Search This Blog

Wednesday 1 February 2012

کیا تبدیلی تعلیم سے ممکن ہے؟ (شاہد اقبال شامی)

کیا تبدیلی تعلیم سے ممکن ہے؟ (شاہد اقبال شامی)

انسان اور اقوام عالم نے طاقت تین طرح سے حاصل کی،سب سے پہلے جسمانی طاقت تھی جس نے وقت کے ساتھ اسلحے کی طاقت اورایٹمی طاقت کا اندازاختیار کیا،دوسری دولت کی طاقت جس کے بل پر سب کچھ حاصل کیا جاسکتا تھا،تیسری علم کی طاقت جس کے بل پر کبھی ایک تہذیب نے عروج حاصل کیا اور کبھی دوسری نے ....آج مغربی تہذیب کا بول بالا ہے اور مسلمانوں پر زوال آگیا ہے۔اسلام نے علم حاصل کرنے کی جتنی تلقین کی،اتنی کسی اور مذہب نے نہیں کی،اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کی پہلی وحی کا جو نزول ہوتا ہے اس کی پہلی پانچ آیات کا تعلق لکھنے پڑھنے سے ہے۔

اس کے علاوہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعداپنے پیچھے جائیداد،روپیہ پیسہ اور زمینیں نہیں چھوڑی،بلکہ علم کو چھوڑااور فرمایا!" انبیاءکے وارث علماءہیں"آپ نے وارث اپنے عزیزواقارب اور اولاد کو نہ بنا یابلکہ علم والوں کو بنایا،آپ کے بعد آپ کے اصحابؓ نے بھی علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھااور خلفاءکے قریب وہی زیادہ عزت ومرتبہ کے قابل سمجھا جاتا جس کے پاس علم کی دولت ہوتی۔

مسلمانوں نے جب تک علم سے دوستی رکھی،دنیا کے تخت وتاج اس کے قدموں تلے رہے اور جب مسلمانوں نے علم کو چھوڑاتو دنیا کے سامنے رسوا ہو گئے۔ہماری پستی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ! ہم نے اپنے آباءسے جوعلم کی میراث پائی تھی وہ ہم نے کھو دی ،جب تک ہم اس میراث کے امین تھے،تو ہمارے ہاں بوعلی سینا،ابوبکر رازی،البیرونی،محمد موسیٰ الخوارزمی اور جابر بن حیان جیسی عظیم ہستیاں جنم لیتی رہیں،یورپ اورمغرب کے طلباءہماری درس گاہوں میں آکر فیض پاتے رہے۔

جس وقت دنیا بھر میں جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی،اس وقت صرف مسلمان علم وآگہی کا نور پھیلاتے رہے،آج بھی اگر کسی بھی علم کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو اس کے آغاز سے پھوٹتی تحقیق پر مسلمان کاہی نام نظر آئے گا،ابن الہیثم کی ریاضی سے لے کر بوعلی سینا کی طب تک کوئی ایسا میدان نظر نہیں آتا جس میں مسلمانوں نے اپنی کارگردگی نہ دکھائی ہو،حتیٰ کہ روشنی کی رفتار سے لے کرانعکاس اور انعطاف نور تک،نظریہ دوران خون،انسانی اعضاءکے آپریشن،آلات جراحی تک،آنکھ کی ساخت سے لے کر طبعی ترازو تک،کثافت اشیاءسے چشموں کے بہنے اور قطب نما سے لے کر موسیقی کی سروں تک،عمل تقطیر،عمل کشید،شورے کا تیزاب،گندھک کا تیزاب،نمک کا تیزاب ،دھاتوں کے بننے کا نظریہ،سونے اور چاندی کا محلول،ریاضی میں اکائی کا قاعدہ،جذر،الجبرا،جیومیٹری،مساوات،طریقہ کار،جمع،تفریق،ضرب،تقسیم اور اس کے علاوہ کیلنڈر بھی ایک مسلمان عمر خیام نے بنایا۔


