Search This Blog

Saturday 25 February 2012

سمندر میں ہونے بہنے والی ندیاں اور تاریکیاں

سمندر میں ہونے بہنے والی ندیاں اور تاریکیاں

وصی احمد نعمانی 

سٹیلائٹ کے زریعہ لئے گئے سمندر کے فوٹو سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سمندر یا بحر ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ وہ سب کے سب آپس میں ایک دوسرے  سے مختلف ہیں،کیونکہ ان کے درجۂ حرارت ، کھاراپن کثافت اور آکسیجن کی مقدار کی بنیاد پر ان کی نوعیت الگ الگ اور مختلف ہیں۔ سٹیلائٹ  کے ذریعہ لئے گئے فوٹو سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ مختلف رنگ کے ہیں۔ ان میں سے کچھ گہرے نیلے رنگ کے ہیں تو کچھ کالے اور اسی طرح کچھ سمندر پیلے رنگ کے ہیں۔ایسا صرف اس لئے ہے کہ ان تمام سمندر یا بحور کے درجۂ حرارت مختلف ہیں۔ تھرمل فوٹو ٹیکنیک کے ذریعہ لئے گئے سمندری اور بحری عکسوں سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سمندر یا بحور ایک دوسرے سے ایک باریک سفید خط (White line ) کے ذریعہ الگ رہ کر بہتے ہیں۔ اسی سفید خط یا لائن کو برزخ یا Barrier  کہتے ہیں۔اسی سفید  باریک خط کو جو تمام سمندروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں اور یہ سمندر کی لہریں یا ندیاں ایک دوسرے کے ساتھ بہہ کر بھی ایک دوسرے سے ملتے نہیں ہیں، اسی خصوصیت کو سورہ رحمن چیپٹر نمبر 55  اور آیت نمبر 18-20 میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ’’ اس نے چلائے دو دریا مل کر بہنے والے۔ دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے‘‘۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ تمام پانی، جو سمندروں ، ندیوں، نالوں، جھرنوں ، تالابوں وغیرہ میں ملتے ہیں سب کے سب ایک ہی ذریعہ سے دستیاب ہوتے ہیں۔وہ یہ ہے کہ ہائیڈروجن کے دو ایٹم آکسیجن کے ایک ایٹم سے مل کر پانی بناتے ہیں۔ اور یہی تخلیق پوری کائنات میں ہے اور یہ پانی ہمیشہ اور ہر حالت میں بہتا ہی رہتا ہے۔ برزخوں کے درمیان یا برزخ سے الگ ہوکر، لیکن جب سمندر میں اس پانی کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سمندروں کے درمیان یہی پانی ندی اور دریا کی شکل میں اور اکثر مختلف دھارائوں  اور موجوں کی شکل میں بہتے ہیں۔ اس کے باوجود برزخ کی وجہ سے آپس میں ایک نوعیت کا پانی دوسری نوعیت کے پانی سے بالکل نہیں ملتا ہے۔قرآن کریم نے اس معجزہ کو اپنے مخصوص  انداز میں بیان فرمایا ہے۔سمندری پانی کی گہرائی کے اعتبار سے سمندر کے تین حصے ہوتے ہیں۔
1۔ باتھل زون(Bathal zone ) یہ زون سمندر کی سطح سے  دو ہزار میٹر گہرا ہوتا ہے ۔چھوٹی مچھلیاں اور پانی کے جہاز اسی زون میں چلتے ہیں، چونکہ یہ باتھل زون سمندر کا اوپری حصہ ہے اس لئے سورج کی روشنی بھی اس زون  میں پہنچتی ہیں لہٰذا  اس زون میں کافی دور تک روشنی  ہوتی ہے اور پانی بھی گرم ہوتا ہے۔ گرم پانی کی رَو بھی اوپر اوپر سمندر کے اس زون میں بہتی رہتی ہے۔یہ رَو گرم  ممالک سے ٹھنڈے ممالک کی طرف بہتی ہے۔ ان روئوں کے بہنے کی وجہ سے  ایسا لگتا ہے کہ سمندر  میں بڑی بڑی اور گہری ندیاں بہتی ہیں۔ انہی ندیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اپنی اپنی سمندری خصوصیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملتی نہیں ہیں۔
2۔ اس باتھل زون کے ٹھیک نیچے ابیسل زون ’  Abyssal Zone ‘ ہوتا ہے۔ اس کی گہرائی بھی دو ہزار میٹر  ہوتی ہے۔ اسے سمندر  کا درمیانی زون کہا جاتا ہے۔ اس زون میں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لئے یہاں اندھیرا ہوتا ہے ۔ چونکہ روشنی نہیں پہنچتی ہے ، اس لئے  اس درمیانی زون میں گرمی بھی بہت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا  ٹھنڈی زیادہ ہوتی ہے۔ اس زون میں درمیانی وزن کے سمندری  جانور زندگی گزارتے  ہیں۔ پہلا زون دوسرے زون سے ایک برزخ کے ذریعہ الگ ہوکر بہتا ہے۔
