Search This Blog

Monday, 20 February 2012

خواتین کی آزادی عہدرسالت میں ایک جائزہ

قاضی فرزانہ تبسم


خواتین کی آزادی عہدرسالت میں
ایک جائزہ

شیخ ابوعبدالرحمن عبدالحلیم محمد ابوشقہ کی کتاب ‘‘خواتین کی آزادی عہدرسالت میں’’ ہمارے سامنے ہے۔ اِسے عربی سے اُردو میں منتقل کرنے کا فریضہ جناب شعبہ حسنین ندوی نے انجام دیا ہے اور المعہدالعالمی للفکرالاسلامی (IIII)، امریکہ نے اِسے شائع کیا ہے۔ کتاب کامرکزی موضوع یہ سامنے آتاہے کہ عہدرسالت میں تمام مسلم خواتین پردہ و حجاب کی بندشوں سے آزاد تھیں۔ پردہ صرف ازواج مطہرات کے لیے تھا۔ عام خواتین محرم و غیرمحرم مردوں سے آزادانہ ملتی تھیں۔ بعد میں علمائ نے اپنے طورپر عام مسلم عورت پر پردہ مسلط کردیا۔ اسے چار دیواری کے اندر قید کرکے عضوِ معطل بنادیا۔ آج حدود حجاب میںرہتے ہوئے بھی نہ معاشرتی و دینی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کی آزادی ہے اور نہ حسبِ ضرورت وہ کسی سے بات کرسکتی ہے نہ حصول معاش کی اسے آزادی ہے اور نہ کسی معاملے میں وہ مشورے دے سکتی ہے۔ اس کے سارے حقوق واختیارات غصب کرلیے گئے ہیں۔ چنانچہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم عورت کو تقریباً وہ تمام آزادیاں عطا کی جائیں، جو غیرمسلم معاشروں میں اُسے حاصل ہیں۔

کتاب پڑھ کر کوئی بھی مصنف کی ‘‘چابکدستی، ہشیاری اور عرق ریزی’’ کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتاب میں مصنف بظاہر دینی احکام کا بہت لحاظ رکھتے ہوئے نظرآتے ہیں اور قرآن ، احادیث اور عہد رسالت و مابعد عہدرسالت کے بے شمار واقعات اپنے انداز میں پیش کرکے اپنے موقف کے لیے دلیل فراہم کرتے ہیں،لیکن جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پوری کتاب ناقص انطباقات، الٹی سیدھی اور پیچیدہ بحثوں اور تضادات کا مجموعہ ہے۔ عہدنبوی یا مابعد عہدرسالت کے واقعات اور روایات نقل کرنے کے پیچھے منشا یہ نظرآتاہے کہ کسی واقعے میںبس مرد کے ساتھ عورت کا ذکر آجائے اور ان کے درمیان بے تکلفانہ ملاقاقت اور بات چیت ظاہر ہوجائے۔ تاکہ کسی طرح اپنے موقف کو صحیح ثابت کیاجاسکے۔ قطع نظراس سے کہ متذکرہ مرد و عورت کاآپسی رشتہ کیاہے، عورت سگی یا رضاعی ماں، بہن ہے یا خالہ پھوپھی ہے یا لونڈی ہے یا بوڑھی یا کمسن ہے۔ واضح ہوکہ بیشتر روایت کردہ احادیث اور واقعات میں افراد کے صرف نام ہوتے ہیں، ان کے درمیان رشتوں کی صراحت نہیں ملتی ہے۔ قبل حکم حجاب کے واقعات سے بھی مصنف نے خوب مدد لی ہے۔ زیادہ تر وہ واقعات نقل کیے گئے ہیں، جن میں خواتین کا رسولﷺکی خدمت میں جانے اور آپ سے دینی مسائل پوچھنے کا ذکر ہے۔ ایسے واقعات بھی بطور دلیل پیش کیے گئے ہیں، جن میں راستے میںسربراہِ مملکت سے کسی عورت کے ملنے اور اس کے سامنے اپنے مسئلے یا پریشانی کے رکھنے کاذکر ہے۔ حتیّٰ کہ حج اور جہاد کے زمانے کے بکثرت واقعات بطور دلیل پیش کیے گئے ہیں۔

