Search This Blog

Saturday, 25 February 2012

۱۸۵۷ء۔ ایک مطالعہ

لیق احمد نظامی
۱۸۵۷ء۔ ایک مطالعہ

۱۸۵۷ء ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے قدیم وجدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش بھی پڑھے جاسکتے ہیں اورمستقبل کے امکانات کا جائز ہ بھی لیا جاسکتا ہے ۔مغلیہ سلطنت جس کے دامن میں ایک ایسی تہذیب نے پرورش پائی تھی جورنگ ونسل اورمذہب وملت کے سارے امتیازات سے بالاتر ہوکرایک عرصہ تک ہندوستان کی سیاسی وحدت کی ضامن رہی تھی ،یہا ں پہنچ کر دم تو ڑدیتی ہے ۔اور اس کے ساتھ تاریخ کا ایک دورختم ہوجاتا ہے ۔
پرا نا سماجی نظام اورپرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں اورنئی سماجی قوتیں صرف فکرونظرکے سانچے ہی توڑنے پراکتفا نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے سارے محوربدل دیتی ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء میں صرف ایک سیاسی نظام ہی کا جناز ہ نہیں نکلتا بلکہ ہندی قرونِوسطی کا ساراتہذیبی سرمایہ نیست ونابودہوجاتا ہے ۔دہلی جوصدیوں تک علم وہنرکا مرکز اورتہذیب وتمدن کا گہوارہ رہی تھی اس طرح تباہ بربادہوجاتی ہے کہ دیکھنے والے بے اختیار پکاراُٹھتے ہیں ؂
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک !اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
اس سیاسی اورتمدنی بربادی کی داستان مورخین نے مختلف نقط ہائے نظرسے ترتیب دی ہے ، بعض نے اس کا مطالعہ محض سپاہیوں کے ہنگامہ کی حیثیت سے کیا ہے بعض نے پوری تحریک میں صرف چند رجعت پسند عناصر کی سرگرمی دیکھی ہے اورکچھ مصنفین نے اس کوایک ڈوبتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کے سنبھالنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے ۔یہ اوراس طرح کی تمام تعبیریں حقیقت کے صرف ایک پہلوکو سامنے لاتی ہیں اس لئے جزوی طورپرصحیح لیکن کلی طورپرغلط ہیں ۔
دنیا کی کسی تحریک کا بھی بے تعصبی سے مطالعہ کیا جائے تویہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اس میں حصہ لینے والے سب لوگوں کے مقاصداورمطمح ہائے نظرایک نہیں ہوتے ۔فرانس میں جب cahiers کے ذریعہ فرانسیسی باشندوں کی شکایت اورمطالبات کا پتہ لگانے کی جستجوکی گئی تومعلوم ہواکہ جہاں کچھ لوگ مطلق العنان شخصی حکومت سے نالاں تھے ،وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کوصرف یہ شکایت تھی کہ ان کے محلہ میں روشنی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔
تاریخ عالم شاہدہے کہ کسی محکم سیاسی نظام کوتوڑنے کے لئے جوتحریک بھی اٹھتی ہے اُسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کتنی ہی پُر پیچ وادیوں سے گزرناپڑتا ہے ۔کبھی وقتی جذبات اورعارض۔ی مصالح ،بنیادی مقاصداورحقیقی نصب العین کوشکست دیتے ہوئے نظرآئے ہیں ،کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ تحریک ان ہاتھوں میں چلی جاتی ہے اپنے افکار کی پستی اورکردار کی درماندگی کی بناپر قیادت کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن بایں ہمہ تحریک کے مقصدد منہاج کا نقش معاصرین کے ذہنوں میں قائم ہوجاتا ہے وہی اس کی نوعیت کو متعین کرتا ہے اوراسی سے اس کی کا میابی یاناکامی کا اندازہ لگا یاجاتا ہے ۔انقلاب فرانس کا مقصد شہنشاہیت کا استیصال اورایک ایسے نظام کی تشکیل تھا جس کی عمارت حریت ،اخوت اورمساوات کی محکم بنیادوں پرقائم ہو،لیکن کیا انقلاب فرانس کی تاریخ میں صرف یہی مرکزی نقطۂ نظرہمیشہ اورہرطبقہ کا رہا ہے ؟۔ ۔ ۔
مورخوں نے تسلیم کیا ہے کہ انقلاب کے دوران میں بارہٍا ایسے عناصر برسراقتدارآئے جوتحریک کی قیادت کی اہلیت نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجودتحریک کا دھارا scumred scumwhite کو اپنی سطح پرلئے اپنے مقصد کی جانب بڑھتارہا ۔
۱۸۵۷ء میں سپاہیوں کی بغاوت بھی ہوئی اور رجعت پسند عناصرنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہدبھی کی لیکن مجموعی حیثیت سے تحریک کی نوعیت غیرملکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک ہی کی رہی اوراس کا احساس انگلستان کے بعض معاصر صحافیوں اورمدبروں کوبھی تھا۔ لارڈ سالسبری نے ایوان عام میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھاکہ کیسے تسلیم کر لیاجائے کہ اتنی وسیع اور زبردست تحریک صرف کا رتوسوں کی وجہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔لندن کے ایک اخبارنے اسی زمانہ میں لکھا تھا :
’’اگربے اطمینانی صرف سپاہیوں تک ہی محدودہے اورعام لوگ ہمارے ساتھ ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومتِ ہند کیوں باربارانگریز ی فوجیں طلب کرتی ہے اورتارپرتارکیوں کھڑکا تی ہے ؟ اگرلوگ حکومت کے ساتھ ہیں جیسا کہ وزیراورکمپنی کے ڈائرکٹربیان کرتے ہیں توانہیں وہیں سے اتنے آدمی مل سکتے ہیں کہ وہ اُن سے دس فوجیں کھڑی کر لیں ۔
انگریز نے اپنا تسلط قائم کر لینے کے بعدجس بہیمیت اوربربریت کے ساتھ ہندوستانیوں کوسزائیں دی تھیں اورہزاروں بے گناہ انسانوں کومحض انتقامی جذبے کے ماتحت موت کے گھاٹ اتارا تھا اُس سے ملک میں خوف اور دہشت کی ایک عام کیفیت پیداہوگئی۔ہندوستانیوں میں اتنی ہمت تک نہ تھی کہ تحریک کی نوعیت کے متعلق ایک حرف بھی نوک زباں پرلاسکیں ۔انگریز نے تحریک کو’’غدر،، کہاتو وہ خودبھی اسے ’’غدر،،کہنے لگے ۔
جوں جو ں دلوں سے خوف کے پردے ہٹے ،تحریک کی صحیح نوعیت کا احساس بھی بیدار ہونے لگٍا اوراسی کے ساتھ ساتھ زاویئہ نگاہ میں تبدیلی بھی پیداہونے لگی ’’غدر،،سے ’’رستخیز بیجا،، ہوا ،اور رستخیزبے جا’’سے ،، ہنگامہ ۱۸۵۷ء ،، اورآزادی کے بعد‘‘ آزادی کی پہلی جنگ ’’ یا‘‘قومی تحریک ‘‘۔گویہ سب الفاظ بدلتی ہوئی سیاسی فضاکی آئینہ دارہیں ،لیکن یہ شبہ ذہن میں پیدا نہیں ہوناچاہیے کہ معاصرین ۵۷ء کے ہنگا مہ کو’’قومی تحریک ‘‘یا’’ آزادی کی جدوجہد،،سے تعبیر نہیں کرتے تھے ۔صحیح ہے کہ قومیت کا موجودہ تصوراس دور میں نہ تھا ،لیکن انگریزوں کے خلاف پورے ہندوستان کے ایک ہونے کا تصور’رغدر،سے بہت پہلے ہندوستانی ذہن میں کام کرنے لگا تھا ۔سیداحمدشہیدؓ نے ہندوراؤکوجوخط لکھا تھا اُس میں ’’بیگانوں ‘‘کے ہندوستان پرقابض ہوجانے کی شکایت تھی ! گویاوہ ایک ہی گھرکے آدمی کومشتر کہ دشمن کے خلاف اشتراکِعمل کی دعوت دے رہے تھے ۔رسالۂ اسباب بغاوت ہندمیں گومصلحت وقت نے بعض مقامات پرسرسیدکا قلم پکڑلیا ہے لیکن پھربھی اُنہوں نے تحریک کی نوعیت کوواضح کرنے میں سرموکوتاہی نہیں کی ۔اُن کا ایک طرف یہ لکھنا کہ ۔ ۔ ۔
بہت سی باتیں ایک مدتِدرازسے لوگوں کے دل میں جمع ہوتی جاتی تھیں اور بہت بڑا میگزین جمع ہوگیا تھاصرف اس کے شتابے میں آگ لگانی باقی تھی ۔
کہ سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگا دی ‘‘
اوردوسری طرف یہ کہناکہ ۔
’’سب لوگ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ واسطے اسلوبی اورخوبی اورپائداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایاکی حکومت ملک میں واجبات میں سے ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ بات نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں نہ ہو ۔ ۔ ۔ پس یہی ایک بات ہی جو جڑہے تمام ہندوستان کے فسادکی اورجتنی باتیں اورجمع ہوتی گئیں وہ سب اُس کی شاخیں ہیں ،، 
اف ظاہر کرتا ہے کہ وہ تحریک کی عوامی حیثیت کے پورے طورپرمعترف تھے ۔خودانگریزوں نے اس تحریک کودبانے کے لیے جوطریقۂ کا راختیارکیا تھا اورجس طرح ہندوستانیوں کوسزائیں محض یہ حقیقت کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگا مہ داروگیر سے گزرنے والوں کو ’’مجاہدین فی سبیل اللہ ‘‘ اورشہداء راہ خدا ،، کا درجہ دیاگیا تھا ۔ہندوستانیوں کی تحریک سے گہری وابستگی کوسمجھنے کے لیے بس کرتی ہے !
۱۸۵۷ء کی تحریک میں سکھوں اورپارسیوں کے علاوہ ہرمذہب وملت کے لوگوں نے حصہ لیا تھا ۔تحریک کی ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندراندرسارے ملک میں ہنگا مے شروع ہوگئے تھے ۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کے بعض علاقے تحریک سے علیحدہ رہے اوربعض نے انگریزوں کا ساتھ دیالیکن اس سے تحریک کی نوعیت پرکوئی اثرنہیں پڑتا ۔کسی بھی قومی تحریک یاجنگ آزادی میں تمام علاقوں اورتمام طبقات نے شرکت نہیں کی ہے ۔انقلابِ فرانس کے وقت ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود تھاجو شہنشا ہیت کوقائم رکھنا چاہتا تھٍا اور اس کی موافقت میں کا م کر رہا تھا ۔اسی طرح امریکہ کی جنگ آزادی میں بہت سے لوگ تاج برطانیہ کے مددگا ر رہے تھے ۔
یہاں ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ۵۷ء کی تحریک عوامی ہوتے ہوئے بھی ناکام کیوں رہی اس سلسلہ میں تاریخ انقلاب کا ایک راز فراموش نہیں کرنا چاہے ۔انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی نظام کے خلاف شدید بے چینی ہووہاں اس کا میابی کے لئے ازبس لازمی ہے کہ مستقبل کی تعمیرکا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو۔ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اوربرطانوی طریق کا رسے سخت بیزاری ضرور نظرآتی ہے لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی تشکیل جدیدکا نقشہ نہیں ملتا !یہی نہیں بلکہ اُس وقت جتنی بھی طاقتیں میدان میں سرگرم عمل تھیں ان میں سے کوئی بھی ایک کُل ہندنظام کا بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی ۔یہ ایسی محرومی تھی جس نے ساری تحریک کی روح کومضمحل کر دیا تھا ۔اور ہرفوجی مہم کسی مقصدتک رہبری کرنے کے بجائے وقتی ہنگا مہ آرائی میں ختم ہوجاتی تھی ۔جمہوریت اورخوداختیاری کے افکار ابھی سیاسی شعور میں داخل نہیں ہوئے تھے اس لئے سیاسی زندگی کی تعمیر نوکا سوال بے معنی تھا ۔شخصی حکومت کا تصور اس طرح رگ وریشہ میں پیوست ہوچکا تھا کہ ہرمقام پر لوگ ۔ ۔ ۔ بہادرشاہ ،، ایک ،،نانا صاحب ،، ایک ،، رانی لکشمی بائی ،، ایک ’’ برجیس قدر،، کی تلاش کرتے تھے ۔ اورچاہتے کہ ان ہی کے سہارے کوئی ایسا نظام تشکیل پاجائے جواُن کے مصائب کا علاج اوراُن کے دردکا مداوابن سکے مغل بادشاہ ہندوستان کا توسوال کیا ،لال قلعہ کوبھی قابومیں رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا ۔مرہٹوں کی اجتماعی طاقت کا عرصہ ہواخاتمہ ہوچکا تھا۔ روہیلوں کے چندسردار جواس وقت مختلف مقامات پراپنی طاقت کا استحکا م کر رہے تھے ،مقامی طورپر مدافعت اورکار برآری کی صلاحیت تورکھتے تھے ،لیکن ایک وسیع علاقہ پرحکومت کرنے کے لئے جس دور اندیشی ،تدبراور انتظامی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کا دور تک کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر اس شخصی عقید ت کے نازک رشتوں کوبھی توڑنے کے لئے کتنے ہی عنا صر کا م کر رہے تھے ۔دہلی میں بخت خاں کونہ صرف مغل شہزادوں کا تعاون حاصل نہ ہوسکا بلکہ اس کا اثر توڑنے کے لئے یہ پروپیگنڈ اکیا گیا کہ شیرشاہ کی طرح اس کا اقتدار بھی مغلیہ خاندان کے لئے مہلک ثابت ہوگا لکھنؤ میں حضرت محل کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر احمداللہ شاہ کی مدد سے اقتدار قائم ہواتو سنیوں کا غلبہ ہوجائے گا اسی طرح روہیلوں کے علاقوں میں ہندوزمینداروں کوروہیلہ سرداروں سے برگشتہ کیا گیا۔لارنس نے سکھوں کوبہادرشاہ سے بدظن کرکے دہلی کے ساتھ سکھوں کے اشتراک عمل کے امکانات کوختم کر دیا۔ ان تمام کمزوریوں اورکوتا ہیوں کے باوجود اگر۱۸۵۷ء کا ہندوستان بہترین صلاحیتیوں کویکجاکر دیتا تویقینا غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہ پہنا ئی جاسکتیں تھیں ۔
۱۸۵۷ء کی تحریک غیرملکی اقتدار کے خلاف جنگ کی ابتداء بھی تھی اور ایک منزل بھی ۔یہ سمجھ لینا صحیح نہ ہوگا کہ اس سے قبل انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ ہندوستانیوں کا ذہن غیر ملکی تسلط کے خلاف پورے طورپرتیار ہوچکا تھا ۔یہ سیاسی شعوراوربیداری شاہ ولی اللہ دہلوی ؓ (م ۱۷۶۲ء ۱۱۷۶ھ ) اوران کے گھرانے کی پیداکی ہوئی تھی ۔شاہ صاحب ؓ نے اپنی تصانیف میں ملوکیت اورشہنشا ہیت کے خلاف جگہ جگہ آوازاٹھائی تھی اورسیاسی نظام کی اصلاح کے لیے صرف اعلیٰ طبقوں ،امراء وحکام ہی کومتوجہ نہیں کیا تھا ،بلکہ عوام کوبھی مخاطب کیا تھا ،ان کی تحریک کا سب سے زیادہ ترقی پسند پہلویہ تھاکہ وہ سیاسی نظام کا انحصار،،عوام ،، پرسمجھتے تھے اور ان میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتے تھے کہ اگروہ تیار ہوجائیں توسارے مصائب کا علاج ممکن ہے ان کے جانشینوں نے ان کی تحریک کو آگے بڑھا یٍا اوران کے پیدا کئے ہوئے سیاسی د ستورکی روشنی میں ملک کی رہبری کی ۔ شاہ عبدالعزیزصاحبؒ (م۱۸۲۴ء ) ۱۲۳۹ ھ) نے ایک فتوی میں کہا تھا ۔
