Search This Blog

Wednesday 1 February 2012

امراض ملت کی دوا

امراض ملت کی دوا (کاشف عمران شاہ ہاشمی)

انبیاءعلیہم السلام اپنے ادوار میں اپنی قوموں پر مبعوث ہوئے اُن کو آسمانی صحائف اور الہامی کتب دی گئیں جن سے قوموں کی حالت بدلنے کا عظیم کام انجام دیتے رہے ۔آخر میں حضور ﷺ پر دین اکمل اور نعمتیں تمام ہو گئیں، سراپا ئِ ہدایت فرقان حمید قرآن مجید کی صورت میں دنیا کا سب سے کامل ترین انقلاب حضورﷺ لے کر آئے ۔ بقول مولانا حالیؒ :-
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اُن کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رُخ ہوا کا

اللہ نے زمانے کو حتمی انقلاب سے تبدیل کرنے کا جو نسخہ کیمیا (قرآن مجید) نازل کیااس کا آغاز لفظ ” اقرائ“
سے ہوا ۔ اسلام نے تو آغاز ہی تعلیم اور پڑھنے سے کیا ۔جہالت کے اندھیروں کو علم کے نور سے منور کر کے زندگی کے ہر شعبہ میں تبدیلی کا آغاز کر دیا۔متفرق پہلوﺅں سے دنیا کی مختلف چیزوں کا جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کا ادراک ہو گا کہ علم انسان کے اندر بسنے والی دنیا کو تبدیل کر تا ہے۔جب انسان اپنے ہی اندر سے تبدیل ہو جاتا ہے تو باہر کی تبدیلی مشکل نہیں رہتی ۔فکری انقلاب کے لیے موثر ہتھیار تعلیم ہے ۔بغیر شعور کے انسان کی سوچ محدود ہوتی ہے اور خوابیداہ صلاحیتیں منجمد رہتی ہے ۔تعلیم سے تطہیر فکر سے عقائدو نظریات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے باظنی مفاسد و رذائل کے خاتمے (تزکیہ نفس) کے لیے بھی علم ہی موثر ذریعہ ہے ۔ تعمیر سیرت کے لیے تعلیم ہی واحد راستہ ہے ۔ بغیر علم و شعور کے جہالت انسان کو حیوانات سے بھی بدتر بنا دیتی ہے ۔ اسلام جہالت کو کفر سے زیادہ براسمجھتاہے اور ”مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّور“کے لیے علم کو روشنی(ذریعہ نجات )قرار دیتا ہے ۔

ہر مسلمان مردو عورت پر اتنا علم فرض کیاگیا جس سے حلال و حرام ،جائز و ناجائز اور اچھے برے کی تمیز ہو سکے۔حصول علم کے لیے عقل و شعور کی بہترین نعمتیں انسانی جسم کو عطاکی گئیں۔ اعضائے جسمانی مثلاًحواس خمسہ (آنکھ ،منہ ،کان ،ناک اور ہاتھ وغیرہ) بھی علم کے حصول میں معاون ہیں ۔مگر عقل و دماغ ان میں بدرجہ اولیٰ حیثیت رکھتے ہیں۔تعلیم شعور کو بیدار کرتی ہے عقل پر پڑے ہوئے پردو ںکو ہٹاتی ہے سوچ کی سمت کا تعین کرکے مقصد و منزل کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔حصول منزل کے لیے ارادوں کو مضبوطی ، حوصلوں کو بلندی اور پختگی عطا کرتے ہوئے شوق و لگن پیدا کرتی ہے ۔تعلیم زندگی کو ولولوں ،امنگوں اوراعلیٰ جذبات سے سرفراز کرتی ہے ۔اخلاق و بردباری ،سچائی، پاسِ عہد ،امانت ،انصاف ،نظم و ضبط ،خود داری ،شائستگی،ملنساری ،ہمدردی ،احسان اور بے لوث خیرخواہی سکھاتے ہوئے تنگ نظری ،کج فہمی ، بد خواہی ، جھوٹ ، فریب ،ظلم و ناانصافی ،حسد و شماتت ، تلون مزاجی اور دیگر اخلاقی گراوٹوں سے پاک کرتی ہے۔

تعلیم اپنے حق پر قناعت اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا احساس دلاتی ہے ۔ معاشرتی ناہمواری اور طبقاتی تفریق کی نفی کر کے ہر فرد کے صحیح مقام و منصب اور ذمہ داری کا تعین کرتی ہے ۔جب اسلام کا ظہور ہوا تو اُس وقت دنیا میں رائج دیگر نظام ہائے حیات سے ہٹ کر اسلام نے اپنا علیحدہ نظام متعارف کرایا جس کی اصطلاحات (Terminology)بھی دوسروں سے الگ رکھیںتاکہ علم و شعور اور جہالت و ظلمت میں فرق ہو سکے۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اسی لیے قرآن مجید کا ایک نام ”الفرقان “(حق و باطل میں فرق واضح کرنے والا )بھی ہے۔حضورﷺ نے زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اپنی ذات مبارک کو احسن نمونہ کے طور پر دکھایااور وہ لوگ جو صحرا نشیں تھے ان کی زندگیوں میں زبردست انقلاب بپا کردیا۔ آج کی نوجوان نسل کے لیے علامہ اقبال نے اسلاف کو ”آئیڈل“کے طور پر پیش کرتے ہوئے ”خطاب بہ نوجوانان اسلام“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اَسلاف کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے آخر میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارا اصل اثاثہ تو اُن کی تعلیمات تھیں جو آج اغیار کے پاس ہیں۔


کبھی اے نوجواں مسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیاگردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے پالا ہے اُس قوم نے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاﺅں میں تاجِ سرِ دارا
تمدن آفریں ، خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب ‘ یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں الفقر فخری کا رہا شانِ امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تم سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاںگیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے ، کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار ، وہ کردار ، تو ثابت ، وہ سیارا
گنوا دی ہم نے اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کہ آئینِ مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

اگر ہم انقلاب کے داعی ہیںتو ہمارے لیے اپنے اَسلاف کی نصیحت آموز تعلیم کے ساتھ دَورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے ۔ پوری ملت کے امراض (جہالت اور تعصبات ، بھوک افلاس،غربت ،معاشرتی ناہمواری ، طبقاتی ،لسانی اورعلاقائی تفریق )کے فاسد خون کو تعلیم کے نشتر سے پاک کیا جا سکتا ہے۔

اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر

No comments:

Post a Comment