3 ۔ ہاڈل زون ’  Hadal Zone‘ یہ زون سمندر کا تیسرا اور گہرا زون ہے۔ اس کی گہرائی چھ ہزار میٹر تک ہوتی ہے، جو سمندر کی تہہ تک پہنچتی ہے۔ اس آخری اور گہرے زون میں سورج کی روشنی بالکل نہیں پہنچتی ہے۔ اس میں زبردست اندھیرا ہوتا ہے۔  اس آخری زون میں بے حد ٹھنڈک  کی وجہ سے برف کی تہہ جمی رہتی ہے۔ اس زون  میں پانی کا پریشر بھی بے حد ہوتا ہے۔ ایسے جانور جو بہت بڑے ، طاقتور ، اور وزنی ہوتے ہیں اس زون میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زون در حقیقت تین اندھیروں کے نیچے ہوتا ہے۔ اور ایسا اندھیرا ہوتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نظر نہیں آسکتا ہے۔سمندر کے اندر کی یہ تاریکی غالباً کائنات کی تمام تاریکیوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں روشنی کی معمولی سے معمولی کرن کا بھی گزر ممکن نہیں ہوتا ہے۔ تاریکی کی اس کیفیت کو قرآن کریم میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے۔سورہ النور 24 ، آیت نمبر 40 ’’یا جیسے اندھیرے گہرے دریا میں چڑھتی آتی ہے۔ اس پر ایک لہر اس کے اوپر ایک لہر  اس کے اوپر بادل ایک پر ایک اندھیرے ہیں‘‘۔اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے ارشاد گرامی کے مطابق صرف گہرے سمندر میں ہی یہ تین زون ہوتے ہیں۔ اس تاریکی کے بارے میں انیسویں صدی سے قبل کسی کو سمندر کی اس کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔ جب اٹھارہویں صدی کے آخیر اور انیسویں صدی کے شروع میں نئے نئے سائنسی انکشافات ہوئے تو ان اندھیروں  اور تاریکیوں کے بارے میں پتہ چلا جب کہ یہ حالت قرآن کریم  کے ذریعہ ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کے بدوئوں کے سامنے آچکی تھی۔ سائنس کی تاریخ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نئے نئے آلات ایجاد ہوئے اور سمندر کی گہرائی کے ناپنے کا موقع ملا جس کے ذریعہ روشنی پانی کے اندر داخل کی جاتی ہے اور اس کی گہرائی کا پتہ لگا یا جاتا ہے اس آلہ کو Secchi Disk  کہتے ہیں۔ یہ ایک سفید آلہ ہے جسے سمندر کے اندر پہنچا کر سمندر کی گہرائی ناپ لیتے ہیں۔ لیکن خود اس آلہ کو سمندر کے اندر ننگی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس آلہ کو 1930 کے بعد الیکٹرولائٹیک سیل کے ذریعہ استعمال میں لاکر خاطر خواہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔اب سائنس اور بھی نئی تحقیق کرکے سمندر کے دیگر رموز کو آشکار کرنے میں سرگرداں ہے۔ ان رموز کا ذکر قرآن کریم میں پہلے سے موجودہے ۔ پروفیسر درگا پرساد رائو  علم البحر کے بین الاقوامی ماہر ہیں۔ یہ کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ میں پروفیسر رہے ہیں۔ اس آیت کے متعلق پروفیسر درگا پرساد رائو نے کہا تھا کہ سائنس داں جدید آلات کے ذریعہ اب یہ جاننے میں کامیاب  ہوئے ہیں کہ سمندر کے اندر نیچے گہرائی میں بالکل اندھیرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کسی چیز کی مدد کے بغیر 20 سے 30 میٹر تک پانی کے اندر غوطہ لگا سکتا ہے، مگر گہرے سمندر میں 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں وہ زندہ بھی نہیں رہ سکتا  ہے ، مگر اس آیت کا اطلاق تمام سمندروں پر نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ اس طرح کے اندھیروں کو ہر سمندر میں نہیں پایا جاسکتا ہے کہ اندھیرے کی تہہ کے اوپر دوسرے اندھیرے کی تہہ ہو۔ بلکہ یہ آیت خصوصیت کے ساتھ صرف گہرے سمندروں کی تاریکی کے بارے میں بتاتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم میں یہ ارشاد ہوا بلکہ ’’ ایک بڑے گہرے سمندر میں اندھیرا‘‘ گہرے سمندر میں اندھیرے کے پیدا ہونے کی دو اہم وجہیںہیں۔