یہاں روسائے نصاری کا حکم بلادغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اوران کا حکم جاری اورنافذہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری اورہندوبست رعایا،خراج وباج ،مال تجارت پرٹیکس ،ڈاکوؤں اورچوروں کو سزائیں ،مقدمات کے تصفیے ،جرائم کی سزائیں ،وغیرہ (ان تمام معاملات میں ) یہ لوگ بطورخودحاکم اورمختار مطلق ہیں ۔ہندوستانیوں کواُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں بیشک نماز جمعہ ،عیدین ،اذان ،ذبیحہ گا ؤ جیسے اسلام کے چنداحکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے ،لیکن جو چیزان سب کی جڑاوربنیاد ہے وہ قطعا ًبے حقیقت اورپامال ہے چنانچہ بے تکلف مسجدوں کومسما رکر دیتے ہیں عوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے ۔انتہایہ کہ وکوئی مسلمان یاغیرمسلم اُن کی اجازت کے بغیر اس شہریٍا اس کے اطراف وجوانب میں نہیں آسکتا ۔عام مسافروں یاتاجروں کوشہرمیں آنے جانے کی اجازت دنیابھی ملکی مفادیا عوام کی شہری آزادی کی بناپرنہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطرہے ۔اس کے بالمقابل خاص خاص اورممتاز اورنمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اورولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے ۔دہلی سے کلکتہ تک انہی کی عملداری ہے ۔بیشک کچھ دائیں بائیں مثلا حیدرآبا د لکھنو۔رام پورمیں چونکہ وہاں کے فرماں رواؤں نے اطاعت قبول کر لی ہے براہ راست ) نصاری کے احکام جاری نہیں ہوتے ۔شاہ عبدالغریزصاحبؒنے ہندوستان کو ’’دارالحرب ‘‘ قراردے کر،غیرملکی اقتدارکے خلاف سب سے پہلا اورسب سے زیادہ موثرقدم اُٹھایا تھا ۔اس فتوے کی اہمیت کووہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو دارالحرب ،، کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پرخاندان ولی اللہی کا ثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں ۔سیداحمدشہیدؒمولانا اسمعیل شہیدؒوغیرہ نے اپنے سیاسی فکرمیں انگریزی اقتدار کوجودرجہ دیا تھا اُس کی بنیادیہی فتویٌٰٰتھا سیداحمدشہیدؒکی تحریک جس کو مصلحتا ًبعض ممتاز اشخاص نے سکھوں کے خلاف تحریک کا رنگ دے دیا تھا ، حقیقتا انگریزوں ہی کے خلاف سب سے زیادہ منظم کوشش تھی ۔اُن کا مقصد اولیں یہی تھا کہ انگریزوں کوہندوستان سے نکال دیا جائے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے مقام پرطاقت کا استحکام ضروری تھاجہاں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تنظیم کرنے میں مددملے ۔اگر سرحداورپنجاب میں وہ اپنی طاقت کے استحکام میں کامیاب ہوجاتے توہندوستان میں برطانوی سامراج کے قدم اتنی آسانی سے نہیں جم سکتے تھے ۔ ان کی تحریک کی نوعیت اوراُن کے مقاصد کا انداز ہ اس خط سے لگا یاجاسکتا ہے جوانہوں نے راجہ ہندوراؤ کولکھا تھا:
’’جناب کوخوب معلوم ہے کہ پردیسی سمندرپار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجداراور یہ سودابیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں بڑے بڑے امیروں کی امارت اوربڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اوران کی عزت وحرمت کو انہوں نے خاک میں ملادیا ہے جوحکومت وسیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لئے مجبوراچند غریب وبے سروسامان کمرہمت باندھ کرکھڑے ہوگئے اورمحض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آے ۔یہ اللہ کے بندی ہرگزدنیا داراور جاہ طلب نہیں ہیں محض اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اٹھے ہیں مال ودولت کی ان کو ذرہ برابرطمع نہیں ۔جس وقت ہندوستان ان غیر ملکیوں سے خالی ہو گا اور ہماری کوششیں بارآورہوگئیں حکومت کے عہدے اورمنصب ان لوگوں کوملیں گے جن کوان کی طلب ہوگی ۔
سیدصاحب کے عزیزترین مرید اوردست راست مولاناشاہ محمداسعیل شہیدؒنے اُن کی سیاسی فکر کومنصب اِمامت میں اورزیادہ واضح طورپرپیش کیا ہے اوربتایا ہے کہ ملوکیت سب سے بڑی لعنت ہے ۔
سلاطین وملوک کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ان کو جڑسے اکھاڑپھینکنا ،عین انتظام ہے اوران کوفنا کر دینا عینِ اسلام ہے ہرصاحبِاقتدارکی اطاعت کرنا حکم شریعت نہیں ہے مسلمانو ں کی تنظیمی صلاحیت عسکری قابلیت معاملہ فہمی اورتدبرکا جوکچھ بچا کچاسرمایہ رہ گیا تھا اس کوسیداحمدشہیدؒ نے بہترین طریقہ پراستعمال کیا ۔وقتی طورپران کوناکامی ضرورہوئی لیکن ان کی تحریک نے سرفردشی کا جوجذبہ پیدا کر دیا تھا وہ ایک عرصہ تک قلب وجگرمیں شعلہ کی طرح بھڑکتا رہا ۔
جلے جل کربجھے بھی چشم صورت بیں میں پروانے
فروزاں کرگئے وہ نام لیکن شمع سوزاں کا
حقیقت یہ ہے کہ سیداحمدشہیدؒ اوران کے رفقاء کا ر کے خون سے آزادی کا پوداہندوستان میں سینچاگیا۔ انگریزوں نے ان کی تحریک کی نوعیت کوخوب سمجھ لیا تھا اوروہ اس جذبہ سے بھی بے خبرنہ تھے جوجماعتِمجاہدین کے قلب وجگر کوگرمائے ہوئے تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو وہابی کا لقب دے کراس مکتبِخیال کے لوگوں کوختم کیا اوردوسری طرف کوشش کرکے اس تحریک کواس طرح پیش کیا اور کرایاجس سے متاخرین کوایسا محسوس ہونے لگا گویا اس کا رخ مح۔ض سکھوں کی طرف تھا ۔ حدیہ ہے کہ جماعت مجاہدین کے ایک رکن مولوی محمد جعفرتھا نیسری نے تواریخِ عجیبہ میں ان کے مکتوبات کومسخ کیا اور نصاری نکوہیدہ خصال ،،کی جگہ سکھاں نکوہیدہ خصال ،،کر دیٍا اورکفار فرنگ برہندوستان تسلط یافتہ ،،کو،، کفاردراز مویاں کہ برملک پنجاب تسلط یافتہ میں تبدیل کر دیا۔ مولانا غلام رسول مہرنے جس کا وش سے ان تمام لفظی اور معنوی تحریفات کوبے نقاب کیا ہے اس کواس دور کی سب سے زیادہ قابل قدر تحقیقات میں شمار کرنا چاہے ۔
سید احمد شہید ؒ نے بالاکوٹ سے کلکتہ تک اپنا نظام پھیلادیا تھا۔ جو شخص ایک بار بھی ان کی تحریک میں شامل ہوگیا اس کا پورا خاندان عمر بھر جہاد کی تمنا کرتا رہا ۔ ہزاروں انسانوں کے دل میں آزادی کی لگن پیدا ہوگئی ۔
سید صاحبؒ کی تحریک نے مسلمانوں میں جو روح پھونک دی تھی اس کے مظاہرے ان کی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک ہوتے رہے ۔ جنگ بالاکوٹ کے چودہ پندرہ سال بعد سر سید احمد خان نے لکھا تھا۔ اس واقعہ (یعنی شہادت کے چودہ پندرہ بر س گزرے ہیں اور یہ طریقہ آخر الزماں میں بنیاد ڈالا ہوا آنحضرت ﷺ کا ہے اب تک اس سنت کی پیروی عبا د اللہ نے ہاتھ سے نہیں دی۔ اور ہر سال مجاہدین اوطان مختلفہ سے بہ نیت جہاد اسی نواح کی طرف راہی ہوا کرتے ہیں اور اس امر نیک کا ثواب آپ کی روح مطہر کو پہنچتا رہتا ہے ۔
سید صاحب کی شہادت کے بعد لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ : اللہ تعالیٰ نے ان کو موجودہ کمزور نسلوں سے اٹھا لیا ہے اور جب ہندوستان کے مسلمان یک جان ہوکر انگریز کافروں کے خلاف جہاد شروع کریں گے تو امام صاحب ظاہر ہو کر فتح کی طرف ہماری رہنمائی کریں گے ۔چنانچہ ۱۸۵۷ء کی تحریک میں عملا ً حصہ لینے والے بہت سے افراد سید احمد شہید کے افکار ونظریات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں ۔۳؂بخت خان کے متعلق ہمار ا خیال ہے کہ وہ بھی جماعت مجاہدین ہی سے متعلق تھے ۔ بہادر شاہ کے مقدمہ کے دوران میں ان کو وہابی العقیدہ بتایاگیا تھا۔ ۴؂ کوئی شخص بھی جس نے ہنٹر کی کتاب’’ ہمارے ہندوستانی مسلمان پڑھی ہے اس سے انکار نہیں کرے گا کہ وہابی کا لفظ اس زمانہ میں سید صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ اور بقول ہنٹر ’’ وہابی‘‘ اور غدار ہم معنی الفاظ تھے ۵؂ بخت خان نے علماء سے جس نوع کے تعلقات رکھے ،ا س سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سید صاحب کی تحریک سے متاثر تھے جس وقت وہ تحریک میں حصہ لینے کے لیے دہلی پہنچے تھے سو علمٍا ان کے ہمراہ تھے ۔ دوران ہنگامہ میں وہابی علماء کی ایک جماعت ٹونک سے ان کے پا س آئی تھی ۔اس کے علاوہ جے پور، بھوپال، ہانسی حصار اور آگرہ سے بھی کافی علماء کھچ کھچ کر ان کے گرد جمع ہوگئے تھے ۔ ان علماء پر بخت خان کو اس قدر اعتماد تھا کہ تخلیہ کے ان مخصوص مشوروں میں جن میں سوائے ان کے اور بادشاہ کے کوئی تیسرا شخص نہ ہوتا تھا ان علماء کو شریک کر لیا جاتا تھا۔ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کا بیان ہے کہ دہلی میں جہاد کے فتوے کو جو اہمیت اور چرچا حاصل ہوا وہ بخت خان کے دہلی آنے کے بعد ہوا۔
مولانا لیاقت علی الہ آبادی بھی اسی مکتبِ خیال کے مجاہد معلوم ہوتے ہیں ۔ ان کے شائع کئے ہوئے دو اشتہارات کا مضمون ملاحظہ فرمائیے ایک ایک حرف سید صاحب کے اندازِفکر کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئے گا ۔ایک اشتہار میں تو ستائیس اشعار اس جہاد یہ نظم میں سے نقل کئیے گئے ہیں جو سید صاحب کے مجاہدین میدانِ جنگ میں پڑھا کرتے تھے ۔ مولانا عنایت علی صادق پوری جن کی کوششوں سے مروان میں ر جمنٹ ۵۵ نے بغاوت کی تھی، سید صاحب کے خلیفہ اور جماعت مجاہدین کے سر گرم کارکن تھے ۔
مولانا عبد الجلیل شہید علی گڈھیؒ جنہوں نے علی گڈھ میں فرنگی قوت سے دلیرانہ مقابلہ کیا ۔سیدصاحب کے خلفاء میں سے تھے ۔ ان چیدہ شخصیتوں کے علاوہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں حصہ لینے والے اور بہت سے اشخاص سید صاحب کی جماعت یا ان کے مکتبِ خیال سے تعلق رکھتے تھے ۔ اور غالبا اسی بنا پر بعض لوگوں نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو مسلمانوں کی تحریک قرار دیا تھا ۔ ہر چند کہ مجاہدین نے اس ہنگامہ میں بری سرگرمی دکھائی لیکن وہ اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے ۔اس کے د وسبب تھے ، اول تو یہ کہ بالا کوٹ کی ناکامی نے کسی بڑے پیمانے پر تنظیم کا حوصلہ ختم کر دیا تھا ۔ دوسرے یہ کہ تحریک مجاہدین کی مذہبی نوعیت کے باعث ہندوستان کے تمام طبقات اور مختلف مذاہب کے لوگ ان کی قیادت پر غالبا متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ چنانچہ انفرادی طور پر مقامی حالات کے پیش نظر اس مکتبِ خیال کے لوگوں نے بہت نمایاں حصہ لیا او رغیر ملکی تسلط کے خلاف جدوجہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ، لیکن تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے ۔
دنیا کے بیشتر انقلاب کسی اہم حادثہ یا سانحہ سے شروع نہیں ہوئے ۔عموماً یہ ہوا ہے کہ خاموش سطح کے نیچے آتشیں مادہ جمع ہوتا رہا ہے اور پھر کسی معمولی سے واقعہ نے جو بہ حالات دیگر سطح آب پر تموج بھی پیدا نہیں کر سکتا تھا ،ساری فضا میں طوفان بر پا کر دیا ہے ۔فرانس اور امریکہ کے انقلابات کی ابتداء معمولی معمولی واقعات سے ہوئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں تمام بیتاب عناصر اوپر آگئے اور ساری فضا پر چھا گئے ۔یہی صورت ۱۸۵۷ء میں پیش آئی۔ کارتوسوں کا تو صرف ایک بہانہ تھا جس نے سو سال کی بے چینی کو متحرک کر دیا، ورنہ انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے جذبات میں شدید ہیجان برپا تھا۔
بعض مصنفین نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو منظم سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ کریک روفت ولسن(Crocroft Wilson) کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی چھاؤنیوں اور فوجی مقامات پر بیک وقت بغاوت کی تیاری بہت پہلے سے تھی لیکن تاریخی شواہد اس خیال کی تائید نہیں کرتے ۔ہنگامہ بالکل اتفاقیہ شروع ہوا ،اور چونکہ بے چینی کے جراثیم پہلے سے ہر جگہ موجودتھے اس لیے جہاں بھی اس ہنگامہ کی خبر پہنچی وہاں آگ لگتی چلی گئی۔
بعض مورخین نے چپاتیوں کی تقسیم کو غیر ضروری اہمیت دی ہے اور اس کو اسبابِ بغاوت میں شمار کیا ہے ۔ تھورن ہل (Thornhill)کے اس بیان نے کہ ویلور کی بغاوت سے قبل بھی مدراس میں چپاتیاں تقسیم ہوئی تھیں ۱؂ ۔اس نظریہ کو تقویت پہنچائی ہے ۔ ملک بھر میں چپاتیوں کی تقسیم حیرت انگیز ضرور ہے ،لیکن ۱۸۵۷ء کی تحریک کا اس سے کوئی خاص تعلق اب تک ثابت نہیں ہوسکا ۔حکیم احسن اللہ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ چپاتیوں کی تقسیم پر قلعہ معلی میں بھی سب لوگ تعجب میں پڑگئے تھے اور کوئی ان کا مقصد نہ سمجھ سکا تھا۱؂
اف ظاہر کرتا ہے کہ وہ تحریک کی عوامی حیثیت کے پورے طورپرمعترف تھے ۔خودانگریزوں نے اس تحریک کودبانے کے لیے جوطریقۂ کا راختیارکیا تھا اورجس طرح ہندوستانیوں کوسزائیں محض یہ حقیقت کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگا مہ داروگیر سے گزرنے والوں کو ’’مجاہدین فی سبیل اللہ ‘‘ اورشہداء راہ خدا ،، کا درجہ دیاگیا تھا ۔ہندوستانیوں کی تحریک سے گہری وابستگی کوسمجھنے کے لیے بس کرتی ہے !

۱۸۵۷ء کی تحریک میں سکھوں اورپارسیوں کے علاوہ ہرمذہب وملت کے لوگوں نے حصہ لیا تھا ۔تحریک کی ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندراندرسارے ملک میں ہنگا مے شروع ہوگئے تھے ۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کے بعض علاقے تحریک سے علیحدہ رہے اوربعض نے انگریزوں کا ساتھ دیالیکن اس سے تحریک کی نوعیت پرکوئی اثرنہیں پڑتا ۔کسی بھی قومی تحریک یاجنگ آزادی میں تمام علاقوں اورتمام طبقات نے شرکت نہیں کی ہے ۔انقلابِ فرانس کے وقت ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود تھاجو شہنشا ہیت کوقائم رکھنا چاہتا تھٍا اور اس کی موافقت میں کا م کر رہا تھا ۔اسی طرح امریکہ کی جنگ آزادی میں بہت سے لوگ تاج برطانیہ کے مددگا ر رہے تھے ۔
یہاں ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ۵۷ء کی تحریک عوامی ہوتے ہوئے بھی ناکام کیوں رہی اس سلسلہ میں تاریخ انقلاب کا ایک راز فراموش نہیں کرنا چاہے ۔انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی نظام کے خلاف شدید بے چینی ہووہاں اس کا میابی کے لئے ازبس لازمی ہے کہ مستقبل کی تعمیرکا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو۔ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اوربرطانوی طریق کا رسے سخت بیزاری ضرور نظرآتی ہے لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی تشکیل جدیدکا نقشہ نہیں ملتا !یہی نہیں بلکہ اُس وقت جتنی بھی طاقتیں میدان میں سرگرم عمل تھیں ان میں سے کوئی بھی ایک کُل ہندنظام کا بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی ۔یہ ایسی محرومی تھی جس نے ساری تحریک کی روح کومضمحل کر دیا تھا ۔اور ہرفوجی مہم کسی مقصدتک رہبری کرنے کے بجائے وقتی ہنگا مہ آرائی میں ختم ہوجاتی تھی ۔جمہوریت اورخوداختیاری کے افکار ابھی سیاسی شعور میں داخل نہیں ہوئے تھے اس لئے سیاسی زندگی کی تعمیر نوکا سوال بے معنی تھا ۔شخصی حکومت کا تصور اس طرح رگ وریشہ میں پیوست ہوچکا تھا کہ ہرمقام پر لوگ ۔ ۔ ۔ بہادرشاہ ،، ایک ،،نانا صاحب ،، ایک ،، رانی لکشمی بائی ،، ایک ’’ برجیس قدر،، کی تلاش کرتے تھے ۔ اورچاہتے کہ ان ہی کے سہارے کوئی ایسا نظام تشکیل پاجائے جواُن کے مصائب کا علاج اوراُن کے دردکا مداوابن سکے مغل بادشاہ ہندوستان کا توسوال کیا ،لال قلعہ کوبھی قابومیں رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا ۔مرہٹوں کی اجتماعی طاقت کا عرصہ ہواخاتمہ ہوچکا تھا۔ روہیلوں کے چندسردار جواس وقت مختلف مقامات پراپنی طاقت کا استحکا م کر رہے تھے ،مقامی طورپر مدافعت اورکار برآری کی صلاحیت تورکھتے تھے ،لیکن ایک وسیع علاقہ پرحکومت کرنے کے لئے جس دور اندیشی ،تدبراور انتظامی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کا دور تک کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر اس شخصی عقید ت کے نازک رشتوں کوبھی توڑنے کے لئے کتنے ہی عنا صر کا م کر رہے تھے ۔دہلی میں بخت خاں کونہ صرف مغل شہزادوں کا تعاون حاصل نہ ہوسکا بلکہ اس کا اثر توڑنے کے لئے یہ پروپیگنڈ اکیا گیا کہ شیرشاہ کی طرح اس کا اقتدار بھی مغلیہ خاندان کے لئے مہلک ثابت ہوگا لکھنؤ میں حضرت محل کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر احمداللہ شاہ کی مدد سے اقتدار قائم ہواتو سنیوں کا غلبہ ہوجائے گا اسی طرح روہیلوں کے علاقوں میں ہندوزمینداروں کوروہیلہ سرداروں سے برگشتہ کیا گیا۔لارنس نے سکھوں کوبہادرشاہ سے بدظن کرکے دہلی کے ساتھ سکھوں کے اشتراک عمل کے امکانات کوختم کر دیا۔ ان تمام کمزوریوں اورکوتا ہیوں کے باوجود اگر۱۸۵۷ء کا ہندوستان بہترین صلاحیتیوں کویکجاکر دیتا تویقینا غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہ پہنا ئی جاسکتیں تھیں ۔
۱۸۵۷ء کی تحریک غیرملکی اقتدار کے خلاف جنگ کی ابتداء بھی تھی اور ایک منزل بھی ۔یہ سمجھ لینا صحیح نہ ہوگا کہ اس سے قبل انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ ہندوستانیوں کا ذہن غیر ملکی تسلط کے خلاف پورے طورپرتیار ہوچکا تھا ۔یہ سیاسی شعوراوربیداری شاہ ولی اللہ دہلوی ؓ (م ۱۷۶۲ء ۱۱۷۶ھ ) اوران کے گھرانے کی پیداکی ہوئی تھی ۔شاہ صاحب ؓ نے اپنی تصانیف میں ملوکیت اورشہنشا ہیت کے خلاف جگہ جگہ آوازاٹھائی تھی اورسیاسی نظام کی اصلاح کے لیے صرف اعلیٰ طبقوں ،امراء وحکام ہی کومتوجہ نہیں کیا تھا ،بلکہ عوام کوبھی مخاطب کیا تھا ،ان کی تحریک کا سب سے زیادہ ترقی پسند پہلویہ تھاکہ وہ سیاسی نظام کا انحصار،،عوام ،، پرسمجھتے تھے اور ان میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتے تھے کہ اگروہ تیار ہوجائیں توسارے مصائب کا علاج ممکن ہے ان کے جانشینوں نے ان کی تحریک کو آگے بڑھا یٍا اوران کے پیدا کئے ہوئے سیاسی د ستورکی روشنی میں ملک کی رہبری کی ۔ شاہ عبدالعزیزصاحبؒ (م۱۸۲۴ء ) ۱۲۳۹ ھ) نے ایک فتوی میں کہا تھا ۔
یہاں روسائے نصاری کا حکم بلادغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اوران کا حکم جاری اورنافذہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری اورہندوبست رعایا،خراج وباج ،مال تجارت پرٹیکس ،ڈاکوؤں اورچوروں کو سزائیں ،مقدمات کے تصفیے ،جرائم کی سزائیں ،وغیرہ (ان تمام معاملات میں ) یہ لوگ بطورخودحاکم اورمختار مطلق ہیں ۔ہندوستانیوں کواُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں بیشک نماز جمعہ ،عیدین ،اذان ،ذبیحہ گا ؤ جیسے اسلام کے چنداحکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے ،لیکن جو چیزان سب کی جڑاوربنیاد ہے وہ قطعا ًبے حقیقت اورپامال ہے چنانچہ بے تکلف مسجدوں کومسما رکر دیتے ہیں عوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے ۔انتہایہ کہ وکوئی مسلمان یاغیرمسلم اُن کی اجازت کے بغیر اس شہریٍا اس کے اطراف وجوانب میں نہیں آسکتا ۔عام مسافروں یاتاجروں کوشہرمیں آنے جانے کی اجازت دنیابھی ملکی مفادیا عوام کی شہری آزادی کی بناپرنہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطرہے ۔اس کے بالمقابل خاص خاص اورممتاز اورنمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اورولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے ۔دہلی سے کلکتہ تک انہی کی عملداری ہے ۔بیشک کچھ دائیں بائیں مثلا حیدرآبا د لکھنو۔رام پورمیں چونکہ وہاں کے فرماں رواؤں نے اطاعت قبول کر لی ہے براہ راست ) نصاری کے احکام جاری نہیں ہوتے ۔شاہ عبدالغریزصاحبؒنے ہندوستان کو ’’دارالحرب ‘‘ قراردے کر،غیرملکی اقتدارکے خلاف سب سے پہلا اورسب سے زیادہ موثرقدم اُٹھایا تھا ۔اس فتوے کی اہمیت کووہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو دارالحرب ،، کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پرخاندان ولی اللہی کا ثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں ۔سیداحمدشہیدؒمولانا اسمعیل شہیدؒوغیرہ نے اپنے سیاسی فکرمیں انگریزی اقتدار کوجودرجہ دیا تھا اُس کی بنیادیہی فتویٌٰٰتھا سیداحمدشہیدؒکی تحریک جس کو مصلحتا ًبعض ممتاز اشخاص نے سکھوں کے خلاف تحریک کا رنگ دے دیا تھا ، حقیقتا انگریزوں ہی کے خلاف سب سے زیادہ منظم کوشش تھی ۔اُن کا مقصد اولیں یہی تھا کہ انگریزوں کوہندوستان سے نکال دیا جائے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے مقام پرطاقت کا استحکام ضروری تھاجہاں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تنظیم کرنے میں مددملے ۔اگر سرحداورپنجاب میں وہ اپنی طاقت کے استحکام میں کامیاب ہوجاتے توہندوستان میں برطانوی سامراج کے قدم اتنی آسانی سے نہیں جم سکتے تھے ۔ ان کی تحریک کی نوعیت اوراُن کے مقاصد کا انداز ہ اس خط سے لگا یاجاسکتا ہے جوانہوں نے راجہ ہندوراؤ کولکھا تھا:
’’جناب کوخوب معلوم ہے کہ پردیسی سمندرپار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجداراور یہ سودابیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں بڑے بڑے امیروں کی امارت اوربڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اوران کی عزت وحرمت کو انہوں نے خاک میں ملادیا ہے جوحکومت وسیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لئے مجبوراچند غریب وبے سروسامان کمرہمت باندھ کرکھڑے ہوگئے اورمحض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آے ۔یہ اللہ کے بندی ہرگزدنیا داراور جاہ طلب نہیں ہیں محض اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اٹھے ہیں مال ودولت کی ان کو ذرہ برابرطمع نہیں ۔جس وقت ہندوستان ان غیر ملکیوں سے خالی ہو گا اور ہماری کوششیں بارآورہوگئیں حکومت کے عہدے اورمنصب ان لوگوں کوملیں گے جن کوان کی طلب ہوگی ۔
سیدصاحب کے عزیزترین مرید اوردست راست مولاناشاہ محمداسعیل شہیدؒنے اُن کی سیاسی فکر کومنصب اِمامت میں اورزیادہ واضح طورپرپیش کیا ہے اوربتایا ہے کہ ملوکیت سب سے بڑی لعنت ہے ۔
سلاطین وملوک کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ان کو جڑسے اکھاڑپھینکنا ،عین انتظام ہے اوران کوفنا کر دینا عینِ اسلام ہے ہرصاحبِاقتدارکی اطاعت کرنا حکم شریعت نہیں ہے مسلمانو ں کی تنظیمی صلاحیت عسکری قابلیت معاملہ فہمی اورتدبرکا جوکچھ بچا کچاسرمایہ رہ گیا تھا اس کوسیداحمدشہیدؒ نے بہترین طریقہ پراستعمال کیا ۔وقتی طورپران کوناکامی ضرورہوئی لیکن ان کی تحریک نے سرفردشی کا جوجذبہ پیدا کر دیا تھا وہ ایک عرصہ تک قلب وجگرمیں شعلہ کی طرح بھڑکتا رہا ۔
جلے جل کربجھے بھی چشم صورت بیں میں پروانے
فروزاں کرگئے وہ نام لیکن شمع سوزاں کا
حقیقت یہ ہے کہ سیداحمدشہیدؒ اوران کے رفقاء کا ر کے خون سے آزادی کا پوداہندوستان میں سینچاگیا۔ انگریزوں نے ان کی تحریک کی نوعیت کوخوب سمجھ لیا تھا اوروہ اس جذبہ سے بھی بے خبرنہ تھے جوجماعتِمجاہدین کے قلب وجگر کوگرمائے ہوئے تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو وہابی کا لقب دے کراس مکتبِخیال کے لوگوں کوختم کیا اوردوسری طرف کوشش کرکے اس تحریک کواس طرح پیش کیا اور کرایاجس سے متاخرین کوایسا محسوس ہونے لگا گویا اس کا رخ مح۔ض سکھوں کی طرف تھا ۔ حدیہ ہے کہ جماعت مجاہدین کے ایک رکن مولوی محمد جعفرتھا نیسری نے تواریخِ عجیبہ میں ان کے مکتوبات کومسخ کیا اور نصاری نکوہیدہ خصال ،،کی جگہ سکھاں نکوہیدہ خصال ،،کر دیٍا اورکفار فرنگ برہندوستان تسلط یافتہ ،،کو،، کفاردراز مویاں کہ برملک پنجاب تسلط یافتہ میں تبدیل کر دیا۔ مولانا غلام رسول مہرنے جس کا وش سے ان تمام لفظی اور معنوی تحریفات کوبے نقاب کیا ہے اس کواس دور کی سب سے زیادہ قابل قدر تحقیقات میں شمار کرنا چاہے ۔
سید احمد شہید ؒ نے بالاکوٹ سے کلکتہ تک اپنا نظام پھیلادیا تھا۔ جو شخص ایک بار بھی ان کی تحریک میں شامل ہوگیا اس کا پورا خاندان عمر بھر جہاد کی تمنا کرتا رہا ۔ ہزاروں انسانوں کے دل میں آزادی کی لگن پیدا ہوگئی ۔
سید صاحبؒ کی تحریک نے مسلمانوں میں جو روح پھونک دی تھی اس کے مظاہرے ان کی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک ہوتے رہے ۔ جنگ بالاکوٹ کے چودہ پندرہ سال بعد سر سید احمد خان نے لکھا تھا۔ اس واقعہ (یعنی شہادت کے چودہ پندرہ بر س گزرے ہیں اور یہ طریقہ آخر الزماں میں بنیاد ڈالا ہوا آنحضرت ﷺ کا ہے اب تک اس سنت کی پیروی عبا د اللہ نے ہاتھ سے نہیں دی۔ اور ہر سال مجاہدین اوطان مختلفہ سے بہ نیت جہاد اسی نواح کی طرف راہی ہوا کرتے ہیں اور اس امر نیک کا ثواب آپ کی روح مطہر کو پہنچتا رہتا ہے ۔
سید صاحب کی شہادت کے بعد لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ : اللہ تعالیٰ نے ان کو موجودہ کمزور نسلوں سے اٹھا لیا ہے اور جب ہندوستان کے مسلمان یک جان ہوکر انگریز کافروں کے خلاف جہاد شروع کریں گے تو امام صاحب ظاہر ہو کر فتح کی طرف ہماری رہنمائی کریں گے ۔چنانچہ ۱۸۵۷ء کی تحریک میں عملا ً حصہ لینے والے بہت سے افراد سید احمد شہید کے افکار ونظریات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں ۔۳؂بخت خان کے متعلق ہمار ا خیال ہے کہ وہ بھی جماعت مجاہدین ہی سے متعلق تھے ۔ بہادر شاہ کے مقدمہ کے دوران میں ان کو وہابی العقیدہ بتایاگیا تھا۔ ۴؂ کوئی شخص بھی جس نے ہنٹر کی کتاب’’ ہمارے ہندوستانی مسلمان پڑھی ہے اس سے انکار نہیں کرے گا کہ وہابی کا لفظ اس زمانہ میں سید صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ اور بقول ہنٹر ’’ وہابی‘‘ اور غدار ہم معنی الفاظ تھے ۵؂ بخت خان نے علماء سے جس نوع کے تعلقات رکھے ،ا س سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سید صاحب کی تحریک سے متاثر تھے جس وقت وہ تحریک میں حصہ لینے کے لیے دہلی پہنچے تھے سو علمٍا ان کے ہمراہ تھے ۔ دوران ہنگامہ میں وہابی علماء کی ایک جماعت ٹونک سے ان کے پا س آئی تھی ۔اس کے علاوہ جے پور، بھوپال، ہانسی حصار اور آگرہ سے بھی کافی علماء کھچ کھچ کر ان کے گرد جمع ہوگئے تھے ۔ ان علماء پر بخت خان کو اس قدر اعتماد تھا کہ تخلیہ کے ان مخصوص مشوروں میں جن میں سوائے ان کے اور بادشاہ کے کوئی تیسرا شخص نہ ہوتا تھا ان علماء کو شریک کر لیا جاتا تھا۔ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کا بیان ہے کہ دہلی میں جہاد کے فتوے کو جو اہمیت اور چرچا حاصل ہوا وہ بخت خان کے دہلی آنے کے بعد ہوا۔
مولانا لیاقت علی الہ آبادی بھی اسی مکتبِ خیال کے مجاہد معلوم ہوتے ہیں ۔ ان کے شائع کئے ہوئے دو اشتہارات کا مضمون ملاحظہ فرمائیے ایک ایک حرف سید صاحب کے اندازِفکر کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئے گا ۔ایک اشتہار میں تو ستائیس اشعار اس جہاد یہ نظم میں سے نقل کئیے گئے ہیں جو سید صاحب کے مجاہدین میدانِ جنگ میں پڑھا کرتے تھے ۔ مولانا عنایت علی صادق پوری جن کی کوششوں سے مروان میں ر جمنٹ ۵۵ نے بغاوت کی تھی، سید صاحب کے خلیفہ اور جماعت مجاہدین کے سر گرم کارکن تھے ۔
مولانا عبد الجلیل شہید علی گڈھیؒ جنہوں نے علی گڈھ میں فرنگی قوت سے دلیرانہ مقابلہ کیا ۔سیدصاحب کے خلفاء میں سے تھے ۔ ان چیدہ شخصیتوں کے علاوہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں حصہ لینے والے اور بہت سے اشخاص سید صاحب کی جماعت یا ان کے مکتبِ خیال سے تعلق رکھتے تھے ۔ اور غالبا اسی بنا پر بعض لوگوں نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو مسلمانوں کی تحریک قرار دیا تھا ۔ ہر چند کہ مجاہدین نے اس ہنگامہ میں بری سرگرمی دکھائی لیکن وہ اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے ۔اس کے د وسبب تھے ، اول تو یہ کہ بالا کوٹ کی ناکامی نے کسی بڑے پیمانے پر تنظیم کا حوصلہ ختم کر دیا تھا ۔ دوسرے یہ کہ تحریک مجاہدین کی مذہبی نوعیت کے باعث ہندوستان کے تمام طبقات اور مختلف مذاہب کے لوگ ان کی قیادت پر غالبا متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ چنانچہ انفرادی طور پر مقامی حالات کے پیش نظر اس مکتبِ خیال کے لوگوں نے بہت نمایاں حصہ لیا او رغیر ملکی تسلط کے خلاف جدوجہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ، لیکن تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے ۔
دنیا کے بیشتر انقلاب کسی اہم حادثہ یا سانحہ سے شروع نہیں ہوئے ۔عموماً یہ ہوا ہے کہ خاموش سطح کے نیچے آتشیں مادہ جمع ہوتا رہا ہے اور پھر کسی معمولی سے واقعہ نے جو بہ حالات دیگر سطح آب پر تموج بھی پیدا نہیں کر سکتا تھا ،ساری فضا میں طوفان بر پا کر دیا ہے ۔فرانس اور امریکہ کے انقلابات کی ابتداء معمولی معمولی واقعات سے ہوئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں تمام بیتاب عناصر اوپر آگئے اور ساری فضا پر چھا گئے ۔یہی صورت ۱۸۵۷ء میں پیش آئی۔ کارتوسوں کا تو صرف ایک بہانہ تھا جس نے سو سال کی بے چینی کو متحرک کر دیا، ورنہ انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے جذبات میں شدید ہیجان برپا تھا۔
بعض مصنفین نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو منظم سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ کریک روفت ولسن(Crocroft Wilson) کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی چھاؤنیوں اور فوجی مقامات پر بیک وقت بغاوت کی تیاری بہت پہلے سے تھی لیکن تاریخی شواہد اس خیال کی تائید نہیں کرتے ۔ہنگامہ بالکل اتفاقیہ شروع ہوا ،اور چونکہ بے چینی کے جراثیم پہلے سے ہر جگہ موجودتھے اس لیے جہاں بھی اس ہنگامہ کی خبر پہنچی وہاں آگ لگتی چلی گئی۔
بعض مورخین نے چپاتیوں کی تقسیم کو غیر ضروری اہمیت دی ہے اور اس کو اسبابِ بغاوت میں شمار کیا ہے ۔ تھورن ہل (Thornhill)کے اس بیان نے کہ ویلور کی بغاوت سے قبل بھی مدراس میں چپاتیاں تقسیم ہوئی تھیں ۱؂ ۔اس نظریہ کو تقویت پہنچائی ہے ۔ ملک بھر میں چپاتیوں کی تقسیم حیرت انگیز ضرور ہے ،لیکن ۱۸۵۷ء کی تحریک کا اس سے کوئی خاص تعلق اب تک ثابت نہیں ہوسکا ۔حکیم احسن اللہ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ چپاتیوں کی تقسیم پر قلعہ معلی میں بھی سب لوگ تعجب میں پڑگئے تھے اور کوئی ان کا مقصد نہ سمجھ سکا تھا۱؂
ھر ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بہادر شاہ اور باغی سپاہیوں نے بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر لیا تھا ۔یہ الزام بھی ثبوت کا محتاج رہا۔ ایسا ضرور ہوا کہ ایک اعلان جو شاہ ایران کی طرف منسوب تھا جامع مسجد پر چسپاں کیا گیا تھا ۔ا سکے علاوہ اور سب بیانات کی صحت مشتبہ ہے ۔مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ بہادر شاہ نے اپنے سفیر ایران بھیجے تھے ۔لیکن یہ ثابت نہ ہوسکا ۔مکند لال نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مرزا سلیمان شکوہ کے پوتے مرز احیدر وغیرہ لکھنؤ آئے تھے اور انہوں نے بہادر شاہ اور شاہ ایران کے درمیان تعلقات قائم کرانے کے سلسلہ میں گفتگو کی بھی تھی۔بعض مورخوں نے ایران میں برطانوی سفیر مرے ؔ (Murray) کا خط نقل کیا ہے جس میں اس ایک ایرانی عہدہ کا بیان نقل کیا ہے کہ شمالی ہندوستان کے والیان ریاست کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ایران سے خطوط بھیجے گئے تھے ۔ ان تمام بیانات کے باوجود ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں کسی بیرونی طاقت کی نمایاں مداخلت کا ثبوت نہیں ملتا۔
۱۸۵۷ ء کی تحریک نہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت سے پیدا ہوئی نہ اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی ۔یہ بالکل قدرتی اظہار تھا اس گہری نفرت اور بے چینی کا جو انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے دلوں میں جمع ہورہی تھی۔ سپاہیوں نے پیش قدمی اس لیے کی کہ وہ انگریز وں کے غیر منصفانہ برتاؤ سے عاجز ہوچکے تھے اور فوجی قانون کے ماتحت ہوتے ہوئے وہ زیادہ عرصہ تک ان نا انصافیوں کو برداشت بھی نہیں کر سکتے تھے ۔۱۸۰۶ء سے جب سرجارج بارلو (Sir George Barlow) نے سپاہیوں کے تلک لگانے ، داڑھی رکھنے اور صافہ باندھنے پرا عتراض کئے تھے ،متواتر فوج کے ساتھ ایسا برتاؤ ہور ہا تھا جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا لازمی تھا ۔ہندوؤں میں بحری سفر کے خلاف مدتوں سے ایک نفرت چلی آتی تھی، انگریزوں نے نہ ان کے جذبات کو سمجھا نہ ان کا احترام کیا ۔ ذات پات کے جذبات کو بھی اسی طرح نظر انداز کیا گیا۔ سردار بہادر ہدایت علی نے بتایا تھا کہ کابل میں ہندوسپاہی نہ اشنا ن کرسکتے تھے نہ انہیں ہندوؤں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بنتا تھا ۔علاوہ ازیں مختلف اوقات میں جو وعدے فوج سے کیے گئے تھے ،ان کو نہ صرف یہ کہ پورا نہیں کیا گیا بلکہ ان کے خلاف عمل کیا گیا ۔اس سے سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی ۲؂ پھر ہندوستانی اور انگریز سپاہیوں کی تنخواہوں اور معیار زندگی میں زمین وآسمان کا فرق تھا ۔اور اس فرق نے وہ احساس کمتری پیدا کر دیا تھا جو نہ صرف بے چینی بلکہ ارتکابِ جرم کا ہمیشہ سب سے بڑا محرک ہوتا ہے ۔
ہندوستان میں انگریزوں کی فوج ۳۱۵۵۲۰ ۔اشخاص پر مشتمل تھی۔ اس پر ۹۸۰۲۲۳۵ پونڈ خرچ آتا تھا۔ اس میں سے ۱۱۰ ۵۶۶۸ پونڈ یورپین فوج پر خرچ ہوتا تھا اور یہ ا س صورت میں جب کہ ان کی کل تعداد ۵۱۳۱۶ سے زیادہ نہ تھی ایک ہندوستانی پیادہ کو سات روپیہ ماہانہ او ر سوار کو ستائیس روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی ۔سوار کو اپنا گھوڑا رکھنا پڑتا تھا اس قلیل تنخواہ سے بھی کٹ کٹا کر بعض اوقات ایک سپاہی کو ڈیڑھ روپیہ ماہانہ اور بعض صورتوں میں صرف چند آنوں سے زیادہ نہ ملتے تھے ان حالات میں فوجیوں کی بددلی اور بے چینی کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے ۔
علاوہ ازیں انگریزوں نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے جوحربے اور طریقے اختیار کئے تھے ان سے ہندوستانیوں میں زبردست بدگمانی پھیل گئی تھی۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی بعض ایسی تجاویز جن کا مقصد مذہبی مداخلت سے زیادہ سماجی اصلاح تھا ،وہ بھی ہدفِ ملامت بن گئیں ۔ عیسائی مبلغ اسکولوں میں ، بازاروں میں ، شفا خانوں میں جیل خانوں میں غرض جس جگہ موقع ملتا ،تبلیغ کرنے لگتے تھے ۔ان کے طریقہ کار سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کی اعانت ان کو حاصل تھی ۔بعض اضلاع میں پادریوں کے ساتھ تھانے کے چپراسی جاتے تھے ۔اور یہ پادری غیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت بر ائی اور ہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی ۔گورنمنٹ اسکولوں میں انجیل کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی ۔جیل خانوں میں قیدیوں کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔سرسیدا حمد خان نے لکھا ہے :
۱۸۵۷ ء کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع ممالک مغربی وشمالی میں ارادۂ گورنمنٹ کے ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ہندوستان کو اس طرح پُر مفلس اور محتاج کر کر اپنے مذہب میں لے آئیں گے ۔میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنربل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی ہندوستان کی رعایا کو کمال رنج ہوتا تھا ۔
بعض قوانین کا صاف مقصد یہ تھا کہ عیسائیت قبول کر لینے والوں کی مدد کی جائے ۔مثلاً ۱۸۵۰ء کے Ad XXI) کے مطابق مذہب تبدیل کر دینے کے بعد بھی ایک شخص موروثی جائداد میں حقدار رہتا تھا ۔ان حالات میں جب پادری ای ایڈمنڈ نے وہ خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا ک اب تمام ہندوستان میں ایک عملد اری ہوگئی، تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی ،ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد ورفت ایک ہوگئی، مذہب بھی ایک چاہیے ، اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجاؤ‘‘ ہندوستانیوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔
پھر انگریزوں نے بعض ریاستوں کے الحاق میں جس کھلی بے انصافی اور ظلم کو روا رکھا تھا اس سے اضطراب اور بے چینی کے شعلے ہر جگہ بھڑکنے لگے ۔ صحیح ہے کہ بعض ریاستیں ، انتظامی معاملات میں کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتی تھیں ،اور ان کو ختم کر کے انگریزوں نے حقیقتا ایک ایسے نظام پر ضرب کاری لگائی جس کی افادیت ختم ہوچکی تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محلا ت شاہی کے ساتھ ہزاروں خاندان پر ورش پاتے تھے ، اور ہر ریاست کی اقتصادی زندگی میں نوابوں اور راجاؤں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی تھی جب ا ن ریاستوں کا الحاق ہواتو ہزاروں متعلقین بے سہار ا رہ گئے ۔ اودھ کے الحا ق کے بعد انگریزوں سے نفرت جس حد کو پہنچ گئی تھی اس کے متعلق ٹریو لیان کا بیان ہے کہ : سقوں نے انگریزوں کے لیے پانی بھرنا چھوڑ دیا،آیائیں اجازت لیے بغیر نوکری سے رخصت ہوگئیں ،باورچی اور ہر کارے آقاؤں سے گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آنے لگے ۔
اقتصادی بدحالی اور ابتر ی نے انگریز کے خلاف شعلوں کی لپک کو بڑھا دیا ۔مصحفی (۱۲۴۰ھ ۔ ۱۸۲۴ء) نے مدتوں پہلے کہا تھا؂
ہندوستان ک دولت وحشمت جو کچھ کہ تھی کافر فرنگیوں نے بتدریج کھینچ لی۔
سر سید نے بتایا ہے کہ لوگ اس قدر نادار ومحتاج ہوچکے تھے کہ صرف آنہ ڈیڑھ آنے یومیہ پر فوج میں ملازمت کے لیے آمادہ ہوجاتے تھے ۔ایک طرف ریاستوں کے الحاق سے ہزار ہا ہندوستانی بے روزگار ہوگئے ، اور بدحال کر دیا گیا ۔انگلستان کی تیار شدہ چیزوں کے لئیے ایک منڈی درکار تھی، اس کے لیے ہندوسان کی مقامی صنعتوں کو عمداً ختم کیا گیا ۔سر سید نے لکھا ہے ۔:
اہلِ حرفہ کاروزگار بسبب جاری اور رائج ہونے اشیائے تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سونے بنانے والے اور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا ۔جو لاہوں کا تار تو بالکل ٹوٹ گیا تھا۔
۱۸۵۷ء کی تحریک مختلف منزلوں سے گزری ،مختلف طبقات نے اس میں حصہ لیا اور مختلف عناصرمختلف اوقات میں بروئے کار آتے رہے ۔ ان میں کچھ عناصر ترقی پسند تھے اور بعض قوتیں رجعت پسند ،روساء میں رانی لکشمی بائی، نانا صاحب ، ناہر سنگھ ، حضرت محل، نواب علی بہادر ، نواب تفضل حسین، خان بہادر خان، نواب محمود خان، وغیرہ وہ شخصیتیں تھیں جن کے عزم ،مقصد کی سچائی اور مسلسل جدو جہد سے تحریک میں جان پیدا ہوئی ،بلند حوصلگی اور انفرادی صلاحیتوں میں یہ لوگ بہت سے انگریزوں سے یقینا بدرجہا بہتر تھے صحیح ہے کہ ان میں سے بعض کو انگریزوں سے ذاتی شکایتیں بھی تھیں اور جاگیردارانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے ،لیکن جہاں تک تحریک میں حصہ لینے اور سرگرمی دکھانے کا تعلق تھا ان کا خلوصِ نیت کسی سے کم نہ تھا۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں تائیا ٹوپی، عظیم اللہ خان، بخت خان، وزیر خان، وغیرہ آخری وقت تک انگریزوں سے لڑتے رہے ۔ ان میں جوش عمل بھی تھا اور انتظامی صلاحیتیں بھی تھیں ۔حالات نے جہاں تک مساعدت کی انہوں نے پوری دلیری کے ساتھ غیر ملکی طاقتوں کا مقابلہ کیا ۔مسلمان علماء ومشائخ جن میں مولانا احمد شاہ حاجی امداد اللہؒ ،مولانافضل حق خیرآبادی ، مولانا عبد القادر لدھیانوی ؒوغیرہم شامل تھے ،اپنے خلوص اور سرفرو شانہ جذبات میں یقینا بے مثال تھے ۔ان کی انگریز دشمنی میں ذاتی رنجشوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ ، غیر ملکی اقتدار سے نفرت اور انگریز کی مشنری کوششوں کا شدید رد عمل کام کر رہا تھا ۔اگر تحریک کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جہاں تک عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا تعلق تھا اس کی زیادہ تر ذمہ داری ان ہی علماء پر تھی ۔مولوی احمد اللہ شاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ: ان کی تقریروں میں ہزاروں آدمی ہندو اور مسلمان جمع ہوجاتے تھے ۔چنانچہ آگرہ کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوتا تھا ۔ان کی ہر دل عزیز ی کی یہ حالت تھی کہ پولیس نے (ایک موقع پر مجسٹریٹ کے حکم پر) انہیں گرفتار کرنے سے انکار کر دیا۔
ان مختلف طبقات کی کوششوں اور حالات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینا ضرور ی ہے تاکہ تحریک میں ان کی شرکت کی نوعیت واضح ہوجائے ۔
سب سے پہلے بہادر شاہ شاہی خاندان اور قلعہ معلی کے حالات پر نظر ڈالیے یوں تو مدت سے ،سلطنت شاہ عالم ،ازدہلی تا پالم کا نقشہ تھا ۔ اور بقول شاہ ولی اللہ دہلی کی حکومت ’’ لعب صبیان ‘‘ بن چکی تھی ،لیکن ۱۸۰۳ء میں جب لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہوگئیں تو مغل بادشاہ کی حیثیت کمپنی کے ایک ملازم سے زیادہ نہ رہی۔ انگریزوں نے بادشاہ کو ہٹانے میں عجلت سے کام نہیں لیا کیوں کہ اس کے نام کے سہارے اپنا اقتدار قائم کرنے میں مددملتی تھی۔۲؂ لیکن بہر نوع کوشش یہی رہی کہ بادشاہ کے اختیار ات کا دائرہ اتنا محدود کر دیا جائے کہ وہ لاشئے محض ہوجائے ۔ بہادر شاہ ۱۸۳۷ء میں تخت پر بیٹھا ۔۱۸۵۷ء میں اس کی عمر ۸۲ سال سے متجاوز تھی ۔نامساعدہ حالات ،پیرانہ سالی اور ذاتی مشاغل کی نوعیت نے اس کو عضو معطل بنا دیا تھا ۔ممکن ہے کہ سر سید نے اس کی نٍا اہلیت ثابت کرنے میں مبالغہ سے کام لے کر یہ لکھ دیا ہوکہ:۔
دلی کے معزول بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اس سے کہا جاتا کہ پرستان میں جنوں کا بادشاہ آپ کا تابعدار ہے تو وہ اس کو سچ سمجھتٍا اور ایک چھوڑ دس فرمان لکھ دیتا ،دلی کا معزول بادشاہ کہا کرتا تھا کہ میں مکھی اور مچھر بن کر اڑ جاتا ہوں اور لوگوں کی اور ملکوں کی خبر لے آتا ہوں اور اس بات کو وہ اپنے خیال میں سچ سمجھتا تھا اور درباریوں سے تصدیق چاہتا تھا اور سب تصدیق کرتے تھے ۔ایسے مالیخولیا والے آدمی۔
لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بابر اور اکبر کے جانشین میں جس سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی ،تفرس اور تدبر کی ضرورت تھی ، وہ اس میں نام کو نہ تھا ،جہاں تک ذاتی کردار کا تعلق تھا وہ اپنے بعض پیشتروں سے بہتر تھا ۔لیکن ذاتی کردار کی یہ چند خوبیاں ایک سلطنت کا بوجھ نہیں سنبھال سکتی تھیں مذہبی معاملات میں بہادر شاہ کو خاصی دلچسپی تھی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری سے پیش آتا تھا ۔حالانکہ سر سید نے لکھا ہے کہ ’’ دہلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اور ان کے تابعین کا ایسا تھا کہ وہ مذہب کی روسے معزول بادشاہ دلی کو بہت برا اور بدعتی سمجھتے تھے ۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض ودخل اور اہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں ۔ چنانچہ وہ لوگ جامع مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور غدر سے بہت قبل کے چھپے ہوئے فتوے اس معاملہ میں موجود ہیں ۔
ادبی اعتبار سے بہادر بادشاہ کا عہد خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی ادبی دلچسپیوں سے قلعہ معلی شعر وسخن کا مرکز بن گیا تھٍا ا س کے زمانہ میں دہلی بقول اپیر ہندوستان کا ویمر تھی اور غالب یہاں کا گوئٹے تھا ۔
بہادر شاہ کی زندگی جن حالات سے گزرتی تھی اس کا کچھ اندازہ احسن الاخبار وغیر ہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔بادشاہ کو یک لاکھ روپیہ ماہانہ پنشن ملتی تھی لیکن اخراجات اس سے کہیں زیادہ تھجے ۔ چنانچہ ہر وقت مالی پریشانی رہتی تھیں اور ساہو کاروں اور امراء سے روپیہ قرض لینا پڑتا تھا ۔میر حامد علی خان ،حافظ محمد داؤد خان، لالہ زور آور چند وغیرہ سے بہادر شاہ کے روپیہ قرض لینے کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے ۔
اور وصولی کے لیے ان لوگوں کے تقاضوں سے بادشاہ کی وقعت لوگوں کی نظر میں کم ہوتی تھی اور طرح طرح کے نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ا یک مرتبہ نواب حامد علی خان نے عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کرنے کا ارادہ کیا تھا اور بہادر شاہ کو انہیں بلا کر رقم کی ادائیگی کی طرف سے اطمینان دلانا پڑا تھا۔ ان مالی پریشانیوں کے باعث اکثرقلعہ معلی کی ملازمتیں فروخت کی جاتی تھیں ۔نواب حامد علی خان کو مختاری کا عہدہ اس شرط پر پیش کیا گیا تھا کہ وہ دس ہزار ووپیہ نذرانہ کے طور پر پیش کریں ۔
۲۶جون ۱۸۴۶ء کے احسن الاخبار کی اطلاع ہے :
سالگ رام۔ ۔ ۔ کی عرضی نظر فیض انور سے گزری ۔اس میں مذکور تھا کہ اگر مجھے آغا حیدر ناظر کی جگہ عہدہ نظارت پر مقر کر دیا جائے تو میں دس ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا ۔حکم ہوا کہ جب ہم آغا حیدر ناظر کا تمام روپیہ جو ہمارے ذمہ ہے اد ا کریں گے تو اس کے بعد دیکھا جائے گا۔
۳۱ جولائی کوآغا حیدر کے داماد حسین مرزا کی عرضی کے جواب میں حکم شاہی ہوتا ہے : تمہیں عہدۂ نظارت سے اس وقت سرفراز کیا جاسکتا ہے جب کہ سات ۷ ہزار روپیہ نذرانہ پیش کرو اور مرحوم آغا حیدر کے نذرانے کے دعوے سے دست برداری لکھ دو۔
جب قلعہ معلی میں ’’ نذرانوں ‘‘ کے نام سے رشوتوں کا بازار گرم تھا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں جہاں بھی قلعہ کے اثرات پہنچے ہوں گے وہاں بدنظمی ، ابتری اور افراتفری کا کیا عالم ہوگا۔
بہادر شاہ کی کثیر اولا د تھی، اس کی تربیت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی گئی تھی۔ شہزادے ایک دوسرے سے بر سرپیکار رہتے تھے ۱؂ سلاطین کی کثیر تعداد قلعہ میں بھوکی مرتی تھی ۳؂ ان کی زبوں حالی کی درد ناک داستانیں اخبارات میں کثرت سے درج ہیں ۔ پروفیسر اسپیر نے اپنی کتاب Twilight of the Mughuls میں ان کے حالات بہ تفصیل بیان کیے ہیں جب یہ شہزادے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرتے تھے تو کمپنی کا حکم ہوتا تھاکہ ’’ اگر سلاطین کا گزارہ مقررہ تنخواہ سے نہیں ہوتا تو ا وقات بسری کے لیے انہیں کہیں ملازمت اختیار کر لینی چاہیے ۔۵؂ مجبور ہو کر وہ قرض لیتے تھے اور بعد کو قرض خواہ عدالتی کارروائیاں کرتے تھے بیشتر شہزادے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بادشاہ کے مفاد کو نظر انداز کر سکتے تھے ۔ان کوآسانی سے خرید اجاسکتا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انگریزوں کی طاقت اس قدر جلد قائم ہوجاتی اگر شہزادے اس طرح سازشوں میں گرفتار نہ ہوتے ! جس خاندان میں مرزا الٰہی بخش جیسی ننگ ملک وننگ خاندان افراد موجود ہوں اس کے مستقبل سے کس کو امید ہوسکتی ہے ۔ بخت خان کو انہی شہزادوں کی ریشہ دوانیوں اور مسلسل سازشوں کے باعث نہایت ہی صبر آزما اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔عبد اللطیف کے روزنامچہ سے معلوم ہتا ہے کہ اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا ۔لیکن ایک موقع پر اس کا پیمانہ صبر چھلک گیا۔ بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ آخر میں اس درجہ پریشان ہوگیا تھا کہ اس نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی شہزادہ شہر کو لوٹے گا تو میں اس کی ٹانگ کٹوا دوگا۔
۱۸۵۷ء کی تحریک میں بادشاہ اور مغلیہ خاندان کا حصہ کیا تھا؟ انہوں نے کہاں تک تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد دی تھی؟ بہادر شاہ کے متعلق یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک انقلابی تحریک کی رہنمائی کی قطعاً صلاحیت نہ رکھتا تھا ۔ اس نے ۱۸۵۷ء کی تحریک میں جو کچھ بھی حصہ لیا تھا وہ حالات کی مجبوری کی بنا پر تھا ۔کسی شورش انگیز مقصد کی بنا پر نہیں تھا۔ اس کی ملکہ زینت محل کے متعلق انگریزوں سے سازباز کا شبہ تھا ۔شہزادے الگ سازشوں کے جال پھیلا رہے تھے ۔ اور ان کی سازشوں ہی کی بنا پر بعد کو بہادر شاہ کی گرفتاری ہوئی ۔مغل شہزادوں کے ساتھ جو بھی ہمدردی پیدا ہوتی ہے وہ ان ے حسرت ناک انجام اور ہڈ سن کے ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے ہے ، ورنہ تحریک کے دوران میں ان کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں تھا ۔مغل شہزادوں میں اگر کوئی شخص تحریک کی اصل روح سے متاثر نظر آتا ہے و ہ فیروز شاہ ہے جس کی سرگرمی جوشِ عمل اور استقامت نے تحریک کو وہ قوت بہم پہنچائی جس کے سہارے سخت سے سخت منزلیں طے کی جاسکتی تھیں ۔
جہاں تک امراء کا تعلق ہے ،ان میں بیشتر ایسے تھے جو ذاتی مفاد اور منفعت کی خاطر بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کر سکتے تھے ان کو نہ ملک سے محبت تھی ،نہ بہادر شاہ سے ذاتی اقتدار کو بڑھانے کی خاطر وہ دربار سے تعلق رکھتے تھے ۔سر سید نے صحیح لکھا ہے کہ لوگ’’ اس کے منہ پر اس کی خوشامد کرتے تھے اور پیٹھ پیچھے ہنستے تھے ۱؂، حکیم احسن اللہ خان ،نواب احمد علی خان وغیرہ جو دربار کے عمائدین میں سے تھے عوام کی نظر میں اس بنا پر معتبر نہ رہے تھے کہ دشمنوں سے مل جانے کا ان پر شبہ تھا ۔جاسوسوں کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ بعض امراء نہایت ہی شرم ناک سازشوں میں مبتلا تھے ۔ دربار کی ساری خبریں انگریزوں کو انہیں کے ذریعہ پہنچتی تھیں ۔ بعض امراء ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی، لیکن جب تحریک کے دوران میں روپیہ کی ضرورت پڑی تو ایک امیر بھی ایسا نہ تھا جس نے روپیہ سے مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو۔ دہلی کی فتح کے بعد جب انگریزوں نے ان امراء کے گھروں کو کھدوایا تھا تو لاکھوں روپیے کے زیورات اور جواہر برآمد ہوئے تھے ۱؂ لیکن جب بھی بہادر شاہ یا بخت خان وغیرہ نے مصارف جنگ کے لیے ان سے روپیہ قرض طلب کیا تو انہوں نے نہ سرف اپنی بے زری کا اظہار کیا بلکہ لڑنے پر آمادہ ہوگئے ۔ نواب فخر الدولہ امیں الدین خان بہادر نے جس طرح ناراضگی کا اظہار کیا تھا ا ُ س کی تفصیل عبد اللطیف نے دی ہے ۔ اس وقت امراء میں گو اٹھارویں صدی کی سی گروہ بندی نہیں رہی تھی، لیکن ہرشخص حصولَِ مقصد کے لیے خود ایک پارٹی بنا ہوا تھا اور دوسروں کی تذلیل وتشہیر کوا پنا فرض سمجھتا تھا۔
اس وقت سب سے زیادہ صحت مند عنا صر جنہوں نے تحریک میں حصہ لیا وہ تھے جنہوں نے دہلی کی مسموم فضامیں پرورش نہیں پائی تھی ۔اور یہاں کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہے تھے ۔بخت خان روہیلوں کی ضرب المثل تنظیمی صلاحیتوں کا مظہر تھا اس میں مقصد کا خلوص بھی تھا اور عسکری تنظیم کا جذبہ بھی۔ اس نے دہلی میں بدنظمی اور ابتری کو روکنے کی پوری کوشش کی ۔ اگر مغل شہزادے اس کے ساتھ تعاون کرجاتے ،یا آخر میں بہادر شاہ اس کے مشورہ پر عمل کر لیتا تو بہت سے واقعات کا رخ بدل جاتا۔
والیانِ ریاست میں رانی لکشمی بائی اور بیگم حضرت محل کی شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ رانی لکشمی بائی نے مردانہ لباس پہن کر فوجوں ک قیادت کی۔ اس کی حیرت افروز شجاعت نے تحریک میں چار چاند لگا دیے او وہ آخری دم تک انگریزوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ حضرت محل کے متعلق مولانا شرر کا بیان ہے کہ لوگ اس کی مستعدی اور نیک نفسی کی تعریف کرتے تھے ۔ا ودھ کی آزادی کے لیے اس نے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی آخر وقت تک قیصر باغ میں بیٹھی تحریک کی تنظیم کرتی رہی۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو قیصر باغ کو چھوڑ کر نیپال کا رخ کیا ۔ ‘
روہیلہ ؔ سرداروں میں خان بہادر خان اور نواب محمود خان نے بھی بڑی جوانمردی سے تحریک میں حصہ لیا ۔۱۸۵۷ء میں خان بہادر خان کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی ۔ انہوں نے بریلی کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لیا اور انگریزوں کے خلاف اپنی طاقت کا استحکام کیا ۔محمود خان نے ضلع بجنور میں انگریزوں کا مقابلہ کیا ،ا ور بجنور ،دھام پور، نگینہ اور آدم ور پر قبضہ کر لیا۔ بہادر شاہ نے ان کو امیر الدولہ ،ضیاء الملک مظفر جنگ کے خطابات دیے تھے ۔ اور ان کی خدمات کو سراہا تھا ،اول الذکر کو بریلی میں پھانسی دی گئی او رموخر الذکر کو حبس دوام بہ عبور دریائے شور کی سزا ملی ،لیکن ابھی انڈیمان کوروانہ ہوئے تھے کہ قید حیات ہی سے رہا ہوگئے ۔
دہلی کی ایجنٹی کے ماتحت سات ریاستیں تھیں ۔ : جھجر ،فرخ نگر، بلبھ گڑھ، بہادر گڑھ، دوجانہ، پاتودی اور لوہارو،ان ریاستوں نے اپنے حالات اور مصلحتوں کے ماتحت تحریک میں حصہ لیا اور دہلی کی حکومت سے تعلقات قائم کر لیے ۔نواب عبد الرحمن خان والی جھجر اور اس کے خسر عبد الصمد خان نے کافی سر گرمی دکھائی ۔ عبد الصمد خان نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا تھا اور برابر انگریزوں سے لڑتا رہا ۔راجہ ناہر سنگھ والی بلبھ گڑھ نے بہادر شاہ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور برابر دربار سے خط و کتابت رہتی تھی ،۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے جھجر ، فرخ نگر، بلبھ گڑھ کی ریاستیں ضبط کر لیں اور ان کے والیوں کو پھانسی کی سزا دے دی ۔غالب ایک خط میں علاء الدین احمد خان علائی کو لکھتے ہیں ۔
’’قصہ کو تاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڑھ اور بلب گڑھ اور فرخ نگر کم وبیش تیس لاکھ روپیے کی ریاستیں مٹ گئیں ۔شہر کی عمارتیں خاک میں مل گئیں ۔ہنر مند آدمی یہاں کیوں پایا جائے ۔
۱۸۵۷ ء کی تحریک کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہندو او ر مسلمان دونوں نے دوش بدوش یہ جنگ لڑی تھی۔ اور ہندو مسلم سوال کسی نوعیت اور کسی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے نہیں تھا ۔محض یہ واقعہ کہ تحریک کے آغاز میں ہی ہندو اور مسلمان سب کی نظریں بہاد رشاہ کی طر ف اٹھ گئیں تھیں ۔تحریک کی ہمہ گیر نوعیت کی طرف ا شارہ کرتا ہے ۔بہادر شاہ کی ذاتی نٍا اہلیت تسلیم لیکن اس کی حیثیت ایک علامت اور ایک نشانی کی تھی ۔وہ ڈوبتا ہوا سورج سہی لیکن وہ ایک ایسی صبح کی شام تھا جس میں ہندوستان نے اپنے سیاسی وقار اور تمدنی عظمت کے نادر جلوے دیکھے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ تمام وہ طاقتیں تک جو کچھ عرصہ سے سلطنت مغلیہ کے مد مقابل آگئی تھیں ۔ بہادر شاہ کے گرد جمع ہوگئیں ۔ مرہٹے ایک مدت سے مغلوں سے بر سر پیکار تھے ، لیکن ۱۸۵۷ء میں پیشوا نے بہادر شاہ کو تسلیم کرنے میں مطلقا ً کوئی عذر نہیں کیا ۔ نانا صاحب کے خاص مشیروں میں عظیم اللہ خان رہا ۔ رانی جھانسی نے مسلمان تو پچی ملازم رکھے ۔احمد اللہ شاہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کے مشترکہ اجتماعات میں تقریریں کیں ۔ بہادر شاہ نے بعض نہایت اہم کام مثلاً ٹکسال کی نگرانی ،پولیس کا کام ہندوؤں کے سپر دکیا اور انہوں نے بادشاہ کے ساتھ پورا تعاون کیا ۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے اس اتحاد عمل سے انگریزوں کو بڑی تشویش پید ا ہوگئی تھی انہیں اپنی ناکامی کے آثار اگر کسی چیز میں نظر آتے تھے تو وہ صرف ہندوستان کے مختلف طبقوں اور مذاہب کے لوگوں میں اشتراک عمل اور اتحاد میں ،غیر متحد ہندوستان تو ریت کی دیوار کی طرح گرایا جاسکتا تھا ،لیکن متحدہ ہندوستان انگریزوں کے لیے کوہ گراں کی مانند تھا ۔چنانچہ تحریک کے دوران میں پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح اس اتحاد کو ختم کیا جائے ۔ تحریک کے بعد تو انگریز کی حکمتِ عملی کی ساری عمات اسی پر تعمیر ہوئی تھی کہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ ہنگامہ کے دوران میں بقرعید آئی اور انگریزوں نے اس موقع کو ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑانے کے لیے استعمال کر نے کی کوشش کی ۔ تعجب کی بات ہے کہ اس سازش کے جال اس طرح پھیلا ئے گئے کہ مولانا احمد سعید مجددیؒ جو بڑے نیک دل ، عالی حوصلہ اور مرنجاں مرنج شیخ وقت تھے ،اس سازش سے غیر محسوس طریقہ پر متاثر ہوگئے بہادر شاہ نے جب ان کو مفتی صد ر الدین آزردہ کے ذریعہ صورت حال سے آگاہ کیا تووہ فوراً اپنی ضمنی تحریک سے دست کش ہوگئے ۔ بریلی میں خان بہادر خان اور وہاں کے ہندو زمیندار وں میں نفاق ڈالنے کے لیے بھی یہی تدبیر اختیارکی گئی لیکن کامیاب نہ ہوسکی ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل خط مطالعہ کے قابل ہے :
’’ من جانب جارج کو پر صاحب سیکریٹری چیف کمشنر اودھ
بخدمت جی ایف ایڈمنسٹن صاحب سیکریٹری حکومت ہند لکھنؤ ،یکم دسمبر ۱۸۵۷ء
جناب عالی:
یہ سلسلہ مکتوب چیف کمشنر گورنر جنرل بہادر مورخہ ۱۴ ستمبر جس میں انہوں نے پچاس ہزار روپیے کی رقم بریلی کی ہندوآبادی کو مسلمان باغیوں کے خلاف آمادۂ پیکار کرنے پر صرف کرنے کی اجازت دی ہے مجھے کپتا ن گوں کے خط مورخہ ۱۴ کا اقتباس پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے حضور والا کی یہ علم ہوگا کہ یہ کوشش ناکام رہی اور اس کو ترک کر دیا گیا اور اس پر کوئی رقم صرف نہیں ہوئی ۔
آ پ کا خادم
جارج کوپر
سیکریٹری چیف کمشنر ۔ عالم باغ کیمپ یکم دسمبر ۱۸۵۷ء
پھر سکھوں کو بہادر شاہ سے بدظن کر نے کے لیے لارنس نے پنجاب میں یہ شہرت دی کہ بہادر شاہ کی طرف سے اعلان کر ایا گیا ہے کہ جوشخص بھی ایک سکھ کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا ۔عبد اللطیف نے بتایا ہے کہ سکھوں کا ایک وفد اس سلسلہ میں بہادر شاہ سے آکر ملا اور اس بات کی شکایت کی ۔بہادر شاہ نے جواب دیا :
’’ازما جز مہربانی نیا یدو نظر عاطفت براہل ہرکیش باید‘‘
۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات خراب کر انے کے لیے منظم کوششیں شروع کر دیں ۔ اور سیاست ،سماج ، زبان اور ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہ چھوڑا جہاں یہ زہر نہ پھیلا یا گیا ہو۔ سر ہنری ایل نے (جس کی تاریخ ہند کی آٹھ جلدیں گزشتہ پچھتر سال سے ہماری ساری چھوٹی بڑی تاریخوں کا ماخذر ہی ہیں ۔ ) حکومت کو لکھا کہ اگر اس کی مرتب کی ہوئی تاریخ ہند شائع کر دی گئی تو ہندوستان میں ساری قومی تحریکیں خود بخود سرد پڑ جائیں گی ۔چنانچہ ہند و مسلم اختلافات کو تاحد طوفان پہنچانے کے لیے یہ کتاب شائع کر دی گئی ۔
۱۸۵۷ء کی تحریک کی ناکامی کے مختلف اسباب کی بنا پر ہوئی جہاں تک انفرادی اور شخصی صلاحیتوں کا تعلق تھا ،ہندوستان میں شجاعت وتہور کی کوئی کمی نہ تھی ۔رانی لکشمی بائی ،بخت خان ، حضر ت محل ، تاتیا ٹوپی ، خان بہادر خان ،احمد اللہ شاہ ، کنور سنگھ وغیرہ برطانوی نمائندوں کینگ ، لارنس ،روز ، نکلسن ، اورٹرم وغیرہ ۔کسی حیثیت سے کم نہ تھے ۔لیکن ایک فرق بہت بڑا تھا ۔ہندوستان میں یہ صلاحیتیں منتشر اور متفرق طور پر کام کر رہی تھیں ۔ ۱؂ اور انگریزوں میں وہ سب متحدہ مقصد کی چاکری میں لگا دی گئی تھیں ہندوستانی سپاہیوں میں مقصد کا اتحاد بالکل مفقود تھا ۔ مختلف طبقات مختلف مقاصد کے لیے لڑ رہے تھے ۔بر خلاف اس کے ہر برطانوی سپاہی صرف ،ملکہ معظمہ ، کے لیے لڑ رہا تھا ۔ ان کے مقاصد ایک تھے اور طریقۂ کار میں بھی زیادہ فرق نہ تھا۔
ہندوستان کی ایک بڑی بد نصیبی یہ تھی کہ پوری تحریک کو کسی ایک مرکزی تنظیم کے ماتحت نہ لایا جاسکا۔ مقامی اور انفرادی کوششوں نے ملک میں ابتری تو پیدا کر دی لیکن اس ابتری کو غیر ملکی اقتدار کے خلاف ایک منظم کوشش کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہ ہوا۔ چار ماہ کی مدت میں دہلی میں کوئی ایسا نظام ترتیب نہ دیا جاسکا جوایک کل ہند نظام کو اپنے اندر جذ ب کر لینے میں کامیاب ہوجاتا۔
اس بدنظمی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ تقریبا ً دو صدیوں سے ملک میں انتشار وابتری کا دور دورہ تھا۔ جاٹ گردی ، مرہٹہ گردی ، نادر گردی ، اور نہ معلوم کن کن آفتوں نے سماجی زندگی کا توازن بگاڑ کر سیاسی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا تھا ۔ انگریزوں کے مقابلہ کے لیے جس اعلیٰ ضبط ونظم کی ضرورت تھی اس کا دو ر دور تک پتہ نہ تھا ۔جماعت مجاہدین کے ایک رکن محمد اسمعیل خان کہا کرتے تھے کہ ’’ ہنگامہ میں حصہ لینے والوں کی حیثیت ایک غیر منظم بھیڑ کی سی تھی ۔کہیں کوئی افواہ اڑتی تو لوگ سراسیمہ وار بھاگنے لگتے ۔پھر سردار وں میں سخت رقابت تھی ۔ہر سردار کی کوشش یہ تھی کہ دوسرے کو گرا کر خود آگے بڑ ھ جائے خصوصا یورپیوں کی بدلگامی حد سے بڑھی ہوئی تھی ابتدائی دو ر کی معمولی وقتی کامیابیوں نے ان میں سے اس درجہ غرور پیدا کر دیا تھا کہ کہتے تھے : جہ کے موڑ پر پنہی رکھ دیے وہی بادشاہ ہو جیے (یعنی جس کے سر پر جو تار رکھ دیں گے وہی بادشاہ ہوجائے گا ۔
پھر اقتصادی اعتبار سے بھی یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ ہندوستانی سپاہی جو بہادر شاہ کے گرد جمع ہوگئے تھے ، انہیں سخت ترین مالی دشواریاں پیش آرہی تھیں ۔ آئے دن فوج کی ضروری اخراجات کے لیے روپیہ قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی ایسی صورت مٰں کوئی فوج بھی بے فکری کے ساتھ کام نہیں کر سکتی تھی ،منشی جیون لال نے اپنے روزنامچہ میں بہادر شاہ اور مولوی فضل حق کی گفتگو نقل کی ہے ۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ : اپنی افواج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑاؤ تو انہوں نے کہا: افسوس تو اسی بات کا ہے کہ سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جوا ن کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔
علاوہ ازیں انگریزوں کے ہاتھ میں وہ علاقے تھے جو معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ خوشحال تھے ۔اور جن کو ہندوستان کی اقتصادی شہ رگ کہا جاسکتا تھا ۔شمالی ہندوستان کے وہ علاقے جہاں انگریزوں کے خلاف جذبات سب سے زیادہ شدید تھے وہ تھے جہاں کے معاشی حالات ابتر ہوچکے تھے ۔مسلسل سیاسی بدنظمی ،بیرونی حملوں اور اندرونی سازشوں نے ان علاقوں کو اتنا بے جان کر دیا تھا کہ وہ کسی جنگ کے مصارف کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے ۔
ناکامی کے اور بہت سے اسباب کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے لیکن اس تما م تجزیہ کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ۱۸۵۷ ء کا ہندوستان وقتی طور پر انگریزوں کے خلاف کامیاب بھی ہوجاتا تو اپنی آزادی کو برقرا ر نہیں رکھ سکتا تھا ۔ انقلاب او ر سائنس کی نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو بالکل بدل دیا تھا لیکن ہندوستانی ابھی تک قدیم طرز تمدن کا خستہ لبادہ اوڑھے بیٹھے تھے اور قدامت پسندی نے ان کے قدموں کو جکڑ لیا تھا ایسی صورت میں ۱۸۵۷ء کی تحریک کی کامیابی غلامی زنجیروں کوصر ف ڈھیلا کر سکتی تھی توڑ نہیں سکتی تھی۔
فتح دہلی کے بعد انگریزوں نے سارے ملک کو انتقامی آگ کے شعلوں میں ڈال دیا۔اور قتل وغارت گری کا وہ ہنگامہ برپا کیا جس کی مثا ل انیسویں صدی کی تاریخؒ میں تلاش سے بھی نہیں ملتی ۔ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسان۱؂ اس ظلم اور بربریت کاشکار ہوگئے ۔
شمالی ہندوستان میں بے شمار گاؤں ایسے تھے جہاں درختوں سے لٹکی ہوئی نعشوں کے گرد کوے اور چیلیں منڈلاتی ہوئی نظر آت تھیں ۔ بازاروں کا عالم یہ تھا کہ :
گھروں سے کھینچ کے کشتیوں پہ کشتی ڈالتے ہیں
نہ گور ہے نہ کفن ہے نہ رونے والے ہیں
یوں تو ہندو اور مسلمان کوئی بھی انگریز کی چیرہ دستی سے نہ بچ سکا ،لیکن مسلمانوں پر خاص طور سے عتاب نازل ہوا۔ اس کابڑا سبب یہ تھا کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پورا ہنگامہ صرف مسلمانوں کا پید ا کیا ہوا تھا ۱؂ ۔چنانچہ ہزاروں مسلمان معمولی معمولی شبہا ت پر تہ تیغ کر دیئے گئے ۔ہزاروں مسلمان گھرانے نانِ شبینہ کو محتاج ہوگئے اور سینکڑوں شریف خاندان بے کس اور مفلسی کے عالم میں دربدر مارے پھرنے لگے ۔ سر سید جنہوں نے اس موج خون کو مسلمانوں کے سر سے گزرتا ہوا دیکھا تھا ،لکھتے ہیں :
’’ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائے گی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا ۔چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا ۔آپ یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دیے ۲؂
سب سے زیادہ عبرت ناک دہلی کی تباہی تھی ۳؂ وہ صرف ایک ہنگامی تحریک کا ہی مرکز نہ تھی، بلکہ ایک تمدن کی آخری نشانی تھی وہاں کی ہر ایک چیز اپنی تاریخ رکھتی تھی ۔انگریزوں نے اس کی تباہی وبربادی میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھی ۔چوک سعد اللہ خان، اردو با زار ،خانم کا بازار، بلاقی بیگم کا کوچہ، خان دوراں کی حویلی ، دریا گنج کی گھاٹی ، گلیوں کا بازار ، پنجابی کٹرا، دھوبی کٹرا، رام گنج، سعادت خان کا کٹر ا، رام جی داس کودام والے کے مکانات ، کے علاوہ شاہی درس گاہ ، دار البقاء ، اکبر آبادی مسجد، اور نگ آبادی مسجد، چوبی ، مسجد کو اس طرح مسمار کیا کہ نام ونشاں تک باقی نہ چھوڑا ۔غالب نے اسی زمانہ میں ایک خط میں لکھا تھا :
مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ صحرا لق ودق ہے ۔اینٹوں کے جوڈھیر پڑے ہیں وہ اگر اٹھ جائیں و ہو کا مکان ہوجائے ۔
انگریزوں نے جس سفاکی اور بے دردی کے ساتھ خون بہایا تھا اس سے دلوں پر خوف وہراس طاری ہوگیا ۱؂ اور کسی کو اس قیامتِ صغریٰ کی داستان مرتب کر نے کی جراٗت نہ ہوئی ۔ لیکن غم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو ، سرائیں شیشہ فروبند، پر عمل نہیں ہوسکتا ۔کچھ لوگوں نے مذہبی عنوانات پر لکھ کر اپنے غم کو بھلانے کی کوشش کی ، کچھ لوگوں نے گل وبلبل کی زبان سے آہ وزادی کی ، کچھ لوگوں نے زیادہ جرأ ت سے کام لیا تو ڈائر یاں اور روزنامچے مرتب کر دیے لیکن انگریزکے جبر وتشدد سے خوف کی جواَنمٹ کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس کے آثار یہاں بھی نمایاں رہے اور تحریک کے جرأ ت مندانہ تجزیہ کی ہمت تو کیا ، اپنے جذبات کے اظہار تک کی جرأت نہ ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور کی شاعری ہو یا مذہبی تصانیف ،تاریخی کتابیں ہوں یا تذکرے ، قنوطیت اور ذہنی مرعوبیت کی گہری گھٹائیں چھائی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ بخت خان کو جو اس تحریک کی سب سے زیادہ ممتاز شخصیتوں میں تھا ،کسی تذکرہ نویس نے ، بدبخت ، کہا ہے کسی نے ، کمبخت ، اور کسی نے گھس کھدا ، داستانِ غدر میں بخت خان کی یہ تصویر:
دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پوربیا فربہ اندام ،پستہ قد، ادھیڑ ، سر پرا یک انگوچھا لپٹا ہوا، چند یا کھلی ، عقب حمام کے چبوترہ کی طرف سے دربار میں آیا اور بادشاہ کو سلام کرکے پاس چلا آیا ۔میرے بہنوئی نے روکا بھی کہ ہیں ہیں کہاں چلے آتے ہو ، مگر وہ کب سنتا تھا۔پاس آکر بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ۔سنو بڑھو ہم نے تمہیں بادشاہ کیا ۔ یہ بات سن کر مجھے تاب نہ رہی اور مارے غصہ کے کانپنے لگا ۔ اور ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر رکھ کر دھکا دیا او رکہا کہ اوبے ادب ،بے تمیز بادشاہوں کے دربار میں اس طرح گستاخی کرتے ہیں ۔ وہ اس دھکا دینے سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور گرتے گرتے سنبھلا اور اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈالا ، میں نے بھی تلوار کھینچ لی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ بدبخت جرنیل بخت خان یہی ہے ۔
جس ذہنی مرعوبیت کی آئینہ دار ہے اس نے اس دور کے بیشتر تذکروں کی تاریخی اہمیت اور افادیت کو کم کر دیا ہے او ر حقیقی جذبات ،وقتی مصلحتوں کے بوجھ میں اس طرح دب گئے ہیں کہ ان میں ’’ کافور وکفن ، کی بو توسونگھنی جاسکتی ہے لیکن دل کی بے چین دھڑکنیں نہیں سنی جاسکتیں ۔
معاصر تذکرون اور سالوں میں سر سید کا رسالہ اسباب بغاو ت ہند، غالب کا دس سبق ، اور معین الدین اور منشی جیون لا ل کے روز نامچے اور ظہیر الدین کی کتاب داستان غدر خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
سر سیدؔ نیجس وقت اپنا رسالہ لکھا تھا اس وقت غدر کے اسباب کے تجزیہ کا تو ذکر کیا اس کے واقعات کے متعلق بھی کسی کو لکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ۔سر سید نے وقت کی تمام مصلحتوں کو یہ جواب دے کر :
اس موضوع پر قلم اٹھا لیا ۔سر سید نے ہنگامہ کے زمانہ میں انگریزوں کی بہت ہمدردی کی تھی اس لیے ان پر باغی ہونے کا الزام لگاناتو آسان نہ تھا ، لیکن پھر بھی انگلستان کے بعض حلقوں میں ان ک اس کوشش کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ انگریزوں پر اس وقت انتقام کا خون ایسا سو ار تھا کہ وہ کسی عنوان ایک ہندوستانی سے ہنگامہ کے اسباب وعلل کے متعلق سننے پر آمادہ نہ تھے ۔ سر سید نے نہایت صفائی لیکن انتہائی تدبر سے یہ رسالہ ترتیب دیا اور بعض نہایت ہی تلخ حقیقتوں کو اپنی انگریز دوستی کا سہار ا لے کر پیش کر دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ہندوستانی نے اس گہرائی اور محنت سے تحریک کا جائزہ نہیں لیا ۔ انہوں نے تصویر کے کتنے ہی رخ بے نقاب کیے ہیں اور بڑی جرأت کے ساتھ اسباب غدر کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
غالب کے دستنبو میں ذہنی مرعوبیت اور خوشامد کا پہلو غالب ہے ۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سکہ کے اشعار لکھنے اور دربار بہادر شاہی میں حاضری کاداغ دھونے کی خواہش اس کی محرک ہے ۔ ان کے خطوط میں ہنگامے سے متعلق حقیقی جذبات ملتے ہیں اوربعض میں یقینا سوز دل کی بو آتی ہے لیکن دستنبو میں وہ انگریز کی زبان سے بولے ہیں اور مصلحت کے قلم سے انہوں نے لکھا ہے ۔
٭٭٭ 
ھر ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بہادر شاہ اور باغی سپاہیوں نے بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر لیا تھا ۔یہ الزام بھی ثبوت کا محتاج رہا۔ ایسا ضرور ہوا کہ ایک اعلان جو شاہ ایران کی طرف منسوب تھا جامع مسجد پر چسپاں کیا گیا تھا ۔ا سکے علاوہ اور سب بیانات کی صحت مشتبہ ہے ۔مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ بہادر شاہ نے اپنے سفیر ایران بھیجے تھے ۔لیکن یہ ثابت نہ ہوسکا ۔مکند لال نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مرزا سلیمان شکوہ کے پوتے مرز احیدر وغیرہ لکھنؤ آئے تھے اور انہوں نے بہادر شاہ اور شاہ ایران کے درمیان تعلقات قائم کرانے کے سلسلہ میں گفتگو کی بھی تھی۔بعض مورخوں نے ایران میں برطانوی سفیر مرے ؔ (Murray) کا خط نقل کیا ہے جس میں اس ایک ایرانی عہدہ کا بیان نقل کیا ہے کہ شمالی ہندوستان کے والیان ریاست کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ایران سے خطوط بھیجے گئے تھے ۔ ان تمام بیانات کے باوجود ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں کسی بیرونی طاقت کی نمایاں مداخلت کا ثبوت نہیں ملتا۔
۱۸۵۷ ء کی تحریک نہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت سے پیدا ہوئی نہ اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی ۔یہ بالکل قدرتی اظہار تھا اس گہری نفرت اور بے چینی کا جو انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے دلوں میں جمع ہورہی تھی۔ سپاہیوں نے پیش قدمی اس لیے کی کہ وہ انگریز وں کے غیر منصفانہ برتاؤ سے عاجز ہوچکے تھے اور فوجی قانون کے ماتحت ہوتے ہوئے وہ زیادہ عرصہ تک ان نا انصافیوں کو برداشت بھی نہیں کر سکتے تھے ۔۱۸۰۶ء سے جب سرجارج بارلو (Sir George Barlow) نے سپاہیوں کے تلک لگانے ، داڑھی رکھنے اور صافہ باندھنے پرا عتراض کئے تھے ،متواتر فوج کے ساتھ ایسا برتاؤ ہور ہا تھا جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا لازمی تھا ۔ہندوؤں میں بحری سفر کے خلاف مدتوں سے ایک نفرت چلی آتی تھی، انگریزوں نے نہ ان کے جذبات کو سمجھا نہ ان کا احترام کیا ۔ ذات پات کے جذبات کو بھی اسی طرح نظر انداز کیا گیا۔ سردار بہادر ہدایت علی نے بتایا تھا کہ کابل میں ہندوسپاہی نہ اشنا ن کرسکتے تھے نہ انہیں ہندوؤں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بنتا تھا ۔علاوہ ازیں مختلف اوقات میں جو وعدے فوج سے کیے گئے تھے ،ان کو نہ صرف یہ کہ پورا نہیں کیا گیا بلکہ ان کے خلاف عمل کیا گیا ۔اس سے سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی ۲؂ پھر ہندوستانی اور انگریز سپاہیوں کی تنخواہوں اور معیار زندگی میں زمین وآسمان کا فرق تھا ۔اور اس فرق نے وہ احساس کمتری پیدا کر دیا تھا جو نہ صرف بے چینی بلکہ ارتکابِ جرم کا ہمیشہ سب سے بڑا محرک ہوتا ہے ۔
ہندوستان میں انگریزوں کی فوج ۳۱۵۵۲۰ ۔اشخاص پر مشتمل تھی۔ اس پر ۹۸۰۲۲۳۵ پونڈ خرچ آتا تھا۔ اس میں سے ۱۱۰ ۵۶۶۸ پونڈ یورپین فوج پر خرچ ہوتا تھا اور یہ ا س صورت میں جب کہ ان کی کل تعداد ۵۱۳۱۶ سے زیادہ نہ تھی ایک ہندوستانی پیادہ کو سات روپیہ ماہانہ او ر سوار کو ستائیس روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی ۔سوار کو اپنا گھوڑا رکھنا پڑتا تھا اس قلیل تنخواہ سے بھی کٹ کٹا کر بعض اوقات ایک سپاہی کو ڈیڑھ روپیہ ماہانہ اور بعض صورتوں میں صرف چند آنوں سے زیادہ نہ ملتے تھے ان حالات میں فوجیوں کی بددلی اور بے چینی کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے ۔
علاوہ ازیں انگریزوں نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے جوحربے اور طریقے اختیار کئے تھے ان سے ہندوستانیوں میں زبردست بدگمانی پھیل گئی تھی۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی بعض ایسی تجاویز جن کا مقصد مذہبی مداخلت سے زیادہ سماجی اصلاح تھا ،وہ بھی ہدفِ ملامت بن گئیں ۔ عیسائی مبلغ اسکولوں میں ، بازاروں میں ، شفا خانوں میں جیل خانوں میں غرض جس جگہ موقع ملتا ،تبلیغ کرنے لگتے تھے ۔ان کے طریقہ کار سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کی اعانت ان کو حاصل تھی ۔بعض اضلاع میں پادریوں کے ساتھ تھانے کے چپراسی جاتے تھے ۔اور یہ پادری غیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت بر ائی اور ہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی ۔گورنمنٹ اسکولوں میں انجیل کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی ۔جیل خانوں میں قیدیوں کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔سرسیدا حمد خان نے لکھا ہے :
۱۸۵۷ ء کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع ممالک مغربی وشمالی میں ارادۂ گورنمنٹ کے ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ہندوستان کو اس طرح پُر مفلس اور محتاج کر کر اپنے مذہب میں لے آئیں گے ۔میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنربل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی ہندوستان کی رعایا کو کمال رنج ہوتا تھا ۔
بعض قوانین کا صاف مقصد یہ تھا کہ عیسائیت قبول کر لینے والوں کی مدد کی جائے ۔مثلاً ۱۸۵۰ء کے Ad XXI) کے مطابق مذہب تبدیل کر دینے کے بعد بھی ایک شخص موروثی جائداد میں حقدار رہتا تھا ۔ان حالات میں جب پادری ای ایڈمنڈ نے وہ خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا ک اب تمام ہندوستان میں ایک عملد اری ہوگئی، تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی ،ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد ورفت ایک ہوگئی، مذہب بھی ایک چاہیے ، اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجاؤ‘‘ ہندوستانیوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔
پھر انگریزوں نے بعض ریاستوں کے الحاق میں جس کھلی بے انصافی اور ظلم کو روا رکھا تھا اس سے اضطراب اور بے چینی کے شعلے ہر جگہ بھڑکنے لگے ۔ صحیح ہے کہ بعض ریاستیں ، انتظامی معاملات میں کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتی تھیں ،اور ان کو ختم کر کے انگریزوں نے حقیقتا ایک ایسے نظام پر ضرب کاری لگائی جس کی افادیت ختم ہوچکی تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محلا ت شاہی کے ساتھ ہزاروں خاندان پر ورش پاتے تھے ، اور ہر ریاست کی اقتصادی زندگی میں نوابوں اور راجاؤں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی تھی جب ا ن ریاستوں کا الحاق ہواتو ہزاروں متعلقین بے سہار ا رہ گئے ۔ اودھ کے الحا ق کے بعد انگریزوں سے نفرت جس حد کو پہنچ گئی تھی اس کے متعلق ٹریو لیان کا بیان ہے کہ : سقوں نے انگریزوں کے لیے پانی بھرنا چھوڑ دیا،آیائیں اجازت لیے بغیر نوکری سے رخصت ہوگئیں ،باورچی اور ہر کارے آقاؤں سے گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آنے لگے ۔
اقتصادی بدحالی اور ابتر ی نے انگریز کے خلاف شعلوں کی لپک کو بڑھا دیا ۔مصحفی (۱۲۴۰ھ ۔ ۱۸۲۴ء) نے مدتوں پہلے کہا تھا؂
ہندوستان ک دولت وحشمت جو کچھ کہ تھی کافر فرنگیوں نے بتدریج کھینچ لی۔
سر سید نے بتایا ہے کہ لوگ اس قدر نادار ومحتاج ہوچکے تھے کہ صرف آنہ ڈیڑھ آنے یومیہ پر فوج میں ملازمت کے لیے آمادہ ہوجاتے تھے ۔ایک طرف ریاستوں کے الحاق سے ہزار ہا ہندوستانی بے روزگار ہوگئے ، اور بدحال کر دیا گیا ۔انگلستان کی تیار شدہ چیزوں کے لئیے ایک منڈی درکار تھی، اس کے لیے ہندوسان کی مقامی صنعتوں کو عمداً ختم کیا گیا ۔سر سید نے لکھا ہے ۔:
اہلِ حرفہ کاروزگار بسبب جاری اور رائج ہونے اشیائے تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سونے بنانے والے اور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا ۔جو لاہوں کا تار تو بالکل ٹوٹ گیا تھا۔
۱۸۵۷ء کی تحریک مختلف منزلوں سے گزری ،مختلف طبقات نے اس میں حصہ لیا اور مختلف عناصرمختلف اوقات میں بروئے کار آتے رہے ۔ ان میں کچھ عناصر ترقی پسند تھے اور بعض قوتیں رجعت پسند ،روساء میں رانی لکشمی بائی، نانا صاحب ، ناہر سنگھ ، حضرت محل، نواب علی بہادر ، نواب تفضل حسین، خان بہادر خان، نواب محمود خان، وغیرہ وہ شخصیتیں تھیں جن کے عزم ،مقصد کی سچائی اور مسلسل جدو جہد سے تحریک میں جان پیدا ہوئی ،بلند حوصلگی اور انفرادی صلاحیتوں میں یہ لوگ بہت سے انگریزوں سے یقینا بدرجہا بہتر تھے صحیح ہے کہ ان میں سے بعض کو انگریزوں سے ذاتی شکایتیں بھی تھیں اور جاگیردارانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے ،لیکن جہاں تک تحریک میں حصہ لینے اور سرگرمی دکھانے کا تعلق تھا ان کا خلوصِ نیت کسی سے کم نہ تھا۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں تائیا ٹوپی، عظیم اللہ خان، بخت خان، وزیر خان، وغیرہ آخری وقت تک انگریزوں سے لڑتے رہے ۔ ان میں جوش عمل بھی تھا اور انتظامی صلاحیتیں بھی تھیں ۔حالات نے جہاں تک مساعدت کی انہوں نے پوری دلیری کے ساتھ غیر ملکی طاقتوں کا مقابلہ کیا ۔مسلمان علماء ومشائخ جن میں مولانا احمد شاہ حاجی امداد اللہؒ ،مولانافضل حق خیرآبادی ، مولانا عبد القادر لدھیانوی ؒوغیرہم شامل تھے ،اپنے خلوص اور سرفرو شانہ جذبات میں یقینا بے مثال تھے ۔ان کی انگریز دشمنی میں ذاتی رنجشوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ ، غیر ملکی اقتدار سے نفرت اور انگریز کی مشنری کوششوں کا شدید رد عمل کام کر رہا تھا ۔اگر تحریک کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جہاں تک عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا تعلق تھا اس کی زیادہ تر ذمہ داری ان ہی علماء پر تھی ۔مولوی احمد اللہ شاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ: ان کی تقریروں میں ہزاروں آدمی ہندو اور مسلمان جمع ہوجاتے تھے ۔چنانچہ آگرہ کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوتا تھا ۔ان کی ہر دل عزیز ی کی یہ حالت تھی کہ پولیس نے (ایک موقع پر مجسٹریٹ کے حکم پر) انہیں گرفتار کرنے سے انکار کر دیا۔
ان مختلف طبقات کی کوششوں اور حالات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینا ضرور ی ہے تاکہ تحریک میں ان کی شرکت کی نوعیت واضح ہوجائے ۔
سب سے پہلے بہادر شاہ شاہی خاندان اور قلعہ معلی کے حالات پر نظر ڈالیے یوں تو مدت سے ،سلطنت شاہ عالم ،ازدہلی تا پالم کا نقشہ تھا ۔ اور بقول شاہ ولی اللہ دہلی کی حکومت ’’ لعب صبیان ‘‘ بن چکی تھی ،لیکن ۱۸۰۳ء میں جب لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہوگئیں تو مغل بادشاہ کی حیثیت کمپنی کے ایک ملازم سے زیادہ نہ رہی۔ انگریزوں نے بادشاہ کو ہٹانے میں عجلت سے کام نہیں لیا کیوں کہ اس کے نام کے سہارے اپنا اقتدار قائم کرنے میں مددملتی تھی۔۲؂ لیکن بہر نوع کوشش یہی رہی کہ بادشاہ کے اختیار ات کا دائرہ اتنا محدود کر دیا جائے کہ وہ لاشئے محض ہوجائے ۔ بہادر شاہ ۱۸۳۷ء میں تخت پر بیٹھا ۔۱۸۵۷ء میں اس کی عمر ۸۲ سال سے متجاوز تھی ۔نامساعدہ حالات ،پیرانہ سالی اور ذاتی مشاغل کی نوعیت نے اس کو عضو معطل بنا دیا تھا ۔ممکن ہے کہ سر سید نے اس کی نٍا اہلیت ثابت کرنے میں مبالغہ سے کام لے کر یہ لکھ دیا ہوکہ:۔
دلی کے معزول بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اس سے کہا جاتا کہ پرستان میں جنوں کا بادشاہ آپ کا تابعدار ہے تو وہ اس کو سچ سمجھتٍا اور ایک چھوڑ دس فرمان لکھ دیتا ،دلی کا معزول بادشاہ کہا کرتا تھا کہ میں مکھی اور مچھر بن کر اڑ جاتا ہوں اور لوگوں کی اور ملکوں کی خبر لے آتا ہوں اور اس بات کو وہ اپنے خیال میں سچ سمجھتا تھا اور درباریوں سے تصدیق چاہتا تھا اور سب تصدیق کرتے تھے ۔ایسے مالیخولیا والے آدمی۔
لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بابر اور اکبر کے جانشین میں جس سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی ،تفرس اور تدبر کی ضرورت تھی ، وہ اس میں نام کو نہ تھا ،جہاں تک ذاتی کردار کا تعلق تھا وہ اپنے بعض پیشتروں سے بہتر تھا ۔لیکن ذاتی کردار کی یہ چند خوبیاں ایک سلطنت کا بوجھ نہیں سنبھال سکتی تھیں مذہبی معاملات میں بہادر شاہ کو خاصی دلچسپی تھی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری سے پیش آتا تھا ۔حالانکہ سر سید نے لکھا ہے کہ ’’ دہلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اور ان کے تابعین کا ایسا تھا کہ وہ مذہب کی روسے معزول بادشاہ دلی کو بہت برا اور بدعتی سمجھتے تھے ۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض ودخل اور اہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں ۔ چنانچہ وہ لوگ جامع مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور غدر سے بہت قبل کے چھپے ہوئے فتوے اس معاملہ میں موجود ہیں ۔
ادبی اعتبار سے بہادر بادشاہ کا عہد خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی ادبی دلچسپیوں سے قلعہ معلی شعر وسخن کا مرکز بن گیا تھٍا ا س کے زمانہ میں دہلی بقول اپیر ہندوستان کا ویمر تھی اور غالب یہاں کا گوئٹے تھا ۔
بہادر شاہ کی زندگی جن حالات سے گزرتی تھی اس کا کچھ اندازہ احسن الاخبار وغیر ہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔بادشاہ کو یک لاکھ روپیہ ماہانہ پنشن ملتی تھی لیکن اخراجات اس سے کہیں زیادہ تھجے ۔ چنانچہ ہر وقت مالی پریشانی رہتی تھیں اور ساہو کاروں اور امراء سے روپیہ قرض لینا پڑتا تھا ۔میر حامد علی خان ،حافظ محمد داؤد خان، لالہ زور آور چند وغیرہ سے بہادر شاہ کے روپیہ قرض لینے کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے ۔
اور وصولی کے لیے ان لوگوں کے تقاضوں سے بادشاہ کی وقعت لوگوں کی نظر میں کم ہوتی تھی اور طرح طرح کے نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ا یک مرتبہ نواب حامد علی خان نے عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کرنے کا ارادہ کیا تھا اور بہادر شاہ کو انہیں بلا کر رقم کی ادائیگی کی طرف سے اطمینان دلانا پڑا تھا۔ ان مالی پریشانیوں کے باعث اکثرقلعہ معلی کی ملازمتیں فروخت کی جاتی تھیں ۔نواب حامد علی خان کو مختاری کا عہدہ اس شرط پر پیش کیا گیا تھا کہ وہ دس ہزار ووپیہ نذرانہ کے طور پر پیش کریں ۔
۲۶جون ۱۸۴۶ء کے احسن الاخبار کی اطلاع ہے :
سالگ رام۔ ۔ ۔ کی عرضی نظر فیض انور سے گزری ۔اس میں مذکور تھا کہ اگر مجھے آغا حیدر ناظر کی جگہ عہدہ نظارت پر مقر کر دیا جائے تو میں دس ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا ۔حکم ہوا کہ جب ہم آغا حیدر ناظر کا تمام روپیہ جو ہمارے ذمہ ہے اد ا کریں گے تو اس کے بعد دیکھا جائے گا۔
۳۱ جولائی کوآغا حیدر کے داماد حسین مرزا کی عرضی کے جواب میں حکم شاہی ہوتا ہے : تمہیں عہدۂ نظارت سے اس وقت سرفراز کیا جاسکتا ہے جب کہ سات ۷ ہزار روپیہ نذرانہ پیش کرو اور مرحوم آغا حیدر کے نذرانے کے دعوے سے دست برداری لکھ دو۔
جب قلعہ معلی میں ’’ نذرانوں ‘‘ کے نام سے رشوتوں کا بازار گرم تھا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں جہاں بھی قلعہ کے اثرات پہنچے ہوں گے وہاں بدنظمی ، ابتری اور افراتفری کا کیا عالم ہوگا۔
بہادر شاہ کی کثیر اولا د تھی، اس کی تربیت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی گئی تھی۔ شہزادے ایک دوسرے سے بر سرپیکار رہتے تھے ۱؂ سلاطین کی کثیر تعداد قلعہ میں بھوکی مرتی تھی ۳؂ ان کی زبوں حالی کی درد ناک داستانیں اخبارات میں کثرت سے درج ہیں ۔ پروفیسر اسپیر نے اپنی کتاب Twilight of the Mughuls میں ان کے حالات بہ تفصیل بیان کیے ہیں جب یہ شہزادے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرتے تھے تو کمپنی کا حکم ہوتا تھاکہ ’’ اگر سلاطین کا گزارہ مقررہ تنخواہ سے نہیں ہوتا تو ا وقات بسری کے لیے انہیں کہیں ملازمت اختیار کر لینی چاہیے ۔۵؂ مجبور ہو کر وہ قرض لیتے تھے اور بعد کو قرض خواہ عدالتی کارروائیاں کرتے تھے بیشتر شہزادے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بادشاہ کے مفاد کو نظر انداز کر سکتے تھے ۔ان کوآسانی سے خرید اجاسکتا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انگریزوں کی طاقت اس قدر جلد قائم ہوجاتی اگر شہزادے اس طرح سازشوں میں گرفتار نہ ہوتے ! جس خاندان میں مرزا الٰہی بخش جیسی ننگ ملک وننگ خاندان افراد موجود ہوں اس کے مستقبل سے کس کو امید ہوسکتی ہے ۔ بخت خان کو انہی شہزادوں کی ریشہ دوانیوں اور مسلسل سازشوں کے باعث نہایت ہی صبر آزما اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔عبد اللطیف کے روزنامچہ سے معلوم ہتا ہے کہ اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا ۔لیکن ایک موقع پر اس کا پیمانہ صبر چھلک گیا۔ بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ آخر میں اس درجہ پریشان ہوگیا تھا کہ اس نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی شہزادہ شہر کو لوٹے گا تو میں اس کی ٹانگ کٹوا دوگا۔
۱۸۵۷ء کی تحریک میں بادشاہ اور مغلیہ خاندان کا حصہ کیا تھا؟ انہوں نے کہاں تک تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد دی تھی؟ بہادر شاہ کے متعلق یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک انقلابی تحریک کی رہنمائی کی قطعاً صلاحیت نہ رکھتا تھا ۔ اس نے ۱۸۵۷ء کی تحریک میں جو کچھ بھی حصہ لیا تھا وہ حالات کی مجبوری کی بنا پر تھا ۔کسی شورش انگیز مقصد کی بنا پر نہیں تھا۔ اس کی ملکہ زینت محل کے متعلق انگریزوں سے سازباز کا شبہ تھا ۔شہزادے الگ سازشوں کے جال پھیلا رہے تھے ۔ اور ان کی سازشوں ہی کی بنا پر بعد کو بہادر شاہ کی گرفتاری ہوئی ۔مغل شہزادوں کے ساتھ جو بھی ہمدردی پیدا ہوتی ہے وہ ان ے حسرت ناک انجام اور ہڈ سن کے ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے ہے ، ورنہ تحریک کے دوران میں ان کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں تھا ۔مغل شہزادوں میں اگر کوئی شخص تحریک کی اصل روح سے متاثر نظر آتا ہے و ہ فیروز شاہ ہے جس کی سرگرمی جوشِ عمل اور استقامت نے تحریک کو وہ قوت بہم پہنچائی جس کے سہارے سخت سے سخت منزلیں طے کی جاسکتی تھیں ۔
جہاں تک امراء کا تعلق ہے ،ان میں بیشتر ایسے تھے جو ذاتی مفاد اور منفعت کی خاطر بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کر سکتے تھے ان کو نہ ملک سے محبت تھی ،نہ بہادر شاہ سے ذاتی اقتدار کو بڑھانے کی خاطر وہ دربار سے تعلق رکھتے تھے ۔سر سید نے صحیح لکھا ہے کہ لوگ’’ اس کے منہ پر اس کی خوشامد کرتے تھے اور پیٹھ پیچھے ہنستے تھے ۱؂، حکیم احسن اللہ خان ،نواب احمد علی خان وغیرہ جو دربار کے عمائدین میں سے تھے عوام کی نظر میں اس بنا پر معتبر نہ رہے تھے کہ دشمنوں سے مل جانے کا ان پر شبہ تھا ۔جاسوسوں کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ بعض امراء نہایت ہی شرم ناک سازشوں میں مبتلا تھے ۔ دربار کی ساری خبریں انگریزوں کو انہیں کے ذریعہ پہنچتی تھیں ۔ بعض امراء ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی، لیکن جب تحریک کے دوران میں روپیہ کی ضرورت پڑی تو ایک امیر بھی ایسا نہ تھا جس نے روپیہ سے مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو۔ دہلی کی فتح کے بعد جب انگریزوں نے ان امراء کے گھروں کو کھدوایا تھا تو لاکھوں روپیے کے زیورات اور جواہر برآمد ہوئے تھے ۱؂ لیکن جب بھی بہادر شاہ یا بخت خان وغیرہ نے مصارف جنگ کے لیے ان سے روپیہ قرض طلب کیا تو انہوں نے نہ سرف اپنی بے زری کا اظہار کیا بلکہ لڑنے پر آمادہ ہوگئے ۔ نواب فخر الدولہ امیں الدین خان بہادر نے جس طرح ناراضگی کا اظہار کیا تھا ا ُ س کی تفصیل عبد اللطیف نے دی ہے ۔ اس وقت امراء میں گو اٹھارویں صدی کی سی گروہ بندی نہیں رہی تھی، لیکن ہرشخص حصولَِ مقصد کے لیے خود ایک پارٹی بنا ہوا تھا اور دوسروں کی تذلیل وتشہیر کوا پنا فرض سمجھتا تھا۔
اس وقت سب سے زیادہ صحت مند عنا صر جنہوں نے تحریک میں حصہ لیا وہ تھے جنہوں نے دہلی کی مسموم فضامیں پرورش نہیں پائی تھی ۔اور یہاں کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہے تھے ۔بخت خان روہیلوں کی ضرب المثل تنظیمی صلاحیتوں کا مظہر تھا اس میں مقصد کا خلوص بھی تھا اور عسکری تنظیم کا جذبہ بھی۔ اس نے دہلی میں بدنظمی اور ابتری کو روکنے کی پوری کوشش کی ۔ اگر مغل شہزادے اس کے ساتھ تعاون کرجاتے ،یا آخر میں بہادر شاہ اس کے مشورہ پر عمل کر لیتا تو بہت سے واقعات کا رخ بدل جاتا۔
والیانِ ریاست میں رانی لکشمی بائی اور بیگم حضرت محل کی شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ رانی لکشمی بائی نے مردانہ لباس پہن کر فوجوں ک قیادت کی۔ اس کی حیرت افروز شجاعت نے تحریک میں چار چاند لگا دیے او وہ آخری دم تک انگریزوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ حضرت محل کے متعلق مولانا شرر کا بیان ہے کہ لوگ اس کی مستعدی اور نیک نفسی کی تعریف کرتے تھے ۔ا ودھ کی آزادی کے لیے اس نے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی آخر وقت تک قیصر باغ میں بیٹھی تحریک کی تنظیم کرتی رہی۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو قیصر باغ کو چھوڑ کر نیپال کا رخ کیا ۔ ‘
روہیلہ ؔ سرداروں میں خان بہادر خان اور نواب محمود خان نے بھی بڑی جوانمردی سے تحریک میں حصہ لیا ۔۱۸۵۷ء میں خان بہادر خان کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی ۔ انہوں نے بریلی کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لیا اور انگریزوں کے خلاف اپنی طاقت کا استحکام کیا ۔محمود خان نے ضلع بجنور میں انگریزوں کا مقابلہ کیا ،ا ور بجنور ،دھام پور، نگینہ اور آدم ور پر قبضہ کر لیا۔ بہادر شاہ نے ان کو امیر الدولہ ،ضیاء الملک مظفر جنگ کے خطابات دیے تھے ۔ اور ان کی خدمات کو سراہا تھا ،اول الذکر کو بریلی میں پھانسی دی گئی او رموخر الذکر کو حبس دوام بہ عبور دریائے شور کی سزا ملی ،لیکن ابھی انڈیمان کوروانہ ہوئے تھے کہ قید حیات ہی سے رہا ہوگئے ۔
دہلی کی ایجنٹی کے ماتحت سات ریاستیں تھیں ۔ : جھجر ،فرخ نگر، بلبھ گڑھ، بہادر گڑھ، دوجانہ، پاتودی اور لوہارو،ان ریاستوں نے اپنے حالات اور مصلحتوں کے ماتحت تحریک میں حصہ لیا اور دہلی کی حکومت سے تعلقات قائم کر لیے ۔نواب عبد الرحمن خان والی جھجر اور اس کے خسر عبد الصمد خان نے کافی سر گرمی دکھائی ۔ عبد الصمد خان نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا تھا اور برابر انگریزوں سے لڑتا رہا ۔راجہ ناہر سنگھ والی بلبھ گڑھ نے بہادر شاہ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور برابر دربار سے خط و کتابت رہتی تھی ،۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے جھجر ، فرخ نگر، بلبھ گڑھ کی ریاستیں ضبط کر لیں اور ان کے والیوں کو پھانسی کی سزا دے دی ۔غالب ایک خط میں علاء الدین احمد خان علائی کو لکھتے ہیں ۔
’’قصہ کو تاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڑھ اور بلب گڑھ اور فرخ نگر کم وبیش تیس لاکھ روپیے کی ریاستیں مٹ گئیں ۔شہر کی عمارتیں خاک میں مل گئیں ۔ہنر مند آدمی یہاں کیوں پایا جائے ۔
۱۸۵۷ ء کی تحریک کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہندو او ر مسلمان دونوں نے دوش بدوش یہ جنگ لڑی تھی۔ اور ہندو مسلم سوال کسی نوعیت اور کسی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے نہیں تھا ۔محض یہ واقعہ کہ تحریک کے آغاز میں ہی ہندو اور مسلمان سب کی نظریں بہاد رشاہ کی طر ف اٹھ گئیں تھیں ۔تحریک کی ہمہ گیر نوعیت کی طرف ا شارہ کرتا ہے ۔بہادر شاہ کی ذاتی نٍا اہلیت تسلیم لیکن اس کی حیثیت ایک علامت اور ایک نشانی کی تھی ۔وہ ڈوبتا ہوا سورج سہی لیکن وہ ایک ایسی صبح کی شام تھا جس میں ہندوستان نے اپنے سیاسی وقار اور تمدنی عظمت کے نادر جلوے دیکھے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ تمام وہ طاقتیں تک جو کچھ عرصہ سے سلطنت مغلیہ کے مد مقابل آگئی تھیں ۔ بہادر شاہ کے گرد جمع ہوگئیں ۔ مرہٹے ایک مدت سے مغلوں سے بر سر پیکار تھے ، لیکن ۱۸۵۷ء میں پیشوا نے بہادر شاہ کو تسلیم کرنے میں مطلقا ً کوئی عذر نہیں کیا ۔ نانا صاحب کے خاص مشیروں میں عظیم اللہ خان رہا ۔ رانی جھانسی نے مسلمان تو پچی ملازم رکھے ۔احمد اللہ شاہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کے مشترکہ اجتماعات میں تقریریں کیں ۔ بہادر شاہ نے بعض نہایت اہم کام مثلاً ٹکسال کی نگرانی ،پولیس کا کام ہندوؤں کے سپر دکیا اور انہوں نے بادشاہ کے ساتھ پورا تعاون کیا ۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے اس اتحاد عمل سے انگریزوں کو بڑی تشویش پید ا ہوگئی تھی انہیں اپنی ناکامی کے آثار اگر کسی چیز میں نظر آتے تھے تو وہ صرف ہندوستان کے مختلف طبقوں اور مذاہب کے لوگوں میں اشتراک عمل اور اتحاد میں ،غیر متحد ہندوستان تو ریت کی دیوار کی طرح گرایا جاسکتا تھا ،لیکن متحدہ ہندوستان انگریزوں کے لیے کوہ گراں کی مانند تھا ۔چنانچہ تحریک کے دوران میں پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح اس اتحاد کو ختم کیا جائے ۔ تحریک کے بعد تو انگریز کی حکمتِ عملی کی ساری عمات اسی پر تعمیر ہوئی تھی کہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ ہنگامہ کے دوران میں بقرعید آئی اور انگریزوں نے اس موقع کو ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑانے کے لیے استعمال کر نے کی کوشش کی ۔ تعجب کی بات ہے کہ اس سازش کے جال اس طرح پھیلا ئے گئے کہ مولانا احمد سعید مجددیؒ جو بڑے نیک دل ، عالی حوصلہ اور مرنجاں مرنج شیخ وقت تھے ،اس سازش سے غیر محسوس طریقہ پر متاثر ہوگئے بہادر شاہ نے جب ان کو مفتی صد ر الدین آزردہ کے ذریعہ صورت حال سے آگاہ کیا تووہ فوراً اپنی ضمنی تحریک سے دست کش ہوگئے ۔ بریلی میں خان بہادر خان اور وہاں کے ہندو زمیندار وں میں نفاق ڈالنے کے لیے بھی یہی تدبیر اختیارکی گئی لیکن کامیاب نہ ہوسکی ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل خط مطالعہ کے قابل ہے :
’’ من جانب جارج کو پر صاحب سیکریٹری چیف کمشنر اودھ
بخدمت جی ایف ایڈمنسٹن صاحب سیکریٹری حکومت ہند لکھنؤ ،یکم دسمبر ۱۸۵۷ء
جناب عالی:
یہ سلسلہ مکتوب چیف کمشنر گورنر جنرل بہادر مورخہ ۱۴ ستمبر جس میں انہوں نے پچاس ہزار روپیے کی رقم بریلی کی ہندوآبادی کو مسلمان باغیوں کے خلاف آمادۂ پیکار کرنے پر صرف کرنے کی اجازت دی ہے مجھے کپتا ن گوں کے خط مورخہ ۱۴ کا اقتباس پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے حضور والا کی یہ علم ہوگا کہ یہ کوشش ناکام رہی اور اس کو ترک کر دیا گیا اور اس پر کوئی رقم صرف نہیں ہوئی ۔
آ پ کا خادم
جارج کوپر
سیکریٹری چیف کمشنر ۔ عالم باغ کیمپ یکم دسمبر ۱۸۵۷ء
پھر سکھوں کو بہادر شاہ سے بدظن کر نے کے لیے لارنس نے پنجاب میں یہ شہرت دی کہ بہادر شاہ کی طرف سے اعلان کر ایا گیا ہے کہ جوشخص بھی ایک سکھ کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا ۔عبد اللطیف نے بتایا ہے کہ سکھوں کا ایک وفد اس سلسلہ میں بہادر شاہ سے آکر ملا اور اس بات کی شکایت کی ۔بہادر شاہ نے جواب دیا :
’’ازما جز مہربانی نیا یدو نظر عاطفت براہل ہرکیش باید‘‘
۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات خراب کر انے کے لیے منظم کوششیں شروع کر دیں ۔ اور سیاست ،سماج ، زبان اور ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہ چھوڑا جہاں یہ زہر نہ پھیلا یا گیا ہو۔ سر ہنری ایل نے (جس کی تاریخ ہند کی آٹھ جلدیں گزشتہ پچھتر سال سے ہماری ساری چھوٹی بڑی تاریخوں کا ماخذر ہی ہیں ۔ ) حکومت کو لکھا کہ اگر اس کی مرتب کی ہوئی تاریخ ہند شائع کر دی گئی تو ہندوستان میں ساری قومی تحریکیں خود بخود سرد پڑ جائیں گی ۔چنانچہ ہند و مسلم اختلافات کو تاحد طوفان پہنچانے کے لیے یہ کتاب شائع کر دی گئی ۔
۱۸۵۷ء کی تحریک کی ناکامی کے مختلف اسباب کی بنا پر ہوئی جہاں تک انفرادی اور شخصی صلاحیتوں کا تعلق تھا ،ہندوستان میں شجاعت وتہور کی کوئی کمی نہ تھی ۔رانی لکشمی بائی ،بخت خان ، حضر ت محل ، تاتیا ٹوپی ، خان بہادر خان ،احمد اللہ شاہ ، کنور سنگھ وغیرہ برطانوی نمائندوں کینگ ، لارنس ،روز ، نکلسن ، اورٹرم وغیرہ ۔کسی حیثیت سے کم نہ تھے ۔لیکن ایک فرق بہت بڑا تھا ۔ہندوستان میں یہ صلاحیتیں منتشر اور متفرق طور پر کام کر رہی تھیں ۔ ۱؂ اور انگریزوں میں وہ سب متحدہ مقصد کی چاکری میں لگا دی گئی تھیں ہندوستانی سپاہیوں میں مقصد کا اتحاد بالکل مفقود تھا ۔ مختلف طبقات مختلف مقاصد کے لیے لڑ رہے تھے ۔بر خلاف اس کے ہر برطانوی سپاہی صرف ،ملکہ معظمہ ، کے لیے لڑ رہا تھا ۔ ان کے مقاصد ایک تھے اور طریقۂ کار میں بھی زیادہ فرق نہ تھا۔
ہندوستان کی ایک بڑی بد نصیبی یہ تھی کہ پوری تحریک کو کسی ایک مرکزی تنظیم کے ماتحت نہ لایا جاسکا۔ مقامی اور انفرادی کوششوں نے ملک میں ابتری تو پیدا کر دی لیکن اس ابتری کو غیر ملکی اقتدار کے خلاف ایک منظم کوشش کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہ ہوا۔ چار ماہ کی مدت میں دہلی میں کوئی ایسا نظام ترتیب نہ دیا جاسکا جوایک کل ہند نظام کو اپنے اندر جذ ب کر لینے میں کامیاب ہوجاتا۔
اس بدنظمی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ تقریبا ً دو صدیوں سے ملک میں انتشار وابتری کا دور دورہ تھا۔ جاٹ گردی ، مرہٹہ گردی ، نادر گردی ، اور نہ معلوم کن کن آفتوں نے سماجی زندگی کا توازن بگاڑ کر سیاسی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا تھا ۔ انگریزوں کے مقابلہ کے لیے جس اعلیٰ ضبط ونظم کی ضرورت تھی اس کا دو ر دور تک پتہ نہ تھا ۔جماعت مجاہدین کے ایک رکن محمد اسمعیل خان کہا کرتے تھے کہ ’’ ہنگامہ میں حصہ لینے والوں کی حیثیت ایک غیر منظم بھیڑ کی سی تھی ۔کہیں کوئی افواہ اڑتی تو لوگ سراسیمہ وار بھاگنے لگتے ۔پھر سردار وں میں سخت رقابت تھی ۔ہر سردار کی کوشش یہ تھی کہ دوسرے کو گرا کر خود آگے بڑ ھ جائے خصوصا یورپیوں کی بدلگامی حد سے بڑھی ہوئی تھی ابتدائی دو ر کی معمولی وقتی کامیابیوں نے ان میں سے اس درجہ غرور پیدا کر دیا تھا کہ کہتے تھے : جہ کے موڑ پر پنہی رکھ دیے وہی بادشاہ ہو جیے (یعنی جس کے سر پر جو تار رکھ دیں گے وہی بادشاہ ہوجائے گا ۔
پھر اقتصادی اعتبار سے بھی یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ ہندوستانی سپاہی جو بہادر شاہ کے گرد جمع ہوگئے تھے ، انہیں سخت ترین مالی دشواریاں پیش آرہی تھیں ۔ آئے دن فوج کی ضروری اخراجات کے لیے روپیہ قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی ایسی صورت مٰں کوئی فوج بھی بے فکری کے ساتھ کام نہیں کر سکتی تھی ،منشی جیون لال نے اپنے روزنامچہ میں بہادر شاہ اور مولوی فضل حق کی گفتگو نقل کی ہے ۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ : اپنی افواج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑاؤ تو انہوں نے کہا: افسوس تو اسی بات کا ہے کہ سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جوا ن کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔
علاوہ ازیں انگریزوں کے ہاتھ میں وہ علاقے تھے جو معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ خوشحال تھے ۔اور جن کو ہندوستان کی اقتصادی شہ رگ کہا جاسکتا تھا ۔شمالی ہندوستان کے وہ علاقے جہاں انگریزوں کے خلاف جذبات سب سے زیادہ شدید تھے وہ تھے جہاں کے معاشی حالات ابتر ہوچکے تھے ۔مسلسل سیاسی بدنظمی ،بیرونی حملوں اور اندرونی سازشوں نے ان علاقوں کو اتنا بے جان کر دیا تھا کہ وہ کسی جنگ کے مصارف کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے ۔
ناکامی کے اور بہت سے اسباب کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے لیکن اس تما م تجزیہ کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ۱۸۵۷ ء کا ہندوستان وقتی طور پر انگریزوں کے خلاف کامیاب بھی ہوجاتا تو اپنی آزادی کو برقرا ر نہیں رکھ سکتا تھا ۔ انقلاب او ر سائنس کی نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو بالکل بدل دیا تھا لیکن ہندوستانی ابھی تک قدیم طرز تمدن کا خستہ لبادہ اوڑھے بیٹھے تھے اور قدامت پسندی نے ان کے قدموں کو جکڑ لیا تھا ایسی صورت میں ۱۸۵۷ء کی تحریک کی کامیابی غلامی زنجیروں کوصر ف ڈھیلا کر سکتی تھی توڑ نہیں سکتی تھی۔
فتح دہلی کے بعد انگریزوں نے سارے ملک کو انتقامی آگ کے شعلوں میں ڈال دیا۔اور قتل وغارت گری کا وہ ہنگامہ برپا کیا جس کی مثا ل انیسویں صدی کی تاریخؒ میں تلاش سے بھی نہیں ملتی ۔ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسان۱؂ اس ظلم اور بربریت کاشکار ہوگئے ۔
شمالی ہندوستان میں بے شمار گاؤں ایسے تھے جہاں درختوں سے لٹکی ہوئی نعشوں کے گرد کوے اور چیلیں منڈلاتی ہوئی نظر آت تھیں ۔ بازاروں کا عالم یہ تھا کہ :
گھروں سے کھینچ کے کشتیوں پہ کشتی ڈالتے ہیں
نہ گور ہے نہ کفن ہے نہ رونے والے ہیں
یوں تو ہندو اور مسلمان کوئی بھی انگریز کی چیرہ دستی سے نہ بچ سکا ،لیکن مسلمانوں پر خاص طور سے عتاب نازل ہوا۔ اس کابڑا سبب یہ تھا کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پورا ہنگامہ صرف مسلمانوں کا پید ا کیا ہوا تھا ۱؂ ۔چنانچہ ہزاروں مسلمان معمولی معمولی شبہا ت پر تہ تیغ کر دیئے گئے ۔ہزاروں مسلمان گھرانے نانِ شبینہ کو محتاج ہوگئے اور سینکڑوں شریف خاندان بے کس اور مفلسی کے عالم میں دربدر مارے پھرنے لگے ۔ سر سید جنہوں نے اس موج خون کو مسلمانوں کے سر سے گزرتا ہوا دیکھا تھا ،لکھتے ہیں :
’’ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائے گی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا ۔چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا ۔آپ یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دیے ۲؂
سب سے زیادہ عبرت ناک دہلی کی تباہی تھی ۳؂ وہ صرف ایک ہنگامی تحریک کا ہی مرکز نہ تھی، بلکہ ایک تمدن کی آخری نشانی تھی وہاں کی ہر ایک چیز اپنی تاریخ رکھتی تھی ۔انگریزوں نے اس کی تباہی وبربادی میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھی ۔چوک سعد اللہ خان، اردو با زار ،خانم کا بازار، بلاقی بیگم کا کوچہ، خان دوراں کی حویلی ، دریا گنج کی گھاٹی ، گلیوں کا بازار ، پنجابی کٹرا، دھوبی کٹرا، رام گنج، سعادت خان کا کٹر ا، رام جی داس کودام والے کے مکانات ، کے علاوہ شاہی درس گاہ ، دار البقاء ، اکبر آبادی مسجد، اور نگ آبادی مسجد، چوبی ، مسجد کو اس طرح مسمار کیا کہ نام ونشاں تک باقی نہ چھوڑا ۔غالب نے اسی زمانہ میں ایک خط میں لکھا تھا :
مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ صحرا لق ودق ہے ۔اینٹوں کے جوڈھیر پڑے ہیں وہ اگر اٹھ جائیں و ہو کا مکان ہوجائے ۔
انگریزوں نے جس سفاکی اور بے دردی کے ساتھ خون بہایا تھا اس سے دلوں پر خوف وہراس طاری ہوگیا ۱؂ اور کسی کو اس قیامتِ صغریٰ کی داستان مرتب کر نے کی جراٗت نہ ہوئی ۔ لیکن غم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو ، سرائیں شیشہ فروبند، پر عمل نہیں ہوسکتا ۔کچھ لوگوں نے مذہبی عنوانات پر لکھ کر اپنے غم کو بھلانے کی کوشش کی ، کچھ لوگوں نے گل وبلبل کی زبان سے آہ وزادی کی ، کچھ لوگوں نے زیادہ جرأ ت سے کام لیا تو ڈائر یاں اور روزنامچے مرتب کر دیے لیکن انگریزکے جبر وتشدد سے خوف کی جواَنمٹ کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس کے آثار یہاں بھی نمایاں رہے اور تحریک کے جرأ ت مندانہ تجزیہ کی ہمت تو کیا ، اپنے جذبات کے اظہار تک کی جرأت نہ ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور کی شاعری ہو یا مذہبی تصانیف ،تاریخی کتابیں ہوں یا تذکرے ، قنوطیت اور ذہنی مرعوبیت کی گہری گھٹائیں چھائی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ بخت خان کو جو اس تحریک کی سب سے زیادہ ممتاز شخصیتوں میں تھا ،کسی تذکرہ نویس نے ، بدبخت ، کہا ہے کسی نے ، کمبخت ، اور کسی نے گھس کھدا ، داستانِ غدر میں بخت خان کی یہ تصویر:
دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پوربیا فربہ اندام ،پستہ قد، ادھیڑ ، سر پرا یک انگوچھا لپٹا ہوا، چند یا کھلی ، عقب حمام کے چبوترہ کی طرف سے دربار میں آیا اور بادشاہ کو سلام کرکے پاس چلا آیا ۔میرے بہنوئی نے روکا بھی کہ ہیں ہیں کہاں چلے آتے ہو ، مگر وہ کب سنتا تھا۔پاس آکر بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ۔سنو بڑھو ہم نے تمہیں بادشاہ کیا ۔ یہ بات سن کر مجھے تاب نہ رہی اور مارے غصہ کے کانپنے لگا ۔ اور ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر رکھ کر دھکا دیا او رکہا کہ اوبے ادب ،بے تمیز بادشاہوں کے دربار میں اس طرح گستاخی کرتے ہیں ۔ وہ اس دھکا دینے سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور گرتے گرتے سنبھلا اور اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈالا ، میں نے بھی تلوار کھینچ لی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ بدبخت جرنیل بخت خان یہی ہے ۔
جس ذہنی مرعوبیت کی آئینہ دار ہے اس نے اس دور کے بیشتر تذکروں کی تاریخی اہمیت اور افادیت کو کم کر دیا ہے او ر حقیقی جذبات ،وقتی مصلحتوں کے بوجھ میں اس طرح دب گئے ہیں کہ ان میں ’’ کافور وکفن ، کی بو توسونگھنی جاسکتی ہے لیکن دل کی بے چین دھڑکنیں نہیں سنی جاسکتیں ۔
معاصر تذکرون اور سالوں میں سر سید کا رسالہ اسباب بغاو ت ہند، غالب کا دس سبق ، اور معین الدین اور منشی جیون لا ل کے روز نامچے اور ظہیر الدین کی کتاب داستان غدر خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
سر سیدؔ نیجس وقت اپنا رسالہ لکھا تھا اس وقت غدر کے اسباب کے تجزیہ کا تو ذکر کیا اس کے واقعات کے متعلق بھی کسی کو لکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ۔سر سید نے وقت کی تمام مصلحتوں کو یہ جواب دے کر :
اس موضوع پر قلم اٹھا لیا ۔سر سید نے ہنگامہ کے زمانہ میں انگریزوں کی بہت ہمدردی کی تھی اس لیے ان پر باغی ہونے کا الزام لگاناتو آسان نہ تھا ، لیکن پھر بھی انگلستان کے بعض حلقوں میں ان ک اس کوشش کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ انگریزوں پر اس وقت انتقام کا خون ایسا سو ار تھا کہ وہ کسی عنوان ایک ہندوستانی سے ہنگامہ کے اسباب وعلل کے متعلق سننے پر آمادہ نہ تھے ۔ سر سید نے نہایت صفائی لیکن انتہائی تدبر سے یہ رسالہ ترتیب دیا اور بعض نہایت ہی تلخ حقیقتوں کو اپنی انگریز دوستی کا سہار ا لے کر پیش کر دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ہندوستانی نے اس گہرائی اور محنت سے تحریک کا جائزہ نہیں لیا ۔ انہوں نے تصویر کے کتنے ہی رخ بے نقاب کیے ہیں اور بڑی جرأت کے ساتھ اسباب غدر کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
غالب کے دستنبو میں ذہنی مرعوبیت اور خوشامد کا پہلو غالب ہے ۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سکہ کے اشعار لکھنے اور دربار بہادر شاہی میں حاضری کاداغ دھونے کی خواہش اس کی محرک ہے ۔ ان کے خطوط میں ہنگامے سے متعلق حقیقی جذبات ملتے ہیں اوربعض میں یقینا سوز دل کی بو آتی ہے لیکن دستنبو میں وہ انگریز کی زبان سے بولے ہیں اور مصلحت کے قلم سے انہوں نے لکھا ہے ۔
٭٭٭ 

No comments:

Post a Comment