰذا اس نظریے کو’انسانیت کے نصب العین کے ساتھ ترقی و پیش قدمی‘سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔۱۰؎ بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں اس نظریے کا اظہار ’قومی مفاد‘کی سوچ ہے۔ دنیا کے ممالک کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کی تنفیذ کے حوالے سے اخلاقی اور فکری پہلوکو ترویج دے کرحقیقی معنوں میں عملاً نافذ کرنا ہوگا۔اگر عالمی نظام کلیتاً ’قومی مفاد‘ کی سوچ کے تحت ہی چلتا رہا توکمزور اقوام کے مفادات مضبوط اور طاقت ور اقوام کے ہاتھوں پامال ہوتے رہیں گے۔ مختلف ممالک کا باہم انحصار (interdependence) ہی وہ واحد محرک نہیں جس کی وجہ سے باہمی تعامل، مذاکرات اور تعاون کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، ہمہ پہلو اورپایدار ترقی بھی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ بین الاقوامی سیاسی و اقتصادی تعلقات میںنئی منہج اور نئی بصیرت کے ساتھ فکری انقلاب رونما ہو، یعنی دوسروں کے مفادات کی قیمت پر اپنے قومی مفاد کے حصول کے بجاے ایسے تعلقات کی طرف جس میں توجہ کا مرکز مجموعی اور ہمہ جہت انسانی و سماجی بہبودہو اور جس کی بنیادتعاون،باہمی احترام،دوطرفہ مفاد اورباہمی منافع پر ہو۔ (یہ تحریر اُس مقالے کا ایک حصہ ہے جو مقالہ نگار نے China Institute of Contemporary International Relations (CICIR) کے زیراہتمام ۲۳ تا ۲۵ستمبر ۲۰۱۰ء کو بیجنگ میں منعقد ہونے والی کانفرنس بعنوان ’تغیر پذیر دنیا اور چین‘ میں پیش کیا۔) êمقالہ نگار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد کے ڈائرکٹر جنرل ہیں۔ _______________ حواشی ۱- ان اداروں کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میںپانچ ممالک مستقل رکن ہیں جو ویٹو پاور رکھتے ہیں۔ویٹو کی حامل ان پانچ طاقتوں میں سے امریکا اپنا اثر و رسوخ سب سے سے زیادہ استعمال کرتا ہے جس کی ایک وجہ تنظیم کے ساتھ اس کازیادہ مالی تعاون ہے۔ آئی ایم ایف میں ووٹ کی صلاحیت فنڈ میں زیادہ سرمایہ کاری کی بنا پر متعین کی جاتی ہے۔ گویا فیصلہ سازی ’’ایک رکن ایک ووٹ ‘‘کی بنیاد پر نہیں بلکہ ’’ایک ڈالر ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔WTOکا طریقہ کار کئی دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے مختلف ہے۔ اس میں ہر ملک کو ووٹ کا مساوی حق حاصل ہے لیکن غیر معمولی انسانی ، دانشورانہ اور مالی وسائل اور سیاسی اثرو رسوخ کی وجہ سے مال دار ممالک کا فیصلہ سازی میں کافی دخل ہوتا ہے۔ ۲- انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ،اسلام آباد کے جرنل Policy Pespectives جنوری تا جون ۲۰۰۶ء میں پروفیسر خورشید احمد کا مضمون ’’Challenges and Prospects for Muslims‘‘ 3.Anup Shah, "Poverty Facts and Stats," Global Issues, last up-dated March 28, 2010, 4. Anup Shah, "Health Issues," Global Issues, last up-dated March 21, 2010, http://www.globalissues.org/issue/587/health-issues; Global Crisis News,"Over one billion people lack access to safe drinking water," March 22, 2010, http://www.globalcrisisnews.com/environment/over-one-billion-people-lack-access-to-safe-drinking water/id=1482/;"The World Hunger Problems, Facts Figures and Statistics," http://library.thinkquest.org/C002291/high/present/stats.htm (accessed August 18, 2010). 5. http://theeconomiccollapseblog.com/archives/more-than-1-in-5-american- children-are-now-living-below-the-poverty-line (accessed August 18, 2010). 6. Anup Shah, "World Military Spending," Global Issues, last up-dated July 07, 2010, http://www.globalissues.org/article/75/world-military-spending, quoting Stockholm International Peace Research Institute (SIPRI)'s 2010 Year Book on Armaments, Disarmament and International Security, (accessed August 18, 2010). ۷- امریکا کے دفاعی اخراجات میں ۲۰۰۰ء میں جارج ڈبلیو بش سے کچھ پہلے حقیقی اضافہ63فیصد ہوا۔بحوالہ: SIPRI Yearbook 2010, "Media Background-Military expenditure," 2-3, http://www.sipri.org/media/media/pressreleases/pressreleasetranslations/storypackage_milex 8. http://www.globalpolicy.org/un-reform/un-financial-crisis-9-27.html (accessed August 18, 2010) ۹- ’’پیشگی دفاعی حملوں‘‘ کا نظریہ ،جس کے بعد ساری دنیا کی طرف سے اعتراضات کے باوجود عراق پر قبضہ کیا گیا، دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کی طرف سے یکطرفہ فیصلوں کی سوچ کی واضح مثال ہے۔ ۱۰- بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے پروفیسر خورشید احمد کا پیش لفظ برائے: Pakistan's Economic Journey Need For A New Paradigm, by Fasih Uddin and Akram Swati, Islamabad: Institute of Policy Studies, 2009, pp.xii-xv.
No comments:
Post a Comment