ہارون خان شروانیجنگِ آزادیٔ ہند ۱۸۵۷ء کے متعلق ایک اہم دستاویز
حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کی تاریخ پر انگریزی حکومت نے کچھ ایسا پردہ ڈالا کہ اس کی صورت مسخ ہوکر رہ گئی، اور جو سختیاں اور مظالم اس زمانے کے حکام نے نہتے ہندوستانیوں پر کئے ان کی وجہ سے وہ کچھ ایسے مرعوب ہوکر رہ گئے کہ ان کے خلاف آواز بلند کرنا تو کیا ان کا ذکر کرنابھی ناممکن ہوگیا۔ یہ مرعوبیت فطری تھی۔ اتر بھارت کا کون سا ایسا شہر یا قصبہ ہوگا۔ جہاں جگہ جگہ نیم اور پیپل کے درختوں پر پھانسیاں نہ لٹکا دی گئی ہوں اور جہاں محض شبہ پر یاجھوٹے سچے لزام پر لوگوں کو موت کے گھاٹ نہ اتارا گیا ہو۔ بعض قصبوں میں تو اس وقت تک وہ درخت دکھائے جاتے ہیں جہاں لوگوں کو پھانسیاں دی گئی تھیں ۔ دہلی میں وہ خونی دروازہ جواب تک اسی نام سے موسوم ہے آج بھی اس سانحے کی یاد تازہ کرتا ہے ۔ جب ہوڈسن نے تیموری سلطنت کے ولی عہد مرزا مغل بیگ اور اور ان کے دو بھائیوں کو محض شبہ پر یکے بعد دیگرے گولی کا نشانہ بنایا اور ان کے کٹے ہوئے سروں کو ایک خوان میں خوان پوش سے ڈھک کر اکبر اور عالمگیر کے جانشین بوڑھے ، بہادر شاہ ، کے سامنے بطور تحفہ بھجوایا، اور چند روز بعد حکومت نے خود اس پیر مرد کو رنگون جلاوطن کر دیا جہاں وہ نہایت غربت اور افلاس کی حالت میں وفات پاگئے ۔
یہ وہ فضا تھی جو نام نہاد غدر کے بعد پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی ۔ ملک کے ایسے صوبوں اور ریاستوں میں جہاں کی فوج نے بغاوت نہیں کی تھی۔ جیسے جنوبی ہند، وہاں بھی سرکشی اور بغاوت نہیں کی تھی۔ جیسے جنوبی ہند، وہاں بھی سرکشی اور بغاوت کے آثار نہایت تندہی اور توانائی کے ساتھ پیدا ہوگئے تھے ۔ ایک سماج، ایک معاشرہ ، ختم ہورہا تھا تو دوسرا اپنے لیے توپ وتفنگ کے زور سے جگہ پیدا کر رہا تھا اور موجودہ سماج ہر جگہ اس کا مقابلہ کر رہا تھا۔ بہت سے ایسے باثروت لوگ تھے جنہوں نے بغاوت فرو ہونے کے بعد ایک غیر قوم کے ماتحت رہنا پسند نہیں کیا اور اپنے گھروں کو خیر باد کہہ گئے ۔ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت تیموری خاندان کے ایک فرمانروا سے چھینی تھی جس کے باؤٹے کے نیچے کیا ہندو کیا مسلمان سب جمع ہوگئے تھے ۔ مگر اس کا مذہب اسلام تھا، اور انگریزوں کے دماغوں میں مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر کچھ ایسا زہر بھر گیا تھا ہ ہر کلمہ گو کہ مشتبہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور ذراسی بات اس کی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا جاتا تھا۔ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی عیسائی کو نصاریٰ کہنے پر یا کسی کے یہاں سے کوئی بندوق یا تفنگچہ نکلنے پر پھانسی کی سزا ملی ہو۔
علی گڑھ تحریک کے بانی سید احمد خان نے اسی فضا میں رسالۂ اسباب بغاوت ہند، لکھا ۔ ملک پر انگریزوں کا دوبارہ تسلط ہوگیا تھا اور وہ دل کھول کر ہر کس و ناکس سے پچھلے واقعات کا بدلہ لے رہے تھے ۔ ان کے خلاف یا ان کی کسی پالیسی کی تنقید میں ایک لفظ بھی منہ سے یا قلم سے نکالنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ جب سید احمد خان نے یہ کتاب اپنے دوستوں کو دکھائی تو ان میں سے بعض نے ( جن میں سے ایک رام چند منصف مرادآباد بھی تھے ) ان سے کہا کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو اور مناسب ہے کہ اسے چھپوانے کے خیال سے باز آؤ۔ مگر سید نے ایک نہ مان۔ اور اس کا ایک نسخہ لارڈ کیننگ گورنر جنرل ہند کو اور ایک نسخہ پارلیمنٹ کے ممبروں کے پاس ب ھ یج دیا۔ گو اس کی اشاعت محض خانگی تھی اور انگریزی میں اس کا ترجمہ ۱۸۷۳ء سے پہلے نہیں کیا گیا۔ تاہم سرکاری حلقوں میں اس کی بڑی شہرت ہوئی اور وائسرائے کی کونسل کے ممبر سرسیل بیڈن (Sir Cecil Beadon )نے کونسل میں ایک زبردست تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ سید سے اس کتاب کے متعلق حکومت باضابطہ باز پرس کرے اور اگر انہیں خاطی قراردیا جائے تو انہیں کیفر کردار کو پہنچایاجائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر خود وائسرائے نے سید احمد خان کو حق پسندی کی تائید نہ کی ہوتی تو ممکن ہے کہ سید احمد خان سخت سے سخت سزا کے مستوجب قرار دیئے جاتے ۔
رسالۂ ’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ کیا ہے ۔،برطانوی حکومت کی پالیسی پر ایک عام تبصرہ اور نکتہ چینی۔ اس میں ان الزاموں کا ضرور بطور خاص جواب دیاگیا ہے جو انگلستان کے اخبار اور انگریزی پبلک ہندی مسلمانوں پر لگارہی تھی۔ لیکن جو جذبہ پورے رسالے میں کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ تاوقتیکہ کوئی ایسا طریقہ نہ نکلے کہ ہندوستانیوں کے حقیقی خیالات و جذبات سرکار کے کانوں تک پہنچیں اس وقت تک ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقے میں لازماً بے چینی پیدا ہوگی اور اس کی آگ ضرور بھڑک اٹھے گی۔
اس وقت تک ۱۸۵۷ء کی عظیم الشان اور ہمہ گیر تحریک کے لیے غدر کا نام اختراع نہیں کیا گیا تھا بلکہ جو لوگ اس بھونچال میں ہوکر گزرے تھے وہ اسے سرکشی یا بغاوت ہی کہتے تھے ۔ وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ اس تحریک کو محض چند فوجیوں کے غدر پر محمول کیا جائے ۔ سید احمد خاں پہلے تو یہ دریافت کرتے ہیں کہ سرکشی یا بغاوت کیا ہے اور پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس سے مراد گورنمنٹ کا مقابلہ کرنا یا مخالفوں کے شریک ہونا، یا مخالفانہ ادارے سے حم نہ ماننا اور نہ بجالانا یا نڈر ہوکر حکومت کے حقوق اور حدود کو توڑنا اس کے بعد وہ سرکشی کی شکل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’عام سرکشی کا باعث کوئی ایسی عام بات ہوسکتی ہے کہ جو سب کی طبیعتوں کے مخالف ہو یا متعدد باتیں ہوں یا کسی نے کسی گروہ کی طبیعت کو پھیر دیا ہو اور پھر رفتہ رفتہ سرکشی عام ہوگئی ہو۔‘‘
جن واقعات کی ۱۰/ مئی ۱۸۵۷ ء سے ابتداء ہوئی ان کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’بلاشبہ (انگریزی) پارلیمنٹ میں ہندوستانی کی مداخلت غیر ممکن اور بے فائدہ محض تھی۔ مگر لیجسلیٹیو کونسل میں مداخلت نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ یہی ایک بات ہے جو جڑ ہے تمام ہندوستان کے فساد کی اور جتنی باتیں جمع ہوتی گئیں وہ سب اس کی شاخیں ہیں ۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ۱۸۵۸ء کی رائج الوقت زبان میں لکھتے ہیں کہ ’’واسطے اسلوبی اور خوبی اور پائیداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی ملک میں واجبات سے ہے ۔ علی الخصوص ہماری حکومت کو جو غیر ملک کی رہنے والی تھی اور مذہب اور رواج اور راہ ورسم اس ملک سے متخلف تھے ۔ ‘‘
