اِسلامی نصب العین کا حصول اور سیاست
اِسلامی نصب العین کا حصول اور سیاست کے سلسلے میں کچھ بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
﴿۱﴾ موجودہ نظام بہ ہرحال ایک طاغوتی نظام ہے۔ جوشِ سیاست میں جو لوگ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ موجودہ نظامِ حکمرانی نہ طاغوتی ہے نہ اِسلامی بل کہ اس کے بین بین ہے انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نظامِ حق کے سوا جو نظامِ حکمرانی بھی ہو وہ گمراہ کن اورطاغوتی ہے جس میں صرف درجوں کا فرق ہے اصولوں کانہیں۔
﴿۲﴾لیکن بحالتِ اضطرار ﴿جیسے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو روکنے کے لیے یازعفرانی پارٹیوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے﴾ انتخابات میں شرکت کی جاسکتی ہے۔ لیکن اسی طرح اور اسی حد تک جس حد تک جان بچانے کے لیے سورکاگوشت کھانے کی اجازت ہے۔
﴿۳﴾موجودہ نظام کو تبدیل کرکے اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کی غرض سے انتخابات میں شرکت کی جاسکتی ہے۔
اگر مندرجہ بالااصولی نکات پر اتفاق ہوجائے تو مزید بحث مندرجہ ذیل باتوں پر ہوگی:
۱﴾ کیا امت ِ مسلمہ اس اضطراری حالت میں ہے، جس میںانتخابات میں حصہ لینا جائز ہوجاتاہے؟
۲﴾ بہ صورتِ اضطرارکیا مسلمانوں کا انتخابات میں حصہ لینا کسی مثبت تبدیلی پر منتج ہوگا؟
۳﴾ کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ انتخابات کے ذریعے موجودہ نظام کو چیلنج کرسکیں؟
یہ مقالہ اوپر کی تین اصولی حقیقتوں کے اعتراف اور بعد کے سوالات میں سے پہلے سوال کا مثبت جواب فرض کرکے لکھاگیاہے۔
بنیاد اتحاد
ایمرجنسی کے وقت اندراگاندھی کے استبداد کے سبھی مخالف تھے، لیکن یہ تو طے تھاکہ انتخابات میں جیت کانگریس کی ہی ہونی ہے۔ کانگریس کے سوا اس وقت مرکز میں نہ کوئی حکومت آئی تھی نہ اب اس کے امکانات تھے۔ لیکن پانسا صرف اس صورت میں پلٹاجاسکتاتھا کہ ساری حریف پارٹیاں مل کر اپنا ایک متحدہ محاذ بنالیں۔ چنانچہ ایک متحدہ محاذ’جنتاپارٹی‘ کے عنوان سے وجود میں آیا۔ اس متحدہ محاذ میں ﴿جسے ‘‘چوں چوں کا مربہ محاذ’’ کہنا زیادہ صحیح ہوگا﴾ مرار جی دیسائی کی کانگریس او، چرن سنگھ کی بھارتیہ لوک دل، واجپئی اور اڈوانی کی قیادت میں جن سنگھ، جگ جیون رام کی کانگریس فارڈیموکریسی، سوشلسٹ پارٹی اور کچھ اندرا گاندھی کے باغی کانگریسی شامل تھے۔ ان سبھوں نے مل کر اندراگاندھی کے خلاف الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ سرکار بنائی۔ لیکن تین سال سے کم عرصے میں ہی ساجھے کی یہ ہانڈی چوراہے پر پھوٹ گئی۔ آخرکار دوبارہ وہی پارٹی اسی لیڈر سمیت برسراقتدار آئی جس کے خلاف یہ متحدہ محاذ بناتھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عوام کو کچھ اس قسم کا تاثر ملاکہ دوسرے لیڈران باتیں چاہے کتنی ہی بڑی بڑی کیوں نہ کرلیں پائیدار سرکار ہمیں صرف کانگریس ہی دے سکتی ہے۔
ہندستان میں مسلمان سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۴۱فیصد ہیں، یعنی ایک بات صاف ہے کہ مسلمانوںکا اپنے دم خم پر الیکشن لڑنا خود کو اپنوں اور دوسروں کی نظر وں میں گرانا ہے۔ ہاں! مسلمانوں میں کامل اتحاد کی صورت میں ہم ایک مضبوط Bargaining کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ لیکن وہ اتحاد جو اب تک ایک سراب بناہوا ہے، آخر کن بنیادوں پر استوار ہو؟ آسان سا جواب دیاجاتاہے کہ طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے۔ مگر ذرا ٹھہرکر سوچیے کہ کیا ان منفی بنیادوں پر جس اتحاد کی عمارت کھڑی ہوگی، اس کا انجام جنتاپارٹی کے انجام سے کچھ مختلف ہوگا۔ لہٰذا بہترہوگاکہ الیکشن میں حصہ لینے سے قبل اندرونی طورپر، ہوسکے تو مسلم پرسنل لائ بورڈ کی سرپرستی میں تمام مسلم جماعتوں کے اتفاق راے سے ایک سیاسی ونگ تشکیل دی جائے جو ہر الیکشن میں حصہ نہ لے بل کہ خصوصی اہمیت کے حامل الیکشنوں میں حصہ لے ۔ لیکن بنیادی طورپر وہ راے عامہ کی تربیت کرنے والے موثر گروپ کی حیثیت سے کام کرے۔ الیکشنوں کے نتائج اگر بہت ہی حوصلہ افزا آئیں تواقامتِ دین کے ایجنڈے کے ساتھ الیکشنوں میں مستقل حصہ بھی لیاجاسکتا ہے۔ مختصر طورپر یہ عرض ہے کہ اقامتِ دین کی بنیادوں پر ہی مسلمانوں کے درمیان اتحاد نہیں ایک وِژن دے سکتا ہے، انھیں متحد رکھ سکتا ہے، قربانیاں دینے پر آمادہ کرسکتاہے، منفی بنیادیں اس بار کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔
پہلے ریاست پھر اسلام
لیکن یہ معاملہ اتنا بھی آسان نہیں کہ مسلمان اسلام کے نام پر اکٹھے ہوجائیں اور اقتدار حاصل کرلیں۔ معاملہ مزید پیچیدہ اور الجھاہوا ہے۔ مصر کے اندر اخوان المسلمین کی تائید سے ۲۵۹۱میں شاہ فاروق کاتختہ پلٹ کرانقلاب آیا مگر بعد از انقلاب کیا ہوا؟ عبدالناصر نے کرنل نجیب اور اخوان کو کنارے کرتے ہوے اپنی بدترین آمریت مسلط کرلی۔ اس میں وہ بھلاکیونکر کامیاب ہوا؟ کیونکہ عوام گو اخوان کو اپناخیرخواہ سمجھتے تھے لیکن انھیں غلامی کی لت لگ چکی تھی۔ اسلامی نظام قائم نہ ہونا ان کے نزدیک اتنی بڑی بات نہ تھی جتنا کہ مثال کے طورپر روٹی کپڑے کا چھن جانا۔ لہٰذا اخوان ظلم کی چکی میں پستے رہے اور عوام اسی طرح لاتعلق رہے ﴿اور ایک حد تک آج بھی ہیں﴾ جس قدر وہ شاہ فاروق کے دور میں تھے۔ یہ انقلاب جو آیاتھا جووہ عوامی ہونے کے باوجود عوامی نہیں تھا۔ اقتدار کاشارٹ کٹ راستہ اخوان کو مہنگا پڑا اور کمال ِ عیاری سے ایک فرعون کی جگہ دوسرے نے لے لی۔ مصر تو پھر بھی دور کی مثال ہے،پاکستان کا قصہ تو ہمارے سامنے کاہے۔ قائد اعظم نے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا لیکن کیا ہوا؟ مولانا مودودیؒ ، جماعت اسلامی اور ملک کے صالح اور فکرمند طبقے کی بے غرض جدوجہد اور قرارداد مقاصد کے پاس ہونے کے باوجود ملک میں آج تک اسلامی نظام کیوں نہ آسکا؟ اس کے لیے صرف اقتدارمیں بیٹھے ہوئوں کو طعنہ نہیں دیاجاسکتا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عوام اسلامی نظام کے لیے اسی قدر سنجیدہ نہیں تھے جس قدر وہ بنگلہ زبان و قومیت کے تحفظ، بنگالیوں کے اقتدار میں برابر کی شرکت، سندھی وبلوچ و دیگر علاقائی عصبیتوں کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔
پاکستان کے اسلام پسند عناصر ان مسائل اور عوام کی ان غلط ترجیحات سے تعرض کیے بغیر اگر بالابالاہی ایک سیاسی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو وہ ہتھیلی پر سرسوں جمارہے ہیں۔ اسی طرح ہندستان میں اسلامی نصب العین کے لیے کام کرنے والوں کی پہلی ترجیح ہندستان کے مسلمانوں کو خوف و ہراس اور مایوسی کے جنگل سے نکال کر انھیں عزم وہمت کی شاہراہ پرگامزن کردینے کی ہونی چاہیے، مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی روح پھونک دینے کی ہونی چاہیے۔ تاکہ یہاں موجود ہر مسلمان مرد، عورت، بوڑھا، جوان، بچہ ایک طاغوتی نظام میں سانس لینے میں گھٹن محسوس کرنے لگے۔ راے عامہ قائدین کو خود اسلامی نظام کے لیے للکارے۔ دھیرے دھیرے ملک میں اس نظام پر بحث ہو اور یوں بات آگے بڑھتی رہے۔ اس ہوم ورک کے بعد سیاست کے میدان میں اترنا دور اندیشی پر مبنی ہوگا۔ ورنہ جیت کر بھی ہم ہارجائیں گے۔
جیت کی قیمت