ازواج مطہرات کی پوزیشن
قرآن میںازواج مطہرات کو مخاطب کرکے حجاب کے جواحکام دیے گئے ہیں، آزادی نسواں کے حامیوں کو اپنی بات پیش کرنے کا سنہرا موقع ہاتھ آگیا۔ اسی کی بنیاد پر وہ لکھتے اور کہتے رہتے ہیں کہ حجاب اور گھروں میں قرار سے رہنے کے احکام صرف ازواج مطہرات تک محدود ہیں۔ عام عورتیں ان احکام سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ حضرات اس حقیقت سے صرفِ نظر کرلیتے ہیں کہ قرآن میں ہی دوسرے مقام پر اور احادیث میںبھی تمام عورتوں کو احکام حجاب دیے گئے ہیں۔ وہ آیات جن کی بنیاد پر مسلم عورتوں کو پردہ وحجاب کے احکام سے مستثنیٰ کرکے اُنھیں صرف ازواج مطہرات تک محدود کیاجاتا ہے، یہ ہیں:
 ’’نبی کی بیویوں ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہواگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو۔ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دَور جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔ یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں، بے شک اللہ لطیف اور باخبر ہے’’۔                                                                     ﴿الاحزاب : ۲۳ ۔ ۴۳

’’بالیقین جو مرد اور عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے’’۔                                                  ﴿الاحزاب: ۵۳
آیت: ۳۵ میں فرمایاگیا ہے کہ ‘‘نبی کی بیویوں سے اگر تمہیں مانگناہوتو پردے کے پیچھے سے مانگاکرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے’’۔
اس ضمن میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ
’’اے نبی ! اپنی بیویوں بیٹیوںاور تمام اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر کے پلو لٹکالیاکریں’’۔                                                                      ﴿سورۂ الاحزاب: ۹۵

اِس میں تمام مسلم عورتوں بشمول نبی کی بیویوں ، بیٹیوںکو اپنے اوپر چادر لٹکانے کا جو حکم دیاگیا، کیا یہ درج بالاحکم ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے اور ان کے سلسلے میں دی گئی ہدایات ‘‘ازواج مطہرات سے پردے کے پیچھے سے بات کرنے، ازواج مطہرات کامردوں سے دبی زبان سے بات نہ کرنا اور گھروں میں قرار سے رہنا’’ سے منسوخ ہوکر صرف ازواج مطہرات تک محدود ہوگیا؟ کیونکہ مصنف اور ان جیسے دیگر حضرات اپنے اس موقف یعنی حجاب ازواج مطہرات کے لیے مخصوص ہے، کے لیے یہی ‘‘منصوص’’ دلیل پیش کرتے ہیں اور الاحزاب کی آیت ۹۵ کو یکسرنظرانداز کردیتے ہیں۔ اس سے یہ محسوس ہوتاہے کہ شاید ان حضرات کے نزدیک تمام عورتوں کو اپنے اوپر پردہ لٹکانے کاحکم مذکورہ بالا ہدایات سے منسوخ ہوگیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تمام عوتوں بشمول نبی(ص)کی بیویوںاور بیٹیوں کو حجاب ڈالنے کا جو حکم دیاگیا، وہ مذکورہ بالا احکام کے بعد دیاگیا نہ کہ پہلے۔ اگر پہلے دیاجاتا تو منسوخ ہونے والی بات کچھ حد تک بن بھی سکتی تھی۔

بات دراصل یہ ہے کہ سورۂ الاحزاب میں نبی (ص) کی بیویوں کو مخاطب کرکے جو ہدایات دی گئیں، وہ اس پس منظر میں تھیں کہ اس وقت مدینہ کے منافقین و منافقات ازواج نبی (ص)کوالجھانے کی زبردست سازشیں کررہے تھے کہ اگر نبی (ص) کی بیویوں ہی سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوجائے تو ایک زبردست حربہ ان کے ہاتھ آجائے گا۔ واقعہ اِفک میں حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانا بھی اسی سازش کی ایک کڑی تھی۔ اس لیے ان آیات میں براہ راست ازواج نبی کو مخاطب کرکے کچھ احکام دیے گئے، کچھ نصیحتیں کی گئیں اور پس پردہ منافقین کو متعوب کیاگیا۔ کیونکہ نبی کی بیویوں ہی کو تاقیامت تمام مسلم عورتوں کے لیے نمونہ بننا تھا۔ان کی معمولی کی کوتاہی یا غلط فہمی کہیں دوسری خواتین کی بدعملیوں کے لیے جواز نہ بن جائے۔ ان احکام و ہدایات میں کہیں بھی اس بات کا اشارہ تک نہیں ہے کہ یہ احکام صرف ازواجِ مطہرات کے لیے ہیں اور عام عورتیں ان سے مستثنیٰ ہیں۔ جب کہ دبی زبان سے بات نہ کرو گھر وں میں قرار سے رہو، سج دھج نہ دکھاتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو۔ ان احکام کے فوراً بعد تمام مسلم مردوں عورتوں کی مومنانہ صفات بتائی گئیں، جن سے بالکل واضح ہے کہ مذکورہ بالااحکام بھی سب کے لیے ہیں۔ دوسرے یہ کہ نبی کی بیویوں کوتلقین کرنا بالکل اسی طرح ہے، جیسے فرض کریں اگر ہم یہ محسوس کریں کہ کچھ شریر اور بگڑے ہوئے بچے ہمارے بچوں کو کچھ ایسی باتوں میں ملوث کرنا چاہتے ہیں کہ ان سے کچھ غلطیوں کا صدور ہوجائے تو انہیں بدنام کرنے کا موقع ہاتھ آجائے تو اس صورت میں ہم بجائے ان سے کچھ کہنے کے اپنے ہی بچوں کو نصیحت کریںگے کہ تم عام بچوں کی طرح نہیں ہو، ان سے مت الجھو، درگزر کاطریقہ اختیار کرو، اپنے کاموں میں مصروف رہو، نمازیں پڑھو ، والدین کی خدمت کرو، مطالعہ وغیرہ پر اچھا دھیان دو وغیرہ وغیرہ تو اس سے کیا یہ مطلب اخذ کیاجائے گا کہ جتنی نصیحتیں ہم نے اپنے بچوں کو کی ہیں، وہ انھی کے لیے مخصوص ہیں اور باقی بچے ان سے مستثنیٰ ہیں؟ اسی طرح نبی کی بیویوں کو کچھ ہدایات دی گئیں تو کیا اس بنیاد پران تمام ہدایات سے مسلم عورتیں مستثنیٰ قرار دے دی جائیں؟ ظاہر ہے نبی کی بیویاں کوئی عام عورتیں نہیں تھیں۔ قیامت تک آنے والی تمام مسلم عورتوں کے اعمال کی ذمہ دار بننے والی تھیں۔ عام لوگوں کے اعمال کی ذمہ داری تو صرف اُنھی تک محدود رہتی ہے لیکن داعی اور باشعور و باعلم لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں ان کی ذمہ داریاں وسیع و ہمہ گیر ہوجاتی ہیں۔ ان کی خوبیاں بھی دوسروں کے لیے نمونہ بنتی ہیں اور غلطیاں اور کوتاہیاں بھی۔ اسی لیے نبی کی بیویوں سے بھی کہاگیاکہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔

فریبِ نظر
کتاب میں اگرچہ عورت سے متعلق تمام نصوص جمع کرنے کا دعویٰ کیاگیاہے، لیکن جس آیت میں تمام مسلم عورتوںکو پردے کا حکم دیاگیاہے، اس کا ذکر نہیں کیاگیا۔
یَٰآَٔیُّہَااْْلنَّبِیُّ قُل ِلّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَ نِسَآئِ اْْلْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَ ٰبِیبِھِنَّ ذَالِکَ أَدْنَیٰٓ أَن یُعْرَفْنَ فَلَایُؤْذَیْنَ                 ﴿الاحزاب: ۵۹
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں’’۔

عورتوں کے حجاب سے متعلق شیطان کی آنت کے مانند اِتنی طویل بحث میں یہ آیت ہی غائب ہے۔ شاید حجاب سے متعلق بحث کے دوران موصوف کی نظروں سے وہ اوجھل ہوگئی۔ ان کی خوش قسمتی کہ وہ انہیں نظرنہ آئی اور پھر بھلا کیسے نظرآتی، ان کے تمام دلاطائل لائل پر وہ تیشہ نہ چلادیتی۔ پھر دینی لٹریچر میں اس کتاب کااضافہ ہی نہ ہواہوتا۔ کتاب کی تصنیف کا مقصد ہی فوت ہوجاتا، جو سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ مسلم عورتوں کو بے حجابی اور مردوں سے بے تکلفانہ اور آزادانہ ملاقاتوں کے مواقع حاصل رہیں۔ حتیّٰ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ملاقات کے در بھی کھل جائیں تاکہ وہ رومانس لڑاکر ایک دوسرے کو پسند کریں پھر شادیاں کریں۔ حیرت ہے کہ غیرضروری واقعات کے لیے تو کئی کئی صفحات ضائع کردئے گئے۔ لیکن وہ آیت جو خاص حکم حجاب سے تعلق رکھتی ہے، وہ کتاب میں جگہ نہ پاسکی۔ صرف آخر میں کسی دوسرے مفسّر کی تفسیر میںسے کچھ حوالہ دیتے ہوئے وہ نقل کرنے میںآگئی ، بس اس طرح کہ تفسیر طبری میں تحریر ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہتاہے کہ اے نبی(ص)!اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ باندیوں کی طرح لباس نہ پہناکریں۔ وہ اپنے اوپر چادروں کے پلّو لٹکالیاکریں، تاکہ فاسق یہ دیکھ کر کہ یہ آزاد خواتین ہیں، ان کو زبان سے تکلیف نہ پہنچائے’’۔ ﴿ص :۱۷۵،۲۷۵﴾ یہاں بھی موصوف کی بددیانتی ملاحظہ فرمائیں کہ تفسیر طبری سے حوالہ دیتے ہوئے تفسیر میں تحریر ‘’وہ باندیوںکی طرح لباس نہ پہناکریں کہ سر اور چہرے کھلے ہوئے ہوں‘‘ سے سر اور چہرے کھلے ہوئے ہوں’‘ یہ الفاظ اڑادیئے او رپھر اسی سے استدلال کرتے ہوئے اپنے غلط موقف ہی پراڑے رہتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مدینہ میں بہت سارے منافقین موجود تھے، مدینہ کے باہر سے آکر بہت سارے بدو بھی وہاں آبسے تھے، جن کی ابھی نبوی (ص) تعلیمات کے مطابق مکمل تربیت نہیں ہوسکی تھی، ان تمام لوگوں سے احمقانہ حرکتیں سرزد ہونے، فحش الفاظ کہنے اور عورتوں کو گھورنے سے بڑ ھ کر حرکتیں کرگزرنے کے امکانات موجود تھے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود نبی کریم (ص) نے مسلمان عورتوں کو چہرہ ڈھکنے کا حکم نہیں دیا’’۔ ﴿ص: ۵۷۲

