Search This Blog

Wednesday 1 February 2012

زبانوں کا زوال

زبانوں کا زوال (نیاز سواتی)
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں اس وقت پانچ ہزارزبانیں بولی جارہی ہیں۔ ان میں سے ننانوے فی صد زبانوں کا تعلق براعظم ایشیائ، افریقہ ،بحراوقیانوس اور شمالی وجنوبی امریکہ سے ہے۔ صرف ایک فی صد زبانوں کا تعلق براعظم یورپ سے ہے۔ صرف نائیجیریاہی میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد تقریباچارسو ہے۔ اسی طرح برعظیم پاک وہند کی سرزمین ۲۸۶،۱زبانوں سے مالامال ہے۔ وسطی امریکہ کے محدود خطے میں رہنے والے بھی ۰۶۲ زبانوں کے حامل ہیں۔ یہ سب زبانیں مل کر رنگارنگ دنیاکی خوب صورت تصویر پیش کرتی ہیں۔ زبانوں کی یہ رنگا رنگی نہ صرف زبان کی حامل قوم کو اپنی وسیع تر اقدار کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ دنیا بھر کی زبانوں کو الفاظ کے باہمی تبادلے کی صورت میں نئے نئے تصورات سے بھرپور بھی کرتی ہے۔ دنیا ہمیشہ سے اس رنگارنگ ورثے کی مالک رہی ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے یہ صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے اور رفتہ رفتہ زوال کی جانب گامزن ہے۔

زبانوں کے زوال کا ایک پہلو یہ ہے کہ عالم گیریت (Globalization) اور دنیا پر مغربی تہذیب تھوپنے یا بالرضا اختیار کرنے کے نتیجے میں آئندہ صرف سو ۰۰۱ بڑی زبانوں کے علاوہ باقی زبانوں کا وجود خطرے میں ہے۔ زبانیں دنیا سے اس طرح ختم ہورہی ہیںجس طرح جانوروں اور پودوں کے بہت سے انواع (Species)ماحولیاتی تغیر کی بناءپر تیزی سے معدوم ہورہی ہیں۔امکان ہے کہ کچھ عرصے بعد جانوروں اور پودوںکی بہت سی انواع کا ذکر صرف تاریخ کے صفحات میں رہ جائے گا۔ بالکل یہی معاملہ زبانوںکے ساتھ بھی ہے۔ زبانوں کے خاتمے کے نتیجے میں ان زبانوں سے وابستہ پوری پوری تہذیبیں ختم ہورہی ہیں۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان زبانوں کا احوال آئندہ صرف تاریخ میں پڑھاجاسکے گا۔

ہر زبان اپنی جدا فطرت اور حسن کی مالک ہے۔خوشی وغم کے تجربات اور واقعات کی روانی سے اپنافہم اخذکرنے کا انداز ہر زبان کا جدا ہے۔محبت ،نفرت،خواب اور بحث ومباحثہ غرض ہر جذبے کے لیے ہر زبان اپنا منفرد پیرایہ اظہار رکھتی ہے۔ اردو جرمن ،عربی ،فارسی ور بے شمار زبانیں اپنی اپنی جگہ بے حد اہم ہیں۔ جس طرح ماحولیاتی توازن کے لیے پودوں اور جانوروں کی ایک ایک نسل اہم ہے۔ اسی طرح ایک زبان بھی ایک پوری تہذیب کی وارث ہے جو نہ صرف اس تہذیب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے بلکہ اس اس تہذیب کی تفہیم اور اظہار کاذریعہ بھی ہوتی ہے۔ جس طرح پودوں اور جانوروں کی کسی ایک نوع کے خاتمے کا مطلب ایک پورے ماحولیاتی نظام کا خاتمہ ہے، اسی طرح ایک زبان کے خاتمے کا مطلب بھی ایک تہذیب کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان ہے۔