یہ کج فہمی نہیں تو سادہ لوحی کی انتہاہوگی کہ ہم سیاست میں حصہ لیں اور جیتنا ہمارا مقصد نہ ہو۔ غور کرناچاہیے کہ سیاست کی اس بساط پر جیت کس کی ہوتی ہے اور کیسے حاصل ہوتی ہے؟ خرم مراد نے بالکل صحیح تجزیہ پیش کیاہے کہ اقتدار پر الیکشن کے ذریعے وہی لوگ پہنچتے ہیں جو اپنے نظریات میں پہلے کافی ترمیم کرچکے تھے مثلاً برطانیہ کی لیبر پارٹی ، جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹ، فرانس میں سوشلسٹ وغیرہ ان پارٹیوں میںبھی وہ افراد وزارتوں پر قابض ہوے جو معتدل اور نظریاتی لحاظ سے ہلکے شمار ہوتے تھے اور ان معتدل لوگوں کے بھی جو کچھ نظریاتی پروگرام قبل از اقتدار تھے ان کا بڑا حصہ پس پشت ڈال دیاگیا۔ہندستان میں اس کی ایک زندہ مثال بی جے پی کا دورِ حکومت ہے۔ ‘’این ڈی اے کا ممبر ہونے کے ناطے بی جے پی نے رام مندر، یونیفارم سول کوڈ اور آرٹیکل ۳۷۰جیسے متنازع موضوعات کو اپنے اقل ترین مشترکہ پروگرام سے ہٹادیا’’۔ پھر ترکی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاںحکومت حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے طیب اردگان ، عبداللہ گل وغیرہ نے مدبرقائد نجم الدین اربکان سے اختلاف کیا اور ایک انتہائی لبرل اور سیکولرائز، پالیسی بناکر اے کے پارٹی کے عنوان سے اپنی ایک سیاسی تنظیم بنائی اور حکومت پر قابض ہوئے۔ ان لیڈروں کاکہناتھا کہ ترکی کی خارجہ پالیسی امریکہ ، اسرائیل اور یورپی یونین کے خلاف نہیں ہونی چاہیے بل کہ ان سبھی کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی پر مختصر ہونی چاہیے۔ خدانخواستہ اگراربکان کی سعادت پارٹی مزید کمزور ہوئی تو اے کے پی کو مزید سمجھوتوں کے لیے تیاررہناپڑے گا۔ کیونکہ اس کے نرم اسلام کو گوارا ہی اس لیے کیاجارہا ہے کہ متبادل کے طورپر اسلام سعادت پارٹی کے روپ میں ایک چیلنج بناکھڑا ہے۔ ایک بار یہ چیلنج ختم ہوجائے تو اس نرم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں ترکی کے کمالی ایجنٹوں کو کتنا وقت لگے گا؟
بتانا یہ مقصود ہے کہ حکومت کے عاجلانہ حصول کے لیے ایجنڈے سے سمجھوتہ ناگزیر ہے۔ آج کے نیک نیت لوگوں سے ہرگز اندیشہ نہیں کہ وہ حکومت کے قیام کے لیے اسلامی ایجنڈے سے سمجھوتا کرنے پر تیار ہوجائیںگے۔ لیکن اگر قبل ازوقت انتخابی میدان میں قدم رکھ دیاگیا تو خدا نہ کرے ایک دن ایسا بھی دیکھناپڑسکتا ہے کہ حکومت کے قیام کی مصلحت کاحوالہ دے کر ہماری آئندہ نسلیں بھی نرم اسلام کی علمبردار بن کر کھڑی ہوجائیں، اس پر بھی کامیاب نہ ہونے کی صورت میں اسلام غریب کی کچھ اور تراش خراش کی جائے اور بالآخر جب حکومت حاصل ہوتو پتا چلے کہ اس کے حصول کے لیے تو ہم پہلے ہی اسلام کو گروی رکھ چکے ہیں۔
اگر ماجرا یہ ہوتاکہ کسی سماجی انقلاب کا پہلا اور آخری قدم صرف عملی سیاست کاحصہ لینا ہی ہوسکتاہے تو بلاشبہ بغیر کسی تردد کے سیاست کے اندر شرکت کی جاسکتی تھی۔ لیکن انقلابی نصب العین کے حصول کے لیے نہ صرف یہ کہ سیاست ضروری نہیں بلکہ بسااوقات اس سے نقصان کازیادہ اندیشہ ہے۔ اسلام ؛ سیاسی سے پہلے ایک سماجی انقلاب کاداعی ہے۔ واضح رہے کہ مدینہ میں سیاسی انقلاب سے پہلے ایک سماجی انقلاب لایاجاچکا تھا۔ پھر جب ملک کی سیاسی فضاسازگار نہ ہو اور عوام میں اسلامی نظام کے تئیں راے عامہ بھی ہموار نہ ہو توسیاست میںحصہ لینا دو میں سے ایک چیز پر منتج ہوسکتاہے ۔ یا وہ صالح عنصر جو سیاست کی دلدل میں کودا ہے ظلم و استبداد کی چکی میں پیس دیاجائے گا یا وہ عوام کو خود سے متنفر کرکے چھوڑدے گا، جس کے بعد حق کی ہرآواز کے لیے ان کے کان بند ہوجائیںگے اور خالص دین کی دعوت میں بھی انھیں دینداروں کی’سیاست‘ نظرآئے گی۔ سیاسی طورپر ناسازگارحالات میں دین کی سربلندی کے لیے کیسے کام کیاجائے؟ کس طرح ایک صبرآزما جدوجہد کے ذریعے اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کی جائے؟ پچھلی صدی کے ایسے ہی حوصلہ شکن ماحول میں دین کی سربلندی کے لیے ترکی کے بدیع الزماں نورسی اور الجزائر کے عبدالحمید ابن بادیس کی قربانیوں میں ہمارے لیے قابلِ تقلید نمونہ موجود ہے۔
بدیع الزماں نورسی