(1 ) ہم سب جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ بات ’’ قوس قزح‘‘ میں صاف نظر آتی ہے۔ یہ سات رنگی مجموعہ بنفشی،نیلا، آسمانی، سبز، زرد، نارنجی اور سرخ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب روشنی کی شعاع پانی سے ٹکراتی ہے تو عمل  ’’ انعطاف‘‘ کے نتیجے میں مڑ جاتی ہے اور اس عمل سے روشنی کے سرخ رنگ کو پانی 10سے 15 میٹر کی گہرائی تک جذب کر لیتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی غوطہ خور پانی میں 25  میٹر کی گہرائی  پر زخمی ہوجائے اور اس کے زخم سے خون بہنے لگے تو وہ زخمی آدمی اپنے خون کو بھی  25 میٹر کی گہرائی پر نہیں دیکھ سکتا ہے کیونکہ اس گہرائی تک شعاع کا سرخ رنگ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی طرح  نارنجی رنگ  کی شعاع 30 سے 50 میٹر کی سمندری گہرائی میں بالکل جذب ہوجاتی ہے ۔ زرد رنگ 50 سے 100  میٹر کی گہرائی میں جبکہ سبز رنگ 100 میٹر سے 200 میٹر کی گہرائی تک اور آسمانی رنگ  لگ بھگ 200 میٹر تک جبکہ نیلا اور بنفشی  رنگ 200 میٹر سے زیادہ گہرائی پر جذب ہوجاتے ہیں۔لہٰذا جس طرح مختلف  رنگ ایک ایک کرکے نہایت کامیابی کے ساتھ  غائب ہوجاتے ہیں اسی طرح تاریکی بھی تہہ بہ تہہ بڑھتی جاتی ہے یعنی تاریکی جیسے جیسے روشنی غائب ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ  1000 میٹر کی گہرائی میں بالکل اندھیرا چھا جاتا ہے۔
(2 )  دوسری وجہ اندھیرا ہونے کی یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں جب بادلوں سے ٹکراتی ہیں تو کچھ روشنی اس میں جذب ہوجاتی  ہے اور باقی روشنی منتشر شعاعوں میں بدل جاتی ہے جس کے سبب بادلوں کے نیچے اندھیرے کی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ یہ اندھیرے کی پہلی تہہ ہے  پھر جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو سطحی موجیں ان کے کچھ حصے کو منعکس کردیتی ہیں اور کچھ حصہ سمندر کے اندر نفوذ کر جاتا ہے، چنانچہ یہ موجیں ہی ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں سمندر کے دو حصے ہوجاتے ہیں۔(1 ) سمندر کا سطحی حصہ (2 ) سمندر کا اندرونی گہرا حصہ۔ سطحی حصہ تو روشنی اور گرمی کی وجہ سے جبکہ گہرا حصہ اندھیرے کی وجہ سے  صاف نظر آنے لگتا ہے یا پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور فرق ان دونوں حصوں میں موجوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اندرونی موجیں دریائوں اور سمندروں  کے گہرے پانی کو ڈھانپے ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ گہرے پانی کی کثافت ، اس کے اوپر موجود پانی کی کثافت سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اندرونی موجوں کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ مچھلی بھی سمندر کی گہرائی میں دیکھنے کے قابل نہیں رہتی ہے اور اس کے اپنے جسم  سے حاصل ہونے والی روشنی ہی اس کے لئے واحد ذریعہ ہوتی ہے۔
پروفیسر درگا رائو کا حتمی طور پر یہ کہنا ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل یہ ناممکن تھا  کہ ایک عام آدمی اس حیرت انگیز عمل کو اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کرسکے ۔اس لئے  ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سمندر کے اندر کی تاریکی کا اس طرح ذکر ثبوت کے ساتھ کرنا صرف کسی مافوق الفطرت  کے ہی بس کی بات ہے۔ عام انسان کی نہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور اس  کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، جس نے قرآن کریم کے ذریعہ ایسے ایسے رموز  آشکار کیا ہے جو اللہ کی خلّاقی  کے مظاہر ہیں۔

No comments:

Post a Comment