Search This Blog

Monday 20 February 2012

تغییرمنکر کے شرعی حدود وضوابط


تغییرمنکر کے شرعی حدود وضوابط
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر﴿لوگوں کو خیر کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا﴾اسلام کا ایک اہم فری ضہ ہے۔ امت کو نہ صرف اس کا مکلف کیا گیا ہے ،بل کہ اس کو اس کی فضیلت کا معیار اور خیر امت ہونے کی اساس قرار دیا گیا ہے  ﴿آل عمران:۱۱۰﴾ ۔قوم یہود کی اس تعلق سے مذمت کی گئی ہے کہ وہ منکرات سے بازرکھنے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔﴿المائدہ:۹۷﴾ عدی بن عمیرہؓ سے ر سول اللہ کا ارشاد ہے کہ:‘‘اللہ تعالی مخصوص لوگوں کے عمل سے عام لوگوں کو عذاب نہیںدیتا لیکن اگر وہ منکر کو اپنے درمیان دیکھتے ہیں اوراسے روکنے پر قادر ہونے کے باوجود لوگوں کو اس سے نہیں روکتے تو ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ تعالی خاص وعام﴿برائی کرنے اور برائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنے والے﴾دونوں کو عذا ب میں مبتلا کر دیتاہے ‘’﴿مسند احمد:حدیث نمبر:۵۸۷
                       اسلام میں مغرب کے اس رویے کی کو ئی گنجائش نہیں ہے کہ افراد کی برائیوں پر اس وقت تک نکیر کرنا صحیح نہیں جب تک وہ اس کے ذاتی معاملے کی حد سے آگے بڑھ کر دوسروں پر اثر اندا ز نہ ہو۔مغرب میں انفرادی آزادی کے اس رجحان نے وہاں کے معاشرے سے بہت سی اہم اخلاقی و روحانی اقدار کو نیست ونابو د کردیا ۔اسلام اپنے ماننے والوں کوافراد کی اصلاح اور ان کو خیرکی تلقین کے ساتھ برائیوں سے روکنے کا حکم دیتا ہے۔ ابوسعید خدریؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفر مایا:کہ ‘‘تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے ،اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اور اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تودل سے اس کا ازالہ کرے۔اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے’’﴿مسلم﴾

حدیث میں ہاتھ قوت کا استعارہ ہے اور زبان اور دل سے منکر کے ازالے کا مطلب زبان سے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور دل سے اس کو برا جاننا ہے۔اس میں قوت کے ذریعے برائی کے عمل کو روک دینے کو ایمان کا سب سے اہم اور کامل درجہ قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن یہ حکم مجرد نہیں ۔وہ مختلف اصولی شرائط وضوابط کے ساتھ مقید ہے۔کیوں کہ ظاہر ہے معروف کی تلقین کرنا نسبتاً آسان ہے۔ جب کہ منکر کو روکنا نسبتاً دشوار گزارہے۔ بسااوقات اس کے نتیجے میںزیادہ پیچیدہ صورت حال کے پیدا ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ اس لیے یہ بات علما کے درمیان بحث و مباحثے کا موضوع رہی ہے کہ تغییر منکر کا دائرہ اور اس کی حدود کیا ہیں؟ حدیث میں قوت کے استعمال کے حکم کا اصل مخاطب مسلمانوں کا کون ساطبقہ ہے؟ زبان کے ذریعے انکار منکرکی شکلیں کیا ہیں اور قلب کے ذریعے انکار منکر کے دائرے میں کون لوگ آتے ہیں؟وغیرہ
