محمد عبدالرحیم قریشی
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے چند اہم پہلو
انگریزوں کے تسلط سے ملک کو آزاد کرانے کی سرفروشانہ کوششوں کا آغاز کہاں سے ہوا اور کیسے ہوا؟ اس بارے میں کئی نقاط نظر پائے جاتے ہیں ۔ اگر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کوششوں کو شمار نہ کیا جائے کیونکہ ان کے ذہن میں دہلی کے مغلیہ تخت کو مرہٹوں کے تسلط اور اثر سے آزاد کرانے کا خیال غالب تھا اور یہی بات احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کے لئے دعوت دینے کی بڑی وجہ تھی تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور ملک سے ان کو نکال باہر کرنے کی تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جبکہ بنگال کے صوبیدار نواب علی وردی خاں نے جنہیں ڈاکٹر تارا چند اللہ وردی خاں کولکھتے ہیں ‘اپنے نواسہ سراج الدولہ کو جانشین بنانے کے بعد وصیت کی تھی کہ
’’ مغربی قوتوں کی اس قوت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہے اگر میری عمر کا پیمانہ لبریز نہ ہو چکا ہوتا تو تمہارے لئے اس اندیشہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا۔ اس کام کی تکمیل تیرے ذمہ ہے میرے چراغ ۔ دکن میں ان کی سیاسی سرگرمیو ں سے سبق حاصل کرو۔ایک ہی وقت میں تینوں قوتوں کو تباہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ سب سے پہلے انگریزوں کو قوت کو توڑنا۔ سنو بیٹا ۔ انہیں سپاہی رکھنے اور قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہ دینا اگر ایسا ہوا تو بنگال تمہارا نہیں ۔‘‘
سراج الدولہ نے اس وصیت پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا ،مگر میر جعفر ‘ درلبھ رام‘ جگت سیٹھ ‘ امین چند اور خود سراج الدولہ کی خالہ مہر النساء ( گھسیٹی بی ) کی انگریزوں سے ساز باز اور غداری کے نتیجہ میں سراج الدولہ کو 1757ء میں انگریزوں سے شکست کھانی پڑی۔ اس کے وفادار سپاہی اور ولی میر مدن شہید اور راجہ موہن لال کی بہادری بھی کا م نہ آئی اور انگریزوں کا راج عملاً ہندوستان کے سب سے زرخیز وسائل اور آمدنی والے صوبہ بنگال پر قائم ہوگیا جو آج کے بنگلہ دیش اور ہمارے ملک کے مغربی بنگال ‘ آسام ‘ بہار اور اڑیسہ پر محیط تھا۔
اس جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں نے اپنی ریشہ دو انیوں کو اور مختلف بہانوں سے سر زمین ہند کے علاقوں کو ہتھیانے کی کوششوں کو تیز کر دیا ۔اس کے ساتھ ہی اس بیرونی قوت کے خلاف اہل ہند کی کوششیں بھی ملک کے مختلف حصوں میں جاری رہیں ۔ حکمرانوں میسور کے حیدرعلی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو جنوبی ہند میں قدم جمانے سے روکے رکھٍا اور کئی بار ان کو شکستیں دیں ،مگر 1799 سری رنگا پٹنم میں ٹیپو سلطان کی شہادت نے ایک طرف ملک کے ایسے حکمران کو موت کی نیند سلادیا جنہوں نے انگریزوں کے خلاف سارے ہندوستانیوں ، مرہٹوں کو، نظام کو اور دوسروں کو متحد کرنے اور ان کو آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ آپسی خلفشار کے نتیجہ میں سارا ملک اور سارے عوام انگریزوں کے غلام بن جائیں گے اور دوسری طرف جنوبی ہند میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت ختم ہوگئی اور ان کا تسلط قائم ہوگیا۔ مرہٹوں نے کئی مرتبہ انگریزوں سے ہاتھ ملایا اور جب دو دو ہاتھ کرنے کی کوشش کی تو باجی راؤپیشوا نے ہتھیار ڈالدیے اور ہولکر اور بھونسلے کی شکست سے مرہٹوں کی رہی سہی قوت بھی ٹوٹ گئی۔ عوامی سطح پر جنگ پلاسی کے بعد مزاحمت اور انگریزوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کا ایک سلسلہ ملتا ہے ۔ جس میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی‘ مسلمانوں میں علماء بھی ہیں اور عوام بھی ۔ پہاڑی قبائل اورسپاہیوں کی تحریک (1733ئ) فقیروں کے مجنون شاہ کی قیادت میں انگریزوں پر حملے ( 1776ئ) یہ سلسلہ 1822 ء تک جاری رہا اور فقیر مسلح ہوکر کرم شاہ ‘چراغ علی شاہ‘ مومن شاہ وغیرہ کی قیادت میں انگریزوں کے لئے درد سر بنے رہے ‘ فرائضی تحریک جس کو حاجی شریعت اللہ نے (1781) میں شروع کیا تھا 1860 تک جاری رہی یہ بنیادی طور پر کسانوں کی تحریک تھی جس کی بہت بڑی اکثریت مسلم کسانوں پر مشتمل تھی۔ اس سے متاثر تیتو نظام کی (1831ئ) کی تحریک ہے ۔ جس کوکھیت مزدوری اور چھوٹے کسانوں سے قوت ملی تھی۔ 1831 کا سال اس اعتبار سے انگریزوں کے لئے خوش آئندرہا کہ حضرت سید احمد رائے بریلوی جنہوں نے بہار سے لے کر سرحد تک مسلمانوں انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی تھی جنہوں نے ہندوراجاؤں کو انگریزوں کے خلاف اپنی تحرک سے ملانے کی کوشش کی تھی وہ بالا کوٹ کے معرکہ میں شہید ہوئے جس سے اس تحریک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔علمائے صادق پور کی داستان سرفروشی وقربانی (۱۷۳۵ ء تا ۱۸۳۵ ء ) بھی ناقابل فراموش ہے ۔