سعید نورسی خلافت کو صحیح نہج پراستوار کرنے کے لیے ۱۹۰۹ سے سیاسی میدان میں سرگرم تھے۔ لیکن ۱۹۲۱تک ان کے تجربات نے یہ واضح کردیاکہ ترکی میں اسلام کے احیاکایہ مناسب راستہ نہیں۔ انھوںنے اپنی پچھلی سیاست میں آلودہ زندگی ترک کردی اور ایک نئی زندگی جسے وہ ‘‘سعید جدید’’ کہتے تھے، کاآغاز اس جملے سے کیا ‘‘اعوذوباللّٰہ من الشیطان والسیاسیۃ’’ دراصل آنے والے سخت حالات کااندازہ لگاکر انھوںنے برحق راے قائم کی تھی کہ ایسے معاندانہ ماحول میں سیاست یا کوئی باقاعدہ تنظیم بنانا عبث ہوگا۔ کیونکہ ہر دو کو بزور طاقت ختم کیاجاسکتا ہے۔ یہ سوچ کر انھوںنے سیاست کو خیرباد کہہ دیا اور ترکی کے تن مردہ میں دوبارہ اسلام کی روح پھونکنے میںمشغول ہوگئے۔ سعیدنورسی کے اندیشے بہت جلد صحیح ہوئے۔ ۱۹۲۴ میں خلافت ختم کردی گئی، اسلامی جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں کو ‘‘مصطفی کمال کے قتل’’ یا ‘‘انقلاب کے خلاف بغاوت’’ کے الزام میں یکے بعد دیگرے قتل یا جلاوطن کردیاگیا۔ خانقاہیں بندہوگئیں، مدارس میں تالے لگ گئے، ہجری تقویم کی جگہ شمسی کیلینڈر اور عربی رسم الخط کے بدلے لاطینی رسم الخط کا رواج ہوا، عربی میں اذان اور نمازغیرقانونی قرار پائیں، مساجد کو میوزیم بنادیاگیا، پردہ اور تعدادازدواج پر پابندی لگ گئی وغیرہ وغیرہ۔ ترکِ سیاست کے باوجود صعوبتوں کے دروازے نورسی پر بند نہیں ہوئے تقریباً پندرہ سال انھوں نے مختلف جیلوں میں گزارے۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انھیں جب جب عدالت میں پیش کیاگیا عدالت نے انھیں باعزت بری کردیا ﴿یا کم از کم بغاوت جیسے سنگین الزامات ان پر ثابت نہ ہوسکے جس کی واحد سزا موت تھی﴾ اور یوں چراغِ مصطفوی قیدو بند کی ہزار تکالیف کے باوجود جلتارہا اور پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی روشنی بکھیرتا رہا۔
رسائل ِ نورنئی نسل کو اسلام کے حیات آفریں پیغام سے منور کرتے رہے اور حکمراں طبقے دانت پیسنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکا۔ یہ سچ ہے کہ بدیع الزماں اسلامی انقلاب کا سورج اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پائے، لیکن ۱۹۵۰ تک طلبۂ نوری کی تعداد چھ لاکھ سے متجاوز ہوگئی تھی۔ جس میں مدرسے سے متعلق طلبہ کے علاوہ یونیورسٹی گریجویٹ ، پولیس، فوج کے افسران اور عدلیہ کے جج ووکلائ، کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ یہ صالح اور بیدار مغز طبقہ انتخابات کا رخ موڑدینے کی اہلیت رکھتاتھا۔ اگلے الیکشن میں مصطفی کمال کی جمہور خلق پارٹی بری طرح ہاری اور ڈیموکریٹک پارٹی جسے طلبۂ نور کی حمایت حاصل تھی برسراقتدار آئی۔ نئے منتخب صدر عدنان مندریس نے عوام کو مکمل مذہبی آزادی عطاکی، طلبہ ٔ نور پر سے جھوٹے مقدمات اٹھالیے، برسوں بعد ترکی میں عربی اذان گونجی۔ داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، بدیع الزماں کے انتقال کے ایک دہائی کے اندر اندر ترکی کے سیاسی افق پرنجم الدین اربکان نامی ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا، جس کی چمک دمک نے باطل کی نگاہوں کو بدحواس کردیا۔ انھوںنے سیاست میں حصہ لیا، کافی مخالفتوں کا سامنا کرناپڑا ۔ لیکن انھوںنے ہمت نہ ہاری۔ ترکی کے وزیراعظم تک بنے،کئی اصلاحات کیں، ترکی پر قرضوں کابوجھ کم ہوا، جی ڈی پی بڑھا، آئی ایم ایف جیسے استحصالی ادارے سے تعلقات منقطع ہوئے، مسلم ممالک سے اچھے تعلقات قائم ہوئے۔ دیدہ وروںکو یہ بتانے کی حاجت نہیں کہ بدیع الزماں نورسی کی فراہم کردہ بنیاد کے بعد نجم الدین اربکان اقامت دین کی عمارت اٹھانے کا کام کبھی نہ کرسکتے تھے۔ اگر پہلے دن سے ہی بدیع الزماں سیاست کے میدان میں کود پڑے ہوتے تو نہ صرف یہ کہ ان کا نام و نشان باقی نہ رہتا۔بل کہ رہے سہے اسلام پسندوںکے حوصلے بھی سرد ہوجاتے۔
عبدالحمید ابن بادیس
۱۸۳۰میں فرانسیسی سامراج الجزائر میں داخل ہوا۔ فرانسیسیوں نے یہاں عرب اور بربرقوموں کے درمیان اختلافات کے بیج بوے اور پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے اصول پر خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوئے۔ جزائر میں فرانس نے روز اول ہی سے چار بنیادوں پر اپنی سیاست قائم کی:
