عبدالغفّار صدیقی
تہذیبی تصادم اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ
تہذیبی تصادم آج دنیا میں بحث اورمباحثے کا اہم عنوان ہے۔ یہ اصطلاح اسلام مخالف طاقتوں کی ایجاد ہے جہاں تک لغوی معنی کاتعلق ہے تہذیبوں کا ٹکرائو نہیں ہوتاہے بلکہ تہذیبیں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو گوارا کرتی ہیں، تبھی وہ تہذیب کہلاسکتی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے شریفوں کا ٹکرائو۔ اگر کوئی تہذیب تصادم برائے تصادم کا نظریہ رکھتی ہے تو وہ تہذیب نہیں ہے، وحشی پن ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ تہذیبی تصادم کی اصطلاح سے مقصد یہ ہے کہ متصادم قوتوں کو تہذیب تو تسلیم کیاجائے لیکن ان کی دوقسمیں بنادی جائیں، ایک اچھی اور ایک بُری۔ ایک قدیم و دقیانوسیت پرمبنی دوسری جدید تقاضوں سے ہم آہنگ۔ اگرتہذیب کے بجائے مذہب لفظ کااستعمال کیاجاتا تو مذہب کے مخالف قرار دیے جانے کااندیشہ تھا۔ مذہب سے انسان کا تعلق عقیدت کا ہوتا ہے اور عقیدت پر حملہ برداشت نہیں کیاجاتا۔ دوسرے یہ کہ مذہب کے تحت چند عقائد و رسوم ہی دائرہ تصادم میں آسکتے تھے، لائف اسٹائل نہیں۔ لفظ تہذیب میں وسعت پائی جاتی ہے۔لفظی بحث سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ استعماری قوتیں اپنی اپنی مرضیات کو بروے کار لانے کے لیے قوت کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ ہر استعماری طاقت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی مرضی چلے اگر کہیں ان کی مرضی پر عمل نہیں ہوتا تو وہ چیز ان کی نگاہ میں کھٹکتی ہے۔
تہذیبی تصادم ﴿Clash of Civilization﴾ کے الفاظ سب سے پہلے ۱۹۹۰ میں امریکی ماہنامہ اٹلانٹک میں ایک یہودی مفکر برنارڈلیوس نے استعمال کیے۔ اس کے بعد ۱۹۹۳ میں ایک دوسرے یہودی مفکر سیموئیل ہن ٹنگٹن نے اس عنوان پر فارن افیرز میں ایک مضمون لکھا۔
آج کی متصادم قوتوں میں سے ایک غالب طاقت کا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ، مہذب اور بااخلاق ہے۔ اس کے یہاں آزادی اور رواداری ہے۔ اپنی حریف قوت ﴿اسلام﴾ کے بارے میں اس نے دنیا کو یہ باور کرایاہے کہ اُس کے ماننے والے وحشی اور بداخلاق ہیں۔ ان کے یہاں بیڑیاں ہیں اور رواداری کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ وہ کسی کو برداشت نہیں کرتے۔ مجرموں کو پتھرمارمارکر سزا دیتے ہیں۔ عورت کو برقع و چہار دیواری میں قید رکھتے ہیں۔ اُن کے یہاں عدم مساوات اور تشدد ہے۔ یہ باتیں باربار کہی گئیں اور مختلف پیرایوں میں کہی گئیں۔ اس کا یہ اثر ہواکہ آج دین اسلام اور اس کے ماننے والوں کو امن کے لیے خطرہ سمجھاجانے لگا ہے۔
یہ تصادم جو دنیا میں موجود ہے،اِسے حق و باطل کا تصادم یا واضح الفاظ میں اسلام و صلیب کاتصادم کہاجاسکتا ہے۔ حق و باطل کا یہ تصادم ازلی بھی ہے اور ابدی بھی۔ کائنات کی تخلیق جب سے ہوئی تب سے نزول آدمؑ کے ساتھ نزول ابلیس بھی ہے۔ کوئی دوراور زمانہ ایسا نہیں گزراکہ حق وباطل کایہ تصادم نہ ہوا ہو۔
حق کے غالب ہوجانے کی شکل میں باطل اس کے خلاف ساشیں کرتارہا۔ تاکہ حق کو مغلوب کیاجائے اور حق کے مغلوب ہونے کی شکل میں اس لیے اس سے نبردآزما رہاکہ حق کبھی غالب نہ ہونے پائے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ البتہ اللہ کی مشیّت یہ طے کرتی ہے کہ کب کِس کو غلبہ حاصل ہو۔
تِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِo ﴿البقرہ: ۲۵۰﴾
یہ تو زمانے کے نشیب وفراز ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ اْلأَرْضُ وَلٰٰکِنِّ اللّٰہَ ذُوْفِضْلٍ عَلیٰ الْعٰلَمِیْنَ o﴿البقرہ۲۵۱﴾
اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں ،گرجے گھر ، معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جاتیں’’۔
یہ تصادم حق پرستوں کی آزمائش کاایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بغیر آزمائے حق پرستوں کو سندِ رضا عطا نہیں کرتا، قرآن کریم میں ہے:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوآْْ أَن یَقُولُوآْْ ئَ امَنَّا وھُمْ لَایُفْتَنُونَ ﴿العنکبوت: ۲﴾
