Search This Blog

Saturday, 25 February 2012

۱۸۵۷ء اور سرسید

محمد ضیاء الدین نیر
۱۸۵۷ء اور سرسید

۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے وقت سرسید بجنور کے سب جج تھے ۔ جہاں انہوں نے کئی انگریز مردوں اور عورتوں کی جانیں بچائیں ۔ بجنور کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی درخواست پر ہنگامے کے وقت انگریزوں نے انہیں ضلع کا حاکم مقرر کیا ۔ مگر وہ ابھی انتظامی مسائل کو سلجھانے بھی نہ پائے تھے کہ ہنگامہ کا ریلا آگیا۔ جس میں خود ان کی جان خطرے میں پڑی گئی۔ بڑی مشکل سے بدن کے کپڑوں سے میرٹھ پہنچے اور بیمار ہوگئے ۔ خاندان دہلی میں تھا۔ خاندان کے بیشتر افراد تو مارے گئے اور بہت سے دلی سے نکل گئے ۔ سرسید کی والدہ اور خالہ اپنے ایک قدیم ملازم کے گھر میں پناہ گزیں تھیں ۔ سرسید بڑی مشکل سے انہیں میرٹھ لے آئے ۔ مگر والدہ صدموں کی تاب نہ لاسکیں اور میرٹھ اور مسلمانوں کی تباہی نے سرسید کو اس قدر غمزدہ اور بد دل کر دیا کہ وہ ہندوستان کوہمیشہ کے لیئے چھوڑ دیتے اور ہجرت کے منصوبہ بناتے مگر پھر خیال آیا کہ اہل وطن کا ایسی حالت میں ساتھ نہ دینا خود غرضی ہوگی۔ بجنور میں سرسید نے انگریزوں کی جان بچانے کے سلسلہ میں جو نمایاں کام انجام دیا تھا اس کے صلہ میں حکومت نے تعلقہ جہاں آباد جس کی آمدنی تقریباً ایک لاکھ ماہانہ تھی انہیں بطور جاگیر دینا چاہا مگر سرسید نے یہ انعام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انگریزی حکومت نے انہیں ترقی دے کر مراد آباد کا صدر الصدور مقرر کیا ۔
ایک عرصہ تک انگریزی حکومت کی ملازمت نے سرسید کو انگریز حکام کے مزاج اور رجحان سے بخوبی واقف کر دیا تھا۔ اصل و طن اور بالخصوص مسلمان کے جذبات اور خیالات کا بھی پورا علم تھا اور وہ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ دونوں فریقوں کی ذہنیتوں کے اس فرق کو مٹائیں تاکہ مسلمانوں کے لیے عزت اور امن کی زندگی ممکن ہوسکے ۔ غرض ملک کے حالات کا پوری سنجیدگی اور ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لینے کے بعد انہوں نے اپنی راہ متعین کر لی۔
سرسید کی تصنیف ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ کو بجا طور پر ان کا پہلا عظیم کارنامہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس کتاب میں سرسید نے نہایت مدلل ، معقول اور غیر جذباتی انداز میں انگریز حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا تجربہ پیش کیا ۔ صاف صاف بتلایا کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھنے میں کہاں کہاں غلطیاں کیں اور ایسے قانون بنائے جو ان کے لیے کسی طرح قابل قبول نہ تھے ۔ حاکموں نے اپنے مسلم ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ کیسا غیر ہمدردانہ اور غیر انسانی رویہ اختیار کیا اورناقابل تردید دلیلوں سے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کو حکومت کا باغی سمجھنا انگریزوں کی کھلی نٍا انصافی اور غلط فیصلے کانتیجہ ہے ۔
آج کے دور میں حکومت پر تنقید کرنا اور حکمرانوں کی غلطیاں گنانا بہت آسان بات ہے ۔ مگر اس زمانہ میں یہ کام اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ سرسید نے عواقب اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر یہ کام کر دکھایا۔ صرف ان کا خلوص اور صداقت پسندی تھی جو انہوں نے جوکھم مول لیا۔ سرسید سچے دل سے چاہتے تھے کہ انگریز حکام صداقت کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھیں اس کتاب کی تصنیف سے ان کا مقصد کوئی ہنگامہ آرائی نہیں تھا۔ اسی لیئے انہوں نے اس کتاب کی عام اشاعت نہ کی اور اس کی چند جلدیں چھپواکر صرف ہندوستان اور انگلستان کے اعلیٰ انگریز عہدیداروں میں تقسیم کیں ۔ اس کتاب کا ردعمل مختلف لوگوں پر مختلف رہا۔ انگلستان کے انگریز جو ہندوستان کے حالات سے بالکل ہی بے بہرہ تھے اس پر بڑے چراغ پا ہوئے ۔ چنانچہ برطانوی وزیر خارجہ مسٹر سیل بیڈن نے اسے ایک بہت ہی باغیانہ تصنیف قرار دیتے ہوئے حکومت سے سفارش کی کہ مصف کو سخت سزادی جائے ۔ مگر ہندوستان اور انگلستان کے انصاف پسند انگریزوں نے سرسید کی دلیلوں کو تسلیم کیا اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہندوستان مسلمانوں کے بارے میں انگریز حکام کے رویہ میں جو تبدیلیاں ہوئیں ان کی وجہ سے سرسید کی یہ تصنیف تھی۔