 امام قرطبی نے لکھا ہے کہ : ‘‘علما کا قول ہے کہ معروف کا حکم ﴿یا منکر سے روکنا﴾ قوت کے ذریعے حکام کی ذمہ داری ہے، زبان کے ذریعہ علما کی ذمہ داری ہے اور دل کے ذریعے عوام الناس کی ذمہ داری ہے’’﴿الجامع لاحکام القرآن :ج،۴ ص،۲۳
 لیکن علما کی بڑی جماعت اصحاب اقتدار کو اول درجے میں لیکن دوسرے درجے میں عوام کو بھی اس کا مخاطب سمجھتی ہے اور حدیث کے مفہوم سے بلا شبہ یہی راے قریب ہے۔ کیوں کہ حدیث کے ابتدائی جملے‘‘من رأی منکم منکرا’’﴿ تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے ﴾میں‘‘من’’﴿ جو کوئی﴾ اور‘‘منکم’’﴿ تم میں سے﴾ سے عمومیت کے معنی ظاہر ہورہے ہیں۔تاہم یہ بات طے ہے کہ قوت کے استعمال کی اہلیت نہ رکھنے والے طبقہ کو اس کی عمومی اجازت حاصل نہیں ہے۔ امام الحرمین اور غزالی کی راے ہے کہ ﴿استطاعت کھنے والے ﴾عوام کو اس شرط کے ساتھ قوت کے استعمال کا حق ہے کہ اس میں تلوار نہ اٹھانا پڑے اور یہ فساد و خوںریزی پر منتج نہ ہو۔
﴿نووی شرح مسلم :۲/ ۵۲ احیا ئ علوم الدین:۲/۳۳۲
                      البتہ اہم سوال یہ ہے کہ افرادِعوام یا اصحابِ اقتدار کے ذریعے تغییر ِمنکر ﴿ازالہئ منکر﴾ کے تکلیف شرعی کا دائرہ اطلاق کیا ہے ؟ کب وہ اس کے لیے اٹھ سکتے ہیں یا اٹھنا چاہیے اور کب نہیں ؟اورحدیث میں مراد منکر کے اوصاف کیا ہیں ؟
تغییر منکر کی شرطیں
اس کی سب سے پہلی اور اہم شرط جو خود حدیث میں مذکور ہے ، متعلقہ فرد کے پاس اس کی استطاعت کا پایا جانا ہے۔اگر کوئی شخص اس کی استطاعت نہیں رکھتا تووہ اس کا مکلف بھی نہیں۔ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ استطاعت کی شرط کے ساتھ حدیث کے دوسرے یا تیسرے حکم پر عمل کرے۔ یہی اس سے مطلوب ہے۔کیوں کہ استطاعت اور قدرت کے ساتھ عمل نہ کرنے کی صورت میں اس عمل کا انجام پانا مشکوک ہے۔انجام بھی پاجائے تو نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ بل کہ اکثر صورتوں میں منفی نتائج کا حامل ہوگا ۔

                    دوسری شرط یہ کہ وہ منکر متفق طور پر محرمات کی قبیل سے ہو۔بل کہ منکر کی اصل تعریف ہی یہی ہے کہ :منکر وہ ہے جس کو شریعت نے قبیح اور حرام قرار دیا ہو اور اس سے باز رہنے کا حکم دیا ہو﴿ما قبحہ الشرع و حر مہ ونھی عنہ﴾۔اس کے ارتکاب پر شریعت کی طرف سے عذاب کی وعید ہو۔اگر وہ منکرشرعا صرف مکروہ اور ناپسندیدہ ہونے کی قبیل سے ہو تو وہ منکر کی تعریف میں شامل نہیںہوگا۔اسی طرح سنتوں کایامستحبات کاترک منکر کی تعریف میں نہیں آتا۔ کیوں کہ اہل ایمان کو شریعت کی طرف سے ان کا پابندنہیں کیا گیاہے ۔اس کے علاوہ وہ تمام مجتہد فیہ مسائل جن میں علما واہل فقہ کی رائیں مختلف ہیں یا ہوسکتی ہیں منکر کی تعریف اور موضوع سے خارج ہیں۔سفیان ثوری نے فرمایا کہ:‘‘اگر تم کسی شخص کو کوئی ایسا عمل کرتے دیکھوجس میں اختلاف کیا گیا ہو تو تم اس کو اس سے نہ روکو’’۔علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ:’‘مختلف فیہ مسائل میں انکا ر منکر نہیںکیا جائے گا۔ بل کہ متفق علیہ امور میںکیا جائے گا’’۔﴿ الاشباہ والنظائر ،ص:۱۵۸