مختلف زبانوں کے خاتمے کے منظم عمل کا آغاز ٹیکنالوجی کی گزشتہ چند دہائیوںمیں ہونے والی ترقی و اختراع سے منسلک ہے۔ پچھلی چھ دہائیوں میں کئی زبانوں کے خاتمے ساتھ ادراک انسانی کے مختلف دائروںکا بھی اختتام ہوچکا ہے ۔ انٹر نیٹ ،ملٹی نیشنل کمپنیاں، ٹی وی چینلز اور معاشرے میں معاشی اقدار کا غلبہ اس زوال کی اہم وجوہ ہیں۔ معلومات کے ان جدید ذرائع نے تحریری مواد کا تجزیہ کرنے والوں کی جگہ تماشائیوں کو جنم دیا ہے۔ دنیا بھر اور خود انگریزی بولنے والے ممالک میں ہونے والے انگریزی زبان کے امتحانات کے نتائج زبان کی مہارتوں میں مسلسل انحطاط کو ظاہر کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ بلاشبہ معلومات کے ایک سیلاب کی حیثیت رکھتا ہے مگر یہ تمام معلومات عام طور پر صرف انگریزی میں دستیاب ہیں جس کی وجہ سے طلبہ اور دیگر افراد کا ربط اپنی زبانوںکے مقابلے میں انگریزی سے بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔انٹرنیٹ نے کتابوں کے مطالعے کے رجحان کو بے حد کم کرکے طلبہ میں انٹرنیٹ کی معلومات کی محض نقل (Copy & Paste) کے رجحان کو فروغ دیا ہے جس کے نتیجے میں زبان کی مہارتوں کے علاوہ خود مطالعہ کرکے نتائج اخذ کرنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیتیں بھی زوال کا شکار ہورہی ہیں۔

زبان بحیثیت ایک معاشرتی ادارہ اور بحیثیت ثقافتی ورثہ زوال کا شکار ہے۔ اس زوال کے مختلف پہلو اور زاوئیے ہیں ۔اس صورت حال کادوسرااور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ شرق تا غرب زبان دانی کی صلاحیت زوال پذیر ہے،بچوں اور بڑوں میں اپنے مافی الضمیر کو زبانی اور تحریری شکل میں ظاہر کرنے کی صلاحیت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ مغربی دنیا میں زبان کے اساتذہ طلبہ میں تخلیقیت اور خیال و تائثر (Idea & Inspiration)کے دائرے کو محدود ہوتادیکھ کر فکرمند ہیں ،زبان دانی کے زوال پر (BBC )اور(British Council)سمیت دیگر اداروں کے تجزیوں اور سروے رپورٹوں کا ڈھیر موجود ہے۔ لیکن بات یہیں تک محدود نہیں کہ طلبہ اپنے مافی الضمیرکا اظہار کرنے میںمشکلات کا شکار ہیں بلکہ صورت حال کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ زبانیںاپنے املاءاور انشاءپردازی کی روایت کی منتقلی میں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔اس کے علاوہ بحث و استدلال اور تجزیہ کی صلاحیت بھی الیکٹرونک میڈیا کے استعمال کی بناءپرزوال کی جانب گامزن ہے۔ MCQs,Online Papers, E Government, E Commerce,E Education جیسے تصورات اور عوامل نے طلبہ اورمعاشرے کے دیگرافراد کی تحریری اور تقریری صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے۔مطالعہ انٹرنیٹ تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔


انٹر نیٹ کے مقابلے میں کتب بینی زیادہ فوائد کی حامل ہے ۔کتب بینی علم حاصل کرنے کے خاص مقصد کو سامنے رکھ کر پڑھی جاتی ہیں جب کہ انٹر نیٹ کثیر المقاصد اور بیک وقت کئی جہتیں رکھنے والا ذریعہ ہے ۔اس کے مقابلے میں کتابیںانٹر نیٹ کی طرح نہ تو اشتہار بازی کاشاہکار ہوتی ہیں اور نہ ہی اپنے اندر تفریح کے بے جا اور فضول مواقع رکھتی ہیں۔اس طرح کتابوں کے مطالعے کے دوران قارئین پوری یکسوئی کے ساتھ متعلقہ موضوع کا احاطہ کرلیتے ہیں مگر انٹرنیٹ کا ذریعہ معلومات اپنے اندر تفریح حتیٰ کہ فضولیات کے زندہ امکانات رکھتا ہے لہٰذا قارئین کی مکمل دل چسپی اور یکسوئی مشکل سے قائم ہوپاتی ہے ۔روایتی کتابوں میں مصنّفین صورت حال اور تصورات کو الفاظ کی شکل میں متشکل کرکے قاری کی قوّت متخیّلہ کو استعمال کرتے تھے مگر اب زیادہ تر افسانوی ادب بھی اپنی تحریری شکل کے بجائے فلم کی شکل میں سامنے آموجود ہوتا ہے لہٰذا فرد کی قوت متخیّلہ کے حامل نسل کے بجائے تماشائیوں کا غول تیار کیا جارہاہے۔ 

زبان دانی کی صلاحیت کے ضمن میں یہ بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ نئی نسل میں زبان دانی کی صلاحیت کا فروغ ،خاندانی اقدار اور مذہب سے تعلق میں پوشیدہ ہے۔ آج بھی ایسے معاشرے زبان دانی اور اس کے نئی نسل تک منتقلی میں کامیاب ہیں جہاں مذہبی اور خاندانی اقدار محفوظ ہیں ۔ خاندانی نظام میں گھر کے بزرگ نئی نسل کو زبان اور اقدار کی منتقلی کا بڑا ذریعہ ہوا کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بڑے خاندانوں میں بچے ،خاندانی اقدار کے علاوہ بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ دار بچوں کے ساتھ روزمرہ کی زندگی گزارنے اوران سے مقابلے کے نتیجے میں ساتھ زبان کے اظہار کی صلاحیت سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں ۔راقم السطور نے اپنے دادا اور دادی سے کہانیوں کی صورت میں تہذیبی اقداراور الفاظ کا ذخیرہ حاصل کیا۔جدید تہذیب اپنے جلو میں اولڈ پیپلز ہوم اور فلیٹوں کی رہائش کا نظام لے کر آئی ہے۔ جس نے بچوںکے ذخیرئہ الفاظ کو زبان کو بھرپور(Enrich) کرنے والے خاندانی نظام کا خاتمہ کردیاہے۔


برعظیم پاک و ہند کے خصوصی تناظر میں دیکھا جائے تو زوال پذیر صورت حال کے باوجودیہاں کی نئی نسل اپنے مافی الضمیر کے بہتر زبانی اور بڑی حد تک تحریری اظہار پر قادر ہے ۔یہ صلاحیت موجود ہے اگرچہ زوال پذیر ہے اور ماضی کے مقابلے میں کمزور بھی ۔ پاک وہند کے جدید صنعتی و معاشی معاشرے میں ڈھلنے کے سے قبل ہندوستان نے سرسید ،شبلی ،حالی،محمد حسین آزاد،ڈپٹی نذیر،اقبال،اکبر الٰہ آبادی اور ابوالکلام آزاد جےسے لوگ پیدا کیے مگر تقسیم ہند کے بعد ایسی عبقری شخصیات ناپید ہوگئیں حالانکہ فی زمانہ دنیا بھر کی طرح برصغیر میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا زیادہ ترقی یافتہ ہوچکا ہے ۔پڑھنے اور لکھنے کے حوالے سے جس قدر سہولیات آج موجود ہیں ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔اس صورت حال کے باوجود تخلیقی تحریر (Creative Writing) جنس نایاب ہے۔

ہندوپاک کا معاشرہ تیزی سے صنعتی معاشروں میں تبدیل ہورہاہے اس لیے معاشرے کی اقدار بھی تبدیل ہورہی ہیں ۔ خاندانی و مذہبی اقدار کی جگہ معاشی اقدار لے رہی ہیں۔ معاشیانے (Ecnomization )اوردراصل مغربیانے ) (Westernizationکے نتیجے میں زبانوں کا زوال ،تہذیبی زوال کا اعلان ثابت ہوا ہے ۔زبان تو خود ذریعہءاظہار ہے فرد
کی ذات کا مگرا فراد کا یہ اظہاران کے اپنے دائرہ اقدار کا پابند ہواکرتاہے۔ مغربیانے کے نتیجے میں دنیا بھر میں سوچ کے زاویے جس طرح تبدیل ہوئے ہیں اور تہذیبی کا غیر اعلان شدہ زوال ہورہاہے اس کا نتیجہ زبانوں کے زوال کی شکل میںظاہر ہورہاہے۔اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ خیالات کی ترسیل کے لیے ،اعلیٰ الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے مگر جب خیالات و اقدار ہی اپنے سطح سے گر جائیں تو ان کے اظہار کے لیے بلند الفاظ کی بھی ضرورت نہیں رہتی لہٰذا ایسے الفاظ متروک ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس عمل کی وضاحت اس مثال سے کی جاسکتی ہے کہ ایک طالب علم کو کراچی کے کسی پارک کی منظر کشی کرنی ہو تو اس کے الفاظ اس طالب علم کے مقابلے میں مختلف ہوں گے جسے جھیل سیف الملوک اور اس کے ارد گرد کے سرسبز و شاداب علاقے کو بیان کرنا ہو۔ مختصر یہ کہ مذہبی معاشروں کی غیرمذہبی معاشروں میں تبدیلی کے عمل میں دراصل انسان ، انسانی اقدار سے دور ہوکر مادّہ پرست ، آلات اور مشینوں کا غلام ، سرمائے اور معیار زندگی کا حریص ہوتا جارہاہے۔ اس ماہیت قلب کا اظہار دراصل زبان کے زوال کی شکل میں ہورہاہے۔