اس عرصہ میں انگریزی فوجوں کے دیسی سپاہیوں کی بغاوت کے کئی واقعات ہوئے ۔ پٹنہ( 1764ئ)ویلور (1808ئ) بارکپور (1824ء ) فیرو ز پور (1849ء ) بارکپور ( مارچ/ 1857منگل پانڈے )ان سب مزاحمتوں کے باوجود انگریز یکے بعد دوسرے ہندوستانی کے علاقوں سے قابض ہوتے اور راج قائم کرتے رہے ۔ (1800ء میں نظام نے ایک معاہدہ کے ذریعہ اپنی خود مختاری کا سودا کر لیا۔ برارکے گورنر مہی پت رام ‘دولت آباد ‘ھارود اوربدنا پور کے قلعہ داروں کی مخالفت بھی نظام حیدرآباد کو اپنی آزادی وخودمختاری سے دستبردار ہونے سے نے روک سکی۔ راجہ راؤ ‘ رنبھا نمبالکر اور نورالامر اکوشہر بدرکر دیا گیا، شہزادہ مبارز الدولہ کی کوششوں کا چراغ 1856ء میں ان کے انتقال پر بجھ گیا۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی اہمیت
۱۸۵۷ء سے پہلے تقریباً سارے ملک پر انگریزوں کا عملًا تسلط قائم ہوچکا تھا۔ سندھ سے پنجاب تک ‘ دکن سے وسط ہند تک ‘ دہلی سے مشرق میں سارے علاقوں میں راج انگریزوں ہی کا تھا ‘ جو بھی ہندو راجہ یا مسلم نواب تھے وہ سب انگریزوں کی بالا دستی قبول کرچکے تھے ۔ اس کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکومت کرنے کا حق کو ہندوستانی عوام نے تسلیم نہیں کیا تھا اور کمپنی بھی جانتی تھی کہ وہ خود حکمران ہونے کا اعلان اور دعویٰ نہیں کرسکتی ،ایسا اعلان اس کے مفاد کو شدید نقصان پہنچائے گا ‘ اس کا اصل مقصد تو زیادہ سے زیادہ محصول وصول کرکے انگلینڈ میں کمپنی کے حصہ داروں کی اور خودکی اپنی تجوریوں کو بھرا تھا ‘ زیادہ زیادہ علاقہ پرقبضہ حاصل کرنے کا مقصد بھی پیسہ بٹورنا تھا۔ کمپنی مغل تخت سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتی رہی اور یہ ظاہر کرتی رہی کہ دہلی کے مغل بادشاہوں سے ملے اختیارات کو وہ استعمال کر رہی ہے ۔ سکوں پر مغل بادشاہوں کے نام بھی کندہ کرتی رہی۔ بلا شبہ کمپنی کے عہدیداروں کو یہ بھی احساس تھا کہ اگر وہ خود کو ہندوستان کا حکمران قرار دیتی ہے تو ایسی بغاوت ہوگی کہ اس کا مقابلہ کرنا دشوار ہوجائے گا ۔ دہلی میں مغل بادشاہ کواپنا وظیفہ خوار بنادینے کے باوجود وہ دہلی کو اپنی عملداری میں شامل کرنے سے گریز رکرتے رہے کیونکہ وہ تخت مغلیہ سے ہندوستانیوں کی ‘ مسلمانوں اور ہندوؤں کی وابستگی کے گہرے احساسات کو محسوس کرتے تھے ۔ ہندوستانیوں میں بھی انگریزوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کی آرزو موجود تھی۔ اسی آرزو نے اس جنگ کے لئے جذبہ ابھارا جس کو انگریز سپاہیوں کی بغاوت یا MUTINY ( غدر ) قراریتے رہے اور ہندوستانیوں کی طرف سے جس کو جنگ آزادی کانام دیا جاتا رہا۔ پچھلی ایک صدی کے دوران ہوئی مزاحمتوں RESISTANCES) ) میں ایسا نہیں ہوا کہ دہلی مرکز تباہ وبرباد ہو ۔ یہ تمام مزاحمتیں اور جنگیں علاقائی نوعیت رکھتی تھیں ۔ اور ان سے نکلی چنگایاں دوسرے ہندوستانیوں کے دلوں میں اُٹھ کھڑے ہوئے اورانگریزوں سے لوہا لینے کے آگ نہیں بھڑکا سکیں ۔ دہلی کی حیثیت یہ تھی کہ اس کو ہندوستان کا حکمران مانا اور سمجھا جاتا تھا جو دہلی پر حکومت کرتا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا مرکز دہلی تھا‘ انگریزوں کے خلاف ابل پڑے لاوے کی چنگاریوں نے کئی علاقوں اور کئی انگریزی چھاونیوں میں انگیریزوں کے خلاف آگ بھڑکادی ۔ اس لئے اگر ۱۸۵۷ء کو ملک کوپہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے تو غلط نہیں ہے ۔
میرٹھ چھاونی کے سپاہیوں کی بغاوت
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا نقطہ آغاز 10 / مئی کو انگریزوں کی میرٹھ چھاونی کے دیسی سپاہیوں کی بغاوت ہے ۔ انہوں نے انگریز افسروں کے خلاف ہتھیار سنبھال لئے ‘ ان کو موت کے گھاٹ اُتاردیا اور ’ چلودلی ‘ کے نعرے کے ساتھ دہلی روانہ ہوئے ۔ دہلی پہنچ کر انہوں نے مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کو اپنا اور سارے ہندوستان کا شہنشاہ قرار دیا۔ (۸۲) سالہ بہادر شاہ ظفر نے ان کو صاف گوئی کے ساتھ کہ دیا کہ ان کے پاس اسلحہ گولہ وبارود کا ذخیرہ نہیں ہے جو دیا جاسکے ان کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے کہ ان کو تنخواہیں دی جاسکیں اور اخراجات برداشت کئے جاسکیں ۔ میرٹھ کے ان سپاہیوں نے خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا کہ وہ اسلحہ وگولہ بارود انگریزوں کے اسلحہ قانون پرقبضہ کر کے حاصل کر لیں گے اور اپنے اخراجات کی تکمیل کے لئے کمپنی کے خزانوں کو نشانہ بنائیں گے ۔ میرٹھ کے یہ سپاہی جن کی بھاری اکثریت برہمنوں اور اعلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل تھی ضعیف العمر ‘ بے فوج وسپاہ ‘ بہادر شاہ ظفر کو جس کے پاس نہ خزانہ تھا اور نہ مال ودولت شہنشاہ ہند بتانے پر مصر رہے ۔ کیوں ۔؟ یہ سوال آج کے حالات میں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کو ہندو مسلم کشمکش و آوزش کی تاریخ کے طور پر پیش کر کے فرقہ وارنہ منافرت پھیلانے اور مسلمانوں کے رول وکردار کو نفرت انگیزانداز میں عوام اور بالخصوص نوخیز دنو جوان نسل کے سامنے رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے بڑی اہمیت رکھتا ہے مسلمانوں کے خلاف بعض وعناد کے جذبات کو ہوادے کر ہمارے وطن ہندوستان کو ہندو راشٹریہ بنانے کے لئے کوشاں اصحاب تاریخ کی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کی بجائے ان سے عبرت اور مستقبل کے تعمیر کے لئے بصیرتیں حاصل کریں ۔ انگریزوں کی فوجی چھاونیوں میں جن سپاہیوں نے بغاوت کی ان میں برہمنوں کی تعداد اتنی تھی کہ گورنر جنرل لارڈ کیننگ اور دوسرے افسر یہ سمجھتے تھے کہ یہ آگ برہمنوں کی بھیڑ کائی ہوئی ہے ۔
Canning ..... wrote to the Secretary of state for India that he had no doubt that the ' rebellion' had been fomented by Brahmans on religious pretences and by others for political motives'
( Kaye and Malleson, History of Indian Mutiny, vol I (P 452-53 )
ان سب نے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا شہنشاہ اس لئے گردانا مغل تخت کے وارث اور بابر کے جانشین ہی کو ہندوستان کے عوام چاہے ہندو ہوں کہ مسلمان قبول کرسکتے تھے ،کسی اور کو اس حیثیت میں قبول نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ مغلوں نے عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی تھی ،مذہب کے کسی فرق کے بغیر رعایا کی عام بھلائی کو پیش نظر رکھا جاتا ،مغلوں کے دور حکومت میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جانے لگا اور اس خوشحالی کے دور سے سب کو فائدہ پہنچا اور سب نے استفادہ کیا اس لیے ہندومغلوں کے دست بازو بن گئے ،اور نگ زیب نے جن فوجوں کو شیواجی کے خلاف روانہ کیا ان کے سپہ سالار ہندوراجپوت تھے ۔ تاریخ کی یہ حقیقتیں ،اس دور کی حقیقی کہانی بیان کر تی ہیں اور مغلوں کے ہندؤوں پر ظلم وستم کی گھڑی ہوئی کہانیوں کے جھوٹ کو واضح کرتی ہے ۔ورنہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ ہتھیاروں سے لیس ہندو سپاہی دہلی پر قبضہ کر لیں اور بابر کے وارث مغل تاجدار کی شہنشاہیت کو مضبوط بنانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائیں ۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد:
یو ں تو جنگ پلاسی (۱۷۵۷ء ) ہی سے انگریزوں کے خلاف جنگجوں ، لڑائیوں اور چھاپہ مار کار روائیوں میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے نظر آتے ہیں ،چاہے جنگ ہو یا تحریک ، مسلمان نے شروع کی ہو کہ ہندو نے ۔ آج اس پہلو کو واضح کرنے اور ابھارنے کی ضرورت ہے ۔ اس پہلو کو اس بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ ان دونوں ہندوستانی فرقوں کے درمیان اشتراک و اتحاد نظروں سے غائب ہوگیا ہے ۔ سراج الدولہ کے ساتھ ان کے وفادار سپہ سالار موہن لال کشمیری اور ان کی ہند فوج کا بہت کم ذکر ملتا ہے ۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ لڑنے والوں میں ہندو فوجی عہدیدار حتی کہ چند مرہٹہ سردار، مرہٹہ سپاہپوں کے ساتھ شامل تھے ۔ ٹیپو سلطان شہید کا جب جنازہ اٹھایاگیا تو راستوں پر ہندو عورتیں آکر ماتم و سینہ کوبی کرنے لگیں ، جس سے ان کے ہندوؤں میں بھی مقبول ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ا ن واقعات کو نظر انداز کرنے کے بجائے واضح طور پر پیش کیا جائے تاکہ ملک میں دونوں فرقوں کے درمیان اعتماد اور بھروسہ کی کیفیت ، جس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، مضبوط ہو۔
۱۸۵۷ء کی جدوجہد میں یہ پہلو بہت نمایاں نظرآتا ہے ، میرٹھ کے ہندوسپاہیوں کا ساتھ دہلی کے مسلمانوں نے دیا اور ان کی ایک بڑی تعداد انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ نانا صاحب پیشوا کے کارناموں کا ذکر عظیم اللہ خان کی کوششوں کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گا۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی سرفروشی کی داستان ان کے مسلمان سرداران فوج و توپچیوں کی داستان سرفروشی بھی ہے ۔ تاتیا ٹوپے نے جن کا اصل نام رامچندر پانڈورنگ تھا، مرہٹوں کی چھاپہ مار لڑائیوں میں مہارت کی یادگار تازہ کر دی، انگریزوں کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانا، ان کی چھاونیوں اور فوجی مقامات پر اچانک حملہ کرنا اور پھر برق رفتاری کے ساتھ دوسرے مقام کو روانہ ہوجانٍا اور دوبدولڑائی سے بچنے کی کوشش کرنا یہ ان کی حکمت عملی رہی ہے ۔ انہوں نے انگریزوں کی بھاری افواج کی وسطی ہند اور راجپوتانہ مسلسل پریشان کیا ۔ فیروز شاہ نے منڈا سور میں اپنا جھنڈا بلند کیا اور انہوں نے بھی وسطی ہند میں انگریزی فوج کو مصروف پیکار رکھا ،پھر ارہیل کھنڈ اور اودھ میں نمودار ہوے اور بالآخر راجپوتانہ پہنچے اور تاتیا ٹوپے کے ساتھ مل گئے ۔ ان دونوں کی چھاپہ مار کاروائیوں کو تاتیا ٹوپے کے بے وفاساتھیوں کی غداری سے نقصان پہنچا۔ ۱۸۵۷ء کے بارے میں ڈاکٹر تاراچند کا یہ بھی حقیقت افروز ہے :
ہندوستان کی صورتحال کے بحیثیت مجموعی جائزہ سے اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا کہ اس میں (۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ) سپاہی اور عوام، دونوں شریک تھے اور دونوں نے مل کر بیرونی حکمرانوں کا تختہ اٹھنے کی کوشش کی۔ عام خیال کے برعکس اور حکمرانوں کی امیدوں اور توقعات کے خلاف مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر جنگ کی۔ اگرچہ کہ بعض مقامات پر بعض فرقہ وارانہ اختلافات تھے تاہم بحیثیت مجموعی دونوں کاندھے سے کاندھا ملاکر لڑے اور ایک دوسرے کی بھرپور مدد کی۔ بہادر شاہ نے بقرعید کے موقع پر دہلی میں گائے کی قربانی پر پابندی لگادی اور خان بہادر خان نے روہیل کھنڈ کے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو بھڑکانے کی انگریزوں کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ (انگریزوں سے ) باغی لیڈروں کی بڑی تعداد نے بہادر شاہ کو جائز طور پر ہندوستان کا شہنشاہ تسلیم کیا ۔ ۔ ۔ جہاں جہاد یا مقدس جنگ کٍا اعلان کیا گیا وہاں بطور خاص بتادیاگیا یہ عیسائی حکمرانوں کے خلاف ہے ، (ڈاکٹر تاراچند ، ہندوستان میں سپاہیوں کی تحریک آزادی کی تاریخ (انگریزی) حکومت ہند( حکومت معتمد ، بار دوم ۱۹۹۲ء جلد ۲، صفحات ۶۹،۹۷)
مسلمان ، انگریزوں کے غیض و غضب کا نشانہ
۱۸۷۵ء کی جدوجہد آزادی پر بالآخر انگریزوں نے قابو پالیا۔ دہلی میں ستمبر کے مہینہ میں انگریزی فوجیں داخل ہوگئیں ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی انگریزوں نے کامیابی حاصل کی۔ یہ لڑائی تو دونوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں نے شروع کی اور دونوں ہی انگریزوں سے لڑتے رہے مگر انگریزوں نے اپنے سفاکانہ اور غارت گردانہ جذبہ انتقام کا نشانہ صرف مسلمانوں کو بنایا۔ سارا دہلی مسلمانوں سے خالی کرادیا گیا، جن خاندانوں کے افراد نے اگر لڑائی میں کچھ بھی حصہ لیا تھا اور انگریزوں کے خلاف کوئی ہلکی سی کاروائی بھی کی تو ان کی حویلیاں اور گھر کھدوادیئے گئے ۔ ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں ۔ ان کو پھانسیوں پر لٹاکایاگیا۔ جلاوطن کر دیاگیا، طرح طرح کے ظلم توڑے گئے ، اس سلسلہ میں سرلیال (Lyall) کا یہ اعتراف قابل ذکر ہے :
انگریز خوفناک طریقہ پر مسلمانوں کو اپنا حقیقی دشمن جان کر ان پر پلٹ پڑے ان کو خطرناک رقیب سمجھا اس لیے بغاوت (۱۸۵۷ء) کا ناکامی کا نتیجہ ان کے (مسلمانوں کے ) لیے ہندوؤں کی بہ نسبت زیادہ تباہ کن نکلا۔ مسلمانوں نے ہندوؤں پر برتری کا باقی ماندہ وقار بھی تقریباً کھودیا۔ اس وقت سے وہ بیرونی حکمرانوں کے لیے قابل بھروسہ نہ رہے اور اس دور سے شہری (Civil) اور فوجی خدمات کے اعلیٰ و کم تر عہدوں میں ان کی عددی اکثریت گھٹنے لگی۔ (سرالفریڈ سرلیال ۱۸۸۴ء)
۱۸۵۷ء کے بعد لارڈ میو (Mayo)کے گورنر جنرل بننے تک ہندوؤں پر برطانوی حکومت ، مسلمانوں کے خلاف اور ان کے برعکس بڑی مہربان رہی اور ہندو نوازی حکومت کی پالیسی بن گئی۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات میں ہندوؤں کے رول اور انگریزوں کے خلاف ان کو بغاوتوں کو نظر انداز کر دیاگیا۔ یہ قصور ان کا معاف کر دیاگیا۔ مسلمانوں کو ہر اعتبار سے پیچھے ڈھکیلنے ، ان کو مفلس وقلاش بنانے اور ہندوستانی سماج میں ان کو بے وقار بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، کی اس پالیسی پر تیزی کے ساتھ انگریزوں نے عمل کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۵۷ء کی جدوجہد کے دوران مسلمانوں نے سرفروشی کی تاریخ بنائی اوراس کے بعد انگریزوں نے ان ہی کا سب سے زیادہ خون بہایا، ان کو پھانسیوں پر لٹکایا، ان کی بستیاں اجاڑ دیں ، جائیدادیں ضبط کر لیں ۔ سارا غصہ مسلمانوں پر اتارا، ان کی ان قربانیوں کا مطالعہ بھی ، جس پر توجہ نہیں دی گئی ، اہمیت رکھتا ہے ۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے چند اہم پہلو