                    تیسری شرط یہ ہے کہ وہ منکرظاہر ہو مخفی نہ ہو ۔علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی برائی آنکھوں کے سامنے نہ ہو رہی ہو تو اس کی ٹوہ میں پڑکر،راز کو واشگاف کرتے ہوئے منکر پر نکیر یا اس کے ازالے کی کوشش کی شریعت میں اجازت نہیں دی گئی ہے۔یہ امر تجسس ﴿ ٹوہ لینے﴾کی قبیل سے ہے، جس کی قرآن﴿الحجرات :۴۹﴾ میں واضح ممانعت آئی ہے۔یہ بات خود حدیث کے ابتدائی الفاظ سے ظاہر ہے کہ: اگر تم میں سے کوئی منکر کو ‘‘دیکھے ’’۔گویا منکر کا بذات خود مرئی ہونا شرط ہے۔ اصولی طور پر یہ بات طے ہے کہ:ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ‘‘ظواہر﴿کھلی چیزوں ﴾ ’’پرحکم لگائیں اور ‘‘سرائر’’﴿پوشیدہ چیزوں﴾ کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیں ﴿نحن نحکم بالظواہر ونکل الی اللہ تعالی السرائر﴾اما م غزالی نے احیا ئ العلوم میں حضرت عمرؓکے بارے میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ حسب عادت لوگوں سے باخبری کے لیے گشت کے درمیان ایک شخص کی دیوار پر چڑھے اور اسے ایک برائی﴿جس کا اندازہ انہیں غالبا پہلے سے تھا﴾ میں ملوث دیکھا اور اس پر نکیر کی۔اس شخص نے کہا کہ اے امیر المؤمنین میں نے تو صرف ایک گناہ کیا تھا لیکن آپ نے تو تین گناہ کیے۔حضرت عمر ؓنے وضاحت چاہی تو اس نے کہا:اللہ تعالی نے تجسس ﴿ ٹوہ لینے ﴾سے منع کیا تھا﴿البقرہ:۹۸۱﴾  لیکن آپ نے کیا۔اللہ تعالی کا حکم ہے کہ گھر وں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو﴿البقرہ: ۱۸۹﴾  لیکن آپ پیچھے سے آئے ۔اسی طرح اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم گھر میں سلام کرکے داخل ہو﴿النور:۲۷﴾  لیکن آپ نے سلام نہیں کیا۔حضرت عمرؓنے اس کی بات سن کر توبہ کی شرط پر اسے درگزر کردیا اور اپنی ندامت کا اظہار کیا۔
                     چوتھی سب سے اہم ترین شرط یہ ہے کہ موجود منکر کے ازالے کے نتیجے میں اس سے بڑے منکر کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ 
تغییر منکر کے درجات
تغییر منکر کے مختلف درجات ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ‘‘امر بالمعروف و نھی عن المنکر ’’میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اس کی بصیرت افروز وضاحت کی ہے:
‘‘انکار منکر کے چار درجات ہیں﴿۱﴾منکر ختم ہوجائے اور معروف قائم ہوجائے﴿۲﴾منکر کم ہوجائے اگرچہ مکمل طور پر ختم نہ ہو﴿۳﴾منکر ختم ہوجائے لیکن اس کی جگہ دوسرا کوئی ویسا ہی منکر پیدا ہوجائے﴿۴﴾اس منکر کے ازالے کے بعد اس کی جگہ اس سے بڑا منکر پیدا ہوجائے۔پہلے دودرج مشروع ہیں ۔تیسرے کے متعلق اجتہاد کیا جائے گا﴿کہ اس مخصوص صورت میں منکر کا ازالہ صحیح ہوگا یا اس کو جوں کا توں اپنے حال پرچھوڑ دینا﴾جب کہ چوتھا درجہ حرام ہے’’۔  ﴿اعلام المؤقعین‘ ‘ج:۳ص:۲۱

                    امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ مزید وضاحتی مثالوں کے ذریعے اس پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں کہ اگرکوئی شخص لہو و لعب گانے بجانے،فحش کتابوں کے مطالعے میں مشغول ہواور یہ اندازہ ہو کہ وہ روکنے سے رک جائے گا تب روکنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر ان کا اس سے زیادہ بڑی برائی میں مبتلا ہونے مثلاً فحش کتابوں کی بجائے بدعت و ضلالت پر مشتمل کتابوں کے مطالعے میں مشغول ہوجانے کا اندیشہ ہوتو انھیں اسی حالت پر چھوڑ دینا بہتر ہے۔اس ضمن میں وہ اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ لکھتے ہیں کہ وہ بعض تاتاریوں کے پاس سے گزرے جو شراب پینے میں مشغول تھے۔ابن تیمیہ کے ساتھ موجود بعض لوگوں نے انھیں اس پر ٹوکنا چاہاتو ابن تیمیہ نے کہا کہ انھیں اسی حالت پر چھوڑ دو کہ ان کی توجہ لوگوںکا خون بہانے اور مال و جائدادکے لوٹ مار سے ہٹی رہے۔﴿ایضاً: ص:۱۳
استطاعت اور عجز کا مفہوم
مذکورہ حدیث میں قوت یا زبان کے ذریعے ازالہ منکرکے فریضے کو استطاعت کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔اس لیے حدیث کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تغییر منکرکے باب میں استطاعت یا عدم استطاعت کا مطلب کیا ہے؟بعض علماے سلف کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ تغییر منکرکا فریضہ انجام دینے والے کو اپنی جان کا اندیشہ نہ ہو۔ جب کہ بعض دوسرے علما کے ن زدیک قتل کی بجائے کسی بڑے نقصان یا کسی اذیت کا بھی اندیشہ ہو تو قوت کے ذریعے ازالہ منکر کے اقدام سے دور رہنا ضروری ہے۔ قرطبی نے لکھا ہے:
‘‘مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے جیسا کہ ابن عبد البر نے لکھا ہے کہ منکر کا انکار اس پر واجب ہے جس کو اس کی قدرت حاصل ہے ۔اور یہ کہ تغییر منکر کاعملی اقدام کرنے والوں کولوگوں کے لعن طعن کا تو چاہے اندیشہ ہو لیکن یہ لعن طعن یامذمت ان کو جسمانی اذیت پہنچنے کا باعث نہ بنے بصورت دیگر زبان سے اور اس کی بھی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں دل سے انکار منکر کرنا مناسب ہوگا۔اس سے زیادہ نہیں۔اس طرح اس کی ذمہ داری ادا ہو جائے گی۔ عبد اللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ:انسان کے لیے یہ کافی ہے کہ اگر وہ منکر کو دیکھے اور اس کو روکنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اللہ کے سامنے اس بات کا اظہار کردے کہ وہ دل سے اس کو ناپسند کرتا ہے۔رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ خود کو ذلیل کرے ۔صحابہ نے سوال کیا کہ خود کو ذلیل کرنے سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا: وہ ایسی بلا کا سامنا جس کی اس کے اندر سکت نہ ہو’’۔ ﴿ الجامع لاحکام القرآن:ج:۴ص:۳۲
                     اس بحث کی ایک اہم بنیاد قرآن میں مذکور حضرت موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کا وہ واقعہ ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا کے پاس سے تورات کی الواح لے کر لوٹے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہے۔چوں کہ وہ اپنی قوم کو اپنے چھوٹے بھائی حضرت ہارون ؑکی نگرانی میں چھوڑ گئے تھے،اس لیے قوم کی گم راہی کو انہوں نے حضرت ہارون ؑ کی کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے ان کی سر زنش کی۔ یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی اور سر کا بال پکڑ کر کھینچنے لگے ۔اس پر حضرت ہارون ؑنے کہا کہ:‘‘اے میری ماں کے بیٹے قوم کے لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قتل کرنے کے درپے ہوگئے تھے’’﴿الاعراف:۱۵۰،۱۵۱﴾‘‘مجھے یہ خوف ہوا کہ آپ کہیں گے کہ تم نے میرے اور میری قوم کے درمیان تفریق کردی اور میری بات کا خیال نہ رکھا’’﴿طہ:۹۴
                   اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون نے قتل ہوجانے یا شیرازہ قومی کے بکھر جانے کے اندیشے کی بناپر قوم کوبت پرستی میں ہی چھوڑ دینے کو ترجیح دی اور اس منکر عظیم پر صبرکا رویہ اختیار کیا۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت ہارون نے خوف قتل اور خوف فتنہ دونوں کی وجہ سے انکار منکر سے باز رہنے کو ترجیح دی۔اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ داعی کے لیے جان کی قربانی استطاعت میں داخل نہیں ہے۔جان کی حفاظت ہر شخص پر فرض ہے ﴿البقرہ:۱۹۵﴾البتہ یہ اس صورت میں عزیمت کی شکل ہوسکتی ہے جب کہ دین ودعوت کی راہ میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ باقی نہ رہ گیا ہو اور اس سے بڑی کامیابی کے حصول اور رکاوٹ کے دور ہونے کا ظن غالب ہو۔
                    قرآن میں رسول اللہ ص سے فرمایا گیا ہے کہ آپ قوم کو راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالیں﴿فاطر:۳۵ وکھف:۶﴾ایک شخص صاحب استطاعت اس صورت میں کہلائے گا جب کہ وہ انکار منکر کی ضروری قدرت و طاقت کے ساتھ جس کی تفصیل اوپر گزری، اس بات پر بھی مطمئن ہوکہ اس کا اقدام نتیجہ خیز اور مثبت ہوگا اور غالب طور پراس کی توقع اس حالت میں ہی کی جاسکتی ہے، جب کہ ایک شخص اس ذمہ داری کودائرہ اقتدار اورحلقہ اثر میںانجام دینے کی کوشش کرے ۔اس دائرے کی نوعیت پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے، جس میں حکومت اورعوام میںسے ہرکسی کو اس کے ماتحتوںاور دائرہ اثر کے تعلق سے جواب دہ اور ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔﴿کُلُّکُمْ راعٍ وکُلُّکُمْ مسؤول عن رعیتہ﴾ ﴿بخاری و مسلم﴾
                    استطاعت کے مفہوم کے تناظر میںتغییر منکر کے حکم کی عصری تطبیق کا مسئلہ غور وفکر کا متقاضی نظرآتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دور جدید سے قبل کے حکومتی ڈھانچے میں عوا م کو انکار منکر کی جو آزادی حاصل تھی، وہ اب موجودہ جمہوری نظام میں حاصل نہیں ہے۔ ملک کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قوت کے استعمال کے ساتھ اٹھایا جانے والا معمولی قدم بھی قابل دخل اندازی پولس جرم قرارپاتا ہے۔قانون شکنی کے الزام میں اس کی سزا متعین کی جاتی ہے۔اس اعتبار سے بطور خاص مذکورہ بالا حدیث ﴿کُلُّکُمْ راعٍ الخ﴾کی روشنی میں ہر فرد کی انکار منکر کی ذمہ داری اس کے دائرہ اختیار میں سمٹ جاتی ہے۔
حکام کے خلاف خروج کا مسئلہ
                   تغییر منکر کے ذیل میںسب سے اہم مسئلہ ظالم و جابر حکم رانوں کے خلاف خروج کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی متعدد احادیث میںحکام وقت کے خلاف اٹھنے سے منع کیاگیا ہے،جب تک وہ نماز﴿ شعائر دین﴾ کو قائم کرنے والے ہوں  ﴿ ما اقامواالصلاۃ﴾ اور ‘‘کھلے کفر’’ ﴿کفر بواح ﴾کے مرتکب نہ ہوں۔﴿مسلم، کتاب الامارۃ﴾ اس وجہ سے اہل سنت والجماعت کی اکثریت حکام وقت کے خلاف عدم خروج پر متفق رہی ہے۔نووی ،شارح مسلم نے اس پر اجماع لکھا ہے۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ شروع میں اہم علما بھی خروج کے جواز کے قائل تھے۔چناں چہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک سے اس کی موافقت میں رائیں نقل کی گئی ہیں۔ لیکن بعد میںجب اس تعلق سے مزید مشاہدات وتجربات سامنے آئے تواہل سنت کی اکثریت عدم خروج پر متفق ہوگئی ۔ابن حجر نے اس کی وضاحت ان لفظوںمیں کی ہے کہ:’‘یہ علما کا قدیم مسلک تھا۔ لیکن جب علما نے دیکھا کہ اس کے نتیجے میں پہلے کے مقابلے میں بدتر چیز سامنے آگئی تو اس نظریے یا مسلک کے ترک کردینے پر ان کا اتفاق ہوگیا۔﴿تہذیب التہذیب:۲/۲۸۸

                    علامہ ابن تیمیہ جیسی شخصیت نے حکام کے خلاف خروج کو‘‘چھوٹے منکر کی جگہ بڑے منکرکا باعث’’﴿انکار بما ھو انکر منہ﴾وہ لکھتے ہیں کہ ایسا بہت کم ہی ہو ا ہے کہ کوئی شخص حاکم وقت کے خلاف کھڑا ہوا ہو اور اسے اس کے اس فعل سے خیر کی بجائے زیادہ بڑ اشر پیدا نہ ہوا ہو ۔علامہ ابن قیم نے اپنے موقف کا اظہار اس سے زیادہ دوٹوک الفاظ میں کیا ہے  :‘‘رسول اللہﷺ نے امت کو انکار کی اجازت اس بنا پردی ہے کہ اس سے وہ معروف سامنے آئے جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے لیکن اگر انکار منکرسے پہلے بڑے منکر کا پیدا ہو نا لاز م آئے جو اللہ اور اس کے رسول کو نا پسند ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں ۔ اسی قبیل سے ملوک پر خروج کرنا ہے کہ وہ تا قیام قیامت تما م شرور فتن کی جڑ ہے﴿فانہ اساس کل شر وفتنہ الی آخر الدھر﴾ ﴿اعلام الموقعین:۱۲

                      اس اعتبار سے اس حدیث کی عصری تطبیق کا مسئلہ نہایت اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔دور جدید سے قبل کے حکومتی ڈھانچے میں عوا م کو انکار منکر کی جو آزادی حاصل تھی اب موجودہ جمہوری نظام میں وہ آزادی حاصل نہیں ہے۔ملک کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قو ت کے استعمال کے ساتھ اٹھایا جانے والا معمولی قدم بھی قابل دخل اندازی پولس جرم قرار پا تا ہے اور ایسا کرنے والوں کو قانون شکنی کی سزا دی جاتی ہے۔اسی طرح حکومت کے خلاف مسلح اقدام کا مسئلہ ہے۔دور جدید میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جب بھی مسلح اقدام کی کوشش کی گئی ،اس کا نتیجہ ہمیشہ بر عکس طور پر سامنے آیا ۔ماضی کے مقابلے میں زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کی جان مال کی تباہی ہوئی لیکن کامیابی کی توقع ہمیشہ صفر رہی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میںحکومت اور انقلاب پسندوں کے درمیان طاقت کا معیا ر زیادہ تر عددی قلت و کثرت تھی ۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ دونوں فریقوںکو میدانی جنگ کے ایک ہی جیسے ہتھیار حاصل تھے۔لیکن اب حکومتوںکو جو وسائل جنگ ﴿جدید ترین اسلحے، خود کار آلات حرب و ضرب،تربیت یافتہ فوج وغیرہ﴾حاصل ہیں ان کا چندفی صد بھی عوام کو میسر نہیں ہے۔اس لیے ایسی کوششوںکو اول دن سے ناکامی لاحق ہوتی ہے۔چاہے تھوڑی خوں ریزی اور تھوڑے عرصے کے بعد ہو یا زیادہ خوں ریزی اور زیادہ عرصے کے بعد۔تباہی صرف عوامی جماعت کے حصے میں آتی ہے۔حکومت کے ذریعے انھی کے وسائل برباد ہوتے ہیں اور جانیں بھی انھی کی اور بے قصور عوام کی ضائع ہوتی ہیں۔
موجودہ دور میں بعض گروہوں کا طرزعمل
 موجودہ دور میں کچھ گر وہ مختلف معاملات میںازالہ منکر کی حدود و شرائط کا لحاظ نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں منفی نکلتا ہے۔ماضی وحال میں مصر و پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن میں ویڈیو کی دکان ،سنیما ہال ،فحاشی اور منکرات کے مراکز اور مقامات کوپرجوش افراد کی طرف سے نشانہ بناگیا یاجس کی وجہ سے زبردست انتشار و خلفشار پیدا ہوا۔ مصر اور پاکستان کے بعض عناصر نے ایسی بے احتیاطیاں کیں کہ خود مسلم عوام کے اندر ان کے تعلق سے نفرت پھیل گئی۔سیاسی و سماجی اصلاح کا ان کا منصوبہ گویافساد میں بدل گیا اوردینی ودعوتی عمل کے راستے میں مزید کئی گنا رکاوٹیں پیدا ہو گئیں ۔اس میںشک نہیں کہ موجودہ اکثر حکم رانوں کا طرزعمل اسلام مخالف ہے، لیکن اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے جو حکمت عملی اپنائی گئی اس کا یہ نتیجہ نکلاکہ منکر اپنی جگہ باقی رہا اور اس کے ساتھ اس سے بڑے کئی نئے منکرات پیدا ہوگئے۔ اصحاب اقتدار کی طرف سے اسلام پسندوں کا شکنجہ کسا جانے لگا۔ملک کی جیلیں ان سے بھر گئیں اور مواقع کار تباہ ہوگئے۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ اب احتساب کا مزاج پیدا ہو رہا ہے۔ تاہم اس تناظر میں پاکستان کی صورت حال ہر اعتبار سے نہایت تشویش کا باعث ہے۔ وہاں کے علما اور اہل دین کی تحریروں میں اس بات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ بعض عناصر کی نگاہوں میں حکومتی عملہ ،فوج اوران کے نظریے کے مخالف افراد سب کے سب مباح الدم قرار پا چکے ہیں۔

 افراد کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ انکارمنکر کے تعلق سے شریعت کا صحیح فہم حاصل کرنے کی اور اس کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کریں۔شریعت مسائل پیدا کرنے کے لیے نہیں مسائل کو حل کرنے کے لیے آئی ہے۔شریعت کے اجتماعی احکام کی تنفیذ میں شریعت کے مصالح ومقاصد کو پیش نظر رکھنا لازماً ضروری ہے۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان مقاصد کاحصول موجود حالات ہی میں کیا جاتا ہے ۔ حدودِ شریعت کی پابندی کے بغیر اسلام کی حمایت و سر بلندی کے لیے کیا جانے والا عمل نادان دوستی کے مترادف ہے۔

No comments:

Post a Comment