﴿۱﴾ تفقیر﴿عوام کو غریب و نادار بنانا﴾ ﴿۲﴾تجہیل﴿عوام کو علم کی روشنی سے دور رکھنا﴾
﴿۳﴾تنصیر﴿لوگوںکو عیسائی بنانا﴾ ﴿۴﴾فرنستہ﴿فرانسیسی کازکی حفاظت﴾
فرانسیسی استعمار کی مخالفت میں یوں تو متعدد بغاوتیں اور تحریکیں ہوئیں، لیکن ان میں امیرخالد کی تحریک اتحاد مسلم نمائندگان، تحریک استقلال ، جزائری عوامی لیگ اور تحریک منتخب مسلم نمائندگی قابلِ ذکر ہیں۔ مگر افسوس کہ ان میں سے کوئی تحریک بھی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ ان سبھوں نے اول روز سے فرانسیسی استعمار کو دعوتِ مبارزت دے دی اور فوج نے ان تحریکوں کو ان کے لیڈروں سمیت صفحہ ہستی سے مٹادیا۔
ویسے بھی یہ سیاسی اور عسکری تحریکیں وقتی و جزئی حیثیت کی حامل تھیں۔ اس تاریک دور میں عبدالحمیدابن بادیس نے مایوس ہوکر بیٹھ رہنے یا جوش میں آکر عاجلانہ اقدامات کرنے کے بجائے مومنانہ حکمت اور دور اندیشی سے کام لیا۔ انھوںنے اسلامی انقلاب کاطویل اور صبر آزما لیکن یقینی راستہ اختیار کیا۔ وہ نئی نسل کی تعمیر و تربیت اور کردار سازی میںجُت گئے۔ انھوںنے جزائری جمعیتہ علمائ اسلام کی داغ بیل ڈالی۔ اس تحریک نے اپنے دستور میں صراحت کردی کہ وہ ہر طرح کی سیاسی مباحث سے دور رہے گی، کسی بھی سیاسی معاملے میں مداخلت نہ کرے گی۔ اس طرح انھوںنے خود کو سامراج کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ کرلیا۔ لیکن کیا یہ تحریک استعمار کے آگے جھک گئی؟ نہیں! ہرگز نہیں!! ان لوگوں نے وعظ و تقریر پر حکومت کی پابندی، عربی زبان کے خاتمے کے لیے حکومت کے اقدامات، مساجد کو مقفل کرنے کی حکومتی سازش کے خلاف جم کر احتجاج کیا اور حکومت کو بارہاان کی آواز کے سامنے جھکناپڑا۔ ستعمار جزائریوں کو فرانسیسی شہریت کالالچ بھی دے رہا تھا کہ اس سے فلاں اور فلاں سہولتیں ملیںگی لیکن ابن بادیس نے ایک جرأت مندانہ فتویٰ دیاکہ اسلام کو چھوڑکر کسی اور قوم کی شہریت طلب کرنا احکام شریعت کی کھلی ہوئی نافرمانی ہے۔ اس طرح تجنیس اور مشابہت کو بلاخوف لومتہ لائم کفر اور ارتداد کے مشابہ ٹھہرایا اور یوں اس فتنے کا استیصال ہوا۔
اقامت دین کا نصب العین ابن بادیس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں تھا، لیکن ان کاکہناتھا کہ منزل تک بہ تدریج ہی پہنچاجاسکتا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ ان مراحل کے دوران کسی لمحے بھی قائد اپنے عقائد اور اصولوں سے غافل نہ ہو۔انھوں نے ملک کے طول و عرض میں ساڑھے تین سو سے زائد مدرسے قائم کیے جن سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد طلبہ فارغ ہوئے، علاوہ ازیںانھوں نے دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں میں واعظین اور مبلغین کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح عوام کی اسلامی بیداری کا باعث بنے اور استعمار کوفکری طورپر ایک ناقابل تسخیر چیلنج پیش کیا۔ کون انکارکرسکتا ہے کہ نوے کی دہائی میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی قیادت میں جو اسلامی انقلاب آتے آتے رہ گیا وہ ابن بادیس کے بوے ہوئے بیجوں کاہی ثمرتھا۔
ان دو مثالوں سے ایک بات واضح ہوئی کہ سیاست کوئی شجرممنوعہ نہیں۔لیکن اس میں آنے کاایک وقت ہوتاہے۔ بازو تو لے بغیر پرواز کی کوشش جان لیوا ہوسکتی ہے۔ اس سے کئی نسلوں کے مایوسی کے تاریک سمندر میں غر ق ہونے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہیں اگر شارٹ کٹ کا جوکھم اٹھانے کے بدلے تحریکیں دعوت و تبلیغ کے راستے پر چلتی رہیں تو ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب وقت اور حالات خود پکارپکار کر زبانِ حال سے یہ کہتے ہیں کہ اب سیاست کے میدان میں خم ٹھونک کرآجانے کا وقت آچکا ہے۔
سماجی انقلاب: کیوں اور کیسے؟