انگریزوں کے تسلط سے ملک کو آزاد کرانے کی سرفروشانہ کوششوں کا آغاز کہاں سے ہوا اور کیسے ہوا؟ اس بارے میں کئی نقاط نظر پائے جاتے ہیں ۔ اگر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کوششوں کو شمار نہ کیا جائے کیونکہ ان کے ذہن میں دہلی کے مغلیہ تخت کو مرہٹوں کے تسلط اور اثر سے آزاد کرانے کا خیال غالب تھا اور یہی بات احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کے لئے دعوت دینے کی بڑی وجہ تھی تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور ملک سے ان کو نکال باہر کرنے کی تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جبکہ بنگال کے صوبیدار نواب علی وردی خاں نے جنہیں ڈاکٹر تارا چند اللہ وردی خاں کولکھتے ہیں ‘اپنے نواسہ سراج الدولہ کو جانشین بنانے کے بعد وصیت کی تھی کہ
’’ مغربی قوتوں کی اس قوت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہے اگر میری عمر کا پیمانہ لبریز نہ ہو چکا ہوتا تو تمہارے لئے اس اندیشہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا۔ اس کام کی تکمیل تیرے ذمہ ہے میرے چراغ ۔ دکن میں ان کی سیاسی سرگرمیو ں سے سبق حاصل کرو۔ایک ہی وقت میں تینوں قوتوں کو تباہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ سب سے پہلے انگریزوں کو قوت کو توڑنا۔ سنو بیٹا ۔ انہیں سپاہی رکھنے اور قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہ دینا اگر ایسا ہوا تو بنگال تمہارا نہیں ۔‘‘
سراج الدولہ نے اس وصیت پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا ،مگر میر جعفر ‘ درلبھ رام‘ جگت سیٹھ ‘ امین چند اور خود سراج الدولہ کی خالہ مہر النساء ( گھسیٹی بی ) کی انگریزوں سے ساز باز اور غداری کے نتیجہ میں سراج الدولہ کو 1757ء میں انگریزوں سے شکست کھانی پڑی۔ اس کے وفادار سپاہی اور ولی میر مدن شہید اور راجہ موہن لال کی بہادری بھی کا م نہ آئی اور انگریزوں کا راج عملاً ہندوستان کے سب سے زرخیز وسائل اور آمدنی والے صوبہ بنگال پر قائم ہوگیا جو آج کے بنگلہ دیش اور ہمارے ملک کے مغربی بنگال ‘ آسام ‘ بہار اور اڑیسہ پر محیط تھا۔
اس جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں نے اپنی ریشہ دو انیوں کو اور مختلف بہانوں سے سر زمین ہند کے علاقوں کو ہتھیانے کی کوششوں کو تیز کر دیا ۔اس کے ساتھ ہی اس بیرونی قوت کے خلاف اہل ہند کی کوششیں بھی ملک کے مختلف حصوں میں جاری رہیں ۔ حکمرانوں میسور کے حیدرعلی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو جنوبی ہند میں قدم جمانے سے روکے رکھٍا اور کئی بار ان کو شکستیں دیں ،مگر 1799 سری رنگا پٹنم میں ٹیپو سلطان کی شہادت نے ایک طرف ملک کے ایسے حکمران کو موت کی نیند سلادیا جنہوں نے انگریزوں کے خلاف سارے ہندوستانیوں ، مرہٹوں کو، نظام کو اور دوسروں کو متحد کرنے اور ان کو آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ آپسی خلفشار کے نتیجہ میں سارا ملک اور سارے عوام انگریزوں کے غلام بن جائیں گے اور دوسری طرف جنوبی ہند میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت ختم ہوگئی اور ان کا تسلط قائم ہوگیا۔ مرہٹوں نے کئی مرتبہ انگریزوں سے ہاتھ ملایا اور جب دو دو ہاتھ کرنے کی کوشش کی تو باجی راؤپیشوا نے ہتھیار ڈالدیے اور ہولکر اور بھونسلے کی شکست سے مرہٹوں کی رہی سہی قوت بھی ٹوٹ گئی۔ عوامی سطح پر جنگ پلاسی کے بعد مزاحمت اور انگریزوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کا ایک سلسلہ ملتا ہے ۔ جس میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی‘ مسلمانوں میں علماء بھی ہیں اور عوام بھی ۔ پہاڑی قبائل اورسپاہیوں کی تحریک (1733ئ) فقیروں کے مجنون شاہ کی قیادت میں انگریزوں پر حملے ( 1776ئ) یہ سلسلہ 1822 ء تک جاری رہا اور فقیر مسلح ہوکر کرم شاہ ‘چراغ علی شاہ‘ مومن شاہ وغیرہ کی قیادت میں انگریزوں کے لئے درد سر بنے رہے ‘ فرائضی تحریک جس کو حاجی شریعت اللہ نے (1781) میں شروع کیا تھا 1860 تک جاری رہی یہ بنیادی طور پر کسانوں کی تحریک تھی جس کی بہت بڑی اکثریت مسلم کسانوں پر مشتمل تھی۔ اس سے متاثر تیتو نظام کی (1831ئ) کی تحریک ہے ۔ جس کوکھیت مزدوری اور چھوٹے کسانوں سے قوت ملی تھی۔ 1831 کا سال اس اعتبار سے انگریزوں کے لئے خوش آئندرہا کہ حضرت سید احمد رائے بریلوی جنہوں نے بہار سے لے کر سرحد تک مسلمانوں انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی تھی جنہوں نے ہندوراجاؤں کو انگریزوں کے خلاف اپنی تحرک سے ملانے کی کوشش کی تھی وہ بالا کوٹ کے معرکہ میں شہید ہوئے جس سے اس تحریک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔علمائے صادق پور کی داستان سرفروشی وقربانی (۱۷۳۵ ء تا ۱۸۳۵ ء ) بھی ناقابل فراموش ہے ۔
اس عرصہ میں انگریزی فوجوں کے دیسی سپاہیوں کی بغاوت کے کئی واقعات ہوئے ۔ پٹنہ( 1764ئ)ویلور (1808ئ) بارکپور (1824ء ) فیرو ز پور (1849ء ) بارکپور ( مارچ/ 1857منگل پانڈے )ان سب مزاحمتوں کے باوجود انگریز یکے بعد دوسرے ہندوستانی کے علاقوں سے قابض ہوتے اور راج قائم کرتے رہے ۔ (1800ء میں نظام نے ایک معاہدہ کے ذریعہ اپنی خود مختاری کا سودا کر لیا۔ برارکے گورنر مہی پت رام ‘دولت آباد ‘ھارود اوربدنا پور کے قلعہ داروں کی مخالفت بھی نظام حیدرآباد کو اپنی آزادی وخودمختاری سے دستبردار ہونے سے نے روک سکی۔ راجہ راؤ ‘ رنبھا نمبالکر اور نورالامر اکوشہر بدرکر دیا گیا، شہزادہ مبارز الدولہ کی کوششوں کا چراغ 1856ء میں ان کے انتقال پر بجھ گیا۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی اہمیت
۱۸۵۷ء سے پہلے تقریباً سارے ملک پر انگریزوں کا عملًا تسلط قائم ہوچکا تھا۔ سندھ سے پنجاب تک ‘ دکن سے وسط ہند تک ‘ دہلی سے مشرق میں سارے علاقوں میں راج انگریزوں ہی کا تھا ‘ جو بھی ہندو راجہ یا مسلم نواب تھے وہ سب انگریزوں کی بالا دستی قبول کرچکے تھے ۔ اس کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکومت کرنے کا حق کو ہندوستانی عوام نے تسلیم نہیں کیا تھا اور کمپنی بھی جانتی تھی کہ وہ خود حکمران ہونے کا اعلان اور دعویٰ نہیں کرسکتی ،ایسا اعلان اس کے مفاد کو شدید نقصان پہنچائے گا ‘ اس کا اصل مقصد تو زیادہ سے زیادہ محصول وصول کرکے انگلینڈ میں کمپنی کے حصہ داروں کی اور خودکی اپنی تجوریوں کو بھرا تھا ‘ زیادہ زیادہ علاقہ پرقبضہ حاصل کرنے کا مقصد بھی پیسہ بٹورنا تھا۔ کمپنی مغل تخت سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتی رہی اور یہ ظاہر کرتی رہی کہ دہلی کے مغل بادشاہوں سے ملے اختیارات کو وہ استعمال کر رہی ہے ۔ سکوں پر مغل بادشاہوں کے نام بھی کندہ کرتی رہی۔ بلا شبہ کمپنی کے عہدیداروں کو یہ بھی احساس تھا کہ اگر وہ خود کو ہندوستان کا حکمران قرار دیتی ہے تو ایسی بغاوت ہوگی کہ اس کا مقابلہ کرنا دشوار ہوجائے گا ۔ دہلی میں مغل بادشاہ کواپنا وظیفہ خوار بنادینے کے باوجود وہ دہلی کو اپنی عملداری میں شامل کرنے سے گریز رکرتے رہے کیونکہ وہ تخت مغلیہ سے ہندوستانیوں کی ‘ مسلمانوں اور ہندوؤں کی وابستگی کے گہرے احساسات کو محسوس کرتے تھے ۔ ہندوستانیوں میں بھی انگریزوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کی آرزو موجود تھی۔ اسی آرزو نے اس جنگ کے لئے جذبہ ابھارا جس کو انگریز سپاہیوں کی بغاوت یا MUTINY ( غدر ) قراریتے رہے اور ہندوستانیوں کی طرف سے جس کو جنگ آزادی کانام دیا جاتا رہا۔ پچھلی ایک صدی کے دوران ہوئی مزاحمتوں RESISTANCES) ) میں ایسا نہیں ہوا کہ دہلی مرکز تباہ وبرباد ہو ۔ یہ تمام مزاحمتیں اور جنگیں علاقائی نوعیت رکھتی تھیں ۔ اور ان سے نکلی چنگایاں دوسرے ہندوستانیوں کے دلوں میں اُٹھ کھڑے ہوئے اورانگریزوں سے لوہا لینے کے آگ نہیں بھڑکا سکیں ۔ دہلی کی حیثیت یہ تھی کہ اس کو ہندوستان کا حکمران مانا اور سمجھا جاتا تھا جو دہلی پر حکومت کرتا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا مرکز دہلی تھا‘ انگریزوں کے خلاف ابل پڑے لاوے کی چنگاریوں نے کئی علاقوں اور کئی انگریزی چھاونیوں میں انگیریزوں کے خلاف آگ بھڑکادی ۔ اس لئے اگر ۱۸۵۷ء کو ملک کوپہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے تو غلط نہیں ہے ۔
میرٹھ چھاونی کے سپاہیوں کی بغاوت
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا نقطہ آغاز 10 / مئی کو انگریزوں کی میرٹھ چھاونی کے دیسی سپاہیوں کی بغاوت ہے ۔ انہوں نے انگریز افسروں کے خلاف ہتھیار سنبھال لئے ‘ ان کو موت کے گھاٹ اُتاردیا اور ’ چلودلی ‘ کے نعرے کے ساتھ دہلی روانہ ہوئے ۔ دہلی پہنچ کر انہوں نے مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کو اپنا اور سارے ہندوستان کا شہنشاہ قرار دیا۔ (۸۲) سالہ بہادر شاہ ظفر نے ان کو صاف گوئی کے ساتھ کہ دیا کہ ان کے پاس اسلحہ گولہ وبارود کا ذخیرہ نہیں ہے جو دیا جاسکے ان کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے کہ ان کو تنخواہیں دی جاسکیں اور اخراجات برداشت کئے جاسکیں ۔ میرٹھ کے ان سپاہیوں نے خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا کہ وہ اسلحہ وگولہ بارود انگریزوں کے اسلحہ قانون پرقبضہ کر کے حاصل کر لیں گے اور اپنے اخراجات کی تکمیل کے لئے کمپنی کے خزانوں کو نشانہ بنائیں گے ۔ میرٹھ کے یہ سپاہی جن کی بھاری اکثریت برہمنوں اور اعلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل تھی ضعیف العمر ‘ بے فوج وسپاہ ‘ بہادر شاہ ظفر کو جس کے پاس نہ خزانہ تھا اور نہ مال ودولت شہنشاہ ہند بتانے پر مصر رہے ۔ کیوں ۔؟ یہ سوال آج کے حالات میں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کو ہندو مسلم کشمکش و آوزش کی تاریخ کے طور پر پیش کر کے فرقہ وارنہ منافرت پھیلانے اور مسلمانوں کے رول وکردار کو نفرت انگیزانداز میں عوام اور بالخصوص نوخیز دنو جوان نسل کے سامنے رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے بڑی اہمیت رکھتا ہے مسلمانوں کے خلاف بعض وعناد کے جذبات کو ہوادے کر ہمارے وطن ہندوستان کو ہندو راشٹریہ بنانے کے لئے کوشاں اصحاب تاریخ کی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کی بجائے ان سے عبرت اور مستقبل کے تعمیر کے لئے بصیرتیں حاصل کریں ۔ انگریزوں کی فوجی چھاونیوں میں جن سپاہیوں نے بغاوت کی ان میں برہمنوں کی تعداد اتنی تھی کہ گورنر جنرل لارڈ کیننگ اور دوسرے افسر یہ سمجھتے تھے کہ یہ آگ برہمنوں کی بھیڑ کائی ہوئی ہے ۔
Canning ..... wrote to the Secretary of state for India that he had no doubt that the ' rebellion' had been fomented by Brahmans on religious pretences and by others for political motives'
( Kaye and Malleson, History of Indian Mutiny, vol I (P 452-53 )
ان سب نے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا شہنشاہ اس لئے گردانا مغل تخت کے وارث اور بابر کے جانشین ہی کو ہندوستان کے عوام چاہے ہندو ہوں کہ مسلمان قبول کرسکتے تھے ،کسی اور کو اس حیثیت میں قبول نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ مغلوں نے عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی تھی ،مذہب کے کسی فرق کے بغیر رعایا کی عام بھلائی کو پیش نظر رکھا جاتا ،مغلوں کے دور حکومت میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جانے لگا اور اس خوشحالی کے دور سے سب کو فائدہ پہنچا اور سب نے استفادہ کیا اس لیے ہندومغلوں کے دست بازو بن گئے ،اور نگ زیب نے جن فوجوں کو شیواجی کے خلاف روانہ کیا ان کے سپہ سالار ہندوراجپوت تھے ۔ تاریخ کی یہ حقیقتیں ،اس دور کی حقیقی کہانی بیان کر تی ہیں اور مغلوں کے ہندؤوں پر ظلم وستم کی گھڑی ہوئی کہانیوں کے جھوٹ کو واضح کرتی ہے ۔ورنہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ ہتھیاروں سے لیس ہندو سپاہی دہلی پر قبضہ کر لیں اور بابر کے وارث مغل تاجدار کی شہنشاہیت کو مضبوط بنانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائیں ۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد:
یو ں تو جنگ پلاسی (۱۷۵۷ء ) ہی سے انگریزوں کے خلاف جنگجوں ، لڑائیوں اور چھاپہ مار کار روائیوں میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے نظر آتے ہیں ،چاہے جنگ ہو یا تحریک ، مسلمان نے شروع کی ہو کہ ہندو نے ۔ آج اس پہلو کو واضح کرنے اور ابھارنے کی ضرورت ہے ۔ اس پہلو کو اس بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ ان دونوں ہندوستانی فرقوں کے درمیان اشتراک و اتحاد نظروں سے غائب ہوگیا ہے ۔ سراج الدولہ کے ساتھ ان کے وفادار سپہ سالار موہن لال کشمیری اور ان کی ہند فوج کا بہت کم ذکر ملتا ہے ۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ لڑنے والوں میں ہندو فوجی عہدیدار حتی کہ چند مرہٹہ سردار، مرہٹہ سپاہپوں کے ساتھ شامل تھے ۔ ٹیپو سلطان شہید کا جب جنازہ اٹھایاگیا تو راستوں پر ہندو عورتیں آکر ماتم و سینہ کوبی کرنے لگیں ، جس سے ان کے ہندوؤں میں بھی مقبول ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ا ن واقعات کو نظر انداز کرنے کے بجائے واضح طور پر پیش کیا جائے تاکہ ملک میں دونوں فرقوں کے درمیان اعتماد اور بھروسہ کی کیفیت ، جس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، مضبوط ہو۔
۱۸۵۷ء کی جدوجہد میں یہ پہلو بہت نمایاں نظرآتا ہے ، میرٹھ کے ہندوسپاہیوں کا ساتھ دہلی کے مسلمانوں نے دیا اور ان کی ایک بڑی تعداد انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ نانا صاحب پیشوا کے کارناموں کا ذکر عظیم اللہ خان کی کوششوں کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گا۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی سرفروشی کی داستان ان کے مسلمان سرداران فوج و توپچیوں کی داستان سرفروشی بھی ہے ۔ تاتیا ٹوپے نے جن کا اصل نام رامچندر پانڈورنگ تھا، مرہٹوں کی چھاپہ مار لڑائیوں میں مہارت کی یادگار تازہ کر دی، انگریزوں کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانا، ان کی چھاونیوں اور فوجی مقامات پر اچانک حملہ کرنا اور پھر برق رفتاری کے ساتھ دوسرے مقام کو روانہ ہوجانٍا اور دوبدولڑائی سے بچنے کی کوشش کرنا یہ ان کی حکمت عملی رہی ہے ۔ انہوں نے انگریزوں کی بھاری افواج کی وسطی ہند اور راجپوتانہ مسلسل پریشان کیا ۔ فیروز شاہ نے منڈا سور میں اپنا جھنڈا بلند کیا اور انہوں نے بھی وسطی ہند میں انگریزی فوج کو مصروف پیکار رکھا ،پھر ارہیل کھنڈ اور اودھ میں نمودار ہوے اور بالآخر راجپوتانہ پہنچے اور تاتیا ٹوپے کے ساتھ مل گئے ۔ ان دونوں کی چھاپہ مار کاروائیوں کو تاتیا ٹوپے کے بے وفاساتھیوں کی غداری سے نقصان پہنچا۔ ۱۸۵۷ء کے بارے میں ڈاکٹر تاراچند کا یہ بھی حقیقت افروز ہے :
ہندوستان کی صورتحال کے بحیثیت مجموعی جائزہ سے اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا کہ اس میں (۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ) سپاہی اور عوام، دونوں شریک تھے اور دونوں نے مل کر بیرونی حکمرانوں کا تختہ اٹھنے کی کوشش کی۔ عام خیال کے برعکس اور حکمرانوں کی امیدوں اور توقعات کے خلاف مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر جنگ کی۔ اگرچہ کہ بعض مقامات پر بعض فرقہ وارانہ اختلافات تھے تاہم بحیثیت مجموعی دونوں کاندھے سے کاندھا ملاکر لڑے اور ایک دوسرے کی بھرپور مدد کی۔ بہادر شاہ نے بقرعید کے موقع پر دہلی میں گائے کی قربانی پر پابندی لگادی اور خان بہادر خان نے روہیل کھنڈ کے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو بھڑکانے کی انگریزوں کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ (انگریزوں سے ) باغی لیڈروں کی بڑی تعداد نے بہادر شاہ کو جائز طور پر ہندوستان کا شہنشاہ تسلیم کیا ۔ ۔ ۔ جہاں جہاد یا مقدس جنگ کٍا اعلان کیا گیا وہاں بطور خاص بتادیاگیا یہ عیسائی حکمرانوں کے خلاف ہے ، (ڈاکٹر تاراچند ، ہندوستان میں سپاہیوں کی تحریک آزادی کی تاریخ (انگریزی) حکومت ہند( حکومت معتمد ، بار دوم ۱۹۹۲ء جلد ۲، صفحات ۶۹،۹۷)
مسلمان ، انگریزوں کے غیض و غضب کا نشانہ
۱۸۷۵ء کی جدوجہد آزادی پر بالآخر انگریزوں نے قابو پالیا۔ دہلی میں ستمبر کے مہینہ میں انگریزی فوجیں داخل ہوگئیں ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی انگریزوں نے کامیابی حاصل کی۔ یہ لڑائی تو دونوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں نے شروع کی اور دونوں ہی انگریزوں سے لڑتے رہے مگر انگریزوں نے اپنے سفاکانہ اور غارت گردانہ جذبہ انتقام کا نشانہ صرف مسلمانوں کو بنایا۔ سارا دہلی مسلمانوں سے خالی کرادیا گیا، جن خاندانوں کے افراد نے اگر لڑائی میں کچھ بھی حصہ لیا تھا اور انگریزوں کے خلاف کوئی ہلکی سی کاروائی بھی کی تو ان کی حویلیاں اور گھر کھدوادیئے گئے ۔ ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں ۔ ان کو پھانسیوں پر لٹاکایاگیا۔ جلاوطن کر دیاگیا، طرح طرح کے ظلم توڑے گئے ، اس سلسلہ میں سرلیال (Lyall) کا یہ اعتراف قابل ذکر ہے :
انگریز خوفناک طریقہ پر مسلمانوں کو اپنا حقیقی دشمن جان کر ان پر پلٹ پڑے ان کو خطرناک رقیب سمجھا اس لیے بغاوت (۱۸۵۷ء) کا ناکامی کا نتیجہ ان کے (مسلمانوں کے ) لیے ہندوؤں کی بہ نسبت زیادہ تباہ کن نکلا۔ مسلمانوں نے ہندوؤں پر برتری کا باقی ماندہ وقار بھی تقریباً کھودیا۔ اس وقت سے وہ بیرونی حکمرانوں کے لیے قابل بھروسہ نہ رہے اور اس دور سے شہری (Civil) اور فوجی خدمات کے اعلیٰ و کم تر عہدوں میں ان کی عددی اکثریت گھٹنے لگی۔ (سرالفریڈ سرلیال ۱۸۸۴ء)
۱۸۵۷ء کے بعد لارڈ میو (Mayo)کے گورنر جنرل بننے تک ہندوؤں پر برطانوی حکومت ، مسلمانوں کے خلاف اور ان کے برعکس بڑی مہربان رہی اور ہندو نوازی حکومت کی پالیسی بن گئی۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات میں ہندوؤں کے رول اور انگریزوں کے خلاف ان کو بغاوتوں کو نظر انداز کر دیاگیا۔ یہ قصور ان کا معاف کر دیاگیا۔ مسلمانوں کو ہر اعتبار سے پیچھے ڈھکیلنے ، ان کو مفلس وقلاش بنانے اور ہندوستانی سماج میں ان کو بے وقار بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، کی اس پالیسی پر تیزی کے ساتھ انگریزوں نے عمل کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۵۷ء کی جدوجہد کے دوران مسلمانوں نے سرفروشی کی تاریخ بنائی اوراس کے بعد انگریزوں نے ان ہی کا سب سے زیادہ خون بہایا، ان کو پھانسیوں پر لٹکایا، ان کی بستیاں اجاڑ دیں ، جائیدادیں ضبط کر لیں ۔ سارا غصہ مسلمانوں پر اتارا، ان کی ان قربانیوں کا مطالعہ بھی ، جس پر توجہ نہیں دی گئی ، اہمیت رکھتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment