Search This Blog

Sunday, 5 February 2012

عربی زبان

عربی زبان

مولانا محمد بشير

مجهے اس امر كا اعتراف ہے كہ خصوصاً ہمارى دينى درسگاہوں ميں عربى
زبان و ادب كى نہايت وقيع اور معيارى كتابيں پڑهائى جاتى ہيں، نيز عربى گرامر كے دونوں شعبوں يعنى علم صرف اور علم نحو ميں مستند اور مفصل كتابوں كى تدريس ہوتى ہے اور ان كى تعليم و تدريس كئى سال جارى رہتى ہے، جو بڑى محنت اور جانفشانى سے كى جاتى ہے اور پهر ان تينوں علوم (عربى زبان، علم صرف اور علم نحو) كى تدريس كى ذمہ دارى صرف كہنہ مشق اور محنتى اساتذہ كو ہى دى جاتى ہے- چنانچہ طلبہ و طالبات علم صرف كى گردانوں اور قواعد كو بڑى توجہ سے پڑهتے ہيں بلكہ حفظ كرتے اور فرفرسناتے ہيں اور نحو كے قواعد كو بهى نہايت محنت اور توجہ سے پڑهايا جاتا ہے، پهر بڑى جماعتوں ميں عربى زبان كى بلاغت اور معانى كى مستند كتابوں كى تدريس بهى ہوتى ہے- تو اُن علوم پر اتنى توجہ اور اہتمام كے باوجود ہمارے طلبہ و طالبات ان ميں پسماندہ كيوں رہتے ہيں؟

اسلامى درسگاہوں كى ان مفيد خدمات اور روشن پہلوؤں كے باوجود ہم ان كے فضلا كو ديكهتے ہيں كہ وہ عربى زبان واَدب دونوں ميں پسماندہ ہوتے ہيں- كيونكہ وہ ان علوم كى پچيس تيس كتابيں پڑهنے كے باوجود عربى زبان كے عملى استعمال يعنى اس ميں گفتگو اور تحرير كى قدرت نہيں ركهتے اور سخت ضرورت كے وقت معمولى عربى بول چال اور تحريرسے بے بس نظر آتے ہيں- نيز اہل زبان سے ملاقات كے وقت ان كى باتوں كو سمجھ نہيں پاتے اور عصر حاضر كے عربى اخبارات اور مجلات سے استفادہ نہيں كرسكتے- وہ صرف قديم كتابوں كى عبارتوں كو سمجهتے ہيں، ليكن جديد عربى لٹريچر كا مطالعہ نہيں كرپاتے- اس كى وجہ يہ ہوتى ہے كہ وہ اپنے طويل تعليمى عرصے ميں ان كى كتابوں كا اُردو ترجمہ ياد كرتے ہيں، اور ان كے قواعد اور اُصولوں كو صرف نظرى اور زبانى حد تك رَٹنے ميں صرف كرتے ہيں اور عربى الفاظ اور تراكيب كے ان روزمرہ استعمالات اور محاوروں سے ناواقف رہتے ہيں، جو اہل زبان كے معاشرے ميں لكهے بولے جاتے ہيں- دوسرے لفظوں ميں يوں كہئے كہ يہ فاضل حضرات صرف عربى زبان كے مفرد اسماء اور افعال كو توكسى حد تك جانتے ہيں ليكن انكے عملى استعمال كى شكلوں اور تراكيب سے ناواقف رہتے ہيں-

اس لئے مدارس كے طلبہ اور اساتذہ اوّلاً تو عربى بولنے يا لكهنے سے بچتے ہيں- اگر ا ن ميں سے كچھ اسے بولنے يا لكهنے كى كوشش كرتے ہيں، تو ان كے جملوں ميں لغت، صرف، نحو اور محاوروں كى غلطياں اتنى كثرت سے ہوتى ہيں كہ ان كى اِصلاح كرنا ممكن نہيں ہوتا،كيونكہ اُنہوں نے اگرچہ زبان كے ان چاروں اَجزا كو سالہا سال تك پڑها بلكہ رَٹا ہوتا ہے ،ليكن اُنہيں ان كے عملى استعمال كى مشق اور تربيت سے محروم ركهاجاتاہے، لہٰذا اسے لكهنے يا بولنے كى استعداد حاصل نہيں كرپاتے، حالانكہ اُن كے لئے عربى ايك نہايت آسان زبان ہے- اگر انہيں كچھ ہى عملى تربيت كرادى جاتى تو وہ اسے خوب لكھ بول سكتے ہيں-

اب ميں محترم علماے كرام، تعليمى ماہرين، عربى زبان و ادب كے معلّمين و معلّمات نيز عزيز طلبہ و طالبات كے سامنے اس مسئلے كو آسانى سے پيش كرنے كے لئے عربى زبان كى تعليم وتدريس كى چند مثاليں ذكر كرنا چاہتا ہوں... وبالله التوفيق وهو المستعان
 
پہلا طريقہٴ تدريس
تصور كيجئے كہ يہ ہمارے فاضل دوست كسى جامعہ ميں عربى زبان كے مدرّس ہيں- اس وقت ان كے سامنے ١٨،٢٠طلبہ بيٹهے ہيں- وہ اُنہيں وفاق المدارس العربيہ كے نصاب ميں مقرر نصابى كتب قصص النّبيين كا پہلا حصہ پڑها رہے ہيں، جو مولانا ابوالحسن على ندوى  كى تصنيف ہے- معلم اور طلبہ ، دونوں كے ہاتهوں ميں كتاب كا ايك ايك نسخہ موجود ہے، ان كى تدريس كا طريقہ يہ ہے كہ معلم خود سبق كى عبارت پڑھ رہا ہے اور طلبہ كو اس كے الفاظ اور جملوں كا لفظى اُردو ترجمہ بتا رہا ہے جسے وہ سنتے اور ذہن نشين كرنے كى كوشش كررہے ہيں- اس طرح يہ طلبہ اپنے معلم سے سبق كى عبارت كا لفظى اُردو ترجمہ پڑہتے اور اسے ياد كرتے ہيں- معلم كے پاس اپنى تيارى كے لئے اس كتاب كا چهپا ہوا اُردو ترجمہ موجود ہے جسے وہ حسب ِضرورت ديكھ ليتے ہيں-
نتيجہ : طلبہ سبق كى عبارت كا لفظى اُردو ترجمہ سمجھنے اور ياد كرنے لگتے ہيں-

دوسرا طريقہٴ تدريس
ہمارے ايك اورفاضل دوست ايك دوسرے موٴقر دارالعلوم ميں عربى زبان و ادب كے مدرّس ہيں- يہ ابتدائى اور متوسط جماعتوں كو پڑهانے كا وسيع تجربہ ركهتے ہيں- يہ بهى اس پيريڈ ميں مولانا ابوالحسن على ندوى كى كتاب قصص النّبيين كے پہلے حصے كى تدريس كررہے ہيں- تاہم ان كى تدريس كا طريقہ پہلے مدرّس كے طريقہٴ تدريس سے كچھ مختلف ہے- ان كى جماعت ميں تختہٴ سياہ موجود ہے اور ہر طالب ِعلم كے پاس نصابى كتاب كے علاوہ اپنى كاپى اور قلم موجود ہے- معلم سبق كے آغاز ميں تختہٴ سياہ پر مناسب اور خوبصورت خط ميں سبق كے منتخب الفاظ كى تشريح لكھ رہا ہے، جس ميں عربى افعال كے معنى اور ان كا ماضى، مضارع اور مصدر، نيز اسم مفرد كا معنى اور جمع، اور اسم جمع كا معنى اور مفرد وغيرہ شامل ہيں- طلبہ الفاظ كى اس تشريح كو اپنى كاپيوں ميں نقل كركے اسے ياد كررہے ہيں- بعد ازاں معلم سبق كى تدريس اس طريقے پر كرتا ہے كہ ايك طالب ِعلم سبق كى عبارت پڑہتاہے اور معلم اس كا اُردو ترجمہ كرتا جاتا ہے- يوں پہلے سبق كى تكميل ہوتى ہے اور طلبہ سبق كى عبارت كے اُردو معنى كو آسانى سے سمجهنے لگتے ہيں اور مختلف عربى الفاظ كى تشريح سے واقف ہوتے ہيں-
نتيجہ : طلبہ سبق كى عبارت كے اُردو ترجمہ اور الفاظ كى تشريح كو سمجهنے كے قابل ہوتے ہيں-

تيسرا طريقہٴ تدريس
ايك تيسرے معلم معہد اللغة العربية اسلام آباد ميں اپنے طلبہ كو يہى كتاب قصص النبيين كا پہلا حصہ پڑها رہے ہيں- بچوں كے سامنے ايك وائٹ بورڈ آويزاں ہے اورہر بچے كے پاس نصابى كتاب كے علاوہ ايك كاپى اور قلم موجود ہے- نيزمعلم اور ہر طالب ِعلم كے پاس اس كتاب كى درسى گائيڈ (ورك بك) موسومہ دليل قصص النبيين، الجزء الاوّل موجود ہے- وہ اس گائيڈ كے مطابق سبق كے آغاز ميں وائٹ بورڈ پر سبز ماركر سے منتخب الفاظ كے معنى اور تشريح لكهتے ہيں، جسے ہر طالب علم بلندآواز سے پڑهتا ہے، اور اس كے صحيح تلفظ كى مشق كرتا ہے- اس كے بعد وہ اسے اپنى كاپى ميں درج كرتاہے- اس كے بعد معلم عربى ميں كہتے ہيں: الآن بدأ الدرس،الآن نبدأ الدرس- اور سبق كى تدريس شروع ہوتى ہے، تو سبق كو معلم خود نہيں پڑهتا بلكہ اسے بارى بارى مختلف طلبہ پڑهتے ہيں اور معلم اس كا بامحاورہ اُردو ترجمہ بولتا ہے- پهر معلم گاہے گاہے طلبہ كو مناسب ہدايات ديتے ہوئے عربى بولتا ہے- مثلاً الأن اقرأ أنت يا خالد! الآن اقرأ أنت يا حمزة، اور كسى طالب ِعلم كى اچهى ادائيگى پر أحسنتَ! بارك الله فيك اوركسى سے غلطى سرزد ہونے پر لا يا عبدالرحمن اورسبق كے اختتام پر الآن انتهى الدرس، الآن انتهتِ الحصة وغيره نيز معلم طلبہ كو جملوں كا لفظى ترجمہ سكهانے كے بجائے ان كا بامحاورہ ترجمہ بتاتا ہے- اسطرح معلم پہلے پيريڈ ميں پہلے سبق كى تدريس مكمل كرتا ہے-
پهر دوسرے دن وہ طلبہ كو دليل قصص النبيين،الجزء الاوّل كے مطابق اس سبق پر عربى ميں بول چال كى مشق كراتا ہے ،جو دو مشقوں پر مشتمل ہے- پہلى مشق ميں سبق كے مضمون كے بارے ميں عربى زبان ميں چهوٹے چهوٹے سوال ديئے گئے ہيں- معلم ايك سوال بولتا ہے ،تو طلبہ اس كا جواب ديتے ہيں- اگر طلبہ كا جواب غلط يا ناقص ہو تو معلم اسے درست كراتا ہے- دوسرى مشق ميں سبق كے بارے ميں لكهے ہوئے جملوں ميں خالى جگہوں كو مناسب الفاظ سے پُر كرنے كى مشق كرائى جاتى ہے-
عربى بول چال كى ان دونوں مشقوں كو طلبہ دو بار زبانى اور تحريرى دونوں طرح حل كرتے ہيں، پہلے كلاس ميں اپنے معلم كى نگرانى ميں زبانى حل كرتے ہيں اور پهر انہيں اپنى كاپيوں ميں تحريرى طور پر حل كركے لاتے ہيں اور معلم اسے چيك كرتا اور حسب ضرورت تصحيح كركے اس پر اپنے دستخط كرتا ہے-
نتيجہ: طلبہ سبق كى عبارت كا بامحاورہ اُردو ترجمہ سيكهتے ہيں اور مختلف عربى الفاظ كى لغوى تشريح كے ساتھ ان كے تلفظ كى صحت سيكهتے ہوئے روزمرہ كى ابتدائى عربى زبان كو سمجهنے، لكهنے اور بولنے لگتے ہيں ،كيونكہ اُنہيں عربى لكهنے اور بولنے كااچها ماحول ميسر آيا ہے-

چوتها طريقہٴ تدريس
اب معہد اللغة العربية ميں عربى زبان و ادب كے ايك دوسرے معلم كى كلاس كو ديكهتے ہيں-يہ آج راقم الحروف كى كتاب اقرأ، الجزء الاوّل كا پہلا سبق پڑها رہے ہيں- اس سبق ميں چونكہ ہر چيز كى تصوير كے ساتھ اس كا عربى نام لكها ہے، اس لئے وہ الفاظ كا اُردو ترجمہ نہيں كرتے بلكہ ہر چيز كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اس كا عربى نام پڑهنے كى مشق كراتے ہيں اور اگر طالب ِعلم سے كسى اسم كى خواندگى ميں تلفظ كى غلطى واقع ہو تو اسے درست كراتے ہيں- كلاس كے شركاء بالكل نئے ہيں اور آج پہلے دن عربى زبان پڑهنے لگے ہيں، اس كے باوجود وہ اُنہيں براہ راست عربى پڑهنے اوربولنے كى مشق كرا رہے ہيں- وہ تمام طلبہ كو ضرورى ہدايات بهى عربى ميں ہى دے رہے ہيں، اور جہاں دقت پيش آتى ہے، اشارے سے كام ليتے ہيں- اب كلاس پہلا سبق ختم كررہى ہے، تومعلم نے اُنہيں كسى چيز كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ما ہٰذا؟ سے سوال كرنا سكهادياہے اور اس كا جواب بهى ہذا قلم وغيرہ سمجها ديا ہے- اس كے علاوہ ايك اہم اضافى مشق يعنى كسى شخص كے بارے ميں سوال كرتے ہوئے مَن ہذا؟ اور اس كا جواب بهى سكها ديا ہے، اور اس كے لئے جماعت كے شركاء كى جانب اشارہ كرتے ہوئے من هذا؟ هذا أكرم ، من هذا؟ هذا جميل الرحمن وغيرہ كى مشق كرا دى ہے اور اس اُسلوب كو جارى ركهتے ہوئے سبق كى تينوں مشقيں بهى حل كرا دى ہيں-

يوں ان نو وَارد طلبہ نے آج ٢٠،٢٢چيزوں كے عربى نام سيكھ لئے ہيں اور ان كے بارے ميں سوال و جواب كى مشق كرلى ہے، اور اس طرح پندرہ بيس اشخاص كے بارے ميں من ہذا؟ كى مشق بهى كرلى ہے اور مجموعى طور پر پہلے ہى دن هذا ...،هذا... كى طرح كے تيس سے زيادہ عربى جملے فر فر بولنے لگے ہيں- اب معلم نے طلبہ كو ہدايت دى ہے كہ وہ كل ان مشقوں كو اپنى كاپيوں ميں تحرير كركے لائيں-
نتيجہ : طلبہ سبق كے جملوں كو براہ راست سمجهنے كے علاوہ اُنہيں بار بار پڑهنے ، بولنے اور لكهنے كے قابل ہوجاتے ہيں اور ان كے تلفظ كى تصحيح بهى كرچكے ہيں- كيونكہ اُنہيں خالص عربى ماحول ميں بول چال كى مشق كرنے كاموقع ميسر آيا ہے-

ہمارے ہاں مروّجہ طريقہٴ تدريس
اب آئيے ديكهيں كہ ہم اپنى درس گاہوں ميں اپنے بچوں كو بنيادى عربى زبان كى تعليم ان چار طريقوں ميں كس طريقے پر دے رہے ہيں؟ جيسا كہ ہم سب جانتے ہيں،ہمارى درس گاہوں ميں عرصہٴ دراز سے عربى زبان و ادب كى تعليم كا پہلا طريقہٴ تدريس ہى رائج ہے اور ہمارے اساتذہ سبق كے لفظوں يا عبارت كو خود پڑهتے ہيں يا كبهى كبهى كسى طالب علم سے پڑهوا كر اس كااپنى مقامى زبان اُردووغيرہ ميں ترجمہ كرتے ہيں، جسے طلبہ و طالبات سنتے اور ياد كرتے ہيں- اس كے علاوہ ہمارى اكثر درس گاہوں ميں تفہيم و تعليم كا بنيادى ذريعہ تختہٴ سياہ يا وائٹ بورڈ موجود نہيں ہوتا، اگر موجود ہوتا ہے تو اسے بہت كم استعمال كيا جاتا ہے- اس لئے بچوں كو عربى الفاظ كى تشريح لكهوانے كا اہتمام بہت ہى كم كيا جاتا ہے- يوں ہمارے مروّجہ نظامِ تعليم ميں عربى زبان وادب، قرآنِ كريم اور حديث شريف نيز صرف و نحو اور فقہ كى تدريس كا يہى منہج جارى ہے كہ سالِ اوّل سے لے كر سالِ ہشتم (دورہ شہادة عالمية) تك اور مڈل سے لے كر ايم اے عربى، ايم اے اسلاميات تك بلكہ پى ايچ ڈى تك عربى عبارتوں كا اُردو ترجمہ ہى سكهاتے ہيں، اور ان كا اُردو ترجمہ كرلينے اور اپنى زبان ميں ان كے مفہوم كى تشريح كرنے كو كاميابى كى منزل قرار ديتے ہيں- اس كے سوا وہ اس پورے عرصے ميں عربى زبان كے الفاظ اور محاوروں كو لكهنے يا بولنے اور ان كے متنوع استعمالات كى كوئى مشق نہيں كرتے، اور نہ ہى اُنہيں عربى زبان ميں زبانى يا تحريرى بول چال كى مشقيں كرائى جاتى ہيں مثلاً ملك كے عربى مدارس كے تمام وفاقوں كے نصاب تعليم كو ديكھ ليجئے اس ميں ايسى درسى كتابيں بہت كم مليں گى جن ميں متعلقہ مضمون پر سوال و جواب، عربى بول چال اور تحرير و انشا كى مشقيں موجود ہوں، اور جہاں ايسى بہت ہى كم كتابوں ميں ايسى مشقيں موجود ہوتى ہيں، ان كى تدريس كرنے والے اساتذہ اُنہيں نظر انداز كرديتے ہيں اور وہ اِنہيں زبانى يا تحريرى طور پر حل كرانے كااہتمام نہيں كرتے-

ہمارے نظام تعليم ميں عربى عملاً متروك ہے
اگر آپ اپنے ملك كے قرآن و حديث اور عربى ادب كو پڑهنے والے نہايت ذہين اور محنتى طلبہ بلكہ نہايت وسيع اور طويل تدريسى تجربات كے مالك اساتذہ كرام كو ديكهتے ہيں كہ وہ بوقت ضرورت عربى زبان ميں گفتگو اور تحرير ميں بے بس ہوتے ہيں تو اس كى وجہ يہ نہيں ہے كہ عربى زبان اس قدر مشكل يا پيچيدہ ہے كہ اسے طويل عرصہ تك پڑهنے اور پڑهانے كے باوجود اس ميں مناسب صلاحيت پيدا نہيں ہوتى، بلكہ اس كى اصل وجہ يہى ہوتى ہے كہ انہيں ان كى طويل تعليمى مدت كے دوران ايسى تربيت نہيں دى گئى جاتى بلكہ اُنہيں عربى زبان واَدب كے زبانى اور تحريرى استعمال سے مكمل محروم ركها گيا-

اس لئے يہ ايك تلخ حقيقت ہے كہ ہم اپنے تعليمى نظام ميں عربى زبان كو، غير شعورى طور پر ہى سہى، عملى طور پر اور مسلسل ترك كرتے رہتے ہيں- اس لئے ہمارے فضلا اس فن ميں ترقى نہيں كرسكتے- ہمارى درس گاہوں ميں عربى زبان كى تعليم و تدريس كے دوران كئى صورتوں ميں اس كے عملى استعمال كى راہ نكل سكتى ہے ليكن ہم ايسا نہيں كرسكے- چنانچہ عربى كو ترك كرنے اور نظر انداز كرنے كى كئى صورتيں بالكل واضح ہيں :

1 ہمارى نصابى كتابوں ميں تمرين و تربيت كى مشقيں موجود نہيں ہيں-
2 ہمارے اساتذہ بول چال اور تحرير كى مشقيں نہيں كراتے-
3 ہمارے اداروں ميں تشريح و تعليم كے لئے تختہٴ سياہ استعمال نہيں كياجاتا-
4 ہمارے اداروں كے داخلى ماحول ميں عربى بول چال كا ماحول پيدا نہيں كيا جاتا-
5 ہمارے معلّمين بہى اپنے اسباق كے دوران كلاس ميں ايساعربى ماحول پيدا نہيں كرتے، جس سے معلم اور طلبہ كے درميان باہمى گفتگو ميں عربى زبان كے روزمرہ محاورے استعمال ہوتے ہوں-

اس طرح ہمارے طلبہ اور مدرّسين دونوں كوعربى الفاظ يا عبارتوں كا مقامى زبان اُردو يا پشتو وغيرہ ميں ترجمہ تو ياد رہتا ہے، ليكن عربى الفاظ كى سرسرى قراء ت كے بعد اس كے عملى استعمال كا كوئى موقع نہيں ملتا- يوں ہم اپنے تمام اسباق ميں اور تمام تعليمى مراحل ميں عربى زبان كو عملاً اور مسلسل ترك كرتے رہتے ہيں-
اس لئے ہمارے طلبہ و طالبات بلكہ اساتذہ بهى عربى ايسى آسان زبان كو بهى لكهنے اور بولنے كى معمولى صلاحيت سے قاصر رہتے ہيں- اس فرسودہ طريقہٴ تدريس سے عربى زبان مسلسل 'متروك' رہتى ہے- اس لئے ہمارے سكولوں، كالجوں، يونيورسٹيوں اور اسلامى درس گاہوں ميں عربى زبان عملاً 'متروك' ہے- اور يہ ايك بديہى بات ہے كہ جس چيز سے آپ زندگى بهر گريزاں رہيں بلكہ اسے آپ عمداً ترك كريں تو وہ آسان ہونے كے باوجود آپ كو نہيں آئے گى-

معلّم كا كردار بنيادى حيثيت ركهتا ہے
ميں نے بنيادى عربى زبان كى تعليم و تدريس كے جن چار مختلف طريقوں كا ذكر كيا ہے، ان سب ميں ايسى نصابى كتابوں كى مثاليں دى ہيں جو ہمارے اپنے ملك يا علاقے ميں لكهى گئى ہيں اور ان ميں ہمارے اداروں اور ہمارے طلبہ و طالبات كى ضروريات اور معيار كو ملحوظ ركها گيا ہے اور وہ يہاں زير تعليم ہيں- ليكن اسكے باوجود ہرمعلم كى مہارت، تجربے اور محنت كى بدولت اس كاطريقہٴ تدريس دوسرے سے يكسر مختلف ہے اور اس كے مقاصد اور نتائج بهى مختلف ہيں- آپ ديكهتے ہيں كہ
&- تدريس كا پہلا طريقہ بالكل سادہ اور سطحى ہے اور ا س ميں عربى عبارت كا صرف لفظى اُردو ترجمہ سكهاياجاتا ہے-  دوسرے طريقے ميں اُردو ترجمہ كے ساتھ منتخب الفاظ كى تشريح سكهائى جارہى ہے-&- جبكہ تيسرا طريقہٴ تدريس كئى طرح كى محنت اور منصوبہ بندى سے تيار كيا گياہے اور اس سے پانچ فوائد كى تكميل ہورہى ہے:

1بامحاورہ اُردو ترجمہ،2الفاظ كى تشريح، 3 نطق كى تصحيح، 4 عبارت كامكمل فہم اور 5 عربى لكهنے بولنے كى استعداد اسى طرح چوتها طريقہٴ تدريس بہى بڑى مہارت اور توجہ سے تيار كيا گياہے-يہ كسى زبان كى تدريس كا سب سے زيادہ موٴثر اور نہايت كامياب طريقہٴ تدريس ہے، اور تمام مقاصد اور فوائد كى تكميل كرتا ہے- اس سے قارئين اُردو ترجمہ كے بجائے براہ راست عربى زبان ميں غور و فكر كرتے ہوئے اسے پڑهنے، لكهنے اور بولنے كى مہارت حاصل كرتے ہيں-

فرمانِ بارى تعالىٰ ہے: ﴿وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰى﴾ "اور اس حقيقت كو ياد ركهو كہ انسان كو اس كى محنت كے مطابق ہى نتيجہ ملتا ہے-" بہرحال يہ مسلمہ حقيقت ہے كہ بچوں كى تعليم و تربيت اور تدريس ميں معيارى اور اچهى تدريسى كتاب كے ساتھ معلم كوبنيادى حيثيت حاصل ہے- اللہ تعالىٰ ہميں لسانِ قرآن سيكهنے كى توفيق مرحمت فرمائے- آمين

No comments:

Post a Comment