سرسید نے اپنی آنکھوں سے اس تباہی کا مشاہدہ کیا تھا۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد مسلمانوں پر آئی۔ مصیبتوں کے پہاڑ تھے کہ ان کے سروں پر ٹوٹ پڑے تھے ۔ انگریز مسلمانوں کو ہی اصلی مجرم تصور کرتا تھا۔ انہیں سے اس نے حکومت چھینی تھی۔ انگریزوں میں مسلمانوں کے مذہبی تعصب کی بھی شہرت تھی پھر ۱۸۵۷ء کے ڈرامہ میں بہادر شاہ کی مرکزی حیثیت نے انگریزی کے اس خیال کو اور بھی تقویت بخشی تھی کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کو کچلنا انگریزی حکمت عملی کا لازمی جز بن گیا۔ سرسید کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کس طرح انگریز کے اس خیال اور رویہ کو بدلنے کی سعی کرنی چاہئے ۔ ان کا خیال تھا کہ اگرصحیح صحیح واقعات حکومت کے سامنے رکھ دیئے جائیں اور ان اسباب کی طرف حکومت کو توجہ دلائی جائے جن سے ۱۸۵۷ء کے واقعات رونما ہوئے تو یہ ایک بڑی قومی خدمت ہوگی مگر یہ کام آسان نہ تھا۔ حالیؔ کے الفاظ میں ’’زمانہ نہایت نازک تھا ۔ خیالات ظاہر کرنے کی آزادی مطلق نہ تھی۔ مارشل لاء کا دور دورہ تھا اور حاکموں کی زبان ہی قانون تھی۔‘‘ مگر سرسید ایک باہمت انسان تھے ۔ انہوں نے خطرات کی پرواہ نہ کی۔
سرسید کے خیال کے مطابق ان واقعات کا بنیادی سبب یہ تھا کہ حکومت رعایا کے حال سے واقف نہ تھی۔ نہ اسے ان کے احساسات کا پتہ تھا اور نہ ان کی تکالیف کا علم ۔ حکومت کے مشوروں میں کوئی ہندوستانی شریک نہ کیا جاتا تھا۔ پھر حکومت نے بعض ایسی غلطیاں کیں جن کا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔ اس میں سرسید نے فوج کی بدانتظامی اور بے اہتمامی کا خاص طور پر ذکرکیا ہے ۔ عیسائی مبلغوں نے جس جوش و خروش سے اپنا کام ہندوستان میں جاری کیا اس نے بہت بددلی پیدا کی۔ حکومت نے ان کی مدد اپنا فرض سمجھا اور مبلغوں نے حکومت کی مشنری کو اپنے خیالات کی ترویج کے لیے استعمال کیا ۔ ممکن نہ تھا کہ اس سے بے اطمینانی اور بے چینی نہ پھیلے ۔ سرسید نے انگریزوں کی سختی اور ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب کی کمی پر خصوصیت سے روشنی ڈالی ہے ۔ معاشی حالات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ زمینداریوں کے نیلام اور بندوبست نے بے چینی پھیلانے میں مدد دی۔ سرسید نے ہندوستانیوں کی توہین ، حکام کی سخت مزاجی اور بدزبانی اور حاکم و محکوم میں محبت کے فقدان کا ذکر کرتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ باوجود ایک سوسالہ تعلق کے انگریزوں اورہندوستان کے باشندوں میں کوئی رابطہ پیدا نہ ہوسکا۔ جو سلوک میرٹھ میں سپاہیوں کے ساتھ روا رکھاگیا اس پر بھی سرسید نے نکتہ چینی کی۔ ان کے خیال میں میرٹھ میں ضرورت سے زیادہ سختی اور اس سے دوسرے سپاہیوں میں بدگمانی پھیلنے اور نازک حالات پیداہونے پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ اور مسلمانوں کی طرف سے انگریزوں کے دلوں میں جو خیال بیٹھ چکا تھا اس کی تردید کی ہے ۔ انہوں نے انگریزوں کو اس بات کی دعوت دی کہ بجائے اس تشدد کی پالیسی کے جو انہوں نے اختیار کر رکھی تھی وہ بے چینی کے اسباب کو دور کریں ۔ اس میں ان بھی بھلا ہوگٍا اور ہندوستان کا بھی۔ انگریزوں نے اس رسالہ سے بہت کچھ سیکھا اور قانون ساز کونسل میں جس کی تشکیل اس کے شائع ہونے کے کچھ ہی دن بعد ہوئی ہندوستانیوں کو پہلی مرتبہ شامل ہونے کا موقع دیا گیا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد سرسید اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمان جن خطرات اور خدشات سے دوچار ہیں وہ بہ تفصیل ذیل ہیں ۔
۱۔ اقتصادی زبوں حالی۔ ۲۔ تعلیمی درماندگی۔ ۳۔ بے یقینی ولادینی ۔ ۴۔ مایوسی۔ ۵۔ غیر قوموں کے مقابلہ میں احساس کمتری کا تصور ۔ ۶۔ اکثر و بیشتر عورتوں کی جہالت اور اس کے پیدا شدہ نتائج۔ ۷۔ خود فراموشی ۔ زندگی کے حقائق سے فرار کرنے کی عادت اور اپنی عظمت کے تصور کا فقدان۔
سرسید نے جب بہ نظر غائر ان کوائف کا مطالعہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ بنیادی چیز تعلیمی زبوں حالی اور ثقافتی پستی ہے ۔ یہ نہیں کہ وہ تعلیم مغرب کے خواہ مخواہ گرویدہ و شیدا تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مغربی تعلیم سے مسلح ہوکر مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو اسی ثقافت کے مخصوص ہتھیاروں سے کام لے کر روک دینا چاہتے تھے ۔ چنانچہ سرسید نے تعلیمی زبوں حالی کو تمام خرابیوں کی جڑ تصور کرکے اس مسئلہ کو بنیادی اہمیت دی اور علیگڑھ کالج کی بنیاد ڈالی اور تمام عمر اسی کی ترقی کے لیے لگے رہے اور اس کے عمدہ نتائج انہوں نے خود اپنی زندگی میں دیکھے ۔

No comments:

Post a Comment