‘‘سماجی انقلاب’’ سوشل سائنس کے اسکالروں کی تحقیق کاایک اہم موضوع ہے۔ سماجی انقلابات کیوں اور کیسے آتے ہیں ان کے پیچھے کون کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں، اس پر یوں تو سینکڑوں نظریات موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے تین بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:
: Aggregate Psychological theoryاس نظریے کے مطابق سماجی انقلاب تبھی آتے ہیں جب سماج میں بے چینی اور بے کلی کی کیفیت اپنی انتہاکو پہنچ جاتی ہے۔ عوام کا پیمانۂ صبرلبریز ہوجاتا ہے۔ ایک عرصے سے پکنے والا یہ لاوا کسی چنگاری کے پاتے ہی پھٹ پڑتا ہے اور یوں سماجی انقلاب آتا ہے۔
:Political Conflicat Approach﴿مندرجہ بالاتھیوری پراضافہ کرتے ہوئے﴾ اس نظریے کے مطابق عوام کی بے اطمینانی کسی بھی درجے کو پہنچی ہوئی کیوں نہ ہو، وہ اپنے طورپر کسی بھی قسم کے سیاسی اقدام سے باز رہتے ہیں۔ عوام کی یہ لاتعلقی تب تک برقرار رہتی ہے جب تک ایک طاقتور اور منظم گروہ ان کی قیادت کے لیے میدان میں نہیں آتا۔ اس کے بعد موجودہ حکومت اور اس منظم گروہ میں ٹکرائو کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ باغی گروہ کے نظریات اگر نئے دور اور عوامی نفسیات سے ہم آہنگ ہوں یا عوامی نظریات ان کے ہم آہنگ ہوجائیں تو دھیرے دھیرے عوام اس منظم گروہ کی قیادت و سیاست کو تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ دلوں پرحکومت قائم ہونے کے بعد اس کے زمین پر قیام میں دیر نہیں لگتی۔
:Systems/Value Consensus Theoryاس نظریے کے مطابق جب کسی سماج میں موجود نظام فرسودہ ہوجاتا ہے، اس نظام میں لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے تب ایک ایسا دور آتاہے، جب عوام میں نئے اور متبادل نظریات پر بحث ہوتی ہے۔ گھروں سے لے کر آفسوںاورچائے خانوں تک بحث کا موضوع یہی نظریات ہوتے ہیں۔ اس میں سے جو نظریہ سب سے احسن ہوتاہے، اس کے حق میں خود بخود راے عامہ ہموار ہونے لگتی ہے۔ نئے نظریے کی اصطلاحیں عام اور زبان زد عام ہوجاتی ہیں اس کے بعد ہی کوئی سماجی انقلاب آتا ہے ۔
یوں تو ان تینوںنظریات میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ بل کہ ایک ہی حقیقت کی مختلف زاویوں سے تصویر کشی ہے۔ البتہ ان کی ایک بات سے اختلاف ممکن ہے کہ سماجی انقلابات میں یہ تشدد کو غیرمعمولی اہمیت کاحامل سمجھتے ہیں۔ ان تینوں نظریات کی بنیادوں پر اگر ہم بات کومزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے فرانس، روس اور چین کے انقلابات کاجائزہ لیں تو یہ بات دوپہر کے سورج کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ:
۱﴾ انقلاب کے وقت وہاں کاموجودہ نظام فرسودہ ہوچکاتھا جس میں عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
۲﴾ استحصال کے منطقی نتیجے کے طورپر عوام میں حکمراں طبقے اور نظام کے خلاف بے اطمینانی کی شدید لہرپائی جاتی تھی۔
۳﴾ متبادل نظریات مثلاً روسو کانظریہ آزادی، مساوات اور اخوت، مارکس، لینن اور مائوژے تنگ کے کمیونزم، عوام میں اس حد تک زبان زدِ عام ہوئے کہ مزدور اور کسان تک ان دقیق اصطلاحات اور فلسفیانہ خیالات پر گفتگو کرتے پائے گئے، جن کو صرف سمجھنا بھی ایک زمانے میں اچھے خاصے پڑھے لکھوں کے لیے دشوار تھا۔
سوال کیاجاسکتا ہے کہ جمہوری نظام میں سماجی انقلاب کا امکان کیا ہے؟ کچھ لوگ موجودہ حالات میں اسے ناممکن کہتے ہیں۔ مثال کے طورپر Jeff Goodwinکامشہور مقولہ ہے کہ Ballot box is the coffin of revolutions ﴿جمہوری نظام انقلابات کی قبر ہے﴾۔
The Future of Revolutions; Rethinking Radical Change in the Age of Globalisation, Introducation: John,pg:2
اسی طرح ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کاکہنا ہے کہ ‘’ایک زیرعمل جمہوریت Functional democracy، آزاد پریس اور بااختیار عدلیہ کے وجود میں عوام کو اس بات کا موقع رہتاہے کہ وہ جس لیڈر شپ سے مایوس ہوں اس کی جگہ دوسروں، تیسروں کو آزمائیں۔ اس طرح ان کی یک گونہ تشفی ہوتی رہتی ہے اور انقلابیوں کی دال نہیں گلتی’’۔اس کے برعکس۔ مارک کاٹز کہتاہے کہ انقلابات اب تشدد کے بجائے جمہوری طریقوں سے ہی آسکیں گے۔
ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے اور دیکھاجائے تو اسی قسم کے انقلاب صحیح معنوں میں عوامی انقلاب کہے جانے کے مستحق ہیں۔ سماجی انقلابات کے بارے میں اس پوری روداد کو ملخص کرکے اگر ہندستان کے تناظر میں پیش کیاجائے تو یہ نتائج سامنے آتے ہیں:
﴿۱﴾ عوام میں موجودہ نظام کے تعلق سے یقینا بے اطمینانی پائی جاتی ہے، لیکن چونکہ جمہوریت کے متبادل کے طورپر کوئی بہتر نظام انھیں نہیں معلوم اس لیے وہ بجاے نفسِ جمہوریت سے غیرمطمئن ہونے کے ، اس نظام کو چلانے والوں سے خفا ہوتے ہیں۔ ایک محدود طبقہ ایسا بھی ہے جو ہے تو بے چین لیکن اس بے چینی کا احساس اسے خود نہیں ہے۔ پیسوں کے پیچھے بھاگنے میں وہ ایسا بدمست ہے کہ اسے کچھ ہوش ہی نہیں۔ اس کے برعکس ایک طبقے کی بے اطمینانی اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ وہ ہتھیار تک اٹھانے سے باز نہیں آتا۔ ان تمام بے اطمینانیوں کے سہارے اقتدار تک پہنچنے کے لیے متعدد سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں میں ایک معرکہ سا جاری ہے۔ ضرورت ہے اسلامی قیادت بے اطمینانیوںکا صحیح تجزیہ کرنے اور انھیں تعمیری نصب العین کی طرف موڑدینے کی کوششوں میں لگ جائے۔
﴿۲﴾ متبادل نظریے کے طورپر اسلام کا عوام کے ذہنوں میں اس حد تک نفوذ ضروری ہے کہ اسلام ان کی ضرورت بن جائے، سماج کے ہرطبقے سے کچھ ایسی پکاراٹھے کہ یہ امتیاز دشوار ہوجائے کہ سب سے پہلے اس آواز کو بلند کرنے والا کون ہے۔
﴿۳﴾ یہ ذہنی انقلاب جب زمینی حقیقت بن جائے اور اسلام کے علمبرداروں سے ملکی سیاست میں حصہ لینے پر پیہم اصرار ہو تبھی جاکر مجوزہ انقلاب کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہوسکتا ہے۔
٭اقامتِ دین کے علاوہ کسی مقصد کے لیے سیاست میں حصہ لینا نادانی اور تضیع اوقات ہے۔ اس مقصد کے لیے حصہ لینے کے لیے قانوناً اجازت نہیں ملنے والی ۔﴿قاسم رسول الیاس، زندگی نو مارچ ۲۰۰۸﴾ مل بھی گئی تو غیرمسلم تو کجاشاید ہی مسلمانوں کا مکمل ووٹ ملنے میں کامیابی ملے۔
٭جزوی اصلاحات کے لیے یا مقاصد شریعت کے دیگر پہلووں کی بنیادپر مثلاً عدل و قسط کے قیام کے تحت انتخابات میں حصہ لیاگیاتو کتنے ہماری اس ‘‘نیک نیتی’’ پر یقین کرنے والے ہوں گے کہ ہمارا مقصد بس ‘‘یہی’’ہے ‘‘اور کچھ’’ نہیں۔
٭مسلمانوں میں اتحاد کایونہی فقدان ہے؛ اس ماحول میں کوئی ایک مسلم جماعت بغیر دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیے سیاست میں کود پڑے تو اختلافات میں مزید تلخی آئے گی۔
٭اس سے کسی کا فائدہ ہویا نہ ہو لیکن اپنی شناخت کھوتی ہندتو کو علمبردار تنظیموں کافائدہ ضرور ہوگا جو مسلمانوں کے مفروضہ سیاسی غلبے سے برادرانِ وطن کو ڈرا ڈرا کر اپنی لیڈری کو چمکائیںگے۔ ہندستان کے تناظر میں سیاست میں حصہ لینے سے قبل کس قسم کا ہوم ورک ضروری ہے، اس پر غور و فکر کے لیے مندرجہ ذیل نکات شاید کارآمد ہوں:
· اسلام بحیثیت ایک دین اور بحیثیت ایک نظامِ حکمرانی کے نہ صرف مسلمانوں کے لیے بل کہ غیرمسلموں کے لیے قابل فہم بنایاجائے۔ محمود غزنوی اور اورنگ زیب کے مفروضہ مظالم سے خائف غیرمسلم عوام کو اسلامی حکومتوں میں ذمیوں کے ساتھ ہونے والے حسنِ سلوک سے متعارف کرایاجائے۔
· lمسلمانوں کی تمام تنظیموںکے اتحاد سے ایک موثر گروپ تشکیل دیاجائے، جس میں تمام تنظیموں کی نمائندگی ہو اور اس گروپ کا ہاتھ ملک کی سیاسیات کی نبض پر رہے۔
· اس کے بعد مسلمانوں کی پوزیشن کا صحیح اندازہ لگاکر قانون سازی اور پالیسیوں پر اثراندازہونے کی کوشش کی جائے۔