الفاظ ،خیالات کے محتاج ہوتے ہیں اور خیالات کا تعلق انسان کی اندرونی کیفیت ،دانائی اور معاشرے کی ساخت سے ہے ۔ ماضی میں طلبہ اور معاشرے کے دیگر افراد کا اپنی خاندانی اور مذہبی اقدار اور وطن سے بہت گہرا تعلق تھا لہٰذا خیالات کی سطح بھی اسی طرح بلند تھی۔ مگر معاشی اقدار اب جس طرح خاندانی و مذہبی اقدار کی جگہ لے رہی ہیں اس کے نتیجے میں فرد اور معاشرہ دونوں، زیادہ سے زیادہ سرمایہ (Capital) سے وابستہ ہوگئے ہیںاور زبانیں اب محض سرمائے میں اضافے کا ایک آلہ بن گئی ہیں ۔اسی لیے کہا جارہاہے   (Language becomes a commodity) لہٰذاافراد کا ذخیرئہ الفاظ بھی محدود ہوتاجارہا ہے اور زبان دانی کی صلاحیت بھی ۔اس سلسلے میں چین میں ہونے والی معاشرتی و خاندانی تبدیلی کا مطالعہ بے جا نہ ہوگا۔ چین میں والدین صرف ایک بچے کی پرورش کرسکتے ہیں ، دوسرے بچے پر قانونی پابندی ہے۔ اس صورت حال نے چینی خاندان کی ساخت کو مسخ کردیا ہے ۔ چینی بچے بہن بھائی ، چچا ، پھوپھی ، ماموں ، خالہ اور ان بنیادی رشتوں سے وابستہ دیگر رشتوں مثلا کزن وغیرہ کا شعور نہیں رکھتے۔اس طرح چینی معاشرہ بہترین صنعتی کارکن تو تیار کررہا ہے مگر وہ ایسے بنیادی رشتوں کے حسن و قبح کے تانے بانے سے لاعلم ہے جس سے اس کا ماضی عبارت رہاہے ۔ جدید دور کا چینی بچہ ان رشتوں سے جنم لینے والی محبت اور نزاکت کا ادراک نہیں رکھتا لہٰذا الفاظ واقدار کی ایک بھرپور دنیا سے محروم رہتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ فرد کا ذاتی تعلق اور تجربہ ہی ادب عالیہ کی بنیاد اور اک عالمگیر احساس قرار پاتا ہے۔ چین میں بنیادی انسانی رشتوں کی عدم موجودگی نے فرد کو ذاتی تعلق اور ذاتی تعلق کے جہان سے لاعلم کررکھاہے۔ خلاءکبھی باقی نہیں رہتا لہٰذا چینی معاشرہ، معاشرتی خاندانی اقدار کے خلاءکو معاشی و صنعتی اقدار سے پر کررہاہے۔


زبان کے زوال کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں انسانوں کا باہمی تعلق کم ہوگیا ہے،اب انسان کے پاس خاندان ، برادری ، دوستوں کے لیے وقت نہیں ہے بلکہ اب انسان کا زیادہ تر وقت مشینوں کے ساتھ زیادہ گزرتا ہے ۔ اس طرح کمپیوٹر ، گاڑی ، مو با ئل فون اوردیگر مشینوں نے انسانوں کے وقت کا بیش تر حصہ جذب کرلیا ہے ۔ مسئلہ محض ان مشینوں پر وقت گزارنے کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مشینوں سے وابستہ دیگر معاملات ہمارے وقت کا بڑا حصہ لے جاتے ہیں ،مثلا ہمارا وقت محض گاڑی چلانے پر صرف نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گاڑی کی سروس ، مرمت ، ایندھن ،فاضل پرزہ جات کی خریداری ،انشورنس اور گاڑی کے نت نئے ماڈل کی معلومات پر بھی صرف ہوتا ہے۔ اس طرح اب انسان کا ذخیرئہ الفاظ ،مشینوں کے بارے میں بڑھ رہاہے اور انسانی امور کے بارے میں کم ہورہاہے۔


زبان کے زوال زبان کے زوال کی ہر زبان اپنی تہذیب کے مقاصد کو پور اکرتی ہے جو اس کے تصور انسان اور تصور کائنات سے برآمد ہوتے ہیں۔مغربی تہذیب نے خدا پرستی کی جگہ انسان پرستی (Humanism) کو فروغ دیا تھا ۔تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ انسان پرستی کاعمل ،فرد کو اپنی تہذیب ،علاقے،برادری اور تاریخ سے کاٹ کر مارکیٹ (مارکیٹ کی اصطلاح کا بعینہ ترجمہ ”بازار“ نہیں ہے،اس لیے یہ اصطلاح اپنی اصلی شکل میں استعمال کی گئی ہے)اور سرمایہ دارانہ ریاست کے ماتحت کرنے کاسبب بنا ہے۔