چہرے کاپردہ
حقیقت یہ ہے کہ ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے قرآن میں جو نصیحتیں کی گئیں اور مردوں کو ان سے پردے کے پیچھے سے بات کرنے کا جو حکم دیاگیا،اس سے اس حد تک تو موصوف کی بات بن گئی کہ حجاب کو ازواج رسول (ص)تک محدود کرکے قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔ لیکن اس اہم آیت پر موصوف اور اُن کے موقف کے حامی دیگر حضرات ضرور چیں بجیں ہوں گے کہ یہ نازل ہی کیوں ہوئی۔ اُن کا بس چلتا تو اسے منسوخ ہی کرڈالتے۔ خداوند کریم قرآن کی حفاظت کا ذمّہ نہ لیتا تو وہ آیت ان جیسے حضرات کے ہاتھوں واقعی اب تک حذف بھی ہوچکی ہوتی۔ اسے تو آخر میں غیرضروری جان کر اس لیے نقل کردیاگیاکہ کسی کواعتراض کا موقع نہ ملے کہ وہ آیت کیوں نقل نہیں ہوئی؟ وہ بھی اس طرح کہ قارئین اس پر سے سرسری طور سے گزرجائیں اور کچھ اخذ نہ کرپائیں۔ چنانچہ اتنا صاف اور صریح حکم ہونے کے بعد بھی حجاب کامسلم عورتوں سے ساقط قرار دیاجانا سوائے دھاندلی کے اور کچھ نہیں۔ پھر کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ راستہ چلنے کے آداب کے طورپر برائے استدلال اس آیت کو نقل بھی کررہے ہیں اور مسلم عورتوں کو بے حجاب کرنے پر بھی تُلے ہوئے ہیں۔