کیا لوگوں نے یہ گمان کررکھاتھا کہ وہ صرف اتنا کہنے پر چھوڑدیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ اللہ کو ضرور دیکھناہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں’’؟
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَراَتِ وَبَشَّرِالصَّابِرِیْنَ o ﴿البقرہ:۱۵۵﴾
’’اور ہم ضرورتمہیں خوف و خطر،فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جولوگ ثابت قدم رہیں انہیں خوش خبری دے دو’’۔
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتُرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْامِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَارَسُوْلِہٰ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً ط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌبِمَا تَعْمَلُوْنَoع ﴿التوبہ: ۱۶﴾
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ یونہی چھوڑدیے جائوگے حالاں کہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھاہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوںنے ﴿اس راہ میں﴾ جاں فشانی کی اور اللہ اور اللہ و رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے’’۔
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o﴿آل عمران: ۲۴۱﴾
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جائوگے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھاہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں’’۔
ملت کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ آج اس کشمکش سے بڑا مضطرب اور بے چین ہے اور یہ بے چینی بعض اوقات اُسے یاس وقنوطیت کے غار میں ڈھکیل دیتی ہے۔ اس طبقے کی مایوسی میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتاہے، جب وہ ملت کے اندر روز بروز بڑھتے اختلافات کو دیکھتا ہے۔ اس کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ سارے مسلمان ایک ہوجائیں اور سارے اختلافات ختم ہوجائیں۔ مگر اس طبقے کے اِس اضطراب کے اندر دو خامیاں ہیں ایک یہ کہ اُس نے انسانی تاریخ کا تجزیہ نہیں کیا۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مصیبت صرف اِسی دور میں ہے دوسرے یہ کہ وہ تبدیلی و تغیر کی خواہش تو کرتاہے، مگر اِس کے لیے قربانی نہیں دیناچاہتا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے :
اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُمَابِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْمَابِاَنْفُسِھّمْ ﴿الرعد: ۱۱﴾
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی’’۔
جیساکہ عرض کیاگیایہ تصادم ازلی ہے۔ قرآن کہتاہے ‘‘اے رسول ﷺتم سے پہلے بھی رسولوں کی تکذیب کی گئی ہے’’۔ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اے خباب! ابھی تو تم پر وہ مصیبتیں نہیں آئیں، جو تم سے پہلے انبیائ اور ان کی امتوں پر آئی تھیں۔انہیں آرے سے چیراجاتاتھا، آگ میں جلایاجاتا تھااور ان کے ناخن اکھاڑدیے جاتے تھے’’۔
حق و باطل کا یہ تصادم کبھی بدر واحد کی وادیوں میں ملتا ہے، کبھی حنین و تبوک کے میدانوں میں، باطل کبھی تنہا آتاہے تو کبھی احزاب کی شکل میں۔ فتح مکہ کے بعد یہ تصادم جزیرۃ العرب سے نکل کر فلسطین ، مصر، شام، اندلس ، قسطنطنیہ، عراق وایران تک پھیل گیا۔ باطل آج کے نام نہاد و مہذب صلیبیوں کی شکل میں خالص مذہبی لبادے میں بھی سامنے آتاہے اور کبھی یہ چنگیز وہلاکوبن کر نمودار ہوتا ہے اور تباہی و بربادی کی وہ تاریخ رقم کرتاہے کہ آج تک آسمان نے ایسی تباہی نہ دیکھی ہوگی۔ اُن کا قہر صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ گارے مٹی کی بنی عمارتوں، قلم ودوات سے لکھی کتابوں اور لائبریریوںاور شفاخانوں سب پر ٹوٹ پڑاتھا۔ اسی بربریت نے مامون رشید کے قائم کردہ بیت الحکمہ کو دریابرد کردیا اور دریائے دجلہ کے پانی کا رنگ ہفتوں کالابہتارہا۔ جب باطل برطانوی استعمار کے روپ میں آیا تو ظلم واستبداد کی ایک نئی داستان رقم کی۔ آج کا ‘‘مہذب‘‘ باطل جو آزادی ضمیر و اظہار رائے کا مبلغ بھی ہے، انسانوں کو حیوانی حقوق تک دینے پرراضی نہیں ہے۔ کبھی یہ باطل کارل مارکس کی قیادت میں بھی نظرآیا، اس کے متبعین کے مظالم دیکھ کر چنگیز وہلاکو کی روح بھی شرم سے اپنا منہ چھپالیتی ہوگی۔ آج کا باطل امریکی استعمار کی شکل میں نیوورلڈ آرڈر کی صورت میں ، جمہوریت کے حسین لبادہ میں امن کا علم لے کر آیا ہے، جس نے ایم این سیز، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے جال سے دنیاکا شکار کیاہے۔ ۳۱/لاکھ افراد عراق میں اور۲۱لاکھ افغانستان میں شہید کردیئے گئے اور یہی ‘‘تہذیب’’ کے علمبردار بڑی بے شرمی سے کہہ رہے ہیں ‘‘عراق کے پاس خطرناک ہتھیاروں کی اطلاع غلط تھی، عراق پر حملہ ہماری بھول تھی’’۔ مگر جنہیں عراق حملہ پر شرمندگی کا احساس ہے وہ اب ایران کوگھیرنے کی تیاری میں ہیں۔
اسلام کے ساتھ تصادم میں باطل نے ایک ہتھیار یہ بھی استعمال کیاکہ مسلمانوں میں مذہبی و مسلکی اختلافات کو ہوادی، بعض افراد اور اداروں کو اس کے لیے سرمایہ فراہم کیاگیا۔ غلام احمد قادیانی کی شکل میں نئے نبی کو پیش کیاگیا، آج بھی اس تحریک کو استعماری آقائوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسے افراد واداروں کو ہمیشہ مغرب نے پناہ دی ، جس کی زبان وقلم نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لکھا اور کہاہو۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ
اسلام کو مٹانے اور دبانے کی سازشیں اور کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، لیکن اسلام چونکہ دین فطرت ہے، دین حق ہے اور انسانیت کی آواز ہے، اس لیے ہمیشہ فتح حاصل کرتا رہا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی قیادت میں اٹھنے والی اسلامی تحریک نے اکیس سال کی مختصر مدت میں عالم عرب کو فتح کیا ، اس کے بعد تقریباً ۲۱سو سال تک یہ دین حکمرانی کرتا رہا۔ اس لیے اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر بات کرتے ہوئے ہمارا یقین ہی نہیں بلکہ تقاضائے ایمان ہے کہ اسلام عنقریب غالب ہوگا۔
آج اسلام اور مسلمان ، اسلامی معاشرے کے خلاف جو کچھ ہورہاہے، وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ باطل قوتیں اسلام کے آفاقی و انسانی تصور سے خائف ہیں۔ کوئی کہتاہے کہ آیندہ پچیس سال بعد مسلمانوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہوگی، کوئی قبول اسلام کے بڑھتے واقعات سے خوف زدہ ہے کہ یہی سلسلہ رہا تو یورپ میں مسلمان اکثریت میں آجائیںگ ے، کسی کو ڈاڑھی میں اسلامی حکومت کا خطرہ نظرآتا ہے، کسی کو برقع میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی آہٹ محسوس ہوتی ہے، کوئی مساجد کی تعمیر سے مضطرب اوربے چین ہے اور کہتاہے کہ مساجد کے مینار اسلامی اقتدار کی علامت ہیں۔ ایک برطانوی وزیر ایک مسلم شادی کی تقریب سے اس لیے واپس چلاگیا کہ وہاں مرد وں اور عورتوں کے لیے الگ الگ نظم کیاگیاتھا۔
اسلام اللہ کا دین ہے انسانوں کے لیے راہ نجات یہی ہے، قرآن ہی وہ کتاب ہدایت ہے جو قیامت تک رہ نمائی کا کام کرتی رہے گی۔ایک ایسا دین جس کی ضرورت سارے انسانوں کو ہو اور قیامت تک کے لیے ہو اور جس پر آخرت کی کامیابی کاانحصار ہو، اس کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ ‘‘واللّٰہُ مُتم نورہ ولو کرہ المشرکون’’ اللہ اپنے نور کو پھیلاکر رہے گا خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ تو ہوگی لیکن اس میں ہمارا کیا کردار ہوگا، ہمیں اس پر غور کرناچاہیے ۔ کیا ہم اپنی صلاحیتیں اور قوتیں اللہ کے دین کی اقامت کے لیے کماحقہ لگارہے ہیں اور کیا ساری دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خواہش رکھنے والوں کے اپنے گھروں میں یہ نشاۃ ثانیہ ہوچکی ہے؟ یہ وہ جائزہ ہے جو ہم سب کو لینا ہے۔
No comments:
Post a Comment