یہ سب کچھ مسلمانوں نے ایجاد کیا،جس سے آج دنیا مستفید ہو رہی ہے ،اور دوسری قوموں پر حکمرانی کر رہی ہے،تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ بنانے والی قوم اس وقت کیوں کسمپرسی کی زندگی کیوں گزار رہی ہے؟پوری دنیا میں صرف اس ہی پر کیوں مشکلات آئی ہوئی ہیں؟ اگر دنیا کے ابتدا سے لے کر اب تک کی تاریخ میں نظر دوڑائی جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج تک جس بھی قوم نے علم کو اپنا زیور سمجھا وہ ترقی کی اوج ثریا پر جا بیٹھی اور باقی دنیا اس کے قدموں تلے آگئی۔

ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں ،جہاںہر طرف انانیت ،دھوکہ دہی کا دوردورہ ہے ،ہر شخص اپنی فکر میں
مشغول ہے اور حکومت غیر قوموں کے در پر ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے،صرف اپنی فکر میں مگن ہے،ملکی وسائل اور ذرائع ابلاغ فحاشی وعریانی اور مغربیت کے پرچار میں مصروف ہیں۔ان حالات میں نسل نو خصوصی توجہ کی مستحق ہے،وہ نوجوان جن پر ہمارے ملک کا انحصار ہے،ہماری امیدوں،امنگوں اور تمناﺅں کا مرکز ہیں اگر یونہی بے سہارا چھوڑ دیے گئے تو مبادا ساراتابناک مستقبل تاریک نہ ہو جائے،نسل نو کی اصل تربیت گاہ تعلیمی ادارے ہوا کرتے ہیں لیکن ان اداروں سے کیا تواقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں ،جہاں تعلیمی نصاب فرسودہ،بے مقصد اور مغربی نظریات کا آئینہ دار ہو،نظام تعلیم میں جدت پسندی کے نام پر لامقصدیت کی تاریک راہوں پر گامزن ہو؟ہر ملک وقوم کی ترقی کا دارومدار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے،اگر اس کی قوم تعلیم یافتہ ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی،ترقی یافتہ ممالک میں جو بنیادی بات دیکھنے میں آئی ہے،وہ ڈسپلن اور قانون کی حکمرانی ہے ، جو کہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔

جنوبی ایشیاءمیں برطانوی تعلیمی پالیسی کا بانی چارلز گرانٹ تھا،وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اور اپنے فرائض کی بجا آوری کےلئے بڑا نیک نام رکھتا تھا،بنگال میں اس کی زندگی کا اسلوب پہلے تو بڑا عیاشیانہ تھا لیکن بعد میں وہ عیسائی مبلغ بن گیا اور اس نے پورے ہندوستان کو عیسائی بنانے کی منصوبہ بندی کی،اس سلسلے میں اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں1813ءکو مغربی علوم کے علاوہ عیسائیت کی تبلیغ کےلئے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی قراردار منظور کرا لی۔ہم آج تک اس کی غلامی سے آزاد نہ ہوسکے ۔ ناکامی کی اصل وجہ اس کا گھسا پٹا نظام تعلیم ہے،آج63سال گزر جانے کے باوجود بھی  نظام تعلیم کے حوالے سے کوئی موثر پالیسی نہیں بنائی گئی،بلکہ آج بھی اس کے تعلیمی اداروں میں لارڈمیکالے کا نافذ کردہ تعلیمی نظام چل رہا ہے

درحقیقت یہ وقت انقلاب کا ہے اور انقلاب آ سکتا ہے تو صرف اور صرف تعلیم ہی ایک ایسا شعبہ ہے جس کے ذریعے انقلاب کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے،دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں تعلیم ہی سے اپنے اہم ترین مقاصد حاصل کر رہی ہیں،اگر ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو تعلیم کے شعبے پر بھر پور توجہ دینا ہو گی۔دنیا کے ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے ،

No comments:

Post a Comment