Search This Blog

Saturday 25 February 2012

1857 ء کی خونچکاں داستاں غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک تشنہ خوں ہے ہر مسلمان کا
1857 ء کی خونچکاں داستاں غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

سرزمین ہند۔وپاک میں انگریزوں کی حکمرانی کا سنگ بنیاد پلاسی کے میدان میں رکھا گیا۔ بعد ازاں قریباً نوے برس میں یہ اجنبی حکومت پورے ملک پر مسلط ہوگئی اور مزید سو برس تک عنان فرنروائی اسی کے ہاتھ میں رہی۔ اس عہد کا ایک نہایت اہم واقعہ 1857 ء کا وہ ہنگامہ خونین تھا جسے اہل وطن ابتدا ہی سے جنگ آزادی قراردیتے رہے ۔ لیکن خود انگریزوں نے اسے ’’غدر‘‘ کا نام دیا۔ یہی نام مدت تک تاریخ کی درسی کتابوں میں استعمال ہوتا رہا۔
مرزا غالب نے اپنی فارسی اور اردو تصانیف نظم و نثر میں اس واقعے پر جو کچھ لکھا اگر اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقین ہے کہ ایک ضخیم جلد تیار ہوجائے ۔ فارسی نثر کی ایک کتاب جس کا نام ’’دستنبور‘‘ ہے صرف اسی واقعہ سے متعلق ہے ۔ لیکن میں آج جو نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ، وہ محض مرزا کے مکاتیب سے جستہ جستہ اقتباسات لے کر تیار کیا ہے ۔
تمہید کے طور پر عرض کر دینا چاہئے کہ اس ہنگامے کا آغاز 11/ مئی 1857 ء کو پیر کے دن ہوا تھا۔ چار مہینے اور چار دن انگریز شہر سے بے دخل رہے ۔ 14/ ستمبر 1857ء کو وہ دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے ۔ 18/ ستمبر کو شہر مکمل طور پر ان کے قبضے میں آگیا۔ مرزا اس پوری مدت میں ایک دن کے لیے بھی باہر نہ نکلے ۔ ان کا مکان بلی ماراں میں تھا جہاں شریک خانی حکیموں کے مکانات تھے ۔ اس خاندان کے بعض افراد سرکار پٹیالہ میں ملازم تھے ۔ جب انگریزی فوج دوبارہ دہلی میں داخل ہوئی تو اہل شہر گھر بار چھوڑ کر دہلی دروازے ترکمان دروازے اور اجمیری دروازے سے باہر نکل گئے ۔ بلی ماراں کے دروازے پر والیٔ پٹیالہ نے شریف خانی خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ بٹھادیا تھا۔ اس طرح مرزا کی حفاظت کا بھی بندوبست ہوگیا اور انہیں گھر بار چھوڑ کر باہر نہ نکلنا پڑا۔
مرزا کے مکاتیب میں اس واقعے کے متعلق سب سے پہلی تحریر نومبر 1857 ء کی ہے جب کہ انگریز شہر پر قابض ہوچکے تھے ۔ حکیم غلام نجف کو لکھتے ہیں :
’’میاں حقیقت حال اس سے زیادہ نہیں کہ اب تک جیتا ہوں ۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ کسی محکمے میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے ۔‘‘
پھر 9/ جنوری 1857ء کو تحریر فرماتے ہیں :
’’جو دم ہے غنیمت ہے ۔ اس وقت تک مع عیال واطفال جیتا ہوں ۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں ۔ قلم ہاتھ میں لیئے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ مگر لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا لللہ وانا الیہ راجعون ۔‘‘
یہ اگرچہ چند فقرے ہیں جن میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن لفظ لفظ بتارہا ہے کہ اس وقت حالات کتنے نازک تھے اور بے یقینی کس پیمانہ پر پہنچی ہوئی تھی۔
یہ ہنگامہ درحقیقت ایک خوفناک زلزلہ تھا جس نے سب کچھ تہہ وبالا کرڈالا۔ جس ماحول میں مرزا نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس گزارے تھے اس کی بساط لپیٹی جاچکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نیا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ مرزا کے دل پر اس وسیع اور ہمہ گیر انقلاب کا اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ 1857ء کے پیشتر کے دور اور بعد دور کو دو الگ الگ عالم سمجھنے لگے تھے ۔ یا کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کے طریق تعبیر کے مطابق ان کے نزدیک ایک جنم ختم ہوگیا تھا، اور دوسرا جنم وجود میں آگیا تھا۔ اپنے عزیز ہندو شاگرد ہرگوپال تفتہ کو تحریر فرماتے ہیں :
’’صاحب۔ تم جانتے ہو کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیا واقعہ ہوا۔ وہ ایک جنم تھا جس میں ہم تم باہم دوست تھے ، اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے ۔ شعر کہے ۔ دیوان لکھے اس زمانے میں ایک بزرگ تھے اور ہمارے تمہارے دلی دوست تھے ۔ منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص۔ نہ وہ معاملات نہ وہ اختلاط نہ و انبساط۔ بعد چند مدت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے ۔ یعنی ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم یہ منشی ہرگوپال و متخلص بہ تفتہ ہو، آیا اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا نام دلی اور اس محلے کا نام بلی ماراں کا محلہ۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں سے نہیں پایا جاتا۔‘‘
میں عرض کرچکا ہوں کہ انگریزی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی اہل شہر باہر نکل گئے تھے ۔ اور پورا شہر بے چراغ ہوچکا تھا۔ انگریزوں نے اس کے بعد عام داروگیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا فرماتے ہیں : ’’مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے وہ نکالے گئے ۔ جاگیردار پنشن دار، دولت مند، اہل حرفہ کوئی بھی نہیں ۔ مفصل لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ ملازمان قلعہ پرشدت ہے ۔ باز پرس اور دارو لیر میں مبتلا ہیں ۔‘‘
’’اپنے مکان میں بیٹھا ہوں ۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے ۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے ۔ شہر میں ہے کون جو آوے ؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں ۔ مجرم سیاست پائے جاتے ہیں ۔ جرنیلی بندوبست (یعنی مارشل لا) یاز دہم مئی سے آج تک یعنی پنجشنبہ پنجم دسمبر 1857ء تک بدستور ہے ۔ کچھ نیک وبد کا حال مجھ کو نہیں معلوم۔‘‘
مرزا کے ایک شاگرد، منشی شیونارائن آرامؔ نے آگرے سے ایک اخبار نکالا تھا۔ مرزا سے استدعا کی کہ اس کے لیے خریدار بہم پہنچائیے ۔ جواب میں فرماتے ہیں :
’’یہاں آدمی کہاں ہیں کہ اخبار کے خریدار ہوں ۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں ۔ بہت سخی ہوگئے تو جنس پوری دے دیں گے ۔ کاغذ (یعنی اخبار) روپیہ مہینے کا کیوں مول لیں گے ۔‘‘
میر مہدی مجروح نے اسی زمانے میں ایک غزل بھیجی اس کے مقطع کا آخری مصرع یہ تھا:
’’میاں یہ اہل دہلی کی زبان ہے ‘‘
اس مصرع نے مرزا کے ساز درد کا ہر تار ہلادیا۔ فرماتے ہیں :
’’اے میر مہدی۔ تجھے شرم نہیں آتی ’’میاں یہ اہل دہلی کی زبان ہے ۔‘‘
’’اے ، اب اہل دہلی ہند ہیں یا اہل حرفہ ہیں ۔ خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ان میں سے تو کسی کی تعریف کرتا ہے ۔ ۔ ۔ اے بندۂ خدا اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں ؟ دلی کہاں واللہ اب شہر نہیں ہے ۔ کیمپ ہے ۔ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔‘‘
نواب علاؤ الدین خان کو لکھتے ہیں :
’’میری جان۔ یہ وہ دلی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے ۔ ۔ ۔ ایک کیمپ ہے ۔ مسلمان اہل حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ، باقہ سراسر ہنود۔‘‘
جنگ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے یکساں حصہ لیا تھا لیکن انگریزوں کی نظروں میں اصل مجرم صرف مسلمان تھے ۔ چنانچہ وہی زیادہ تر داروگیر کے ھدف بنے ۔ انہیں کو بالعموم پھانسیاں ملیں ۔ انہیں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں ۔ شہر سے باہر نکلنے میں بھی ہندو اور مسلمان برابر تھے ۔ لیکن ہندوؤں کو بہت جلد گھروں میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ مسلمان بدستور باہر پڑے رہے ۔ یا جن کو کسی دوسرے شہر میں ٹھکانا نظر آیا، وہاں چلے گئے ۔ مرزا لکھتے ہیں :
’’واللہ ڈھونڈھے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں ۔ ہندو البتہ کچھ کچھ آباد ہوگئے ہیں ۔
ایک اور خط میں لکھتے ہیں ۔
’’ابھی دیکھا چاہئے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں ۔‘‘
مدت تک مسلمانوں کو شہر میں آباد ہونے کا حکم نہ ملا۔ تو ان میں سے بعض نے شہر کے باہر ہی جگہ جگہ عارضی مکان بنانے شروع کر دیئے ۔ اس پر حکم ہوا کہ سب مکان ڈھادیئے جائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ آئندہ کوئی مکان نہ بنائے ۔ مرزا لکھتے ہیں :
’’کل سے یہ حکم نکلا ہے کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان و کان کیوں بناتے ہیں ۔ جو مکان بن چکے ہیں انہیں گروادو۔ آئندہ کو ممانعت کا حکم سنادو۔ آج تک یہ صورت ہے دیکھیئے ۔ شہر کے بسنے کی کونسی مہورت ہے ۔ جو رہتے ہیں وہ بھی خارج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں ۔ الملک لللہ والحکم لللہ۔‘‘
قلعۂ نامبارک سے قطع نظر کرکے اہل شہر کو گنتا ہوں ۔ مظفر الدولہ، میر ناصر الدین، مرزا عاشور بیگ، میرا بھانجا، اس کا بیٹا احمد مرزا، انیس بیس برس کا بچہ، مصطفیٰ خان ابن اعظم الدولہ اس کے دو بیٹے ارتضیٰ خان اور مرتضیٰ خان، قاضی فیض اللہ ۔ کیا میں ان کو اپنے عزیزوں کے برابر نہیں جانتا تھا؟ اے لو بھول گیا حکیم رضی الدین خان، میراحمد حسین میکش، اللہ اللہ۔ ان کو کہاں سے لاؤں ۔ غم فراق: حسین مرزا یوسف مرزامیر سرفراز حسین میرن صاحب خدا ان کو جیتا رکھے ۔ کاش یہ ہوتا کہ جہاں ہوتے خوش ہوتے ۔ گھر ان کے بے چراغ وہ خود آوارہ ۔ سجاد اور اکبر کے حال کاجب تصور کرتاہوں ، کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے ۔ ان اموات کے غم اور زندوں کے فراق میں عالم میری نظر میں تیرہ ہوتا ہے ۔ یہاں اغنیاوامرا کے اولاد و ازدواج بھیک مانگتے پھریں اور میں دیکھوں ۔‘‘
مرزا کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ واقعہ پیش آجاتا تو ان کے دل میں جنگ آزادی کے بعد کا دورہ مصائب تازہ ہوجاتا۔ ان کے شاگرد مرزا تفتہ نے اپنی کتاب ’’سنبلستان‘‘ چھپوائی۔ اس کی لکھائی چھپائی اچھی نہ تھی۔ مرزا نے اس واقعے کو بیگمات قلعہ کی مصیبتوں اور ، بدحالیوں پر آنسو بہانے کا بہانہ بنالیا۔ فرماتے ہیں :
’’اجی مرزا تفتہ تم نے اپنا روپیہ بھی کھویا اور اپنی فکر کو اور میری اصلاح کو بھی ڈبویا ۔ ہائے کیا بری کاپی ہے ۔ اس کاپی کی مثال جب تم پہ کھلتی کہ تم یہاں ہوتے اور بیگمات قلعہ کو پھرتے چلتے دیکھتے ۔ صورت ماہ دو ہفتہ کی سی اور کپڑے م یلے پائنچے لیر لیر۔ جوتی ٹوٹی۔ یہ مبالغہ نہیں ۔‘‘ اس وقت کے انگریزوں کی دماغی حالت کٍا اندازہ صرف اس واقعہ سے ہوسکے گا کہ انہوں نے جامع مسجد کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔ اوراس کے دروازوں پر ایک سکھ بٹالین کا پہرہ بٹھادیا تھا۔ ایک مرتبہ یہ تجویز بھی پیش ہوئی تھی کہ اسے گرجا بنالیا جائے ۔ جنگ آزادی سے قریباً پانچ برس بعد مسجد واگزار ہوئی۔
مرزا نے ایک عجیب عبرت افزا واقعہ لکھا ہے ۔ جن مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں ان میں ایک حافظ محمد بخش تھے جن کا عرف ’’مموں ‘‘ تھا۔ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے اور جائیداد کی بحالی کا حکم مل گیا۔ انہوں نے کچھری میں درخواست دی کہ میری جائیداد پر قبضہ دلایاجائے ۔ انگریز حاکم نے نام پوچھا ۔ عرض کیا محمد بخش۔ چونکہ درخواست میں عرف بھی درج تھا اس لیے حاکم پوچھا ’’مموں ‘‘ کون ہے ؟ عرض کیا کہ نام میرا محمد بخش ہے ۔ لوگ مجھے ’’مموں ،مموں ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ۔ صاحب نے سن کر فرمایا:
’’یہ کچھ بات نہیں ۔ حافظ محمد بخش بھی تم۔ حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں ؟ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں اپنے گھر چلے آئے ۔‘‘
آخر میں جنگ کے متعلق مرزا کا ایک قطعہ لکھتا ہوں جو انہوں نے اپنے ایک دوست کو خط ہی میں لکھا تھا۔ یہ ان کے مکاتیب میں چھپ گیا اور دیوان میں شامل نہ ہوسکا:
بسکہ فعال ما یرید ہے آج
ہر سلح شور انگلستان کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر نمونہ بنا ہے زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک
تشنہ خون ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جاسکے یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کر کیا کئے شکوہ
سوزش داغ ہائے پنہاں کا
گاہ روکر کہا کئے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا
اس طرح کے وصال سے یارب
کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا
٭٭٭

No comments:

Post a Comment