Search This Blog

Sunday, 29 January 2012

پروفیسرفوادسیزگین: اسلام کی علمی روایات کے امین


 پروفیسرفوادسیزگین: اسلام کی علمی روایات کے امین

ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی ٭

بیسویں صدی مسلمانوں کے سیاسی وعلمی عروج وزوال کی صدی رہی ہے۔اس صدی کے پہلے نصف میں مسلمانان عالم علمی وتحقیقی اورسیاسی ومعاشی زوال کی انتہاکو پہنچ رہے تھے ،وہیں اسی صدی کے نصف ثانی میں انہوںنے علمی وتحقیقی میدان میں عروج وارتقاءکی ایک دوسری داستان لکھی چنانچہ جہاںبہت سارے مسلم ممالک نے استعمارکے چنگل سے نجات پائی ،وہیںفکروتحقیق کے میدان میں بہت سے لوگ پیداہوئے جنہوں نے علم وتحقیق ،تصنیف وتالیف اوربحث ورسرچ کی ان تابندہ روایات کو پھرسے زندہ کیاجو کبھی اسلاف کا طرہ امتیاز ہواکرتی تھیں۔ان بڑی اورعظیم محقق شخصیات میں ڈاکٹرمحمدحمیداللہ ،(پیرس) کے علاوہ پروفیسرفوادسیزگین وغیرہ جیسی شخصیات بھی ہیں جن کو علوم اسلامیہ کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے پر فیصل ایوارڈ سے نوازاگیا۔اگلی سطورمیں انہیںڈاکٹرفوادسیزگین (ترکی ) کا مختصرتعارف کرانامقصودہے۔البتہ ان کے گھریلوحالات راقم کو تلاش کے باوجود نہیں مل سکے۔

فواد سیزگین (Fuat Sezgin)چوبیس اکتوبر1924کو ترکی کے مقام بطلس میں پیداہوئے ۔ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے علاقہ میںپانے کے بعدوہ استنبول آگئے ،جہاںانہوںنے جامعہ استنبول میں داخلہ لیااور1947میں انہوںنے اس کی فیکلٹی آف آرٹس سے گریجویشن کیااوریہیں سے اےم اے کیا۔اورعربی زبان وادبیات میں 1954میں اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ۔جس کے نگراں جامعہ استنبول میں اسلامی علوم اورعربی ادبیات کے ماہر ایک جرمن مستشرق پروفیسرہیلمٹ رٹر(Hellmut Ritter)تھے۔رٹراپنے اس شاگردپر بہت شفقت کرتے تھے ۔ان کے مشورہ سے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے فواد سیزگین نے بخاری کے مصادرکا موضوع منتخب کیا۔
مصادربخاری پر اپنے تحقیقی کام میں انہوںنے ثابت کیاہے کہ امام بخاری ؒنے مکتوبہ ومدونہ مصادرومراجع پر اعتمادکیاہے نہ کہ صرف زبانی روایات اورمراجع پر جیساکے مشہورعام ہے۔پی ایچ ڈی کے بعد فواد سیزگین اسی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہوگئے ۔ان سے قریبی زمانہ میں ایک اورمشہورجرمن مستشرق کارل بروکلمن نے عربی اوراسلامی ادبیات پر تاریخ آداب اللغة العربیہ کے نام سے ایک مبسوط کام کیاتھا۔گرچہ کارل بروکلمن ترکی آتے جاتے رہتے تھے مگرمعلوم ہوتاہے کہ مشرقی اورمسلمان علماءسے ان کا کبھی انٹرایکشن یاتبادلہ خیال نہیں ہوا،کیونکہ ان کی کتاب یوں تو بہت تحقیقی ،مستنداورجامع سمجھی جاتی ہے مگراس میں صرف یوروپی مصادرومراجع سے کام لیاگیاہے اورمسلمان علما کی کتابوں کا کوئی ذکراذکارنہیں ہے ۔کتاب کے اس خلاءکے باعث وہ ناتمام کتاب ہے اوراس خلاءکوپر کرنے کی یوروپی اسکالروں نے کئی کوششیں کی ہیں۔چنانچہ 1950میں اس کتاب کی تکمیل اورکمیوںکی تلافی کا کام کئی محققین کی ایک ٹیم نے مل کرکیااوراس منصوبہ کو UNISCOنے فنڈفراہم کیانیز برل پبلشنگ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری لی ۔اس طرح یہ کام پہلے سے بہترتوہوگیامگرابھی بہت کچھ اصلاح کی ضرورت باقی تھی ۔کارل بروکلمن کی اس کتاب کا مطالعہ بالاستیعاب جب فوادسیزگین نے کیاتو اس کے نقائص ان پر اچھی طرح واضح ہوگئے اورانہوںنے تلافی مافات کے لیے کمرکس لی ۔ان کی مشہورعالم کتاب تاریخ التراث العربی(عربوںکی میراث علمی کی تاریخ) اسی طرح منصہ شہودپر آئی ۔یہ کتابی سلسلہ ابھی جاری ہے اس کی پندرہ جلدیں طبع ہوچکی ہیںاوردوپر وہ کام کررہے ہیں ۔پوری کتاب سترہ جلدوں میں آئے گی ۔فوادسیزگین مطالعہ وتحقیق کے آدمی ہیں اوراسی کے لیے وقف ۔اپنے استادوں میں انہوںنے پرفیسررٹرکا اثرسب سے زیادہ قبول کیاہے۔جنہوںنے ان کو مشورہ دیاتھاکہ اگر”وہ واقعی اسکالربنناچاہتے ہیں تو ان کو سترہ گھنٹے یومیہ پڑھناچاہےے“۔انہوںنے استادکی اس بات کو گرہ سے باندھ لیااورآج تک اس پر عمل پیراہیں ۔اورآج بیاسی سال کی عمرمیں بھی وہ چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔رٹرسے ملاقات کو وہ اپنی زندگی کا اہم موڑمانتے ہیںاوراسے The time when I was born again(ایسالمحہ جب میں دوبارہ پیداہوا)کہاکرتے ہیں۔ایک دن انہوںنے رٹرسے معلوم کیاکہ کیاعربوںاورمسلمانوںکی تاریخ میں ریاضیات کے میدان میں کوئی بڑانام نہیںہے؟رٹرکوحالانکہ یہی پڑھایاگیاتھاکہ مسلمان اورعرب ایک جاہل قوم ہیں اورانسانی تاریخ میں ان کاکوئی بڑاکارنامہ نہیں۔مگررٹرایک منصف مزاج آدمی تھے انہوںنے فوادسیزگین کو بتایاکہ ایک نہیں کئی کئی بڑے نام ہیں۔بس پھرکیاتھا ان کے دل کو ےہ بات لگ گئی اورانہوںنے اس موضوع پر مطالعہ وتحقیق شروع کردی ۔جس کا نتیجہ ان کی کتاب Natural Sciences in Islamہے ۔یہ کتا ب پانچ جلدوںمیں ہے اوراس میں انہوںنے سائنسی علوم میں مسلمانوں اورعربوںکے کارناموں کونہایت مستندمصادرومراجع کی بنیادپر بیان کیاہے۔رسرچ وتحقیق کے لیے وہ انہوںنے جرمنی کا سفربھی کیا۔
فوادسیزگین ترکی کی جامعہ استنبول میں پڑھارہے تھے کہ 27مئی 1960میں ملک میں فوجی بغاوت ہوگئی اورنئی حکومت نے بغیرکسی سبب کے یونیورسٹی کے 147پروفیسروںکو برخواست کردیا۔اگرچہ ان کے دوچھوٹے بھائیوں کو بھی حراست میں لے لیاگیاتھا مگرسیزگین نے اس کے باوجودیونیورسٹی میں اپنے فرائض انجام دینے جاری رکھے۔ایک دن وہ صبح صبح یونیورسٹی جارہے تھے کہ ہاکرنے ان کو اخبارپکڑادیاجس میں یہ خبرتھی کہ نئی حکومت نے یونیورسٹی کے 147پروفیسروںکو برخواست کردیاہے۔اس بارے میں وہ لکھتے ہیں: میں ترکی چھوڑنانہیں چاہتاتھامگراس کے علاوہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں بچاتھا”وہ یہ خبرپڑھ کرسلیمانیہ لائبریری گئے اوروہاں بیٹھ کرامریکہ اوریوروپ میں اپنے دوستوںکو خطوط لکھے کہ نئے حالات میں ترکی میں رہ کران کے لیے کام کرناممکن نہیں رہا،کیاوہ ان کو کوئی موقع دیں گے ۔ایک ماہ کے اندراندرکئی جگہوں سے مثبت جواب آئے ۔انہوںنے جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی جاناپسندکیا۔جہاں وہ اس سے پہلے بھی کئی بارجاچکے تھے ۔جس دن ان کو روانہ ہوناتھا اس کے بارے میں وہ بہت جزباتی ہوگئے ،لکھتے ہیں: ترکی سے اپنی روانگی کی شام میں ”گلاتابرج کے قراقوے“ (استنبول کا ساحلی علاقہ )کی جانب گیا۔میں 15,20منٹ تک ”اوسکدار“(استنبول کی ایک گنجان آبادمیونسپلٹی) کو دیکھتارہا۔یہ رات بڑی خوبصورت تھی مگرمیرے آنسوبہ رہے تھے ،میں ناراض نہیں مگرغم زدہ ضرورتھا۔“
اس کے بعد وہ وہ جرمنی چلے گئے اور1962سے فرینکفرٹ یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچرارکی حیثیت سے کام شروع کردیا۔1965میں انہوںنے عرب سائنس کی تاریخ پر پھرپی ایچ ڈی کی اوراسی سال اپنی وہ مشہورکتاب لکھنی شروع کی جس کا ذکراوپرآچکاہے ۔یہ کتا ب انہوںنے جرمن میں لکھی جس کا نام ہے: Geschechte des arabischen shehrefttrmsاس کتاب کا موضوع اسلامی علوم کی تاریخ ہے جس کا انگریزی نام ہے :History of Arabi-Islamic sciences and technology in the Islamic world اردومیں اسے اسلامی عربی سائنسی وٹیکنالوجی کے علوم کی تاریخ کہیں گے ۔اس کا عربی ترجمہ ہوچکاہے اورمتداول ہے ۔اوراسی کی بنیادپر ان کو فیصل ایوارڈ کے لیے منتخب کیاگیا۔اس کی پہلی جلدمیں عربی واسلامی علوم ہیں جن میں مذہبی علوم بھی شامل ہیں۔1970میں اس کی دوسری جلد شائع ہوئی جس میںطبی علوم سے بحث کی گئی ہے۔1971میں تیسری جلدآئی جس میں علم کیمیا،کیمسٹری جیسے علوم ہیں،چوتھی جلد1974میں آئی جس میں ریاضی ہندسہ اورہیئت فلکیات ،علم نجوم وغیرہ علوم کا ذکرہے۔1978میں اس کی وہ جلدمنظرعام پر آئی جس میں شاعری ،عروض،نحووصرف اوربلاغت اوردوسرے لغوی علوم کا تذکرہ ہے۔یہ کتابی سلسلہ ابھی جاری ہے۔اس کتاب کی اہمیت اوراستنادکامرتبہ یہ کہ پاکستان کے ایک بڑے اسکالراوردانشورڈاکٹرمحموداحمدغازی نے کہاتھاکہ” یہ کتاب اس قابل ہے کہ اس کے براہ راست مطالعہ کے لیے جرمن زبان سیکھ لی جائے“(ملاحظہ ہوماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیادڈاکٹرمحموداحمدغازی جنوری فروری ۲۰۱۱الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ پاکستان )
پروفیسرفوادسیزگین ا ب دنیاکے ایک بڑے تحقیقی ادارے Institute of Historical Arab-Islamic Sciesnes at John wolfgang Goethe Univirsity Frankfurt Garmanyکے بانی وصدرہیںاوراسی یونیورسٹی میں Natural scienesمیں پروفیسرآف امیرٹس ۔یہ ادارہ عرب مسلم تاریخی کلچرپر رسرچ وتحقیق کرتاہے۔سیزگین کہتے ہیںکہ مسلم سائنس کا دورعروج آٹھویں صدی عیسوی سے سولھوی صدی تک رہاہے ۔یوروپی اسکالر آج سیزگین کو Conqueror of a missing treasure(مخفی خزانہ کا فاتح )کہتے ہیں۔کیونکہ انہوںنے مغرب کے قرون مظلمہ(یعنی اسلامی دور)کے تصورکو غلط ثابت کردیاہے اوربتایاہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس دراصل مسلمانوں اورعربوں کی ہی رسرچ وتحقیق کا ثمرہ ہے ۔اورقرون وسطی کے جن ادوارکو مغرب والے تاریک دورکہتے رہے ہیں وہ اسلامی سائنس کا عہدہے اوراس کو تاریک دورقراردیناجہالت اورتعصب ہے ۔اب وہ ایک اورکتاب پر کام کررہے ہیںجو پانچ جلدوںمیں ہوگی اورمسلم تاریخ کے مختلف گوشوں کااحاطہ کرے گی ۔
پروفیسرسیزگین روانی سے عربی ،ترکی ،انگریزی اورجرمن بولتے ہیں البتہ ان کی تحریری زبان جرمن ہے ۔آغاز میں وہ ترکی میں پڑھاتے تھے مگرجرمنی جانے کے بعدجلدہی انہوںنے جرمن پر عبورحاصل کرلیا۔انہوںنے اسلامی ٹیکنالوجی اورسائنس پر ایک میوزےم بھی بنایاہے جس میں مسلم سائنس کے نادرنمونے ،نقشے ،خریطے ،جدولیںاورسائنسی آلات واصطرلاب وغیرہ جمع کیے ہیں۔اس کے علاوہ وہ جرمنی اورترکی نیز مغرب میں مختلف جگہوں پر مسلم سائنس کی نمائش بھی لگاچکے ہیں۔اس کے علاوہ ایک ترکی مو ¿رخ زکی ولیدی طوغان کے ساتھ مل کر انہوںنے ترکی میں بھی Islamic Science Research Instituteقائم کیاہے۔انہوںنے مسلم نقشہ نویسوںپر بھی کام کیاہے اورساتویں صدی میں عرب اسلامی علوم اوران کے یونانی مصادرپر بھی ان کی گہری نظرہے اوراس موضوع پر وہ جرمن وترکش میں سینکڑوں مقالات تحریرکرچکے ہیں۔

فوادسیزگین جرمنی کے معروف مجلہ Journal for the History of Arab-Islamic Sciencesکے ایڈیٹربھی رہے ہیں۔ان کی تحقیق کے مطابق عرب سیاح اورملاح 1420میں ہی امریکہ پہنچ چکے تھے ۔مختلف نقشوں اورجغرافیائی خریطوںاورآ ثارقدیمہ کے نمونوںکے مطالعہ سے انہوںنے یہ بات ثابت کی ہے۔ان کو 1978میں علوم اسلامیہ کی خدمت کے سلسلہ میںعالم اسلام کا باوقارانعام فیصل ایوارڈ دیاگیا۔ان کے ساتھ ایوارڈ پانے والوںمیں مولانامودودی ؒ بھی تھے جنہیں اسی سال اسلامی خدمات کے لیے یہ ایوارڈ دیاگیاتھا۔فیصل ایوارڈ کے علاوہ ان کو جرمنی کا مشہورانعامThe great medal for distinguised sciences of the federal republic of Garmany بھی دیاگیا۔وہ ترکی اکیڈمی برائے علوم ،مجمع اللغة العربیہ ،دمشق ،قاہرہ ،اوربغدادکے ممبرہیں۔جن کا ممبرہوناایک اعزاز کی بات ہے ۔اس کے علاوہ اکیڈمی آف سائنس مراکش کے رکن ہیں۔اس طرح پروفیسرفوادسیزگین اسلامی وعربی علوم کے میدان میں ایک منارہ نورہیں اوراسلاف کی علمی روایتوںکے امین ،جن کے چراغ سے
کتنے ہی چراغ جلےں گے اورجن کی تابانی سے کتنے ہی نقوش روشن ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment