دور جدید کی بیمار قومیں
اب اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم ایک دوسرے ڈھنگ پر ہو رہا ہے۔
یقینا مغربی تہذیب کسی حیثیت سے بھی اسلام کے مقابلہ کی تہذیب نہیں۔ اگر
تصادم اسلام سے ہو تو دنیا کی کوئی قوت اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی۔
مگر اسلام ہے کہاں؟ مسلمانوں میں نہ اسلامی سیرت ہے، نہ اسلامی اخلاق، نہ
اسلامی افکار ہیں نہ اسلامی جذبہ۔ حقیقی اسلامی روح نہ ان کی مسجدوں میں ہے
نہ مدرسوں میں، نہ خانقاہوں میں۔ عملی زندگی سے اسلام کا کوئی ربط باقی
نہیں رہا۔ اسلام کا قانون نہ ان کی شخصی زندگی میں ناقد ہے نہ اجتماعی
زندگی میں۔ تمدن و تہذیب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کا نظم صحیح اسلامی طرز
پر باقی ہو۔ ایسی حالت میں دراصل مقابلہ اسلام اور مغربی تہذیب کا نہیں ہے
بلکہ مسلمانوں کی افسردہ، جامد اور پس ماندہ تہذیب کا مقابلہ ایک ایسی
تہذیب سے ہو جس میں زندگی ہے، حرکت ہے، روشنی علم ہے، گرمی عمل ہے۔ ایسے نا
مساوی مقابلے کا جو نتیجہ ہو سکتا ہے وہی ظاہر ہو رہا ہے۔ مسلمان پسپا ہو
رہے ہیں، ان کی تہذیب شکست کھا رہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مغربی تہذیب میں جذب
ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے دلوں اور دماغوں پر مغربیت مسلط ہو رہی ہے۔ ان
کے ذہن مغربی سانچوں میں ڈھل رہے ہیں، ان کی فکری و نظری قوتیں مغربی
اصولوں کے مطابق تربیت پا رہی ہیں۔ ان کے تصورات، ان کے اخلاق، ان کی
معیشت، ان کی معاشرت، ان کی سیاست، ہر چیز مغربی رنگ میں رنگی جا رہی ہے۔
ان کی نئی نسلیں اس تخیل کے ساتھ اٹھ رہی ہیں کہ زندگی کا حقیقی قانون وہی
ہے جو مغرب سے ان کو مل رہا ہے۔ یہ شکست دراصل مسلمانوں کی شکست ہے مگر بد
قسمتی سے اس کو اسلام کی شکست سمجھا جاتا ہے۔
ایک ملک نہیں جو اس مصیبت میں گرفتار ہو۔ ایک قوم نہیں جو اس خطرے میں مبتلا ہو۔ آج تمام دنیائے اسلام اسی خوفناک انقلاب کے دور سے گزر رہی ہے۔ درحقیقت یہ علما کا کام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی اس وقت وہ بیدار ہوتے، آنے والی تہذیب کے اصول و مبادی کو سمجھتے، مغربی ممالک کا سفر کر کے ان علوم کا مطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔ اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کارآمد علمی اکتشافات اور عملی طریقوں کو اخذ کر لیتے جن کے بل پر مغربی قوموں نے ترقی کی ہے اور ان نئے کل پرزوں کو اصول اسلام کے تحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کر دیتے کہ صدیوں کے جمود سے جو نقصان پہنچا تھا اس کی تلافی ہو جاتی اور اسلام کی گاڑی پھر سے زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی۔ مگر افسوس کہ علماء (الا ماشاء اللہ) خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے۔ ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی، ان میں تفقہ نہ تھا، ان میں حکمت نہ تھی، ان میں عمل کی طاقت نہ تھی، ان میں عمل کی طاقت نہ تھی، ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسول خدا کی علمی و عملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اور لچکدار اصول اخذ کرتے اور زمانہ کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے۔ ان پر تو اسلاف کی اندھی اور جامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو ان کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتابیں نہ تھیں کہ زمانے کی قیود سے بالاتر ہوتیجں۔ وہ ہر معاملہ میں ان انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت اوقات اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کر سکے جب کہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم و عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی، مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پردے اٹھا کر ان تک پہنچ سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ علما نے نئی تہذیب کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر مقابلہ کے لیے جس سر و سامان کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہ تھا۔ حرکت کا مقابلہ جمود سے نہیں ہو سکتا۔ رفتار زمانہ کو منطق کے زور سے نہیں بدلا جا سکتا، نئے اسلحہ کے سامنے فرسودہ و زنگ آلود ہتھیار کام نہیں دے سکتے۔ علماء نے جن طریقوں سے امت کی رہنمائی کرنی چاہی ان کا کامیاب ہونا کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ جو قوم مغربی تہذیب کے طوفان میں گھر چکی تھی وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور حواس کے معطل کر کے کب تک طوفان کے وجود سے انکار کرتی اور اس کے اثرات سے محفوظ رہتی؟ جس قوم پر تمدن و تہذیب کا جدید نظام سیاسی طاقت کے ساتھ محیط ہو چکا تھا وہ اپنی عملی زندگی کو مغلوبی و محکومی کی حالت میں اس کے نفوذ و اثر سے کس طرح بچا سکتی تھی؟ آخرکار وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہونا چاہیے تھا۔ سیاست کے میدان میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوں کے علم اور تہذیب و تمدن کے میدان میں بھی شکست کھائی اور اب ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دنیائے اسلام کے ہر خطہ میں مغربیت کا طوفان بلا کی تیزی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے جس کی رو میں بہتے بہتے مسلمانوں کی نئی نسلیں اسلام کے مرکز سے دور، کوسوں دور نکل گئیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ علمائے اسلام کو اب تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا ہے قریب قریب ہر اسلامی ملک میں علماء کی جماعت اب بھی اسی روش پر قائم ہے جس کی وجہ سے ابتداء میں ان کو ناکامی ہوئی تھی۔ چند مستثنی شحصیتوں کو چھوڑ کر علماء کی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رحجانات اور ذہنیتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعا کوشش نہیں کرتے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کر رہی ہیں ان پر اظہار نفرت تو ان سے جتنا چاہیے کرا لیجیے لیکن اس زہر کا تریاق بہم پہنچانے کی زحمت وہ نہیں اٹھا سکتے۔ جدید حالات نے مسلمانوں کے لیے جو پیچیدہ علمی اور عملی مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو حل کرنے میں ان حضرات کو ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے۔ اس لیے ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں اور اجتہاد کو یہ اپنے اوپر حرام کر چکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بیان کرنے کا جو طریقہ آج ہمارے علماء اختیار کر رہے ہیں وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام سے مانوس کرنے کے بجائے الٹا متنفر کر دیتا ہے اور بسا اوقات ان کے مواعظ سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ خدا کرے کسی غیر مسلم یا بھٹکے ہوئے مسلمان کے چشم و گوش تک یہ صدائے بے ہنگام نہ پہنچی ہو۔ انہوں نے اپنے ارد گرد دو سو برس پرانی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ اسی فضا میں سوچتے ہیں، اسی میں رہتے ہیں اور اسی کے مناسب حال باتیں کرتے ہیں۔ بلاشبہ علوم اسلامی کے جواہر آج دنیا میں انہی بزرگوں کے دم سے قائم ہیں اور جو کچھ دینی تعلیم پھیل رہی ہے انہی کے ذریعہ سے پھیل رہی ہے۔ لیکن دو سو برس کی جو وسیع خلیج انہوں نے اپنے اور زمانۂ حال کے درمان حائل کر رکھی ہے وہ اسلام اور جدید دنیا کے درمیان کوئی ربط قائم نہیں ہونے دیتی۔ جو اسلامی تعلیم کی طرف جاتا ہے وہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ جو دنیا کے کام کا بننا چاہتا ہے وہ اسلامی تعلیم سے بالکل بیگانہ رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں ہر جگہ دو ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک گروہ اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت کا علمبردار ہے مگر زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کے رہنمائی کے قابل نہیں۔ دوسرا گروہ مسلمانوں کی علمی، ادبی اور سیاسی گاڑی کو چلا رہا ہے مگر اسلام کے اصول و مبادی سے ناواقف ہے، اسلامی تہذیب کی اسپرٹ سے بیگانہ ہے، اسلام کے اجتماعی نظام اور تمدنی قوانین سے ناآشنا ہے۔ صرف دل کے ایک گوشہ میں ایمان کا تھوڑا بہت نور رکھتا ہے، باقی تمام حیثیتوں سے اس میں اور ایک غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں۔ مگر چونکہ علمی و عملی طاقت جو کچھ بھی ہے اسی گروہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے دست و بازو ہیں جو گاڑی چلانے کی طاقت رکھتے ہیں، اس لیے وہ ملت کی گاڑی کو لے کر گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چلا جا رہا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو سیدھا راستہ بتائے۔
(سید ابو الاعلی مودودی، ترجمان القرآن، اکتوبر 1935ء بمطابق رجب 1354ھ)
ایک ملک نہیں جو اس مصیبت میں گرفتار ہو۔ ایک قوم نہیں جو اس خطرے میں مبتلا ہو۔ آج تمام دنیائے اسلام اسی خوفناک انقلاب کے دور سے گزر رہی ہے۔ درحقیقت یہ علما کا کام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی اس وقت وہ بیدار ہوتے، آنے والی تہذیب کے اصول و مبادی کو سمجھتے، مغربی ممالک کا سفر کر کے ان علوم کا مطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔ اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کارآمد علمی اکتشافات اور عملی طریقوں کو اخذ کر لیتے جن کے بل پر مغربی قوموں نے ترقی کی ہے اور ان نئے کل پرزوں کو اصول اسلام کے تحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کر دیتے کہ صدیوں کے جمود سے جو نقصان پہنچا تھا اس کی تلافی ہو جاتی اور اسلام کی گاڑی پھر سے زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی۔ مگر افسوس کہ علماء (الا ماشاء اللہ) خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے۔ ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی، ان میں تفقہ نہ تھا، ان میں حکمت نہ تھی، ان میں عمل کی طاقت نہ تھی، ان میں عمل کی طاقت نہ تھی، ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسول خدا کی علمی و عملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اور لچکدار اصول اخذ کرتے اور زمانہ کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے۔ ان پر تو اسلاف کی اندھی اور جامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو ان کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتابیں نہ تھیں کہ زمانے کی قیود سے بالاتر ہوتیجں۔ وہ ہر معاملہ میں ان انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت اوقات اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کر سکے جب کہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم و عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی، مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پردے اٹھا کر ان تک پہنچ سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ علما نے نئی تہذیب کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر مقابلہ کے لیے جس سر و سامان کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہ تھا۔ حرکت کا مقابلہ جمود سے نہیں ہو سکتا۔ رفتار زمانہ کو منطق کے زور سے نہیں بدلا جا سکتا، نئے اسلحہ کے سامنے فرسودہ و زنگ آلود ہتھیار کام نہیں دے سکتے۔ علماء نے جن طریقوں سے امت کی رہنمائی کرنی چاہی ان کا کامیاب ہونا کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ جو قوم مغربی تہذیب کے طوفان میں گھر چکی تھی وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور حواس کے معطل کر کے کب تک طوفان کے وجود سے انکار کرتی اور اس کے اثرات سے محفوظ رہتی؟ جس قوم پر تمدن و تہذیب کا جدید نظام سیاسی طاقت کے ساتھ محیط ہو چکا تھا وہ اپنی عملی زندگی کو مغلوبی و محکومی کی حالت میں اس کے نفوذ و اثر سے کس طرح بچا سکتی تھی؟ آخرکار وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہونا چاہیے تھا۔ سیاست کے میدان میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوں کے علم اور تہذیب و تمدن کے میدان میں بھی شکست کھائی اور اب ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دنیائے اسلام کے ہر خطہ میں مغربیت کا طوفان بلا کی تیزی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے جس کی رو میں بہتے بہتے مسلمانوں کی نئی نسلیں اسلام کے مرکز سے دور، کوسوں دور نکل گئیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ علمائے اسلام کو اب تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا ہے قریب قریب ہر اسلامی ملک میں علماء کی جماعت اب بھی اسی روش پر قائم ہے جس کی وجہ سے ابتداء میں ان کو ناکامی ہوئی تھی۔ چند مستثنی شحصیتوں کو چھوڑ کر علماء کی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رحجانات اور ذہنیتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعا کوشش نہیں کرتے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کر رہی ہیں ان پر اظہار نفرت تو ان سے جتنا چاہیے کرا لیجیے لیکن اس زہر کا تریاق بہم پہنچانے کی زحمت وہ نہیں اٹھا سکتے۔ جدید حالات نے مسلمانوں کے لیے جو پیچیدہ علمی اور عملی مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو حل کرنے میں ان حضرات کو ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے۔ اس لیے ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں اور اجتہاد کو یہ اپنے اوپر حرام کر چکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بیان کرنے کا جو طریقہ آج ہمارے علماء اختیار کر رہے ہیں وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام سے مانوس کرنے کے بجائے الٹا متنفر کر دیتا ہے اور بسا اوقات ان کے مواعظ سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ خدا کرے کسی غیر مسلم یا بھٹکے ہوئے مسلمان کے چشم و گوش تک یہ صدائے بے ہنگام نہ پہنچی ہو۔ انہوں نے اپنے ارد گرد دو سو برس پرانی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ اسی فضا میں سوچتے ہیں، اسی میں رہتے ہیں اور اسی کے مناسب حال باتیں کرتے ہیں۔ بلاشبہ علوم اسلامی کے جواہر آج دنیا میں انہی بزرگوں کے دم سے قائم ہیں اور جو کچھ دینی تعلیم پھیل رہی ہے انہی کے ذریعہ سے پھیل رہی ہے۔ لیکن دو سو برس کی جو وسیع خلیج انہوں نے اپنے اور زمانۂ حال کے درمان حائل کر رکھی ہے وہ اسلام اور جدید دنیا کے درمیان کوئی ربط قائم نہیں ہونے دیتی۔ جو اسلامی تعلیم کی طرف جاتا ہے وہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ جو دنیا کے کام کا بننا چاہتا ہے وہ اسلامی تعلیم سے بالکل بیگانہ رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں ہر جگہ دو ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک گروہ اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت کا علمبردار ہے مگر زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کے رہنمائی کے قابل نہیں۔ دوسرا گروہ مسلمانوں کی علمی، ادبی اور سیاسی گاڑی کو چلا رہا ہے مگر اسلام کے اصول و مبادی سے ناواقف ہے، اسلامی تہذیب کی اسپرٹ سے بیگانہ ہے، اسلام کے اجتماعی نظام اور تمدنی قوانین سے ناآشنا ہے۔ صرف دل کے ایک گوشہ میں ایمان کا تھوڑا بہت نور رکھتا ہے، باقی تمام حیثیتوں سے اس میں اور ایک غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں۔ مگر چونکہ علمی و عملی طاقت جو کچھ بھی ہے اسی گروہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے دست و بازو ہیں جو گاڑی چلانے کی طاقت رکھتے ہیں، اس لیے وہ ملت کی گاڑی کو لے کر گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چلا جا رہا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو سیدھا راستہ بتائے۔
(سید ابو الاعلی مودودی، ترجمان القرآن، اکتوبر 1935ء بمطابق رجب 1354ھ)
No comments:
Post a Comment