عربی زبان مشرق وسطی کی مخصوص جغرافیائی حالات اور اسلامی اقدار کی حامل زبان ہے۔اہل علم جانتے ہیں کہ عربی زبان میں مختصر ، بلیغ اور جامع جملوں کی مثالیں قرآن اور احادیث مبارکہ سے دی جاتی ہیں ۔یہ عربی زبان اسلامی اور خاندانی اقدار کی امین ہے۔ اس کے مقابلے میں مغرب ومشرق میں غالب موجودہ مغربی تہذیب اب اپنی قدیم خاندانی و مذہبی اقدار کو بھلاکر سرمائے کی تہذیب بن گئی ہے لہٰذا اب مغرب اور پوری دنیا میں روزمرّہ کی زبان (Working Language) نے عروج حاصل کرلیا ہے۔دنیا میں انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں کے عروج میں دیگر عوامل کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ زبانیں سرمائے کی مارکیٹ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہیں ۔اس صورت حال کی پیش گوئی مشہور فرانسیسی مفکر (Ernest Gellner) اپنی مشہورکتاب (Nations and Nationalism)میں کرچکاہے۔ مصنف کا کہنا تھا کہ جدید صنعتی اور معاشی دور میں صرف وہی زبانیںزندہ رہیں گی جو مارکیٹ کے ساتھ مطابقت کی حامل ہوں گی اور بقیہ زبانیں ختم ہوجائیں گی خواہ وہ کتنے ہی بڑی تہذیبی ورثے کی مالک کیوں نہ ہوں۔

پس چہ باید کرد ؟

مشہور جرمن ماہر لسانیات وٹگنسٹائن(Wittgenstein) کا کہنا ہے کہ زبان کو معانی خود زبان نہیں دیتی بلکہ زبان کو معانی اس زبان کے بولنے والوں کے طرززندگی سے ملتے ہیں۔ انسانی معاشروں میں جےسے جیسے مادہ پرستانہ زندگی کو اختیار کیا جارہاہے بالکل اسی رفتار سے انسانی اقدار کے حامل الفاظ اپنی روح کھوتے چلے جارہے ہیں۔ زبان کا زوال ، اقدار کے زوال کے روکے بغیر ناممکن ہے ۔ زبان کازوال اور درحقیقت انسان کا زوال ایک زندہ حقیقت ہے جس کا ادراک مشرق و مغر ب میں سماجیات اور لسانیات کے ماہرین کی سطح پر کیا جارہا ہے، مگر زیادہ تر سماجی مسائل کی طرح یہاں بھی مسئلہ محض ادراک کا نہیں بلکہ اقدار کی تبدیلی کا ہے جس کے لیے گہری سنجیدگی درکار ہے۔ زبان کے زوال کو روکنے اور اس کی قوت کو ازسرنوزندہ کرنے کے لیے جدید مغربی طرز زندگی کو اور اس کی اقدار کو اسی طرح بدلنا پڑے گا جس ماضی میں بتدریج معاشرتی اور مذہبی اقدار کو معاشی اقدار سے بدل دیا گیا تھا۔ طرز زندگی بدلنا ایک مشکل کام ہے ۔ایسی تبدیلی صرف بتدریج لائی

جاسکتی ہے ۔

زبان کے زوال سمیت دور جدید کے بیش تر مسائل مثلاََ زبان کا زوال ، بڑے شہروں کے مسائل ، خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان ، جرائم کی کثرت اور روزافزوں بیماریوں جیسے مسائل ایک بڑے مسئلے یعنی غیر فطری طرز زندگی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان سب مسائل کو جز کے بجائے کے کل کی صورت میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دور جدید کا غیر فطر ی طرز زندگی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ ہمیں اپنی خاندانی ،معاشرتی اور مذہبی اقدار کے احیاءکی جس قدر آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں رہی ۔ والدین اگر زیادہ وقت معیار زندگی کی دوڑ میں صرف کرنے کے بجائے کچھ کم آمدنی میںگزارا کرنا سیکھیں اور زیادہ وقت خاندان کو دیں تاکہ زبان سمیت دیگر معاشرتی ادارے زوال سے محفوظ رہ سکیں۔

No comments:

Post a Comment