صریح غلط بیانی
پھریہی نہیں عام مسلم عورت تو بالکل بے حجاب کرہی دی گئی۔ مصنّف نے بڑی چالاکی کے ساتھ ازواج مطہرات کاحجاب بھی صرف گھر تک محدود کردیا، باہر وہ بھی بے حجاب کردی گئیں، جس کا ایک مضحکہ خیز سبب بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حجاب کا یہ مسئلہ صرف ازواج مطہرات ہی کے ساتھ مخصوص ہے، جس طرح کہ تمام مسلمانوں کے لیے ان سے نکاح کی حرمت کامسئلہ بھی صرف انھی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر ازواج مطہرات حج یا دیگر فرائض کی ادائی کے لیے یا کسی اور اشد ضرورت کے تحت گھر سے نکلتی ہیں تو ان سے فرضیت حجاب ساقط ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں ان کے گھر میں کوئی داخل ہونے والا نہیں ہوتاہے کہ ان پر اس سے حجاب کرنا فرض ہو، کیونکہ وہ سفر میں نگاہوں کے سامنے ہوتی ہیں اور حجاب کی فرضیت تو صرف اس صورت میں ہے جب وہ اپنے گھروں میں ہوں’’۔                                                   ﴿ص :۵۳۱-۵۳۲
یہ اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’حضرت عمر ؓ نے حضرت سودہؓ کے نکلنے پر اس لیے اعتراض کیاکیونکہ انھوںنے یہ خیال کیاکہ تمام حالات میں ازواج مطہرات کی شخصیت کو حجاب اور پردہ میں رکھنا ضروری ہے۔ لہٰذا وحی نازل ہوئی اور اس میں بتایاگیاکہ اگر ازواج مطہرات ضرورت کے تحت گھر سے نکلتی ہیں تو اس وقت ان کی شخصیت کو پردہ وحجاب میں رکھنا واجب نہیں ہے’’۔ ﴿ص: ۵۰۴
کِس وحی کے ذریعے اس طرح کی ہدایت نازل ہوئی کہ ازواج مطہرات کی شخصیت کو گھر سے نکلتے وقت پردہ وحجاب میں رکھنا واجب نہیں ہے؟ مصنف نے اس کاحوالہ نہیں دیا۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے نہ اس نوعیت کی کوئی حدیث ہے۔ جن روایات کو مصنف نے دلیل بنایا ہے، یہ ہیں:
’’ایک مرتبہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رات کے وقت باہر نکلیں تو اُس وقت حضرت عمرؓ نے ان کو دیکھ لیا اور پکار کر کہاکہ سودہ! ہم نے تم کو پہچان لیا‘‘۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھاکہ کسی طرح خواتین کا گھروں سے نکلنا ممنوع ہوجائے۔ اس کے بعد جب احکامِ حجاب نازل ہوئے تو حضرت عمرؓ کی بن آئی۔ انھوںنے عورتوں کے باہر نکلنے پر زیادہ روک ٹوک شروع کردی۔ ایک مرتبہ پھر حضرت سودہ کے ساتھ وہی صورت پیش آئی۔ وہ گھر سے نکلیں اور حضرت عمرؓ نے ان کو ٹوکا، ﴿مسلم میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وہ موٹاپے کی وجہ سے چھپ نہیں سکتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے کہاکہ اے سودہؓ خدا کی قسم تم اپنے تئیں ہم سے چھپانہیں سکتیں﴾ انھوںنے آنحضرتﷺسے شکایت کی۔ حضورﷺنے فرمایا۔ قَدْ اُذِنَ اللّٰہُ وَلَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتَکُنَّ ‘‘اللہ نے تم کو اپنی ضروریات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے’’۔
یہ بخاری ومسلم کی متعدد احادیث کا لب لباب ہے۔ اسی موضوع سے متعلق آگے مزید فضول بحث کرتے ہیں:۔
’’اگرہم فرض کرلیں کہ حضرت عمرؓ پر حجاب کا مذکورہ بالامعنی مخفی رہ گیا تو کیا نبی کریمﷺسے بھی وہ مخفی تھا، یا بات یہ تھی کہ نبی کریم سمجھتے تھے کہ حضرت عمر کے انکار کی کوئی وجہ ہے’’ ۔ ﴿ص:۵۰۴
حجاب کے کتنے معنی ہیں؟ وہ کون سا معنی ہے جو حضرت عمرؓ پر مخفی رہ گیاتھا؟ زبردستی ایک سادہ سی بات کو پیچیدہ بناکر اس پر اُلٹی سیدھی بحث کی جارہی ہے۔ بات بالکل صاف ہے کہ حضرت عمرؓ حکم حجاب نازل ہوجانے کے بعد بھی یہ چاہتے تھے کہ عورتیں حجاب میں بھی گھر سے نہ نکلیں۔ نبی کریم (ص) نے فرمادیاکہ عورتیں بضرورت گھر سے نکل سکتی ہیں۔ بات ختم۔ اتنی سی بات کوجس میں کوئی ابہام نہیں ہے، پیچیدہ بناکر اُس پر اُلٹی سیدھی بحث کرنا اوریہ کہناکہ ‘‘لہٰذا وحی نازل ہوئی اور اس میں بتایاگیاکہ اگر ازواج مطہرات ضرورت کے تحت گھر سے نکلتی ہیں تو اس وقت ان کی شخصیت کو پردہ وحجاب میں رکھنا واجب نہیںہے’’۔ بڑی ہی عجیب بات ہے۔ جب کہ تمام روایات میں صرف اتنا ہی منقول ہے کہ ‘‘تم کو اجازت ہوئی حاجت کے لیے نکلنے کی’’۔ ظاہر ہے حکم حجاب آجانے کے بعد مسئلہ خواتین کے باہر نکلنے یا نہ نکلنے کاتھا نہ کہ حجاب یا بے حجابی کا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حکم حجاب آجانے کے بعد حضرت سودہؓ حجاب کے ساتھ ہی نکلی ہوںگی لیکن موٹاپے کے سبب پہچان لی گئیں۔

آزاد ملاقاتوں کی ترغیب
بظاہرعورتوں سے متعلق مسائل و معاملات اور احکام کا بڑی احتیاط سے احاطہ کرتی ہوئی اس کتاب کے چند اقتباسات کااگر مطالعہ کرلیاجائے تو معلوم ہوجائے گاکہ یہ اقتباسات ان کے مافی الضمیر پر کس طرح روشنی ڈال رہے ہیں۔ بطور نمونہ دیکھیں کہ ‘‘لڑکے لڑکیوں کی آپسی ملاقاتوں کے ذریعے جوڑوں کاانتخاب’’ اس سلسلے میں وہ قارئین کو کیا درس دیتے نظرآرہے ہیں۔کتاب کے ص ۱۸۰پر یہ عنوان ملاحظہ فرمائیں ’’مکمل نگرانی کے ساتھ مراہقت کی عمر میں لڑکیوں کے لیے معاشرتی زندگی میں تھوڑی بہت شرکت اور لڑکوں سے ملاقات کو آسان بنانا’’۔ اور ص ۱۸۱ پر فرماتے ہیں: ‘‘محفوظ فضا میں لڑکیوں اور لڑکوں کی محدود ملاقات کا ان کے دلوں پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے، دونوں اپنے نفس پر کنٹرول کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور بعد کی ان کی ملاقاتیں پاک بازی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ سنجیدہ محفلوں میں اور گھر کی پُروقار فضا میں باربار مخالف جنس کو دیکھنے کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ جو شخص نیک اور صحیح عقل کا مالک ہے، اس کی بے جا شرم اور جھجک چلی جاتی ہے اور جو شخص مریض دل کا انسان ہے، اس کی شہوت کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے’’۔ ص: ۱۷۶پر فرماتے ہیں: ‘‘لیکن آج کل چونکہ وہ خاندانی تعلقات کمزور پڑگئے ہیں ، جن کی بنیاد پر ایک نوجوان کو آسانی سے اچھی اور مناسب بیوی مل جاتی تھی، اس لیے یہ ایک فطری بات ہے کہ شادی کاکوئی دوسرا نیا طریقہ سامنے آئے جو قدیم طریقے کا معاون ہو اور جس طریقے سے ایک نوجوان خود سے اپنی شریک حیات کا انتخاب کرسکے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کو تعلیم کے دوران یا کام کے دوران یا سیاسی و معاشرتی سرگرمیوں کے دوران اس طرح ملنے کے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرسکیں’’۔

انحراف
موصوف کا اصل مدعا یہیں سمجھ میں آچکا ہے کہ وہ بِنا کسی حجاب اور دوسری روک ٹوک کے مردوں اور عورتوں خصوصاً نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے آپس میں عشق ومعاشقہ کرکے شادیاں کروانے کے زبردست حامی و موئد ہیں اور اس کی راہیں وہ پورے طور سے مذہب کے سہارے کھولنا چاہ رہے ہیں۔ شادی کے لیے ضروری قرار دیاجارہا ہے کہ لڑکے لڑکیوں سے ملیں، ان کی شخصیت و اخلاق و کردار کو خود ہی جانچیں۔ ظاہر ہے لڑکی کی شخصیت، اس کے اخلاق ، اس کی خوبیوں کی جانچ کے لیے تو عرصے تک لڑکی سے ملتے رہنا ہوگا۔ اپنے آپ کو ایک دوسرے کے حوالے کردینا ہوگا اور پھر بھی کیا یہ یقین کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے معیار پر پورے اترہی جائیں اور شادی کرلیں؟ بلکہ معیارِ انتخاب پر نہ اترنے کی صورت میںکیا تلاش کا یہ سلسلہ دراز نہیں ہوتاچلاجائے گا؟ اسی لیے تو موصوف اسے ‘‘تلاش کرنے والا مرد’’ نام دے رہے ہیں، جو پسندیدہ بیوی کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھتاپھرتا ہے۔ ایسا تو ہندو سماج میں بھی نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ماڈرن تہذیب کے زیراثر ان کے یہاں کئی شادیاں عشق و محبت کے نتیجے میں انجام پاجاتی ہیں۔ لیکن عام ہندوسوسائٹی اس کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتی۔ ان کے یہاں بھی اپنی اولاد کی مرضی کو پیش نظر رکھ کر والدین ہی انتخاب اور شادی کے دیگر امور طے کرتے ہیں۔ ان کے یہاں بھی عموماً لڑکے اور لڑکی کو اس طرح کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ وہ خود ہی انتخاب کریں، عشق و معاشقے لڑائیں اور شادیاں رچالیں۔ ظاہر ہے انتخاب کی کوشش میں عشق معاشقے ہوں تو پھر شادی کے بعد کے مراحل بھی قبل از شادی ہی انجام پاجائیںگے۔ پھر کہاں رہیںگے وہ شادی سے پہلے کنوارے؟ لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ اختلاط سے متعلق راشٹریہ سیویکاسنگھ ﴿آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تنظیم﴾ کے ایک اجلاس میں سنگھ کے سابق سربراہ کے ایس سدرشن نے کہاتھا کہ ‘‘نوجوان عورتوں اور مردوں کاآزادانہ اختلاط اچھی بات نہیں۔ اس سے سماج میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کو خاص طور سے احتیاط کرنی چاہیے’’۔

مولانا مودودیؒ کاموقف
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اس طرح خود ہی تلاش کرکے شادیاں کرنے کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ‘‘جس تفصیل کے ساتھ رفیق زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف ، مزاج، عادات، خصائل اور ذوق و ذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں، ایسی تفصیلی واقفیت دوچارملاقاتوںمیں، اور وہ بھی رشتے داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر وتفریح، سفر میں ایک ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کافی صدی تناسب کیا ہوگا، جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں یہ مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب و انجذاب کو قابو میں رکھیں گے، جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟ آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدسے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کرچکے ہوں گے اور وہ دو تین فیصد جو اس سے بچ نکلیں گے وہ بھی اس شبہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہوچکے ہوں۔ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہرلڑکا اور لڑکی جو اس تلاش و تحقیق کے لیے باہم خلاملا کریں گے ، وہ لازماً ایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کرلیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ ۰۲فیصد دوستیوں کا نتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔ ۸۰فیصد یا کم از کم ۰۵ فیصد کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ‘‘تعلقات’’ کی کیا پوزیشن ہوگی ، جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی امید پر پیدا ہوگئے تھے اور ان شبہات کے کیا اثرات ہوں گے ، جو ‘‘تعلقات’’ نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہوجائیں گے۔ پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کامیدان لامحالہ وسیع ہوجائے گا۔ ایک ایک لڑکے لیے صرف ایک ہی لڑکی مطمحِ نظر نہ ہوگی، جس پر وہ اپنی نگاہِ انتخاب مرکوز کرکے تحقیق وامتحان کے مراحل طے کرلے گا اور علیٰ ہذالقیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی لڑکاامکانی شوہر کی حیثیت سے زیرامتحان نہ ہوگا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر طرف ایک سے ایک جاذب نظرمال موجود ہوگا، جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور ہرلڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتارہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روزبروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتدائً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں گے وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمایشی شادی پر منتج ہو۔

اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرزکاکورٹ شپ کرتے ہیں ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور ہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے۔ اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کرلیناچاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمان وفا باندھتے ہیں ، اتنی محبت اور گرویدگی کااظہارکرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق و معشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے۔ یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہوکر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں ان توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق ومحبت کے دور میں انھوںنے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزورپہلو آجاتے ہیں، جو معاملات زندگی ہی میں ظاہر ہواکرتے ہیں۔ عشق و محبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے’’۔
                                                                    ﴿رسائل مسائل حصّہ چہارم ص :۸۰ ۔ ۸۲

No comments:

Post a Comment