آج کے زمانے مں جب سیاسیات کا علم نہایت تیزی سے ہمارے ملک میں پھیل رہا ہے اور اعلیٰ و ادنیٰ نسب دو عظیم الشان انتخابوں سے دوچار ہوچکے ہیں اور جب خود ہماری سرکار کی پالیسی یہ ہے کہ مل ک کی بہبود عام رائے کی مطابقت ہی میں مضمر ہے ، ہمیں ان خیالات سے کچھ زیادہ اچنبھال نہیں ہوتا۔ مگرہم اپنے آپ کو ۱۸۷۵ء کی فضاء میں لے جائیں اور سوچیں کہ یہ اور اس طرح کی بیسیوں باتیں ایک ایسے سرکاری ملازم کے قلم سے نکلی ہیں جو انگریزی زان سے بالکل نابلد ہے اور جس کے ہم مذہبوں سے اس زمانے کی بدیشی حکومت انتہا سے زیادہ بدظن ہے تو ہمیں اس چالیس سالہ ادھیڑ شخص کی فراست اور دواندیشی کا اندازہ ہوگا۔ سید احمد خان نے حکومت کی گویا دکھتی رگ پکڑ لی تھی اور اس ملک میں پہلی مرتبہ یہ اصول پیش کیا تھا کہ اگر ملک پر حکومت کرنا ہے تو سرکار کو لازم ہے کہ رعایا کے قائم مقاموں کو حکومتی کونسل میں جگہ دے ۔ یہ محض اتفاقی واقعہ نہیں کہ رعایا کے قائم مقاموں کو حکومتی کونسل میں جگہ دے ۔ یہ محض اتفاقی واقعہ نہیں کہ اس رسالے کے چھپنے سے صرف تین سال کے اندر برطانوی پارلیمنٹ نے ۱۸۶۱ء کا انڈین کونسلز ایکٹ منظور کیا جس کے ذریعہ سے گویا حکومتی مندر کا دروازہ سیاسی اچھوتوں کے لیے کھل گیا۔ محض تین چار غیر سرکاری ہندوستانیوں کی وائسرائے کی کونسل میں نامزدگی ہمیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ مگر یہ تبدیلی آئندہ کے عظیم الشان انقلاب کی حامل تھی۔ سید احمدخان ہندوستانیوں کو انگریزی اعلیٰ حکام کے دوش بدوش دیکھنے سے بہت مسرور ہوتے ہیں اور وکٹوریہ اسکول غازی پور کے افتتاحی جلسے کے موقع پر اس زمانے کے اعتبار سے یہ عجیب وغریب بات کہہ جاتے ہیں :
’’چند ہندوستانیوں کالیجسلیٹیو کونسل میں داخل ہونا ہندوستانیوں کی ترقی کا فروغ ہے ۔ میری اس پیشین گوئی کو یادر رکھو کہ وہ دن دور نہیں کہ ہر ضلع میں سے ایک شخص کا کونسل میں داخل ہونا ضروری ہوگا۔ وہ دن آوے گا کہ تم خود قانون بناؤ گے اور خود ہی اس پر عمل کرو گے ۔ ۔ ۔ صرف ایک چیز چاہئے ، یعنی تربیت و لیاقت۔ پس تم دیکھو گے کہ ہندوستانیوں کو علوم و فنون اور تربیت اور لیاقت کی کس قدر ضرورت ہے ۔‘‘
ہرشخص جس نے ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سرسری طور پر بھی دیکھی ہے وہ اس سے واقف ہوگا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں ایلن آکٹے وین ہوم (Allan Octavian Hunme) کاکتنا اونچا رتبہ ہے بلکہ بہت سوں کا تو یہ خیال ہے کہ وہ اس کے گویا بانی مبانی تھے ۔ ہیوم نے صاحبزادہ آفتاب احمد خان سے (جو کئی سال بعد وزیر ہند کی کونسل کے ممبر ہوئے ) ۱۸۸۷ء میں کہا تھا کہ سب سے پہلی چیز جس نے نیشنل کانگریس کی قسم کی تحریک کے جاری کرنے کا خیال میرے دل میں پیدا کیا وہ سرسید کی کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ تھی ہم میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنھوں نے اس رسالے کا نام بھی بڑی مشکل سے سناہوگا اور بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے سید کی تعلیمات کو مسخ شدہ صورت میں دیکھا ہوگا۔ مگر ان کا رسالہ ’’اسبابِ بغاوت ہند‘‘ اس اعتبار سے خاص توجہ اور فکر کا محتاج ہے کہ وہ ایک نہایت خطرناک ماحول میں لکھا گیا اور اس میں بعض اس قسم کے خیالات کٍا اظہار کیا گیا ہے جو اس زمانے کے بہت سے ہندوستانیوں کی سوجھ بوجھ سے بالاتر تھے گورسالے کا حجم صرف ستر صفحے کا ہے ۔ لیکن اس کا اثر نہ صرف حکومت ہند پر بلکہ عام رائے پر بھی پڑا۔ اگر یہ کہاجائے کہ اس کی وجہ سے ہندوستان کی تاریخ کا ایک ورق پلٹ گیا تو مبالغہ آمیزی نہ ہوگی اور ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں اس رسالہ اور اس مصنف سید احمد خان کا جو مقام ہے اسے کسی طرح سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment