دماغ پڑھنے والی ٹیکنالوجی،گویائی سے محروم افراد کی زبان بن سکتی ہے
امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ذہن پڑھنے والی ٹیکنالوجی کی کامیاب آزمائش کی گئی ہے۔
محققین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی بدولت ایسے لوگوں کو قوت گویائی مل سکتی
ہے جو زبان سے متعلق مسائل یا کسی بیماری یا چوٹ لگنے کے باعث بولنے کی
صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
تاہم ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے یہ ٹیکنالوجی استعمال
کرنے کا مرحلہ فی الحال کافی دُور ہے۔ یہ تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ
برائن پاسلے کے بقول ابھی یہ مزید تفصیل سے معلوم کرنا باقی ہے کہ دماغ
بولنے سے متعلق پیدا ہونے والی لہروں کو کس طرح پراسیس کرتا ہے۔ پاسلے کے
بقول ابھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا بولنے کی صورت میں پیدا ہونے والی لہریں،
بولے گئے الفاظ کے سمجھنے جیسی ہی ہیں یا نہیں۔
اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 15 ایسے افراد پر تجربات کیے جو نیورو سرجری کے مراحل سے گزرے ہیں
امریکی شہر برکلے میں قائم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدانوں کی اس
نئی تحقیق کی بدولت انسان کے سوچے گئے الفاظ کو باقاعدہ بولے گئے الفاظ کی
طرح سننے کی جانب اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 15
ایسے افراد پر تجربات کیے جو نیورو سرجری کے مراحل سے گزرے ہیں۔
ان سائنسدانوں نے تحقیق میں شامل افراد کے سر کی بیرونی سطح پر 256
الیکٹروڈز سلسلہ وار طریقے سے نصب کرکے ان افراد کو پانچ سے 10 منٹ تک
مختلف الفاظ سنوائے۔ اس دوران سائنسدانوں نے دماغ میں پیدا ہونے والے
اعصابی سگنلز کو ریکارڈ کر لیا۔ ان ریکارڈ شدہ سگنلز کو بعد ازاں چلا کر
سنا گیا۔ پاسلے اور ان کی ٹیم نے بولے گئے الفاظ اور الیکٹروڈز کے ذریعے
ریکارڈ شدہ دماغی سرگرمی کو باہم ملا کر سننے کے لیے خصوصی طور پر تیار
کردہ دو مختلف کمپیوٹر پروگرامز استعمال کیے۔ ان میں سے بہتر کمپیوٹر
پروگرام کے ذریعے ان سائنسدانوں نے ریکارڈ شدہ اعصابی سگنلز سے اصل آواز سے
بہت ملتی جُلتی آواز پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ دماغی سرگرمی سے
ریکارڈ شدہ آوازیں سن کر سائنسدان آسانی سے اصل لفظ کو شناخت کر سکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے دماغ میں پیدا ہونے والے اعصابی سگنلز کو ریکارڈ کر لیا
ٹیکنالوجی کے حوالے سے معروف اینڈرلے گروپ کے پرنسپل اینالسٹ روب اینڈرلے
کے بقول اس ٹیکنالوجی کو کسی بیماری یا چوٹ لگنے کے باعث بولنے سے محروم
ہونے والے افراد میں استعمال کرنے کے لیے ابھی کچھ وقت لگے گا، کیونکہ ابھی
دماغی سرگرمی سے ریکارڈ شدہ ڈیٹا کو درست انداز میں سمجھنے اور اس سے قابل
سمجھ گفتگو میں بدلنے کے لیے خصوصی کمپیوٹر پروگرامز کی تیاری میں وقت
درکار ہوگا۔
اینڈرلے کے مطابق ممکنہ طور پر اس ٹیکنالوجی کو دو طرفہ بھی استعمال کیا
جا سکتا ہے۔ اس طرح ہم باقاعدہ آواز پیدا کیے بغیر گفتگو کر سکیں گے۔
اینڈرلے کے مطابق ایک ایسے رپورٹر کے بارے میں سوچیے جو ایک بھی لفظ منہ سے
ادا کیے بغیر اپنی بات پہنچا دے۔ ان کے مطابق یہ ٹیکنالوجی جاسوسی کے
میدان میں انتہائی کامیاب ثابت ہو سکتی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
No comments:
Post a Comment