· عملی سیاست میں حصہ لینا ہے یا نہیں؟ لینا ہے تو کب لیناہے؟ اور کیسے لینا ہے؟ ان سوالات کو اس مجوزہ نمائندہ گروپ پر چھوڑدیاجائے۔
ایک تجربہ
تحریک آزادی ہند کے دوران چوری چوراکے حادثے کے بعد گاندھی جی نے ستیہ گرہ کی تحریک واپس لے لی جس سے عوام میں یک گونہ مایوسی سی پھیل گئی، آزادی کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ اس مرحلے پر کانگریس پارٹی میں دورائیں ہوگئیں۔ سی آر داس اور موتی لال نہرو جیسے مضبوط لیڈروں کی راے تھی کہ بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں کانگریس الیکشن کابائیکاٹ ختم کرکے کونسل کے انتخابات میں شرکت کرے، کونسل میں جاکر حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرے، اس کے نقائص کو طشت ازبام کرے اور اس طرح عوام کو ایک سیاسی سرگرمی کا احساس دلائے۔ دوسرے گروہ جس میں راجندر پرساد، ولبھ پٹیل اور ڈاکٹر انصاری وغیرہ شامل تھے، کی راے تھی کہ کونسل کا بائیکاٹ جاری رہنا چاہیے۔ ان کاکہناتھا کہ کونسل کے کاموں میں الجھ کر ہماری توجہ عوام اور عوامی کاموں سے کٹ جائے گی، جس سے لیڈروں اور عوام دونوں میں جوش و جذبے کی کمی ہوگی۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریس اس کے بدلے چرخہ کارواج ، ہندو مسلم اتحاد، چھوت چھات کی مخالفت اور اس طرح کے زمینی کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرے تاکہ عوام میں بیداری آئے اور جب کسی نئی تحریک کا مرحلہ آئے تو بیدار مغز عوام سے ایسی غلطیاں نہ ہوں جیسی کہ تحریکِ عدم تعاون کے دوران ہوئیں۔ کانگریس کو عوام میں مزید مقبول بنایاجائے اور عوام کو سیاسی و تعمیری سرگرمی کے ایک نئے مرحلے کے لیے اندرونی طورپر مضبوط کیاجائے۔
دونوں فریق اپنی اپنی رایوں پر مصر تھے یہاں تک کہ پارٹی میں پھوٹ پڑنے تک کی نوبت آگئی۔ لیکن سمجھداری کے ساتھ معاملہ سلجھالیاگیا۔ یہ طے ہواکہ سی آر داس اور موتی لال نہرو کانگریس کے تحت سوراج پارٹی تشکیل دیںگے اور انتخابات میں حصہ لیںگے باقی معاملوں میں ان کاسارا پروگرام وہی ہوگا جو کانگریس کاہوگا۔
(Essays on Indian Nationalism, Splits in the Congress in a Historical Perspective: Bipan Chandra, pg: 54-61)
سوراج پارٹی کے انجام کے بارے میں قارئین جان لیں توبہتر ہے۔ سی آر داس ،بنگال کی کونسل میں مسلمانوں کے ساتھ اپنے اتحاد کے بل بوتے پر حکومت کے کاموں میں حرج کرنے میں خاصا کامیاب رہے۔ لیکن ۵۲۹۱ میں ان کی موت ان کی پارٹی کی سرگرمیوں کے لیے بھی پیغامِ اجل لائی۔ کئی ممبروں نے مرکز اور صوبوں میںسرکاری عہدے قبول کرلیے۔ اگست ۵۲۹۱ میں وٹھل بھائی پٹیل نے اسمبلی کاصدر بننا تسلیم کرلیا۔ اکتوبر ۱۹۲۵ میں تامبے ﴿مدھیہ پردیش کونسل میں سوراج پارٹی کے صدر﴾ نے بھی مدھیہ پردیش کے گورنر کے ذریعے منتخب مجلس عاملہ کا ممبر ہونا تسلیم کرلیا۔ جب موتی لال نہرو نے اس فیصلے کی مخالفت کی تو پارٹی کے کئی سرکردہ لیڈران تامبے کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومتی کاموں میں روڑے اٹکانے کے بجاے اس کے ساتھ ‘’تعمیری’’ تعاون کی بات کہی۔ ﴿سوراج پارٹی ص:۴۰﴾
۱۹۲۶ میں من موہن مالویہ اور لالہ لاجپت راے نے سوراج پارٹی چھوڑکر اپنی مستقل پارٹی بناڈالی۔ تاکہ ہندومفادات کی حفاظت کی جاسکے۔
(History of the Freedom Movement: D.B.Vohra, pg:80-83)
ان تازیانوں نے جناب موتی لال نہرو کی آنکھیں کھول دیں اور ساری بساط لپیٹ کر صبح کا یہ بھولااپنی متاع لٹاکر شام کو گھر لوٹ آیا۔ کل ملاکر یہ پورا تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔ مگر جتنا بھی نقصان ہوا ہو؛ اس تجربے کا یہ فائدہ ضرور ہواکہ آج ہم اس کی روشنی میں یہ دیکھ لینے کی پوزیشن میں میںہیں کہ بے وقت سیاست میں حصہ لیناکس طرح وابستگان میں مایوسی، انتشار، پھوٹ اور نصب العین سے انحراف پر منتج ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment